اتوار، 28 دسمبر، 2014

اسلام میں نہیں۔۔۔۔۔۔!

ایک آدمی اپنے پرانے دوست کے ساتھ خوشگوار ماحول میں بیٹھاہوا تھا۔اس نے اپنے دوست سے کہا کہ ہماری دوستی کو ایک طویل مدت بیت چکی کیوں نہ ہم اس کو مزید مضبوط و گہرا بنائیں تو اس نے کہا میں چاہتاہوں کہ آپ کی بیٹی کے ساتھ میرے بیٹے کی شادی ہوجائے۔اس پر دوسرا دوست خوش ہوا اور اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں اس طرح تو ہم ایک دوسرے کے مزید قریب آجائیں گے ۔پھر اس نے پوچھا آپ کا بیٹاکہاں ہوتا ہے؟پہلے دوست نے جواب دیا کہ وہ کینڈاا میں پانچ سال سے تعلیم کے سلسلہ میں مقیم ہے۔تو اس نے پوچھا کب واپس آئے گا تولڑکے کے باپ نے جواب جواب دیا معلوم نہیں۔ اس پر لڑکی کا باپ اللہ برکت دے کہتے ہوئے مجلس سے اٹھا اور گھر آیا توخوشی کے ساتھ اعلان کیا کہ میں نے بیٹی کا رشتہ طے کر دیا ہے اپنے دوست کے بیٹے کے ساتھ اس پر گھر میں بے حد خوشی منائی جانے لگی اسی اثنا میں لڑکی گھر میں داخل ہوئی ،وہ گھر میں ماحول مسرت دیکھ کر متعجب ہوئی اور اس نے سبب پوچھا تو اس کی ماں نے بتایا کہ تمہاری وجہ سے یہ خوشی ہو رہی ہے ، تیرا رشتہ طے کردیا گیا ہے ۔اس پر حیرت و غصہ کے ساتھ لڑکی بلند آواز کے سے چیخی!
لڑکی نے بہت کوشش کی کہ وہ یہ رشتہ مسترد کردے مگر وہ کامیاب نہ ہوسکی۔معاشرے میں زمانہ جاہلیت کی قبیح رسمیں موروثی طور پر چل رہی ہیں۔لڑکے کے باپ نے لڑکے کو پیغام بھیجا کہ ہم نے تیرا رشتہ دوست کی بیٹی سے طے کیا ہے تو جواب میں بیٹے نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک لڑکی کو نہ میں جانتاہوں اور نہ ہی میں نے دیکھا اسے اور آپ نے میرا رشتہ طے کردیا !!تو اس پر باپ نے کہا کہ والد کی نافرمانی نہ کرو میں حکم دیتاہوں یہ رشتہ ہوکر رہے گا۔اس پر لڑکے نے جواب دیا کہ میں نہیں آؤں گا بلکہ یہیں کینڈامیں ہی رہوں گا ۔دوسری طرف لڑکی بے اطمینانی کے ساتھ دوامور میں سے کسی ایک کے ہونے کا انتظار کررہی تھی یا تو اس کا منگیتر آجائے اور اس سے کراہیت کے ساتھ شادی کرلے یا پھر اس کے مرنے کی خبر آجائے جس سے وہ سوکھ کا سانس لے سکے۔
ہم یہ پوچھتے ہیں کیا یہ رویہ مسلمانوں کے اخلاق میں سے ہے؟اسلام نے شادی سے قبل لڑکی و لڑکے کو دیکھنے کی اجازت کیوں دی؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کو اپنی رفیقہ حیات کو اختیار کرنے سے پہلے دیکھنے کا حکم دیا کیوں کہ انہوں نے ایک طویل عمر رفاقت اختیارکرنی ہے۔ہم کیا کررہے ہیں اور کیسے کررہے ہیں جبکہ اسلام نے عورت کو جو آزادی دی اس کا احترام کہاں گیا؟بہت سے غبی اذہان حق سے روگردانی اختیار کرتے ہیں اور اپنی عادات و تقالید کو دین حنیف سے مقدم رکھتے ہیں گویا کہ دین حقیقی کسی اور قوم کے لیے آیا ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک آدمی جو کبھی تعلیمی ادارے میں داخل نہیں ہوا اور وہ بنک میں معمولی درجے کی ملازمت کرتاہے(ہم کسی بھی صورت کام کا مذاق نہیں اڑاتے اور نہ تحقیر کرتے ہیں)وہ اپنی کزن سے شادی کرنے کی خواہش رکھتاتھاجو کہ تعلیمی ادارے میں معلمہ کے منصب پر فائز تھی،لڑکی کا باپ اپنی بیٹی کی شادی اس کے ساتھ کرنے پر راضی ہوجاتاہے باوجود اس کے کہ ان دونوں کا جوڑ نہیں بنتاکیوں کہ وہ آدمی علم میں لڑکی سے کم درجے میں ہے۔۔۔احناف شادی میں برابری کو مدنظر رکھتے ہیں تاکہ لڑکی اپنے سے کم درجے علمی و مالی اعتبار سے شوہر کا استہزاء و تمسخر کے ساتھ پیش نہ آئے۔اگر ایسا ہوجائے تو یہ ہوگا کہ بچے والد کو جاہل اور والدہ کو تعلیم یافتہ پائیں گے جب کہ ضروری ہے کہ والد صاحب علم ہوتاکہ بچوں کی تربیت و نشونما پر اچھا اثر پڑے۔۔۔۔۔۔اس جبری شادی سے کیا فائدہ ہوگا جب کہ لڑکی سے اس کا شوہر کم درجے کا ہو ؟؟؟
یہ جبر و زبردستی اور دین کی تعلیمات سے پہلو تہی بہت قبیح عمل ہے۔دین متین سمجھانے والے کہاں چلے گے خاص طور پر علمائے احناف جو کہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر جبرا کسی کی شادی کی جائے تو ایسا ہے گویا کہ ہوئی ہی نہیں کیوں کہ یہ صرف شادی نہیں بلکہ اس پر بہت سے دیگر امور بھی مرتب ہوتے ہیں۔کاش کہ ایسا نہ ہوتا کہ یہ لوگ دین کے ترجمان ہوتے کیوں کہ ان کے سبب اسلام بدنام ہورہاہے ۔یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن ان کا دین حقیقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔شرح طلاق کی کثرت و زیادتی کا سبب بھی یہی ہے ،ان لوگوں کا فہم مبنی پر خطاء ہے یعنی لڑکی کی زبردستی شادی یا اس کے علم کے بغیر اس کا رشتہ طے کردینا۔۔۔ہم نہیں جانتے کہ لوگ کب تک دین کی حقیقی تفہیم اور اس کی روح سلیم سے جاہل رہیں گے!!
ڈاکٹر خالد فواد الازہری

انسان کمزور پیدا ہوا ۔۔۔مگر!

ایک آدمی بہت زیادہ نشہ کرتاتھا،ہمیشہ وہ نشہ کی حالت میں گرفتارہوتاتھا۔ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو وہ حالت نشہ میں تھا۔حاضرین میں سے ایک نے کہا کہ ’’لعنت ہوتم پر ہمیشہ سزاکے لیے اس حالت میں لائے جاتے ہو‘‘۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناراض ہوئے اور آپ نے فرمایاکہ’’ تم اس کو ملامت نہ کرو !برابھلانہ کہو!کیوں کہ یہ اللہ اور اس کے پیغمبرﷺ کو پسند کرتاہے‘‘۔بہت سے علما ء نے اس واقعہ کو تعجب و حیرت سے لیا اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک آدمی اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہواور پھر بھی نافرمانی کرے ؟کسی پر حکم اس کے ظاہر کو دیکھ کر نہیں لگایا جاسکتابلکہ ہمیشہ کوئی بھی حکم انسان کے باطنی اعمال پر مرتب لگایا جاتاہے،کوئی بھی کسی انسان کی اندرونی کیفیت کو نہیں جان سکتا۔ممکن ہے کہ ایک آدمی نماز و روزوں کا پابند ہو لیکن اس کا دل تاریکیوں سے معمور ہو۔مگر وہ دوسروں پر یہ حکم لگاتاہو کہ وہ مرتد ہے یا اسلام سے خارج ہے۔ممکن ہے کہ وہ گناہوں میں اس قدر لت پت ہو کہ وہ ان سے دامن نہ بچاسکے جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ایمان کم و زیادہ ہوتارہتاہے ،ایمان کی کیفیت و حالت میں زیادتی عبادات کے دوام کے ساتھ دل کی صفائی کے ساتھ ہوتی ہے،جب کہ ایمان میں کمی و تخفیف دل کی سختی و برے اعمال کے سبب ہوتی ہے۔

امام ابوحنیفہ ؒ کے خواب میں ایک نشہ کرنے والاآیا تو اس کو جنت میں پایا ،انہوں نے اس کی بیوی سے پوچھا کہ تمہارا شوہر کیا عمل کرتاتھا کہ وہ جنت میں ہے تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس کا ویسے تو ایساکوئی خاص قابل ذکر عمل نہیں ہے،البتہ جمعہ کے دن یتیم و مساکین کو کھانا کھلاتاتھا اور اسی طرح ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتاتھا اور روتاتھااور ان سے کہتا تھا کہ میرے لیے دعاکیا کرو۔امام ابوحنیفہ ؒ نے کہا کہ یہ آدمی مقبول القلب ہے یعنی کہ اس کا عمل عنداللہ پسند کیا گیاہے اس کی نیک نیتی اور دل کی صفائی کے سبب۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم کسی گناہ گار پر سب و شتم نہ کریں اور نہ ہی اس پر اترائیں یا اس کو حقارت کی نظر سے دیکھیں کیوں کے ہمارے عیوب پر اللہ تعالیٰ نے پردہ داری کی ہوئی ہے اگر وہ لوگوں پر منکشف ہوجائیں تو اس کے بعد زندہ رہنے کو عذاب تصور کریں۔زیادہ نماز و روزے رکھ کر تکبر و غرور کو ہر گز نہ اختیارکریں کیوں کہ یہ کون جانتاہے کہ اللہ کے ہاں کون مقبول و محترم ہے۔
ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تو اس پر حد جاری کی گئی اس موقع پر ایک صحابی نے اس عورت کو برابھلاکہا تو آپﷺ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا’’کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر یہ زمین والوں پر تقسیم کردی جائے تو سب کو کافی و شافی ہوجائے‘‘بیشک وہ عورت صدق دل سے اللہ رب العزت سے اپنے گناہ سے درگزر و مغفرت کی امید رکھتی تھی ۔یہاں پر بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس علم تو ہے مگر اسی کے ذریعہ سرکشی کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہی علم بعض کو گمراہ بھی کرتاہے ۔وہ علم جس سے انسان سرکشی کا مرتکب ہوتاہو وہ ایسے ہے کہ انسان کے پاس علم تو ہو مگر اس کا دل ایمان سے خالی ہو۔۔۔ایسی عبادت جو بلاتاثیر ہو یعنی اس میں کچھ حقیقت نہ ہو۔
حدیث میں ہے کہ نبی کریم8 صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ ابھی جو آدمی آپ پر داخل ہوگا وہ جنتی ہے۔جب وہ آیا تو صحابہ نے دیکھا کہ وہ بہت عاجز انسان تھااور اس کو جانتے بھی نہیں تھے ۔آپﷺ نے اپنے اس موقف کا متعدد بار اظہار فرمایا تو حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے اس آدمی کا تعاقب کیا اور اس کے گھر تک گئے تین دن تک اس کا جائزہ لتے رہے مگر کوئی امتیازی بات نظر نہ آئی کیوں کہ وہ عشا کی نماز کے بعد سوجاتاتھا اس میں کوئی ایسی صفت نہ تھی جو اس کو دوسروں سے ممتاز کرے تو بلآخر حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے اس سے پوچھ لیا کہ کیا بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنتی قرار دیا اس کا کیا سبب ہے تو اس نے جواب دیا کہ ویسے تو کوئی خاص عمل نہیں میرا البتہ میں رات کو جب سوتاہوں تو میرے دل میں کسی انسان کے خلاف کوئی بات نہیں ہوتی۔
روزقیامت جب حقائق ظاہر ہوں گے تو آنکھیں مارے تعجب کے تھرتھرا جائیں گی۔بعض گروہ جو صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوگے وہ جہنم کے گھڑے میں نظر آئیں گے اور دوسرا گروہ جس کو سماج اہل شر میں سے سمجھتاہوگا وہ جنت میں موجود ہوگا ۔۔۔۔بے شک اللہ کے ہاں کوئی عمل تب تک قابل قبول نہیں جب تک کہ وہ قلب سلیم سے جاری نہ کیا گیا ہو۔ 
تحریر:ڈاکٹر خالد فوادالازہری 

بہت سے لوگ ابھی تک اسلام کے فروغ سے متعلق غلط تعبیرو تفسیر پیش کرتے نظر آتے ہیں،اسلام دشمن ببانگ دہل یہ کہتے ہیں کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا جب کہ باعث حیرت امر یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مصدر اساسی قرآن پاک میں تلوار کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ہم نہیں جانتے کہ یہ لوگ کیوں مصر ہیں کہ اسلام نے جبر و زبردستی اور تلوار کے زور پر غلبہ حاصل کیا اور دنیا بھر میں پھیلا۔درحقیقت اس امر سے اسلام کی صحیح تصویر کو مجروح کرنے کی مشتبہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اسلام کے فروغ سے متعلق امر ماقبل تفسیر کے بالکل برعکس ہے ۔بہت سے مسلمانوں کو کفارمکہ و مشرکین کے ہاتھوں مصائب و مشکلات اور سزاؤں کا صرف اسلیے سامنا کرنا پڑا کیوں کہ انہوں نے برضا و رغبت اسلام کے دامن عافیت میں پناہ حاصل کی۔ بتایا جائے ان پہلے مسلمانوں پر تلوار کس نے اٹھائی جن میں ابوبکر و عمر ،عثمان و علی؟؟ ان کو کس بات نے مجبور کیا کہ وہ اسلام قبول کریں۔۔۔۔۔۔؟؟جبکہ دوسری جانب کمزور مسلمانوں کو جنہوں نے اسلام قبول کیا مشرکین مکہ نے زیر عتاب کرکے ان پر ظلم و جور کی انتہائی حدوں کو کراس کیا ،ان مظلوم صحابہ کرامؓ میں حضرت بلال بن رباحؓ،خاندان یاسرؓ اور ان کی اہلیہ حضرت سمیہؓ پر کس قدر مظالم ڈھائے گئے۔جبکہ تصویر کا ایک اور رخ دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ فتح مکہ کے بعد عرب قبائل اپنے شوق و رغبت سے اسلام میں جوق در جوق داخل ہوئے جبکہ ان پر تو کوئی قوت جبر کرنے والی یا ان پر تلوار اٹھانے والی نہ تھی۔ اسی طرح مدینہ کے گرد عرب قبائل نے بھی اسلام کو اپنا اوڑھنا پچھونا بنانا شروع کیا۔اسی سبب ۹ہجری کو عام الوفود کہتے ہیں کہ عرب قبائل پے در پے حضورﷺ کی دست حق پر بیعت کرنے حاضر ہوتے تھے۔
اسلام نے تلوار اٹھانے کی اجازت مشروط دی ہے کہ جب کوئی دین اسلام کی دعوت جو کہ عین فطرت ہے کے راستے میں رخنہ ڈالے یا پھر مسلمانوں پر کوئی دست درازی کرے۔اس کے سوا اسلام نے تلوار کو اختیار کرنے کی کوئی اجازت نہیں دی۔قرآن پاک کی سورۃ انفال ’’اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا وان اللہ علیٰ نصرھم لقدیر،الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع بیع وصلوات و مساجد یذکر فیھااسم اللہ۔۔۔‘‘میں جنگ کی اجازت سے متعلق امر ثابت ہے لیکن اس میں جس سبب کو بیان کیا گیاہے کہ مسلمانوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ قتال کریں ان لوگوں سے جو ان کے اوپر ظلم ڈھاتے ہیں ،قتال کا حکم اس لیے دیا جاتاہے کیوں کہ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے صرف اس لیے نکال دیاگیا کہ وہ اللہ کو اپنا رب مانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!اس آیت میں قتال یا جنگ کا حکم دیا گیا ہے اگر ہم اس کو دیکھیں تو اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو قتال کی اجازت دی ہے مطلب یہ کہ جنگ یا قتال اسلام میں اصل نہیں ہے بلکہ ضرورت کے وقت اس کی اجازت دی گئی ہے کیوں کہ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے ،ان کے مال و متاع سے ،ان کو اپنے وطن سے محروم کردیا گیااس کے ساتھ مسلمانوں پر گاہے بگاہے متعدد طرق سے مظالم ڈھائے جاتے تھے اور دعوت اسلام کے راستے کو مسدود کیا جاتاتھا تو ایسے میں اجازت قتال صرف نقصان و ضرر کو دور کرنے کے لئے اجازت دی گئی اوریہ نقصان و ضرر دور کرنے کا سوائے قتال و جنگ کے کوئی راستہ موجود نہ تھا۔
ہم کیسے مان لیں مان لیں کہ اسلام بزور تلوار کے فروغ پایا قرآن پاک کی سورۃ بقرۃ میں ارشاد ہے کہ’’لااکراہ فی الدین قد ربین الرشد من الغی‘‘کہ ’’دین میں اجبار نہیں تحقیق ہدایت کو بیان کیا جاتاہے گمراہی کے مقابل‘‘ہم کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام صرف دورست و غلط،حق و باطل کے درمیان فرق کو واضح کرتاہے اس کے بعدانسان کے سامنے اختیار چھوڑدیتاہے کہ چاہے تو وہ حق کو اختیار کرے اور اگر چاہے تو گمراہی کو اپنائے۔اسی بات کو دوسری آیت میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ’’قل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن و من شاء فلیکفر‘‘ کہ’’کہہ دیجئے کہ حق اللہ کہ پاس ہے چاہو تو ایمان لاؤ اور چاہوتو انکار کردو‘‘مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتاکہ مسلمان صرف دعوت اسلام کو بیان کرنے ظاہر و واضح طور پر بیان کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں اس کے بعد انسان کو اختیار دے دیا جاتاہے وہ چاہے تو اسلام کے پیغام کو قبول کرے اور چاہے تو انکار کرے۔
چلیں اگر مان لیا جائے کہ اسلام جزیرۃ العرب اور اس کے اطراف میں تلوار کے زور پر پھیلا تو بتائیں کہ مشرق و مغرب ،ایشیاء و افریقہ میں اسلا م کیسے پھیل گیا یہاں تو کوئی عرب لشکر قتال کی غرض سے نہیں آیا بلکہ یہاں تو عرب تاجر تجارت کرنے آتے تھے تو یہاں اسلام تاجروں کے ذریعہ پھیلا کیوں کہ ان کے اخلاق و کردار ان کے حسن معاملہ و امانت و دیانت جو کہ ان کو اسلام کے صدقے ملی تھی کو دیکھ کر ایشیاءء و افریقہ کے لوگوں نے اسلام کو اپنے زندگی کا مقصد بنالیا۔اس کی دوسری مثال سے سمجھیں کہ حضرت عمروبن العاصؓ نے جب مصر کو فتح کیا تو انہوں نے وہاں کے باشندوں کی اکثریت جو کہ عیسائی مذہب کے پیروکار تھے ان کو اسلام میں داخل ہونے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا بلکہ جن لوگوں نے مصر میں اسلام قبول کیا وہ ان کی ذاتی رغبت و خواہش تھی اور یہ ان جزیرۃ العرب سے آنے والے داعیوں کی عملی دعوت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئے۔اگر ایسانہ ہواہوتاتو آج مصر میں ایک بھی عیسائی قبطی موجود نہ ہوتااس سے واضح درس و پیغام ملتا ہے کہ اسلام نے مصر میں کسی پر جبرا اپنے پیغام کو مسلط نہیں کیا۔اسی طرح مسلمانوں نے جب عالم پر قیادت کی توکیسے مان لیں کہ وہ لوگوں پرقبول اسلام فرض یا لازم کرتے تھے کہ آپ اسلام کو قبول کرو جب کہ ان سے اسلام ان کی خدمت و حفاظت کی مد میں جزیہ یعنی ٹیکس وصول کیا جاتاتھااس سے ثابت وہوتاہے کہ وہ لوگ اپنے ادیان پر قائم تھے مسلمانوں کی مملکت کے رہنے کی وجہ سے جزیہ بھی دیتے تھے ان کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گای۔
مندرجہ بالا حقائق سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اسلام نہ تو تلوار کے بل پر پھیلا اور نہ ہی اسلام کسی کے خون ناحق کے بہانے کو جائز سمجھتابلکہ اسلام تو امن و سلامتی اور دائمی کامیابی و کامرانی کی طرف دعوت دیتاہے اور اسلام کے پیغام سے فطرت سلیم اتفاق کرتی ہے ،اسلام سوچنے و سمجھنے ،غور و فکر کرنے والے ذہنوں کو دعوت دیتاہے ،انسانیت کے مقام کو بلند کرتاہے اور اللہ پاک نے جو قانون دنیا ترتیب دیا ہے اس کی جان صرف اسلام ہی ندا دیتا ہے۔ 
ڈاکٹر عبدالحمید سیف الازہری
03135265617

جمعہ، 26 دسمبر، 2014

قوم کا روشن مستقبل ۔۔۔حاجی عبدالحکیمؒ ٹرسٹ




تاریخ شاہد ہے کہ جس بھی معاشرے نے ترقی کی ہے اور دنیا پر قیادت کی ہے اس کے پس پردہ اس کی نوجوان نسل کا ہاتھ نظر آئے گا ۔مسلمانوں نے اپنے زمانے حکومت میں اپنے نوجوانوں کی تربیت کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جن میں سب اول یہ تھا کہ تعلیم کو ہر مرد وعورت پر لازم قرار دے دیا اور اس مشروعیت کی عملی تصویر بدر کے قیدیوں کو مسلمانوں کے بچوں تعلیم دینے کا فدیہ مقرر کیا گیا اور زمانہ عروج میں مسلم خلفا نے تعلیم گاہیں قائم کیں اور اس میں حصول تعلیم کے لیے آنے والے طلبہ اور اساتذہ جواپنا علم قوم کے مستقبل تک پہنچاتے تھے ان کے گذر بسر کا خرچ اسلامی حکومت نے اپنے ذمہ لیا ۔اسلام میں تعلیم کی اہمیت و ضرورت مسلم ہے قرآن میں جابجا عالم اور جاہل کے فرق کو بیان کیا گیا ہے ،حصول علم کی ترغیب دی گئی ہے انسان کو دیگر مخلوقات پر برتری بھی اسی علم کے سبب عطاہوئی۔البتہ یہ ضرور ہے کہ اسلام صرف کتابوں کو رٹنے یا بھاری بھر ڈگریاں جمع کرنے کی چنداں حمایت نہیں کرتا بلکہ اس علم پر عمل کرنے اور اس پر غور و فکر کرنے اور اس کے انتقال کی اہمیت کو لازمی قرار دیتاہے۔
مرور زمانہ کے ساتھ مسلمان علم کی دنیا میں پیچھے رہ گئے اسی سبب سے مسلم امہ زوال پذیر ہوئی اور دشمن ہم پر غالب آگئے کیوں کہ انہوں نے علم کی دنیا میں بتدریج ترقی کی۔مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتی مگر افسوس ایسا نہیں ہوا اگر بیت المال یا کسی دیگر معاونتی فنڈ کے ذریعہ سے مدد کا پروگرام شروع بھی کیا جاتاہے تو وہ سفارش و تعلقات کی نظر ہوکر غیر مستحقین افراد کو نوازا جاتاہے۔اس سبب سے بہت سے مستحق و نادار اور باصلاحیت طلبہ علم کے حصول سے محروم کیے جاچکے ہیں۔ایسے میں بعض رفاہی ادارے انفرادی طور پر نادار طلبہ کی مددکرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ایسے ہی ایک ادارے سے میرا تعارف بذریعہ استاد محترم وقار فانی مغل (سب ایڈیٹرروزنامہ نوائے وقت) حاجی عبدالحکیمؒ ٹرسٹ سے ہوا ۔چونکہ میرے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں بے پناہ روکاوٹیں حائل ہوچکی تھیں بلآخر حاجی عبدالحکیمؒ ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرنل(ر) محمد یونس اعوان صاحب نے میری مدد کی۔اس سبب سے میرایہ فرض بنتاہے کہ میں ان کے اس للہ فی اللہ احسان عظیم کے اعتراف میں ان کے کارخیر کے تذکرہ کروں۔مندرجہ ذیل میں حاجی عبدالحکیمؒ ٹرسٹ کا تعارف اور اس کی ۲۰۱۴ ؁ء کی سرگرمیوں کا تعارف و جائزہ پیش کرتاہوں۔
حاجی عبدالحکیمؒ ٹرسٹ (رجسٹرڈ) راولپنڈی ایک غیر سیاسی، غیر گروہی ، غیر لسانی ویلفئیر (رجسٹرڈ) ٹرسٹ ہے جو صرف \" اللہ کی رضااور انسانیت کی خدمت \" کے لئے معرض وجود میں آیا۔ اسکی سرگرمیوں کا آغاز 8 اکتوبر 2005 تحصیل بالاکوٹ ، اس کے مشہور گاؤں بھنگیاں ، جوسچہ ، اربن اور گردونواح میں زلزلہ سے متاثر مفلس و نادار افراد کو \" مفت صحت اور تعلیمی ریلیف\" پہنچانے سے ہوا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ادارہ کی سرگرمیاں جڑ پکڑتی گئیں اور آج ادارہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات بہم پہنچارہاہے ۔ راولپنڈی ، چارسدہ ، مینگورہ، سوات، بالاکوٹ اور مانسہرہ کے غریب مستحق لوگوں میں خیرات ،صدقات ، رمضان پیکج اور قربانی کا گوشت ہرسال غریب اور نادار خاندانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ملک میں آسمانی آفات کے موقع پر باوجود محددوذرائع کے ،ریلیف کے کاموں میں بھرپور حصہ لیا۔ تعلیم کے شعبہ میں دسمبر 2014 تک کی کاوشیں اور فلاحی کاموں کی تفصیل مندرجہ ذیل ہیں۔
27 اپریل 2014 تحصیل بالاکوٹ کی یو نین کو نسل گھنول کے ( آٹھ) گورنمنٹ پر ائمری سکولوں کے طلباء و طالبات ،اُنکے والدین ، اسکولوں کے اساتذہ اور اہل علاقہ میں تعلیم اور صحت کی آگاہی کے لیے ایک تقریری مقابلہ کا اہتمام حاجی عبد الحکیم ؒ ٹرسٹ (رجسٹرڈ) راولپنڈی نے کیا۔ جس کا موضوع \" ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کا م آنا\"تھا۔ ٹرسٹ ھذا کے پیڑن ڈاکٹر انورنسیم اور علاقے کے معززین نے شرکت کی۔ کامیاب طلباء و طالبات میں انعامات اور تحائف تقسیم کئے گے۔ ڈاکٹر انور نسیم اورمعززین علاقہ نے ٹرسٹ کی کوششوں کو سراہا۔ معززین میں صوبیدار (ر) محمد تاج، پروفسیرابرار حسین ، ماسٹر صفی اللہ ، پروفسیر سمندرخان سمندر ، قاری محمد حسین ،سردار اسلم اور گورنمنٹ کالج مانسہرہ کے پروفسیر سعید احمد اور ٹرسٹ کے طلباء نے ٹرسٹ کی کاوشوں کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ ٹرسٹ نے اس موقع پر ہزارہ یونیورسٹی کے دس طلباء کو سمسٹر کی فیسوں کے لئے 1,11,000/= روپے کے چیک تقسیم کئے ۔ چیئرمین ڈاکٹرعبدالقیوم اعوان نے مختلف بیماریوں سے بچنے کے لیے سامعین کو آگاہ کیااور ڈاکٹر انور نسیم نے تقریب کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا اور ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔راولپنڈی کے دو تعلیم یافتہ نوجوانوں (مسٹرحمزہ ڈار اورشہریار) نے بھی شرکت کی اور ٹرسٹ کی کوششوں کو سراہا۔



31مئی 2014 کو ٹرسٹ نے یونیورسٹی لیول کی 15 طالبات کو مبلغ 2,54,000/= روپے کے سمسٹر زکے وظائف تقسیم کئے۔ان میں ایم فل ، ماسٹراور بی ایس کی طالبات تھیں۔مہمان خصوصی محترمہ میڈم روبینہ کے علاوہ پہلی دفعہ ٹرسٹ کی تقریب میں شرکت کرنے والی معززخواتین نے شاندار الفاظ میں ٹرسٹ کی کاوشوں کی تعریف کی اور کہا کہ دوردرازعلاقوں سے آنے والی طالبات ہمارے تعاون کی مستحق ہیں اور ذہین و محنتی لڑکیوں نے محدد وسائل کے باوجود کتنی اعلیٰ کلاسوں میں بہتریں صلاحیتوں کا مظاہر ہ کیاہے۔ کاش اشرافیہ کے خاندانوں کی بچیاں بھی اس تقریب میں شامل ہوتیں اور اس سے سبق حاصل کرتیں ۔ تقریب کے اختتام سے پہلے محترمہ سعیدہ فیض نے نہایت پُر اثر دعا کرائی۔حاضر خواتین نم ناک آنکھوں سے طالبات کی ترقی اور کامیابی کی دعا میں امین کہتی رہیں اور تعاون کرنے والوں کی صحت ،ایمان اور قبولیت کی دعا پر امین کہا۔بریگیڈئیر(ر) زاہد مجید نے طالبات کیلئے عید گفٹ کے طور پر پارچہ جات دئیے۔جزا ک اللہ 
8جون 2014 کو جامع مسجد عسکری تھری راولپنڈی میں ٹرسٹ کی طرف سے یونیورسٹی لیول کے 13 طلباء کو مبلغ 2,08,000/= روپے کے چیک تقسیم کئے۔ ان میں ایم بی بی ایس، ایم فل ، اور ماسٹر ڈگریوں کے طلباء شامل تھے۔ گومل یونیورسٹی کے مستقیم شاہ نے چوتھے سال میں فسٹ پوزیشن لی ۔ کرنل عبدالرؤف نے انہیں خصوصی نقد انعام بھی دیا۔ اس طرح جون 2014 سے پہلے کل فیس بصورت چیک 5,73,000/= روپے تقسیم ہوئے۔ مہمانوں میں بریگیڈیر شفقت خان، کرنل مقصود ، کرنل عبدالرؤف، ڈاکٹر عبدالقیوم اعوان، یاسرنجیب،میجر سہیل شیخ،عبدالحمید اور بہت سے حضرات تھے جنہوں نے تعلیم کی ترقی میں ٹرسٹ کی کاوشوں کو سراہا۔اختتامی دعا مفتی خوشنود صاحب نے کرائی۔
رمضان پیکج 2014 اس سال بھی حسب معمول تحصیل راولپنڈی ، تحصیل بالاکوٹ ،تحصیل مانسہرہ کے مختلف محلوں ، تحصیل مینگورہ (سوات)کے محلہ بنڑ، چارسدہ کے محلہ رجڑ ، تونسہ شریف، لکی مروت، مردان،وغیرہ میں رمضان پیکج تقیسم کیاگیا۔اس دفعہ اللہ کے فضل وکرم سے تحصیل بالاکوٹ کی 104 ، مینگورہ کی 80 ،چارسدہ کی 0 4،راولپنڈی کی 27 اور متفرق25 (کل 276 )فیملیز میں ایک ماہ (رمضان المبارک ) کا راشن تقسیم کیا گیا۔ جس پر مجموعی اخراجات 9,99,940/= روپے ہوئے۔
ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی عید الاضحی2014 میں ٹرسٹ کی طرف سے اجتماعی قربانیوں کا اہتمام کیاگیا ۔ سیلاب زدہ علاقوں میں 19 قربانیاں کیں گئیں۔اور 75 قربانیاں راولپنڈی ،تحصیل بالاکوٹ کے گاؤں ،بھنگیاں، جوسچہ ، اربن ،جرید ، مٹی کوٹ ، پہڑ،تحصیل چارسدہ کے گاؤں رجڑ اور مینگورہ کے محلہ بنڑ میں کیں گئیں اور گوشت غرباو مساکین میں تقسیم کیاگیا۔ مستحق افرادنے ٹرسٹ اور اس کے معاونین کے لئے انفراد ی اور عید کے موقع پر اجتماعی دعائیں مانگیں۔
زلزلہ 2005 میں زمین بوس ہونے والی مساجد کی تعمیر نوجاری ہے۔پہاڑی علاقے کے زیادہ تر لوگ غریب ہیں اس لئے مساجد کی تعمیر کی رفتار سست ہے۔ٹرسٹ کے کچھ معاونین نے ٹرسٹ کومسجد فنڈزمختلف اوقا ت میں دیئے چنانچہ7 Xمساجدکی تعمیرنو میں 530,080/-ْ روپے معاو نت سے کی۔سیلاب 2010 / 2011 کے دوران عام ریلیف کے علاوہ 15 xگھر چارسدہ کے محلہ رجڑکے نہائیت غریب اور مستحق فیملیز کو بنا کر دیے ۔ کل اخراجات 3,109,719روپے ہوئے 
ہر سا ل کی طرح اس سال بھی ۷دسمبر کو طلباء و طالبات میں تقسیم وظائف کی تقریب راولپنڈی میں منعقد ہوئی ہے ۔ اس تقریب میں ڈونر ز اور مہمانا ن گرامی اپنی آنکھوں سے اپنی دی ہوئی رقوم کو خرچ ہوتے ہوئے دیکھا اور باقی خواتین وحضرات کو ترغیب ملی ۔ تقسیم وظائف کی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر سلطانہ فاونڈیشن اسلام آباد کے چیئرمین اورملک کے مشہور معالج ڈاکٹر نعیم غنی شرکت کی۔ اس سال (2014) 87طلباء و طالبات نے اپنا نام رجسٹر ڈ کرایا جسمیں 38طلباء اور 23 طالبات کے وظائف منظور ہوئے۔ جن میں 700,000روپے کے وظائف تقسیم ہوئے۔ اللہ تعاون کر نے والوں کے درجا ت بلند فرمائے (امین)اس طرح پورے سال (2014 )میں تقریباً13,00,000 روپے صرف تعلیم کے شعبہ میں خرچ ہوئے۔
مذکورہ بالاتحریر کا مقصد نیکی کے کام کو فروغ دینے والے احباب کی حوصلہ افزائی اور دوسروں کو اس خیر کے کام کو اختیار کرنے کی ترغیب و دعوت دینا ہے ،یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ اسلام گوشہ نشینی کی زندگی یا اپنی من مستی اور نفسا نفسی کی حیات کو محبوب نہیں سمجھتابلکہ اسلام وہ دین ہے جس نے انسانوں کو انسانیت کا حقیقی درس دیا اور ان کو یہ تعلیم دی کہ اپنے قرب و جوار،اعزہ و اقارب ،ضعفا ء و مساکین ،یتیم و فقیر کے دست بازو بننے سے ہی اسلام کامل ہوتاہے ۔دین اسلام صرف دین عبادت و عقیدہ نہیں بلکہ دین معاشرت و معاملات بھی اہم اور اٹوٹ انگ ہے۔اللہ رب العزت سے دعاہے کہ رب لم یزل انسانیت کی خدمت کرنے والوں کی زندگیوں میں برکت عطافرمائے اور ملت اسلامیہ اور ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے(آمین)
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com

منگل، 16 دسمبر، 2014

اسلامی یونیورسٹی علمی و عملی عہدوں میں اصلاح کی ضرورت


چند روز قبل بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک شرمناک واقعہ پیش آیا۔ جس میں مینجمنٹ سائنسز کی طالبات کی جانب سے منعقدہ کانفرنس میں عالمی دنیا میں موجود ممالک کی ثقافت کو پیش کرنے کے لیے کلچر سٹال کا اہتمام کیا گیا ۔ان ہی سٹالوں میں ایک سٹال ایسا بھی سجایاگیا جس میں عالم اسلام کے ازلی و ابدی دشمن اسرائیل کی ثقافت کوپیش کرنے کا سٹال بھی لگایاگیا۔اس امر کا طلبہ و اساتذہ کو علم ہوجانے پر احتجاج کیا گیا جس پر وہ ثقافتی سٹال بندکردیا گیا۔مگر یہ خبر جیسے ہی یونیورسٹی کے قائداعظم آڈیٹوریم سے باہر آئی تو اسلام سے محبت و مودت رکھنے والے اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی قربیانیوں کو عزت وقدر کی نگاہ سے دیکھنے والے طلبہ و اساتذہ میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ایسا ہونا ایک فطری امر تھا کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے اور قرآن پاک نے مسلمانوں کو یہود سے دوستی و قرابت کا رشتہ استوار کرنے سے منع کیا ہے۔مگر افسوس عالم اسلام کے تمام ممالک اعلانیہ و غیر اعلانیہ یہود و نصاریٰ سے دوستی قائم کیے ہوئے ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی میں اس ان ہونے واقعہ پر ملک بھر میں نوجوانوں اور مذہبی حلقوں اور صحافتی اداروں سے وابستہ تمام افراد احتجاج درج کروانے میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔باعث تشویش امر یہ ہے کہ اس امر سے متعلق افراط و تفریط اور بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے سے کام بھی لیا جارہاہے ۔کہیں یہ باتیں سامنے لاجارہی ہیں کہ یونیورسٹی کے سابق ریکٹر فتح محمد ملک کو یونیورسٹی سے اس لیے نکالاگیا کہ انہوں نے کلچر ویک میں ایرانی سفیر کو بطور مہمان بلایا تھاتو یہ بات سعودیہ کو ہضم نہ ہوئی اس سبب سے ریکٹر صاحب کوگھر جانا پڑا۔کہیں یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ اس مسئلہ پر یونیورسٹی کے صدر کو استعفیٰ دے دینا چاہیے کیوں کہ یہ واقعہ ان کی انتظامی نااہلی کے باعث پیش آیا۔اسی طرح متعدد کالم نگار اپنے اپنے تجزیے پیش کررہے ہیں اور اپنی من کے مطالبات بھی پیش کررہے ہیں۔اور دوسری جانب سے یونیورسٹی کی جانب سے تین اہم ذمہ داران کو معطل کرنے کا بیان بھی جاری کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی خبریں ہیں کہ اس واقعہ میں ملوث طالبات کو یونیورسٹی سے نکالا جاسکتاہے !۔اس سارے منظر نامے کو دیکھنے کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہے جو اپنی رپورٹ جلد پیش کرے گی ۔
ہم یونیورسٹی کے ان مندرجہ بالافیصلوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کو نہ تو طالبات کو یونیورسٹی سے نکالنا چاہیے اور نہ ہی صرف تین افراد کوبلاکسی ٹھوس ثبوت و شواہد کے بغیر معطل کرناچاہیے ،کیوں کہ اس واقعہ کے حقیقی مجرم پس پشت چلائے جائیں گے اور وہ پھر موقع مناسب دیکھ کر اس یونیورسٹی کے تشخص کو مجروح کرنے کی ناپاک حرکت کا ارتکاب کرسکتے ہیں ۔ یونیورسٹی طالبات کو اس قبیح امرکی جانب ابھارنے یا رہنمائی کرنے والوں کا سراغ ضرور لگانا چاہیے اور یہ بھی جائزہ لینا چاہیے!!! کہ اس ملک کی ثقافت کو پیش کرنے کے لیے جو ضروری سامان اور لوازمات کا انتظام کیا گیا تو یہ سب فراہم کرنے والے کون سے عناصر ہیں؟؟۔اسی طرح اس پروگرام کی اجازت دینے والوں اور نگرانی کرنے والوں کی نشاندہی بھی کی جائے !!!اور اس کے ساتھ ہی یہ سب تحقیقات دفتری کارروائی کی نظر کرنے کی بجائے ان کو یونیورسٹی کے طلبہ اور عوام کے سامنے پیش لائی جائے !!!بصورت دیگر اس امر میں کسی بھی قسم کی غیر ذمہ داری کا ثبوت یونیورسٹی کو دائمی نقصان سے دوچارکرسکتاہے۔اور بعض نادان دوست جو کہ اس مسئلہ کو بڑھاچڑھاکر پیش کرکے اسلامی یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان سب احباب کے تمام ناجائز مطالبات کو ہم ناصرف مسترد کرتے ہیں بلکہ ان کی مذمت بھی کرتے ہیں کہ وہ انجانے میں سیکولر طبقوں کو کی مددکرنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے اس یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو سخت خطرات لاحق ہیں۔اسی طرح ہم اسلامی یونیورسٹی کولادینی و سیکولر طبقوں کے ہاتھوں میں ہر گز نہیں جانے دیں گے۔ اسلامی یونیورسٹی کے صدر کے استعفیٰ کا مطالبہ بالکل بے جا ہے اور اس کے ذریعے سے دشمنان اسلام اس یونیورسٹی کو لادین طبقے کے ہاتھوں میں دینا چاہتے ہیں اس لیے ہم اس امر کی مذمت میں اپنی آوازکو بلند کرنادینی فریضہ جانتے ہیں ۔البتہ کھلی بات ہے کہ اسلامی یونیورسٹی کے صدر گذشتہ دوسالوں سے بہت سی صریح اور ناقابل بیان غلطیاں کی ہیں، جن پر کان نہ دہرنے کے سبب گاہے بگاہے اس یونیورسٹی میں جانے یا انجانے میں مسائل پیدا کیے جارہے ہیں، جس سے اس یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو نقصان پہنچنا ایک فطرتی امر ہے۔ان امور میں سے چند اہم غلطیوں کی ہم یہاں نشاندہی کیے دیتے ہیں ۔
اسلامی یونیورسٹی جو کہ11 /9 کے بعد سے عالمی سازش کے کا شکار ہے ۔اس کو صف ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جاتی رہی بس یہ اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ یہ یونیورسٹی اب تک تمام سازشوں کے باوجود قائم و دائم ہے اور قائم رہے گی۔اس یونیورسٹی کو سیکولر تعلیمی ادارہ میں بدلنے کی کوشش ماضی میں بھی کی جاتی رہی ہے، یونیورسٹی کو مسلکی و سیاسی عصبیتوں کا مرکز بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ، یونیورسٹی کو ایران نواز بنانے کی کوشش بھی کی گئی اور پھر اب اس یونیورسٹی کوسعودی اور متشددسلفی(غیر مقلدین) یونیورسٹی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اوریہ امر کسی طرح نا تو پاکستان کی فضا میں درست ہے اور نہ ہی یہ یونیورسٹی اس بوجھ کو اٹھانے کی متحمل ہے۔جبکہ یہ مسلمّہ بات ہے کہ ہم اس تعلیمی ادارے کو ہر قسم کی سیاسی و مذہبی ،قومی و لسانی عصبیتوں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں مگر افسوس کہ اب اس کو ایک خاص فکر کی نشونما کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی کے سعودی صدر نے اپنے آپ کو آمر وقت اور بادشاہ بنا لیا ہے اپنے اور طلبہ کے مابین اس قدر دوریاں پیدا کرلیں ہیں کہ کوئی طالب علم اس تک بآسانی رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔اپنے دائیں بائیں ایسے افراد کو معمورکرلیا ہے جو ایک خاص مسلک سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر اس کی ترجیح یہ ہے کہ کاسہ لیس ،بھکاری و جی حضوری کرنے والے اللے تللے افراد کو نوازا جائے ۔اسی طرح طلبہ و ملازمین کی زبانیں گنگ کرنے کی خاطر عمرہ و حج جیسے مقدس عبادتوں کو بطور ہتھیا راستعمال کیا ہے ۔اسی طرح طلبہ کو سکالرشپس دیکر ان کو کلمہ حق کہنے سے روک لیا ہے۔اپنی آمد و رفت پر درجن بھر سیکیورٹی عملہ کو مامور کر لیا ہے ۔اردو و انگریزی سے عدم واقفیت کے باعث درجن بھر مترجمین کو اپنے آفس میں لگالیا ہے۔یونیورسٹی کو دینی طور پر بہتر و ممتاز مقام دلوانے کے لیے اب تک کوئی بہتر و نیک کام نہیں کیا ہے۔ان دوسالوں میں متعدد کانفرنسیں ہوئی ہیں جن کا عملی نتیجہ تاحال سامنے نہ آسکا اور ان کانفرنسوں پر خرچ ہونے والی رقم کو پانی کی طرح بہایا گیا جو کہ باعث تشویش ہے۔
صدر جامعہ نے یونیورسٹی کے اہم عہدوں پر قبضہ جما رکھاہے جن میں اصول الدین فیکلٹی کی ڈین شپ،دعوۃ اکیڈمی کی ڈائریکٹر کی شپ قابل ذکر ہیں۔اصول الدین فیکلٹی کو ناکارہ کرنے کی مکمل کو شش کی جارہی ہے ۔شعبہ حدیث میں خالص فکر کے حامل پاکستانی اساتذہ کو لایا گیا ہے جو کہ صدر جامعہ کی جائز و ناجائز امورمدد کرسکیں۔اصول الدین فیکلٹی ان اساسی فیکلٹیوں میں سے ایک ہے جویونیورسٹی کی تاسیس کے ساتھ قائم کی گئی۔ مگر افسوس آج اس فیکلٹی اہل علم و دانشور وں کی تیاری کا کام معدوم ہوچکا ہے ۔یہاں من پسند اور بھاری بھر اسناد کے حامل اساتذہ کو مقرر کیا جاتاہے اور ان کی ہر خواہش کو پوراکیا جاتا ہے بھلے وہ طلبہ کے مستقبل کے ساتھ ہی کیوں نہ کھیل رہے ہوں بس چونکہ وہ استاذ مقرر ہوچکے ہیں اس لیے وہ نئی نسل کو تختہ مشق بنائیں گے ۔اس امر سے واضح یہ سبق لیا جاسکتاہے کہ صدر جامعہ اور ان کے مخصوص فکرر کے حامل پیروکار اصول الدین فیکلٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے انتہائی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔عرب اساتذہ کے ساتھ ظالمانہ و آمرانہ و دشمنانہ سلوک روارکھا جارہاہے ۔جب کہ ان حضرات کو یونیورسٹی کے تمام طلبہ عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں شائد اسی وجہ سے یونیورسٹی کے اہم معاملات سے ان کو دور کردیاگیا ہے،جن میں دعوتی و فکری نشستیں جو طلبہ کی دینی رہنمائی کے لیے سارے ہفتہ یونیورسٹی کے ہاسٹلز کی مسجدوں میں لیکچر دینے کے لیے اپنے خرچوں پرعرب اساتذہ آتے تھے ان حضرات سے دعوتی شعبہ ہی چھین لیا گیا جس کے باعث اب طلبہ دین کے اہم و ضروری مسائل سے واقفیت حاصل کرنے میں پریشانی محسوس کررہے ہیں ۔لیکن یہ پاکستانی اساتذہ اور سعودی صدر اور اس کی ہاں میں ہا ں ملانے والی انتظامیہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان ہے اور اس پاکستان میں کوئی بھی ظالم و جابر زیادہ عرصہ اپنی مرضی جبراًمسلط نہیں کرواسکتا۔یہ ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں طلبہ اپنا حق لینا اچھی طرح جانتے ہیں بس ان کے جائز حقوق کی فراہمی میں لیت و لعل کے ذریعہ نظر انداز نہ کیا جائے۔
اسلامی یونیورسٹی میں بہت سے ایسے افراد برسر اقتدار اہم عہدوں پر موجود ہیں جو صرف نفرتیں بانٹیں کا کام سرانجام دیتے ہیں یونیورسٹی کی تعمیر کی بجائے تخریب کی فضا بنانے میں اپنا کردار ڈالتے ہیں ۔ان میں مسلک پرست،سیاست زدہ،اور قوم پرست لوگ اہم کردار اداکررہے ہیں۔اسی طرح یونیورسٹی کے ہوسٹلوں میں چرس نوشی اور اس کی خریدوفروخت کا بازار سجا نظر آتا ہے اور خبر یہ بھی ہے کہ یہاں شراب بھی بیجی و استعمال کی جاتی ہے جس کی گواہی یونیورسٹی کے اہم ذمہ دار خود دے سکتے ہیں مگر یہ الگ بات ہے کہ وہ اس امر پر نوٹس لینے میں متردد نظر آتے ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ کو داخلے میرٹ کی بجائے پیسہ بٹورنے کے لیے بنا کسی نظم وترتیب کے دیے جاتے ہیں مگر ان طلبہ کو سنبھالنے کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ۔اس یونیورسٹی میں تعلیمی بلاک کی تعداد ناکافی ہے کہ جہاں طلبہ بآسانی اپنی کلاسز لے سکیں اور اسی سبب بہت سے اساتذہ چھوٹی کلاسوں کو اپنے دفتروں میں پڑھالیتے ہیں مگر بڑی کلاسوں کے لیے اپنے سارے دن کو ضائع کرنا پڑتاہے اس صورت میں استاذ و طلبہ سبھی کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتاہے۔اسی طرح نئے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل کا کوئی نظام موجود نہیں تین تین سمسٹر تک طلبہ ہاسٹل کے حصول میں ذلیل و خوار اور دربدر کی ٹھوکر کھانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔البتہ سیاسی و مذہبی،قومی و لسانی گروپ سے تعلق کی صورت میں ہاسٹل کی فراہمی کے لیے یونیورسٹی کے تمام قوانین تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔
یونیورسٹی میں طلبہ کو سکالرشپس کا اجراء صرف اس صورت میں کیا جاتاہے جب وہ کاسہ گدائی لے کر صدر جامعہ کے دربار پر مہینوں طواف کرے،لازم بات ہے غریب و مجبور طالب علم اس قدر اپنا وقت ضائع نہیں کرسکتا اس سبب سے یہ سکالر شپس مالدار طلبہ کا مقدر ٹھہرتی ہے۔جب کہ ہونایہ چاہیے کہ اس یونیورسٹی کے اساسی شعبوں اصول الدن،شریعہ اینڈ لاء اور عربی میں داخل ہونے والے تمام طلبہ کو مفت تعلیم دی جائے چونکہ دین سے محبت کرنے اور اس کو پڑھنے والے افراد اکثر و بیشتر متوسط و کمزور گھرانوں سے ہوتے ہیں ۔مگر یہاں نیکی و بھلائی کا کام تو کوئی نظر نہیں آتا بلکہ بھکاری گداگری کے ہنر سے متصف ہونے والے کو مستحق مدد سمجھا جاتاہے۔اسی طرح حال ہی میں بعض اساتذہ کو یونیورسٹی سے صرف اس بنیاد پر نکالا گیا کہ یونیورسٹی ان کو تنخواہیں نہیں دے سکتی افسوس ہے اس بات پر کہ صدر جامعہ اپنے پروٹوکول اور آمد و رفت اور اپنی بادشاہت و آمریت کو باور کروانے کے لیے لاکھوں روپے صرف کریں تو کوئی بات نہیں جب اساتذہ کی بات آئے جو سالہاسالوں سے یونیورسٹی کی جان و دل اور خون و پسینہ بہاکر طلبہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں ان کو یونیورسٹی سے نکال دیا جائے۔جب کہ یہ کھلی بات ہے کہ یونیورسٹی کے پاس پیسہ وافر مقدار میں موجود ہے تبھی تو لغو و عبث کانفرنسوں کا انعقاد بار بار مختلف عنوانات سے کیا جاتاہے اور ان میں شرکت کرنے والے مقالہ نگار سوائے چند کے سبھی بار بار ہر کانفرنس میں نئے میک اپ کے ساتھ نظر آتے ہیں اور ان میں سے اکثر نااہل و وقت برباد کرنے والے اور پیسہ پرست ہوتے ہیں ۔جس سے اسلام و مسلمانوں کو ایک ذرہ بھر کا بھی فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہی ایسی کانفرنسوں سے کچھ فائدہ ہوگا کیوں کہ یہ تعمیری تو ہوتی نہیں ہیں بس صرف فوٹو سیشن و کاغذی کارروائی کو مکمل کرنے کے لیے کھیل کھیلا جاتاہے۔صرف یہی نہیں خود صدر جامعہ ادارہ تحقیقات اسلامی پر قبضہ کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کروارہے ہیں جب کہ تسلیم شدہ بات ہے کہ پاکستان ایک ممتاز اسلامی ریاست ہے اور اس میں فقہی و معاملاتی ومعاشرتی موضوعات پر بڑے بڑے اہل قلم طبع آزمائی کرچکے ہیں ایسے میں صدر جامعہ کی کتب کو ترجمہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔
ان تمام بکھری میٹھی و کڑوی باتوں کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صدر جامعہ پر یہ امر واضح کیا جائے کہ ہم آپ کا استعفیٰ تو نہیں مانگتے مگر آپ سیچند اہم امور پر غور وفکر کی دعوت ضرور دیتے ہیں ۔جن سے آپ گذشتہ دوسالوں سے مسلسل آنکھیں چرارہے ہیں ان پر سنجیدگی سے غور کریں اور اپنی ان غلطیوں اور کمزوریوں کا ازالہ کریں تاکہ آپ اپنا مقررہ وقت عزت و عظمت کے ساتھ بسر کرسکیں ۔
آخر میں جن امور کو انجام دینا صدر جامعہ پر لازم ہے وہ درج کیے دیتاہوں۔اولاً:صدر جامعہ اپنے اور طلبہ کے مابین قائم کردہ آمرانہ و جابرانہ دیوراکو ختم کریں ۔اگر انہوں نے طلبہ کے ساتھ نیک و اچھا سلک رکھا تو ان کو طلبہ اپنے حقیقی والدین سے زیادہ عزت و احترام دیں گے اور رہی بات سیکیورٹی تھرڈ کی تو ان کو یہ جان لینا چاہیے جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں آسکتی پھر بھی اگر کوئی مسئلہ ہے تویونیورسٹی سے باہرسیکیورٹی کا استعمال کریں مگر یونیورسٹی کے اندر طلبہ کو ذلیل و خوراکرنے کے لیے راستے جدا کرنا اور ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھنا درست امر نہیں ۔ثانیاً:اسلامی یونیورسٹی میں کسی بھی قسم کی سیاسی و مذہبی یا قومی و لسانی عصبیتوں کو پنپنے یا فروغ دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے چہ جائے کہ خود صدر جامعہ ایک خاص فکرجو عالمی و داخلی سیاست سے مرکب ہو کو فروغ دینے میں کردار اداکررہے ہوں۔کیوں کہ پاکستان کی فضا کسی طور پر بھی فرقہ ورانہ خیالات کو ہوادینے والے عناصر کو قبول نہیں کرتی کیوں کہ ہم پہلے ہی اس ایندھن میں جل کر اپنے ستاسٹھ سال ضائع کرچکے ہیں ۔خدارا!اب یہاں بریلوی ،دیوبندی اور اہل حدیث سمیت دیگر عصبیتوں کو پھلنے و پھولنے نہ دیں۔ اصول الدین فیکلٹی کو بالخصوص فرقہ ورانہ عصبیت سے پاک کیا جائے ،ہم اس یونیورسٹی میں علم و عمل اور اخلاق و تربیت کے اسلحہ سے مسلح ہونے کے لیے آئے ہیں ورنہ پاکستان میں مسالک و گروہی تعلیم دینے والے تو ادارے بہت ہیں۔ثالثاً:عرب اساتذہ جن کو یونیورسٹی سے ذاتی بغض و عناد کے سبب نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا صرف تنخواہ نہ دے سکنے کا بہانہ استعمال کیا گیا اور پھر طلبہ کے شدید احتجاج و اصرار پر ان کو جنوری تک کے لیے دوبارہ بحال کیاگیا ہے ۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان محترم و مکرم اساتذہ کو طلبہ و یونیورسٹی کے علمی وعملی مفاد میں مستقل طورپر بحال کیاجائے اور ان حضرات کے ساتھ کسی بھی قسم کی سازش رچانے کی کوشش نہ کی جائے چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ اساتذہ علم دوست و محبت و مودت کو بانٹنے والے ہیں اور ان کا وجود پاکستان کے مسلم عوام کو علم و عمل کے شعبہ سے وابستہ رکھنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔رابعاً:ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی میں فی الفور طور پر تعلیمی بلاک تعمیر کیے جائیں تاکہ طلبہ بروقت استفادہ کرسکیں اور ان کا وقت لہولعب میں ضائع نہ ہو۔اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ اصول الدین فیکلٹی جس کے چھ شعبے ہیں ان شعبوں کو مستقل کمرے دیے جائیں تاکہ حصول علم میں کسی طرح کا حرج واقع نہ ہو۔خامساً:ہمیں معلوم ہے کہ یونیورسٹی کے پاس مال کثیر صدقات و زکوٰۃ اور عطیات کی مدمیں موجود ہے جس سے اصول الدین ،شریعہ اور عربی فیکلٹی کے طلبہ کی فیسیں اداکی جائیں اور طلبہ کو ذاتی جیب خرچ میں سے اپنی کتب خریدنے کی ترغیب دی جائے ۔سادساً:یونیورسٹی میں فی الفور ترجیحی بنیادوں پر سٹوڈنٹس ہاسٹل تعمیر کرائے جائیں تا کہ طلبہ دربدر کی ٹھکریں کھانے میں وقت برباد کرنے کی بجائے اپنے ہاسٹلوں میں رہ کر علم کی پیاس بجھاسکیں ۔سابعاً:یونیورسٹی میں تمام اساتذہ کو اخلاقی و معاملاتی تربیت اور حس سلوک و حسن معاملہ کی تربیت دی جائے اور اسی طرح اساتذہ کے ذریعہ سے یہ طلبہ تک یہ دعوت منتقل ہونی چاہیے۔ثامناً:اصول الدین فیکلٹی کو اسلام کی ترجمان فیکلٹی کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے نہ کہ یہاں پر صرف سعودیہ سے تعلیم یافتہ سعودی افکار کو فروغ دینے والوں کا تقرر کیا جائے بلکہ ہم پوری شدت کے ساتھ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی میں تمام مقامات پر ہم آہنگی و اتحاد کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے مسالک کی تفریقات سے بالاتر ہوکر تقرریاں کی جائیں اور اسی طرح نااہل و کٹھ پتلی افراد کو نوازنے سے اجتناب کیا جائے بالخصوص صدرجامعہ اصول الدین فیکلٹی کی ڈین شپ ترک کر کے جلد از جلد نیک و باصلاحیت اور علم دوست خودمختار ڈین کا تقرر کریں کیوں کہ ان کا اس عہدے پر براجمان رہنا نہ تو قانوناً درست ہے اور نہ ہی اخلاقی طور پر کیوں کہ یہ فیکلٹی اب ایک خاص مسلک کی ترجمان بن چکی ہے اگر یہ ظلم در ظلم جاری رہا تو عالم اسلام میں یونیورسٹی کا منفرد علمی مقام تھا وہ ہمیشہ کے لیے خاک میں مل جائے گا۔تاسعاً:اسلامی یونیورسٹی میں ہر قسم کی تنظیموں کو ایک دائرہ کار کا پابند بنایا جائے جس میں نہ تو دین اسلام کے دائرے سے نکلنے کی اجازت ہو اور نہ ہی امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ بازور بازو اور طاقت کے ساتھ مسلط کرنے کی اجازت دی جائی۔عاشراً:صدر جامعہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے گرد نواح میں متعین ایک خاص مسلک کے چنگل سے نجات حاصل کریں کیوں کہ ان کی موجودگی میں وہ اسلام اور یونیورسٹی کو فائدہ دینے کا کوئی بھی قابل ذکر کام سرانجام نہیں دے سکتے۔یہ سب ایک خاص قسم کی سوچ و فکر کے حامل ہیں ان کا وجود یونیورسٹی کو تباہی و بربادی کی کہائیوں میں لے جانے کا باعث ہوگا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ اگر صدر جامعہ اور ان کے متعلقین اگر ان مندرجہ بالاگذارشات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرلیں تو چنداں ان سے استعفیٰ مانگنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور اگر خداناخواستہ وہ اپنی موجودہ ضدو عناد اور منفی ذہنیت پر کاربند رہے تو بعید نہیں کہ یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو اہمیت دینے والے ان سے اپنے ملک لوٹ جانے کا مطالبہ کریں اور اس لیے صدر جامعہ کو معلوم ہونا چاہیے پاکستانی قوم کسی بھی بیرون ملک کے آلہ کا رنہیں بن سکتی اور ان کو اپنے ملک سے بے دخل کرنا اچھی طرح جانتی ہے۔چونکہ ہم نے پاکستان صرف اسلئے حاصل کیا ہے کہ یہ ایک اسلامی فلاحی مملکت ہوگی اس میں کسی کی بادشاہت و جبروتیت کو نہیں پنپنے دیا جائے گااور ہمیں اسلام ہر قیمت پر عزیز ہے شخصیات و ممالک کے مفادات کو تحفظ دینا یہ ہماراکام نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس کو انجام دیں گے ۔بس اس پہ بات ختم کرتاہوں ۔ 
؂ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے۔ 
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617

منگل، 4 نومبر، 2014

مسلم مفکرین و مؤرخین نے دینی علوم کے ساتھ سائنسی علوم کے میدان میں بھی بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔

مسلم مفکرین و مؤرخین نے دینی علوم کے ساتھ سائنسی علوم کے میدان میں بھی بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔اسلام میں کسی بھی طرح کی تعلیمی ثنویت و تقسیم کا وجود نہیں۔مغرب کی موجودہ ترقیوں کاسبب مسلم علماء کی ایجادات ہیں جو انہوں نے محنت ومشقت اور لگن کے ساتھ علم کو پایہ عروج تک پہنچایا۔ڈاکٹر عمرالحمزاوی الازہری
تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں جامعہ ازہر کے اساتذہ نے طلبہ کو اسلاف کی علمی انجازات اور سائنسی علوم کے میدان میں پیش قدمیوں سے واقفیت دلانے اور امت مسلمہ میں موجودہ رائج علمی تقسیم کے نقصانات سے خبردار کرنے کے لیے ایک سیمینار کا اہتمام کیا ۔اس سیمینار کو سربراہ وفدازہر ڈاکٹر خالد فواد الازہری نے کیا۔انہوں نے کہا کہ اس سیمینار کے انعقاد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلم طلبہ اپنی روشن تاریخ سے ناصرفیت شناسائی حاصل کریں بلکہ وہ اپنی ان سابقہ خدمات کو مزید بھڑانے میں اپنا کردار اداکریں۔اسلام میں دین و دنیوی علم کی کوئی تفریق نہیں ہے اس کا ثبوت ہمیں قرآن و سنت کی جانب رجوع کرنے ساے ملتاہے کہ قرآن میں سائنسی و جدید اور عصری و تطبیقی علوم کا ذکر جابجا ملتاہے ۔انہوں نے کہا کہ مغرب نے ایک سازش کے ساتھ مسلمانوں پر علمی دروازے بندکرنے کے لیے ان کو داخلی و معاشی الجھنوں میں الجھا رکھا ہے تاکہ مسلمان اپنے ماضی کی علمی و عملی تاریخ کو دوبارہ زندہ نہ کرلیں کیوں کہ اس کے نتیجہ میں مغربی تہذیب مردہ ہوجائے گی۔ڈاکٹر عمرالحمزاوی الازہری نے سائنسی علوم میں مسلمانوں کی خدمات پراپنا تفصیلی مقالہ پیش کیا ۔جس میں انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کی علمی ترقی کا آغاز دوسری صدی ہجری سے شروع ہوا اور آٹھویں صدی ہجری تک بدستور چلتارہا اوراس دوران مسلمانوں نے علم فلکیات ،کمیسٹری،فزکس،ریاضی،میڈیکل سائنس اور انجینرنگ وغیرہ علوم میں بے بہاخدمات پیش کیں جن کی تفصیلات سے تاریخ کے اوراق ملون ہیں۔مسلمانوں نے یونانی ،فارسی اور ہندی تہذیبوں سے بہت کچھ حاصل کیا ان کی کتب کو عربی میں ترجمہ کروایا عباسی خلیفہ مامون ترجمہ کرنے والوں کو ترجمہ شدہ کتاب کے بدلے میں سونا وزن کرکے دیتے تھے۔جدیدو سائنسی علوم کے میدان میں مسلم مشہور علماء میں حسن ابن الحھیثم جنہوں نے انجینئرنگ کے میدان میں کام کیا،امام الرازی نے میڈیکل کے شعبہ میں چیچک اور خسرہ کے درمیان فرق،گردے کے درد اور بڑی آنت کے درد کو بیان کیا،ابو القاسم الزھراوی سرجری کے ماہر تھے،موسیٰ الخوارزمی نے ریاضی میں طاق و جفت کو بیان،اعداد کی درجہ بندی مقرر کی،دائرے کے درمیان تناسب کے تعین کو بیان کیا ۔ریاضیات میں خوارزمی کو دیکارت وغیرہ پر سبقت حاصل ہے،الاصطخری نے دنیاکا پہلا نقشہ بنایا جس سے بعد میں آنے والوں نے استفادہ و رہنمائی حاصل کی جن میں صقلیہ کے بادشاہ کے کہنے پر ادریسی نے دنیاکا نقشہ بنایا اور اس میں زمین کی لمبائی و چوڑائی کو بھی بیان کیا،یاقوت الحموی نے معجم البلدان علم جغرافیہ سے متعلق تحریر کی،خالد ابن یزید بن معاویہؓ نے کمیسٹری میں اپنی انجازات و تجربات پیش کیے جس کو بعد میں جابر بن حیان نے تفصیل کے ساتھ اس علم پر کام کیا،اسی طرح البیرونی ،ابن خلدون،ابن سیناء ،ابن رشد سمیت کثیر تعداد میں مسلم علماء نے جدید علوم کو تطور اور بام عروج تک پہنچانے کے لیے کام کیا ۔
اس سلسلہ میں یہ بات مدنظر رہنی چاہیے مسلمانوں نے ماسبق تہذیبوں کی اچھائیوں کو کھلے دل سے ناصرف تسلیم کیا ہے بلکہ ان کے علوم و فنون کو محفوظ بھی کیا ہے جیسے یونانی علوم کی اکثر کتب ضائع ہوچکی تھیں جو باقی رہ گئی تھیں ان کو مسلمانوں نے محفوظ بھی کا اور ان علوم و فنون کو زندہ بھی کیا ۔البتہ مسلمانوں نے اسلامی عقائد سے ٹکرانے والے افکار سے گلوخلاصی کے لیے سحر ،جادو،کفر و شیاطین جیسے علوم کو حذف کردیا۔انہوں نے کہا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنی ماضی کی تاریخ سن یا بڑھ کر کبر و غرور سے سینہ چڑھانے کی بجائے از سر نو اپنی ذمہ داری جو ان کو اللہ کی طرف سے انسانیت کی تاقیامت تک رہنمائی و قیادت کی دی گئی ہے اس کو مضبوطی سے تھا مے اور دوبارہ دینی و شرعی علوم کے ساتھ سائنسی و تطبیقی علوم کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتیں ترجیحی بنیادوں پر صرف کریں۔
سمینار سے جامعہ ازہر کے اساتذہ میں سے ڈاکٹر عبدالحافظ عسیلی ،ڈاکٹر عبدالحمید سیف ،ڈاکٹر حسن عبدالباقی اور ڈاکٹر محمد الناشی نے بھی خطاب کیا ۔سیمینار میں اصول الدین فیکلٹی ،عربی فیکلٹی کے طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور اس طرح علمی و تحقیقی و تاریخی سیمیناروں کے آئندہ اہتمام کرنے پر اصرار کیا اور سیمینار کو تجویز و ترتیب دینے والوں کا شکریہ اداکیا کہ انہوں نے ان کو اس دورآفتادہ دور میں ماضی کی تاریخ کی جانب غور کرنے اور اس سے سبق حاصل کرکے عزم وہمت اور لگن کے ساتھ کام کرنے کی داخلی طور پر تحریک کو بیدارکردیا۔ 

سائنسی علوم میں مسلمانوں کی خدمات



موجودہ زمانے میں علم سے وابستہ افراد کی جانب سے عجیب و غریب قسم کے خیالات سامنے آرہے ہیں ۔جس میں کوئی یہ کہتاہے کہ جدید و دنیوی علم کے ساتھ وابستگی اختیار کرنا حرام ہے تو کوئی یہ کہتاہے کہ ہمیں قدیم و دینی علوم کی حاجت ہی نہیں ۔جن علوم سے وابستگی کو حرام سمجھاجاتاہے ان میں میڈیکل سائنس،علم کیمیاء،علم ریاضی،علم فلکیات ،علم فیزیاء اور انجینئرنگ وغیرہ علوم شامل ہیں۔اسی سبب سے دینی و دنیوی علوم کے حاملین کے مابین سخت قسم کے اختلافات بھی معرض وجود میں آئے اور ان کے مابین دوریاں اس قدر پروان چڑھیں کہ ایک دوسرے کو مادہ پرست و تنگ نظر تک کہاجانے لگا۔دوسری طرف سے جدید علوم سے وابستہ افراد انہوں نے ان دینی علوم سے دوریاں اختیار کرلی ہیں جس کی شدت یہاں تک ہے کہ وہ اپنے خالق حقیقی کی تعلیمات سے کوسوں دورجاپہنچے ہیں۔گویاکہ علم کے میدان میں افراط و تفریط سے کام لیا جارہاہے۔علم حقیقی و علم فرعی کے مابین دوریاں قائم کردی گئی ہیں جس کی بدولت معاشرے میں متعدد خرابیاں پایہ عروج کو پہنچ چکی ہیں اور دوسری جانب علم دین سے وابستہ افراد اسلام کے پیغام کو جدید طرز پر منتقل کرنے میں یا پھر دنیا کی قیادت کرنے میں جو ان کی ذمہ داری لگائی گئی تھی اس سے تہی دام ہوچکے ہیں۔
اس سلسلہ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں جامعۃ الازہر (مصر) سے تعینات اساتذہ نے طلبہ کو اسلاف کی جدید علوم میں خدمات سے واقفیت و متعارف کرانے کے لیے ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔اس سیمینارکو ڈاکٹر خالد فواد( سربراہ بعثۃ الازہر) نے ترتیب دیا۔جس میں ڈاکٹر حسن عبدالباقی،ڈاکٹر عبدالحفیظ عسیلی اور ڈاکٹر محمد علی الناشی صاحب نے موضوع سے متعلق عالمانہ و فاضلانہ گفتگوکی۔اس سیمینار میں ہمیشہ کی طرح ایک مصری استاذ نے اپنا علمی و تحقیقی مقالہ پیش کیا۔اس مقالے کو قارئین کے استفادے کے لیے تحت السطور میں نقل کیا جارہاہے۔
ڈاکٹر عمر الحمزاوی نے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ علم کی دنیا میں مسلمانوں کی ترقی و عروج کا آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا اور یہ عروج اپنی بلندی کا زمانہ مسلسل آٹھویں صدی ہجری تک چلتا رہا۔مسلمانوں کو علم کی دنیا میں جو عروج ملااس کے لیے بہت سے مواقع حکمرانوں کی جانب سے اور خود اپنی لگن و تڑپ کے جذبے سے سرشار علمانے نمایہ کردارنبھایا۔یہ وجہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جس نے بھی مثلاًمغرب نے جو علم کی دنیا میں ترقی کی ہے اس نے یہ سب مسلمانوں کے تجربات و خدمات سے ہی خوشہ چینی کا ثمرہ ہے۔مسلمانوں نے ناصرف علوم حقیقی و شرعی (قرآن و حدیث،فقہ ،تفسیر،قرأت،علم لغت و ادب اور علم تاریخ )کے پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیا بلکہ جدید دنیوی علوم (میڈیکل سائنس،فارمیسی،کیمسٹری،فزکس،ریاضی ،علم فلکیات،انجینئرنگ اور معاشرتی علوم میں بھی اپنا نمایاں حصہ پیش کیا۔
عرب اسلام کے ظہور سے قبل علم واقعی و تطبیقی سے ناآشنا تھے اور ان کو اس سے متعارف اسلام نے ہی کرایا۔اسی سبب انہوں نے دوسری قوموں کے علوم کی جسجتوشروع کردی۔جب مسلمان مستحکم ہوئے تواسلامی دعوت کو دنیا بھر میں پہنچانے کے لیے انہوں نے پیش قدمی کی جس کی بدولت ان کو بے پناہ فتوحات ملیں۔ان ہی فتوحات کے آغاز کی بدولت وہ مصر و شام،فارس کو بھی مسخر کرنے میں کامیاب ہوئے۔تو اسی سے ہی فارسی ،یونانی اور ہندی زبان میں موجود علمی کتابوں کے ترجمے کا آغاز ہوا۔اس سلسلہ میں سب سے پہلے مسلمانوں نے ان علوم کی کتب کے ترجمے کیے جن کی ان کو ضرورت وقتاًفوقتاًہوتی رہتی تھی۔ان ہی علوم میں میڈیکل سائنس/علم طب اور فارمیسی کی کتب کے ترجمے کیے گئے۔پھر اسی طرح علم فلک،علم میکانیکی،آرکیٹکچر،دیکھنے جانے والی اشیاء کا علم اور ہاتھوں سے بننے والی اشیاء جوروزمرہ کے استعمال میں آتی ہیں ان سے متعلق رہنمائی فراہم کرنے والی کتب کے ترجمے بھی کیے گئے۔اس زمانے میں ترجمہ کا کام کرنے والے بہت سے افراد موجود تھے کیوں کہ ان کو مسلمان بادشاہوں کی جانب سے بہت بڑی اجرت جاری کی جاتی تھی۔عباسی خلیفہ مامون ترجمہ کرنے والوں کو کتاب کے وزن کے برابر سونا دیا کرتاتھا۔اس سبب سے بہت سے غیر مسلم اسلام میں بھی داخل ہوئے تاکہ وہ اس نئے دین کی خدمت کرسکیں اور مختلف علوم کی کتب ترجمہ کریں اور مسلمانوں کو جن علوم سے وہ متعارف ہیں ان کی تعلیم دیں۔
یہ امراسلامی ثقافت کا روشن باب ہے ۔کیوں کہ باقی جتنی بھی ثقافتیں وجود میں آئی وہ پرانی ثقافتوں کا نہ تو احترام کرتی تھیں اور نہ ہی ان سے کچھ استفادہ کرتی تھیں۔بلکہ ان کو صف ہستی سے مٹانے کے لیے ان کی کتب کو جلادیتے تھے اور علماء کو قتل کرکے ان کی پیش قدمیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے اس کو ختم کرنے کے جتن کرتے تھے جیسے تاتار نے بغداد میں اور عیسائیوں نے غرناطہ وقرطبہ میں مسلمانوں کی ثقافت کے نام و نشان مٹادینے کی کوشش کی ۔جب کہ مسلمانوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیابلکہ قدیم تہذیبوں کے تجربات سے استفادہ کیا اور ان کی خدمات کا بھی اعتراف کیا اور ساتھ میں ان کی لغزشوں کو درست بھی کیا۔اسی طرح یونانی علم جو کے ناپید ہوچکے تھے مغرب کے مظالم کے باعث یا پھر جو کچھ بچے کچے تھا بھی تو وہ ظلمتوں سے معمور کتب خانوں کی نذر ہوچکے تھے ان یونانی علوم کو دوبارہ زندہ کرنے کا سہرا بھی مسلمانوں کے سر ہے۔
کتب کے ترجموں کی تکمیل کے بعد مسلمانوں نے ان علوم کو پڑھنا شروع کیا ان میں جو کفر و شرک ۔جادو اور عقائد مسلم کو بگاڑنے والے نظریات تھے ان کا تصفیہ کیا اور ان علوم کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کی اور ان علوم میں نئے امور کا اضافہ بھی کیا جس سے مسلمان کی زندگی کو نفع پہنچ سکے۔تعلیم و تعلم کے بعد مسلمانوں نے ان علوم پر مکالمے کا آغاز کیا جس کی بدولت مسلمانوں نے تحقیق و جستجو اور مکالمے و مباحثے سے تجربات کی دنیا میں قدم رکھا۔اور یہ بتایاکہ حق اور سچ میں کیا فرق ہے ،صحیح اور غلط کواپنے تجربات کی روسے ثابت کیا ۔بہت سے علوم کے ماہرین پیدا ہوئے جن میں سے بعض کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتاہے:
علم فلکیات(Astronomy):یہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ ستاروں اور سیاروں کی معلومات حاصل کرتے ہیں ان کی حرکتوں اور مسافتوں کے بارے میں جان کاری ملتی ہے۔اس علم میں بہت سے مسلم علماء نے خدمات پیش کیں جن میں ابوعبداللہ محمد بن جابر بن سنان البتانی(۳۱۷ھ)اور ابواسحاق ابراہیم بن یحیٰ النقاش الزرقالی شامل ہیں۔ابن الزرقالی نے دوربین ایجاد کی جس کے ذریعہ ہواکی سمت اور اس کی شدت اور دن و رات کا تعین کا اندازہ لگایاجاسکے۔جس سے علماء یورپ متاثر ہوئے اور ان کی کتب سے یورپی عالم کوبرنیکس نے استفادہ کیا۔البتانی نے آلات فلکیات ایجاد کیں اور ان کے استعمال کے طریقے کو بیان کیا ۔اسی طرح انہوں نے ستاروں سے متعلق کتاب لکھی جس میں ان کی حرکت اور ان کی تعداد کو بیان کیا،یہ کتاب یورپی اداروں میں علمی عروج کے زمانے تک پڑھائی جاتی رہی ۔


علم ریاضی(Mathematics):اس علم میں حساب و کتاب ،جبراء اور انجینئرنگ وغیرہ کے بارے میں مدد لی جاتی ہے۔محمد بن موسی الخوارزمی نے علم ریاضی میں بے پناہ خدمات انجام دیں جن میں طاق و جفت کو بیان کرنا اور واحد و عشرہ اور سوکے خانے وجگہوں کے تعین کو بیان کرنا شامل ہیں۔اور اسی طرح دائرے کے درمیان تناسب کا تعین کا طریقہ بھی بتایا جس سے مغرب ناآشناتھے۔انہوں نے علم جبرا ء پر کتاب بھی لکھی (الجبر والمقابلہ)اسی طرح خوارزمی نے اساسیات و علامات ریاضی کو بھی بیان کیا۔مسلمانوں کے زمانے میں علم ریاضی عروج کی بلندیوں پر پہنچا۔خوارزمی کو دیکارت جوکہ مغربی ریاضی دان ہے اس پر سبقت کاملہ حاصل ہے۔اور مسلمانوں کو یہ انعام جاتاہے کہ انہوں نے صفر کے ہندسہ کو متعارف کروایا جس سے پہلے کوئی واقف نہ تھا۔علم ریاضی میں ابوالوفاء البوزجانی نے بھی خدمات انجام دیں۔اسی طرح انجینئرنگ کے شعبہ میں حسن بن الھیثم و ابوجعفر الخازن اور تیسری صدی ہجری موسی کے تین بیٹوں نے بھی حصہ شامل کیاان کے نام شاکر،احمد اور حسن ہیں۔ انہوں نے انجینئرنگ ،فلکیات اور میکانیکی پر کتب لکھیں۔
علم الجغرافی(Geography):مسلم علماء نے علم جغرافی کا بھی اہتمام کیا جس کے لیے انہوں نے سمندری و صحرائی علاقوں میں سفر کیے ،راستوں ،مسافتوں اور مختلف شہروں کے بارے میں باریک بینی کے ساتھ معلومات جمع کیں۔اسی سبب سے مختلف شہروں اور علاقوں کے نقشہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ابواسحاق الاصطخری،البلخی ،المسعودی،الخوارزمی،یعقوبی اور یاقوت الحموی وغیرہ مشہور علماء ہیں جنہوں نے علم جغرافی پر کام کیا۔الاصطخری جو چوتھی ہجری میں گذرے ہیں پہلی مرتبہ دنیا کا نقشہ بنایا اور اسی نقشہ سے بعد کے نقشہ نویسوں نے مدد لی جن میں بادشاہ صقلیہ کے مانگنے پر الادریسی نے الاصطخری کے نقشہ سے مدد لیتے ہوئے دنیا کا نقشہ پیش کیا اور اس میں اس نے زمین کے طول وعرض کو بھی بیان کیا۔مسعودی ایک مشہور مؤرخ اور معرف سیاح ہے جس کو مستشرقین نے ھیرودت العرب،بطلیموس المسلمین(یعنی ماہر فلکیات و جغرافیہ اور علم ریاضی کا ماہر) کہا ہے۔یعقوبی نے کتاب فتوح البلدان لکھی جس میں بہت سے فارس کے متعددشہروں کے جغرافیہ پر تفصیل سے بات کی۔
علم الفیزیاء(Physics):مسلمانوں نے سمند ر سے متعلق معلومات پیش کیں اس میں سمندر کے عروج و ہبوط اور پانی کی موجوں پر بات کی اسی طرح مسلمانوں نے ہواکے بارے میں بھی اپنے تجربات کو پیش کیا جس میں ہوا کی شدت ،طوفانی کیفیت اور موسم کے تغیر و تبدل میں ہوا کے کردار پر بات کی۔بارش و بادل بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرچ پر بھی بات کی۔ان علماء میں حسن بن الھیثم ،البیرونی شامل ہیں ۔مسلمانوں نے سب سے پہلے گھڑی کی سوئیاں ایجاد کی جو کہ ھارون الرشید کے زمانے جست سے تیار ہوئیں ۔زمین کی گردش پر بھی مسلمانوں نے بات کی اور معدنیات سونا،چاندی،لوہا،اور یاقوت کے وزن اور ان کی خصوصیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں بھی محنت صرف کیں۔یہ چند چیدہ مثالیں علم فیزیاء کے بارے میں پیش کیں کھلی بات ہے کہ اگر مسلمان اس میدان میں اتنا کام نہ کرجاتے تو آج مغرب علم فیزیاء میں اس مقام پر نہ ہوتاجہاں آج ہے ۔
علم نباتات و حیوان(Animals, plants):مسلمان پودوں اور حیوانات کے علم پر بھی کام کیا جیسے انہوں نے زراعت کے علم کا اہتمام کیا ۔مغرب اس بات کا اعتراف کرتاہے کہ مسلمانوں نے پودوں و زراعت کے علم میں بے پناہ خدمت کی ہے۔جس میں مصر و اندلس اور صقلیہ سے زراعت کی بہت سے اقسام منتقل ہوئیں۔مغرب نے کپاس ،گنا،لیمو اورتربوز کی زراعت سے فائدہ اٹھایا۔زراعت کے شعبہ میں اہم کتاب (الفلاحۃ الاندلسیۃ)ابی زکریا محمد بن العوام الاشبیلی کی شامل ہے۔اس کتاب میں مٹی کی اقسام و خاصیت پر بات کی اور اس میں کس چیز کے قبول کرنے کی صلاحیت ہے اور کس چیز کے قبول کرنے کی نہیں اس کو بھی بیان کیا۔اسی طرح مسلم علماء نے جانوروں کے علم پر بھی کام کیا جن میں کتابہ الحیوان لابن جاحظ،حیاۃ الحیوان الکبری الدمیری اور علاج الحیوانات للرّماح شامل ہیں۔

علم کیمیاء(Chemistry):مسلمان کمیسٹری سے بہت جلدی متعارف ہوگئے تھے اور انہوں نے اس میں اپنی محنتیں صرف کی سب سے پہلے خالد بن یزید بن معاویہ (۸۵ھ)نے اس علم میں کام کیا۔جابر بن حیان نے اس علم کے بارے میں ابتدائی و مضبوط کام کیا جس میں تجربہ کا طریقہ کار کو بیان کیا۔اس تجربے سے مشاہدہ کرنے اور نتیجہ حاصل کرنے میں آسانی ہوتی۔ اسی طرح ابن حیان نے عملی کمیسٹری میں زیادہ کام کیا اور اس کی صفات کو بیان بھی کیا۔اسی طرح دھواں،عمل کشید،صفائی اور تحلیل کو بیان کیا ۔اس میدان میں سوسے زائد کتابیں مسلمانوں نے ضبط تحریر کیا۔اسی طرح خوصیات میزان کو بھی بیان کیا گیا۔محمد بن زکریا الرازی ،یعقوب بن اسحاق الکندی نے بھی متعدد مقالات لکھے۔مسلمانوں نے کمیسٹری میں بہت زیادہ کام کیا جس سے مرکبات بوٹاشیم و سوڈیم کو ایجاد کرناشامل ہے۔اسی طرح کاربن ڈائی اکسائڈ کو شیشہ کی تیاری کے لیے استعمال کیا۔صابن و خوشبو کے لیے اشیاء ایجاد کیں۔
علم الطب(Medical science): علم الطب میں بھی مسلمانوں نے کام کیا اسلامی خلافت کے زمانے میں اطباء کی تعداد کافی زیادہ تھی ۔ جن میں مشہور طبیب رازی ہیں جنہوں نے بڑی آنت کے درد ،گردے کے درد کو بیان کیا اور اسی طرح چیچک اور خسرہ (Smallpox and measles)کے مرض کے مابین فرق کو بھی واضح کیا۔اور بعض بیماریوں کے اسباب و عوامل بھی بتائے۔ابن نفیس نے خون کی گردش (Micro-circulation)کو سب سے پہلے بیان کیا۔لسان الدین ابن الخطیب نے اندلس میں طاعون کے دوران بیماری سے بچنے کے لیے عوام کی رہنمائی کی اور ان کو طاعون سے نجات کے لیے ادویات تجویز کیں۔مسلمان کسی بھی ڈاکٹر کو بریکٹس کی اجازت نہیں دیتے تھے جب تک کے وہ اس وقت کی مشہور علم الطب کی کتب کے امتحان کے مراحل سے نہ گذرجاتا۔مسلمانوں نے علم الطب کے مجال میں تمام جہتوں سے کام کیا جس میں داخلی امراض،معدہ کے امراض ،آنتنیوں کے کیڑے اور بواسیر کو بھی بیان کیا۔سرجری سے متعلق (رازی نے کتاب الحاوی)لکھی جس میں سرجری کے آلات اور طریقہ کار پر بات کی جن میں پیٹ کی سرجری،کان میں موجود پھوڑوں کی سرجری،جنسی اعضاء کی سرجری کو ترجیحی طور پر بیان کیا ۔سرجری کے علم میں اندلس کے عالم ابی القاسم الزھراوی کی کتب سے مغرب نے پانچ صدیوں تک استفادہ کیا ۔ان کی کتب کو لاتینی زبان میں ترجمہ بھی کروایاگیا۔زھراوی نے ران و چھاتی کے ٹیومر کو بیان کیا،اسی طرح مختلف جراثیم کے علاج اور مثانے کے پتھروں اور اس کے توڑنے کے لیے دواتجویز کیں۔اسی طرح سرجری کے سلسلہ میں دوسو سے زیادہ آلات سرجری اور ان کے طریقہ استعمال کو بھی ذکر کیا۔بعدمیں آنے والے اطباء نے زھراوی سے رہنمائی حاصل کی۔آنکھوں کی بیماریوں کے بارے میں بھی مسلمانوں نے بہت کام کیا اور آنکھوں کے امراض کے علاج بھی تجویز کیے۔دانتوں کے درد اور دانتوں کی بیماریوں کو بیان کیا کمزور دانتوں کو نکالنے اور اس کی جگہ گائے کی ہڈی سے تیار شدہ دانت سونے و چاندی کے ذریعہ جوڑ کر لگانے کا کام بھی مسلمانوں نے کیا۔عورتوں اور بچوں کے امراض سے متعلق بھی تخصص کااہتمام کیا۔بچوں کی بیماریوں مثلاً غیر ارادی طور پر بستر میں قضائے حاجت کردینا،بچوں کو فالج کا ہونا،قے اورکھانسی جسے امراض کو بیان کیا اور ان کے علاج تجویز کیے۔اس سلسلہ میں (رسالۃ فی اوجاع الاطفال لابی علی بن احمد بن مندویہ الاصفھانی ۴۱۰ھ)تحریر کی گئی۔
علم الصیدلیۃ(Pharmacy):فارمیسی کے شعبہ میں بھی مسلمانوں نے کام کیا اس مجال میں کئی انکشافات بھی کیے ۔ ادویات میں بہت سی منشیات و اشیاء کا استعمال کیا جیسے ہلدی،مہندی،کافور اور جیرہ ۔ادویات کی تیاری میں نباتات ،معدنیات اور حیوانات کے مختلف مواد کو استعمال میں لایاگیا ۔رازی پہلے عالم ہیں جنہوں نے کمیسٹری کو علم الطب کی خدمت کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔کڑوی ادویات میں چینی اور سیب پھلوں کے جوس کو شامل کیا تاکہ مریض بآسانی اس دوا کو استعمال کرے۔
المستشفیات(Hospitals):مسلمانوں نے سب سے پہلے ہسپتالوں کو متعارف کروایا ۔سب سے پہلا ہسپتال اموی خلیفہ ولید ابن عبدالملک (۸۸ھ) میں دمشق کے قریب قائم کیا گیا ۔جس میں جذام(کوڑھ) کا علاج کیا جاتاتھا۔ان ہسپتالوں میں مریضوں کی سہولت کا مکمل خیال رکھاجاتاتھا ہر قسم کی ادویات دستیاب ہوتی تھیں۔مشہور ہسپتالوں میں مصر کا مستشفیٰ احمد بن طولون،دمشق کا مستشفیٰ نورالدین محمود زنگی اور مصر کا مستشفیٰ صلاح الدین ایوبی شامل ہیں۔
مندرجہ بالاتحریر پڑھنے سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ مسلمانوں نے کس قدر جدید اور دنیوی و سائنسی علوم میں اپنی خدمات پیش کیں ۔مگرافسوس ایک طرف مغرب نے یہ سب علوم مسلمانوں سے حاصل کرنے کے بعدجب پایہ عروج پر پہنچے تو مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف کرنے کی بجائے تمام ایجاداد ت مسلم کو یکسر اپنی طرف منسوب کرلیا۔اور مسلمانوں کی جانب برائیوں اور خامیوں کو منسوب کرکے ان کو علم دشمن ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔دوسری جانب مسلم علماء نے مغرب کے طعن و تشنیع سے مغلوب ہوکر بالکل سائنسی علوم سے کنارہ کشی اختیار کرلی جس سے انہوں نے اپنے اسلاف کے منہج کو چھوڑ دیا۔یہ مسلم بات ہے کہ اسلام میں علم کی کوئی ثنویت نہیں ،اسلام میں علم شرعی و علم دنیوی کی کوئی تقسیم نہیں ہے ۔قرآن مجید و احادیث نبویﷺعلم دنیوی کے تذکرہ سے معمور ہے۔جس میں سورج،چاند،ستارے،ریاضی ،اعداد اور وراثت نمایاں طور پر بیان کیے گئے ہیں۔




ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانان مسلم علم جدید سے مسلح ہوں اس سلسلہ میں قرآن و سنت کا وسعت و گہرائی کا مطالعہ بھی کریں اور اس طرح مسلمانوں کو مغرب کے رحم وکرم اور ان کی جانب للچائی نظروں سے دیکھنے کی بجائے مغرب کو مرعوب و مرغوب اور متاثر کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ مسلمانوں کو ہی اس دنیا کی حقیقی قیادت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com


پیر، 3 نومبر، 2014

نسل نو کی درست دینی راہنمائی۔۔


چند دن قبل ایک کالج طالب علم نے سوال کیا کہ میں اور مجھ جیسامعاشرے کا ایک عامی فردجب اسلام سے متعلق درست راہنمائی حاصل کرنے کی غرض سے کسی بھی عالم دین کے پاس جاتا ہے تواس سوال کے جواب پرتمام اختلافات کے باوجود باہمی اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے بجائے دینی راہنمائی دینے کے ہر ایک یہ کہتا ہے کہ میرا مسلک درست اورناجح ہے نیزاسکے ساتھ ساتھ اپنے مخالف فرقوں کی خامیوں کو بیان کرنا شروع کردیتا ہے ایسے میں مجھ سمیت معاشرے کے دیگر افراد کو کیا کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔؟؟؟اس طالب علم نے بعض علماء کرام کے نام لیتے ہوئے کہا کہ میں ان حضرات کے ساتھ ملاقات سے قبل یہ سمجھتا تھا کہ یہ گہری سوچ و فکر کے حامل علماء ہیں، مگر اس نے کہا کہ میرا یہ تصور زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا جلد ہی مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ علماء کرام بھی معاشرے میں موجود مختلف فرقوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی بو سے محفوظ نہیں ہیں،اس کے باعث میرے دل میں ان کے عزت واحترام کی جو تصوراتی عمارت موجود تھی اس کو شدیدٹھیس پہنچی۔۔۔۔۔۔!
اس طالب علم کی درددل سے بھری داستان سن کر مجھے دلی طور پر افسوس ہوامگر میں نے اس بھائی کی ناامیدی ومایوسی کو ختم کرنے اور امید کی شمع اس کے دل میں روشن کرنے کے لیے دو باتیں کہیں،جو درج ذیل ہیں:
1:میں اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عیب محسوس نہیں کرتا کہ ہمارے معاشرے کے اکثر علماء معاشرہ کے افراد کی درست سمت راہنمائی کرنے کی بجائے ان کو بین المسالک اختلافات میں الجھاتے ہیں جس کے سبب ہمارے معاشرے میں انارکی کی فضابدستور مضبوط ہو رہی ہے۔مگر اس کے باوجود ہمیں مایوس ہونے اور ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے کے بجائے خود آگے بڑھناچاہیے، الحمد للہ آج بھی اسی معاشرے میں ایسے علماء موجود ہیں کہ وہ بذات خود نہ تو کسی دوسرے مسلک پر تنقید کرتے ہیں اور نہ ہی وہ ایسے افراد کی حمایت کرتے ہیں جومعاشرے میں فروعی اختلافات کا ذکر کر کے معاشرہ میں توڑپیداکرنے کی کوشش کرتے ہیں،اس پر مستزاد یہ کہ وہ اسلام کی آفاقی وعالمی تعلیمات کو پوری انسانیت کے سامنے خلوص دل سے بیان کرتے ہیں اور اسلام کے عملی نفاذکے لیے دلی ہمدردی کے ساتھ کوشاں ہیں ۔ بین المسالک کے اختلافات کو ذکر کرنا تو در کنار یہ علماء حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ اپنا مؤقف دلائل کے ساتھ شائستہ انداز میں بیان کرتے ہوئے اپنے مؤقف کی درستگی کا فیصلہ اللہ پاک ،عوام کے باشعور وتعلیم یافتہ افراد پر چھوڑدیا جائے ۔اسلامی معاشرے کی اصلاح کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا فریضہ بھی ذمہ داری کے ساتھ اداکرنے کی روایت انہی علما کے دم قدم سے زندہ و تابندہ ہے۔میں نے اس طالب علم کو بتایا کہ ان میں سے بعض علماء جن کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حضرات فروعی ونزاعی قسم کے اختلافات کو فروغ دینے میں شامل نہیں ہیں ۔پاکستان کے علماء میں سے مولناٰمفتی تقی عثمانی ،مولناٰزاہدالراشدی ،پیرسید امین الحسناٰت شاہ ، مولناٰسید حسین الدین شاہ ،علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، انڈیا کے علماء میں سے مولناٰسید سلمان ندوی الحسینی،ڈاکٹر ذاکر نائیک اور عالمی سطح کے اسلامی سکالرز میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی شامل ہیں ،اس کے علاوہ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ جو کہ خود دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں مگر ان کے خطابات جو انہوں نے خلوص دل سے بیان کیے اور ان کی کتب جو انہوں نے دقت نظری سے لکھیں ہیں (جو مجھ عاصی سمیت ہزاروں انسانوں کی راہنمائی کا سبب بنی ہیں اور یہ بات یقین کامل کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان کی متروکہ علمی میراث حقیقت میں صدقہ جاریہ ہے) ان سے بھی استفادہ حاصل کیا جاسکتاہے۔
2:دوسری بات یہ کہ معاشرہ میں موجودعلماء کی خامیوں اور ان کی انسانہونے کے ناطے سرزد ہونے والی لغزشوں سے در گزر کرتے ہوئے ان کے مثبت افکارکولے لیں اورمنفی افکار کو ترک کردیں۔اسی طرح جب آپ دیکھیں کے کوئی عالم دین امت میں جوڑ اوراتحاد واتفاق پیداکرنے کی بجائے امت کی صفوں میں فروعی و نزاعی اختلافات کا ذکرکرکے دراڑیں ڈالنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے تو ایسے میں لازم ہے کے آپ ان کی تابعداری نہ کریں اور نہ ہی ان کے اس امر کی کسی بھی طرح حمایت کریں کیونکہ یہ امر ملت اسلامیہ کو دو لخت کرنے کا موجب ہے۔
قارئین کرام !اس بات کا فیصلہ آپ میں سے ہر فرد کرنے میں حق بجانب ہے کہ راقم اس طالب علم کی مایوسی کو ختم کرنے کے لیے کس حدتک کامیاب ہواہے،یا ناکام ہواہے ۔۔۔۔۔۔؟
آخر میں تمام مسلم مکاتب فکرکے علماء سے دست بستہ درخواست کروں گا کہ خدارا فروعی ونزاعی اختلافات کو عوام میں بیان کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کو پار ہ پارہ نہ کیجئے ۔ان اختلافات کوذکرکے آپ اپنے مسالک کی خدمت کرپاتے ہیں یانہیں لیکن یہ بات مسلم ہے کہ اسلام جو کہ ازلی وابدی دین ہے اس کو ضرور نقصان پہنچا رہے ہیں۔ملت اسلامیہ میں صحابہ کرامؓکے زمانے سے آج تک فقہی وفروعی اختلافات چلتے آرہے ہیں مگر ماضی کی اسلامی تاریخ میں کسی نے بھی ان اختلافات کی وجہ سے کبھی ملت اسلامیہ کی وحدت کو نقصان نہیں پہنچنے دیابلکہ جب بات اسلام اور کفر کی آتی تھی تو آپس میں شیر وشکر ہوکر کفر پر ٹوٹ پڑتے تھے۔اللہ عافیت میں رکھے اس امر کے واقع ہونے سے کہ اگر بد قسمتی سے آپ کے ان فروعی و نزاعی اختلافات کی وجہ سے اگر کوئی ایک فرد بھی لادین چل بسا تو سوچیں اور غوروفکر کریں کہ عنداللہ کیاجواب دیں گے۔
حضرت امیر معاویہؓ کے اس مشہورقول کو ذکر کے دیندار طبقوں سے وابستہ تمامی افراد کوبالعموم اورعلماء کرام کوبالخصوص دعوت فکر دیتاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!جب حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے مابین قصاص حضرت عثمانؓپر اختلاف ہوا تو اسلام دشمن قیصر روم نے یہ سمجھا کہ اب موقع ہے اسلامی سلطنت کو زیر کرنے کا ،اسی پس منظر میں اس نے حضرت معاویہ ؓ کو پیغام بھجوایا کہ میں حضرت علیؓ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں آپؓ میری مدد کریں ،اس پیغام کے پہنچتے ہی آپؓنے فوراًاس سازشی اسلام دشمن کو للکارااور کہا کہ ’’اورومی کتے !کیا تو اسلامی سلطنت کو نقصان پہنچانے کی تیاری کررہاہے؟ کان کھول کر سن اگر تونے اسلامی سلطنت پرحملہ کیا تومعاویہؓ ،تیرے خلاف خلیفۃ المسلمین حضرت علیؓکے لشکر میں صف اول میں نظر آئے گا‘‘۔اسی لیے اللہ پاک نے صحابہؓ کے متعلق اپنے کلام میں فرمایا ’’اشداء علی الکفار رحماء بینھم‘‘۔
دیس کی بات 
عتیق الرحمن
Email:atiqurrehman001@gmail.com
Mob:03135265617

سعودیہ عرب اورعالم عرب کی بے حمیتی


نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان کا مفہوم ہے کہ ’’ایک زمانہ آئے گا کہ عالم کفر غالب اور عالم اسلام مغلوب ہوجائے گا۔اس پرصحابہ کرامؓ نے آ پ ﷺ سے استفسار کیا ! کیا مسلمان اس وقت اقلیت میں ہو گے تو جواب میں آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ کے مسلمان اکثریت میں ہوں گے مگر دین پر عمل کرنے کو ترک کر چکے ہوں گے ایسے میں لازم ہے کہ تم کتاب اللہ اور میری سنت کو لازم پکڑے رہنا فلاح پا جاؤگے‘‘۔آپﷺ کا فرمان آج کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ دور اور زمانہ یہی آج کا زمانہ ہی ہے۔کرہ عرض پرباون سے زائد اسلامی ممالک موجود ہیں جبکہ مسلم اقوام کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زائد ہے۔ان تمام اسلامی ممالک کے پاس اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ بے پناہ نعمتوں کی فراوانی ہے۔ اللہ نے اسلامی ممالک میں تیل، گیس،سونا،زرخیز زمین،بہترین موسم،قیمتی معدنی وسائل کے ساتھ ان مسلم ممالک میں بہترین اورباصلاحیت و بہادر نوجوانوں کی کثرت عطا کی ہے۔ان اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہے کہ ان کے بینک بیلنس اکاؤنٹ امریکہ،سوئس،اور دیگر یورپی ممالک میں موجود ہیں ۔اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے شہنشاہی محلات ان کی عیاشیوں،محوومستیوں ،لہو لعب کی محفلیں جمانے کے لیے یورپ کے مہنگے ترین علاقوں میں اپنے نام کر رکھے ہیں۔مگر افسوس اس بات پر ہے کہ ان تمام نعمتوں کی فراوانی کے باوجود ان کے دلوں میں سے رب تعالیٰ کا اس کی عطاکردہ نعمتوں پر شکر گزار بندہ بننے کی بجائے یہ نافرمانی اور سرکشی میں اسی قدر زیادہ ہوچکے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی گرفت بھی اس قدر مضبوط ہے کہ ان اسلامی ممالک کے پاس تمام نعمتیں اور وسائل کی موجودگی کے باوجود ان سے براہ راست فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت سلب کرلی گئی ہے اسی وجہ سے آج عالم عرب امریکہ ،اسرائیل،،ایران اوریہود و نصاریٰ کی غلامی میں شرم ناک حد تک گہر چکے ہیں۔ مصر،شام،تیونس،یمن،بحرین،برما،عراق،افغانستان،کشمیر،اور فلسطین کی حالت زار پرسعودیہ عرب ،متحدہ عرب امارات،کویت اورعالم عرب کے تمام ممالک کی مجرمانہ خاموشی ان کی اسلام سے عملاًبے رخی ،بے حمیتی،بے غیرتی بلکہ اسلامی نظام سے کھلی دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سعودیہ عرب ،متحدہ عرب امارات،کویت اور عالم عرب اور تمام اسلامی ممالک یک جان ہوکر مصر،شام،فلسطین،تیونس،بحرین،یمن،عراق،افغانستان،برما اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے ان کی بھر پور مدد بھی کریں اور اس کے ساتھ ہی اللہ کے حضور اپنی ماضی کی کوتاہیوں پر معافی طلب کریں بصورت دیگر موجودہ ذلت و پستی جو کہ تمام اسلامی ممالک پرآج دنیا میں مسلط ہے اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب تیار ہے اس سے بچاؤ کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔حکومت پاکستان کی جانب سے مصر میں اسلام پسندوں کے حق میں بیان کا سامنے آنانیک و خو ش آئند امر ہے لیکن اسی بیان پر قناعت نہ کی جائے بلکہ جرات و بہادری کے ساتھ مصر،شام سمیت تمام اسلامی ممالک جن پراغیار کی جانب سے جنگ مسلط کی گئی ہے۔اس امر واقعہ پر امریکہ ،اسرائیل،ایران اورعالم کفر کے سامنے مظلوموں مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والوں کی دستگیری پر احتجاج بھی کیا جانا چاہیے۔ آخر میں اللہ رب العزت سے التجا ہے کہ ہم مسلمانوں کی نافرمانیوں ،کوتاہیوں اور غفلتوں کو معاف فرمائے اور تمام عالم میں مسلمانوں کی غیب سے مدد و نصرت فرمائے۔(آمین) دنیا کہ فرعون و نمرود ظلم و جور کی تمام داستانیں رقم کرنے کے باوجودیہ یاد رکھیں کہ دین اسلام اور دین القیم بہر حال غالب آکر رہے گا ۔
دیس کی بات 
عتیق الرحمن(اسلام آباد)
03135265617


اتوار، 2 نومبر، 2014

تعلیم وتبلیغ کا ایک منفرد انداز


ہر مسلمان کو اپنی روزمرہ زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کے لیے علم دین کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں دین سے گہری عقیدت اور محبت رکھنے والے دوستوں کو مختلف مسائل کا حل پیش کرنے میں اس لیے دقت پیش آتی ہے کہ ان کے پاس دین کا کافی علم نہیں ہوتا۔جدیدتعلیم یافتہ طبقہ محسوس کرتاہے کہ ان کے پاس دینی علوم کا مناسب علم نہیں اور مدارس سے فارغ احباب کو جدید علوم سے واقفیت نہیں ہوتی۔اسی طرح تبلیغ کا فریضہ انجام دینے والے احباب جس دین کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں اس کے بارے میں ان کا اپنا علم بہت معمولی ہوتاہے۔درس قرآن دینے والے اکثر متحرک بھائی علم دین کے نہایت اہم شعبوں سے آگاہ نہیں ہوتے۔مشکل یہ ہے کہ اس قسم کے قابل احترام خواتین وحضرات کے پاس روایتی انداز تعلیم کے لیے وقت نہیں ۔اس اہم دینی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دعوت فاؤنڈیشن پاکستان نے ایسا پروگرام ترتیب دیا ہے جس کے ذریعے ہر عمر کے مرد و خواتین نہایت آسان طریقے سے اپنے اپنے شوق کے مطابق گھر بیٹھے علم دین حاصل کرسکتے ہیں۔
بنیادی مقاصد:۱۔کم سے کم وقت میں دین کے بنیادی پیغام، قرآن و سنت ،فقہ وسیرت اور جدید معاشیات و سیاسیات کے مباحث سے واقفیت۔۲۔طلبہ میں دین کے مطالعہ کا گہرا ذوق پیداکرنا۔۳۔کم از کم ۳۵بنیا دی دینی کتب کا لازمی مطالعہ ۔۴۔طلبہ میں مدرس قرآن بننے کی صلاحیت پیداکرنا۔۵۔دین کی وسیع سوچ اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پیدا کرنا۔.
اس پروگرام کا زیادہ ترحصہ درس نظامی کے نصاب سے اخذ کیا گیاہے لیکن جدید سکالرز کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا گیاہے۔دوسرے لفظوں میں یہ قدیم و جدید کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔پورانصاب فہم دین کے نوحصوں پر مشتمل ہے: ۱۔قرآن حکیم۔۲۔حدیث نبویﷺ۔۳۔اسلامی فقہ۔۴۔عربی گرائمر۔۵۔سیرۃ النبیﷺ۔۶۔اسلام کا معاشی نظام۔۷۔اسلام کا سیاسی و معاشرتی نظام۔۸۔تصوف و تزکیہ نفس۔۹۔معاونات فہم دین(مثلاًاقبالیات،فن خطابت،اسلامی تاریخ ،اہم دینی موضوعات وغیرہ )
یہ تعلیمی پروگرام تین حصوں پر مشتمل ہے:۱۔تعلیم الاسلام سرٹیفیکیٹ،کورس (مکمل)۔۲۔ڈپلومہ فاضل علوم اسلامی۔۳۔اسناد فضیلت (الاستاذ،رئیس الاساتذہ)۔مندرجہ بالا ۹حصوں پر مشتمل نصاب مکمل کرنے کے لیے کم از کم۳۵کتب کا مطالعہ ایک منظم طریق کار سے کرنا پڑے گا۔۳۵کتب میں سے ۱۳کتب تعلیم اسلام سرٹیفیکیٹ میں پڑھنی ہوں گی جبکہ بقیہ کتب ڈپلومہ فاضل علوم اسلامی کے لیے پڑھنا ہوں گی۔اسناد فضیلت کے لیے مرحلہ وار۴۵ کتب پڑھنا ہوں گی۔ڈپلومہ کے بعد الاستاذ کے لیے ۱۵اور رئیس الاساتذہ کے لیے ۳۰پڑھنا ہوں گی ۔۷۰ سے زیادہ شائقین علم نے ملک کے طول عرض سے انفرادی طورپر داخلہ لیا ہے ۔علاوہ ازیں دینی مدارس کے ۳۷اساتذہ بھی یہ نصاب پڑھ رہے ہیں۔
اوپردئیے گئے چار کورس اور مبلغ اسلام اور مدرس قرآن کورس ،شارٹ کورسز ہیں جن کی مدت ۶ماہ سے ایک سال ہے جبکہ مربی کورس ایک لانگ کورس ہے جوتین سال کے عرصہ پر محیط ہے ۔لانگ کورس کے لئے نہ تو خلاصہ لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی پیشکش کی۔کتاب پڑھ کر ایک حلف نامہ دیناہوگا کہ طالب علم نے یہ کتاب سمجھ کر پڑھ لی ہے۔ اس کورس میں تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی۔
عام طورپر تربیت دینے والے کومربی کہتے ہیں لیکن اصطلاحی معنوں میں مربی ایک ایساشیخ ہے جو بلند پایہ عالم اور روحانی شخصیت ہو۔ہمارے نزدیک مربی ایک ایسا شخص ہے جو صاحب علم بھی ہو اوراپنی تمام زندگی علم سے محبت میں گذارنا چاہتاہو،روحانی طورپروہ اپنے اللہ سے مضبوط تعلق استوار کرناچاہتاہواور ذکر وفکر سے مسلسل اس تعلق میں اضافہ کرنے کا خواہشمند ہو۔اپنے تمام علم اور روحانی بالیدگی کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کی بجائے اسے دوسروں تک پھیلانے کی ذمہ داری بھی قبول کرے۔اسے اپنی نمود ونمائش کی بجائے خالصتاًاللہ کی رضامطلوب ہو۔وہ نہ تودنیاوی جاہ وجلال کا پجاری ہواور نہ اپنی کرامات سے اپنے لئے عقیدت و احترام پیداکرنے کا خواہش مند ہو۔
حفظ کرنے والے بچوں اوردین کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا دینی علم نہ ہونے کے برابر ہے ۔اسی طرح ہمارے مڈل اور ہائی سکولوں کے طلبہ وطالبات کے لیے اسلامیات کی تعلیم انتہائی ناکافی ہے ۔انگلش میڈیم کے طلبہ وطالبات کی حالت انتہائی قابل رحم ہے ۔وہ دن بدن قومی زبان اور دینی تعلیم سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے تعلیم الاسلام سرٹیفیکیٹ کورس(ابتدائی) متعارف کروایاگیا ہے جس کے تحت مندرجہ ذیل سات کتب پڑھائی جاتی ہیں:
(۱) رحمت عالمﷺ،(۲) اہم دینی مسائل،(۳) چہل احادیث(امام نووی)،(۴) مسدس حالی،(۵،۶) گلستان و بوستان(شیخ سعدی)اور (۷) منتخب کلام اقبال۔
اس تعلیم کے لیے بچے کو نہ تو حفظ ،ناظرہ یا کوئی دوسری دینی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑتی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے مدرسے میں جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس پروگرام کے لیے دن میں صرف ایک گھنٹہ دینے کی ضرورت ہوگی اور جس مدرسہ میں بچہ پڑھ رہاہوگا اس کے اساتذہ ہی یہ کورس پڑھائیں گے۔بچوں کو مفت کتب اور اساتذہ کو معقول وظیفہ دیاجاتاہے۔ترجیح یہ ہے کہ پسماندہ علاقوں کے بچے اس پروگرام سے زیادہ استفادہ کریں۔سکولوں اور کالجوں کے طلبہ بھی اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس وقت صوابی،درگئی،چارسدہ،سوات،نوشہرہ اور دیگر اضلاع کے۲۶مدارس کے ۸۱۵طلبہ و طالبات دعوت فاؤنڈیشن کا نصاب پڑھ رہے ہیں جن میں مڈل اور ہائی سکول بھی شامل ہیں ۔اب تک ۱۸مدارس کے ۵۲۴طلبہ وطالبات ابتدائی کورس مکمل کرکے اسناد حاصل کرچکے ہیں۔بے شمار مدارس اور سکول یہ نصاب پڑھنے کے لیے دوردراز علاقوں سے رابطہ کررہے ہیں۔اس کام کو فوری طور پر کم از کم چارگنا بڑھانے کی گنجائش ہے۔آہستہ آہستہ اسے پورے ملک میں پھیلایاجائے گا۔مربی والے کورس میں ملک کے طول وعرض سے ۶۱طلبہ و طالبات اب تک داخلہ لے چکے ہیں۔دیگرکورسوں میں انفرادی طورپر داخلہ لینے والوں کی تعداد۷۰ہے۔


الحمدللہ ادارے کا تعلیمی بورڈ ایسے فاضل علما اور دانشوروں پر مشتمل ہے جن کا علمی مرتبہ اپنے اپنے حلقوں میں مسلّمہ ہے ۔مختلف مسالک اور اعلیٰ علمی حلقوں سے متعلق تعلیمی بورڈ کے ارکان یہ ہیں:
۱۔ڈاکٹر سہیل حسن ،صدر شعبہ قرآن و سنت ادارہ تحقیقات اسلامی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔۱۔صاحبزادہ ڈاکٹر ساجد الرحمن ،سابق ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈمی و نائب صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔۳۔علامہ ابوعمار زاہدالراشدی،صدر شریعہ اکادمی گوجرانوالہ۔۴۔جناب خلیل الرحمن چشتی،(دینی سکالر و مصنف )۔۵۔جناب اکرام اللہ جان ،ڈائریکٹر جنرل(ریسرچ اینڈ ریفرنس)وزارت مذہبی امور،حکومت پاکستان اسلام آباد۔۶۔پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم،صدر شعبہ عربی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔۷۔شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک،صدر جمعیت اتحادالعلماء پاکستان و سابقہ ممبر قومی اسمبلی۸۔حافظ عاکف سعید،امیر تنظیم اسلامی پاکستان۔(جانشین،ڈاکٹر اسراراحمدؒ )۔۹۔ڈاکٹر ایس ایم زمان،سابق چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد۔۱۰۔ڈاکٹر حافظ سید زاہد حسین،امیر تحریک اسلامی پاکستان۔۱۱۔قاری حنیف جالندھری،جنرل سیکریڑی وفاق المدارس پاکستان۔۱۲۔ڈاکٹر نجم الدین،سیکرٹری جنرل ،تحریک عظمت اسلام،پاکستان۔۱۳۔مولانامحمد صدیق ہزاروی،شیخ الحدیث جامعہ ہجویریہ،لاہور۔۱۴۔ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم بھی ادارے کے تعلیمی بورڈ کے رکن رہ چکے ہیں۔
محمد الیاس ڈار ،سابق جوئنٹ سیکریٹری(زکوٰۃ وحج وعمرہ)،سابق ڈائریکٹر جنرل سیکریٹریٹ ٹرنینگ انسٹی ٹیوٹ ،حکومت پاکستان،اسلام آباد فاؤنڈیشن کے چئیرمین ہیں اور بلحاظ عہدہ تعلیمی بورڈ کے رکن ہیں۔
تمام کورسز کے امتحانات کا طریق کار نہایت سادہ اور آسان ہے۔ہم ’’ایک وقت میں ایک کتاب‘‘ پڑھاتے ہیں۔طلبہ کتاب مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ابواب یا صفحات کا خلاصہ لکھتے جائیں یا چارپانچ اشخاص کے کسی بھی حلقے میں ان کو زبانی پیش (PRESENTATION)کریں اور تاریخ وار اس کا ریکارڈ اپنے پاس رکھیں۔کتاب مکمل ہونے پر خلاصہ یا تاریخ وار پیشکش کا ریکارڈ بھیجیں۔جواب کا انتظار کیے بغیر اگلی کتب کا مطالعہ شروع کردیں۔ اس کے علاوہ کسی امتحان یا ٹیسٹ کی ضرورت نہیں۔متعلقہ نصاب کی تکمیل پر تعلیم الاسلام سرٹیفیکیٹ،ڈپلومہ فاضل علوم اسلامی ،اسناد فضیلت ،مدرس قرآن سرٹیفیکیٹ،مبلغ اسلام سرٹیفیکیٹ اور مربی کی نہایت قابل قدر اسنادعطاکی جائیں گی جن کی قبولیت کی ضمانت تعلیمی بورڈ کے فاضل ارکان کے اسمائے گرامی ہوں گے۔
نہایت اہم بات یہ ہے کہ طلبہ وطالبات مندرجہ بالا کتب انفرادی طور پر بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن اپنے آپ کو ایک نظم کا پابند کرنے اور ایک اعلیٰ سطح کے ادارے کی راہنمائی میں قدم بہ قدم جو علم وہ حاصل کریں گے وہ انفرادی طورپر ممکن نہیں۔ایک بڑامقصد حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنے آپ کو چند ماہ کا پابند بنا ناہوگا ۔اس سے وہ جو علم 
سیکھیں گے اس کا اندازہ ا نہیں چند ہفتوں کی محنت سے ہوجائے گا۔
مندرجہ بالاسطور سے قارئین کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ایک منظم انداز سے علم دین پھیلانا کس قدر اہم تبلیغی اورتعلیمی خدمت ہے جس کے لیے دین سے محبت رکھنے والے تمام اہل خیر کو پاکستان سے بھرپور تعاون کے لیے آگے بڑھنا چاہئیے اس کے علمی پروگراموں سے خود بھی استفادہ حاصل کرنا چاہئیے اور اپنے اردگر افراد واہل خانہ کو بھرپور انداز سے ترغیب دینا چاہئیے ۔وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ محسوس کریں گے کہ یہ کام تعلیم وتبلیغ کا ایک منفرد انداز ہے جس کا اجررب ذوالجلال کے پاس ہے۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com

جمعہ، 31 اکتوبر، 2014

عالم عربی کی صورتحال کے بارے میں اعلان حق

معروف تجزیہ کار اورسینئیر کالم نگار اوریا مقبول جان نے چند دن قبل ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں عصر حاضر کے حالات پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ تاریخ اسلام میں اب تک جتنا بھی عالم اسلام کونقصان پہنچا ہے اس کے پس و پیش میں دوممالک کا اہم کردار رہاہے وہ دو ممالک ایران اور سعودی عرب ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ممالک اپنے سیاسی و مذہبی مفادات کے تحفظ کے لیے ہر درجہ کا قدم اٹھا سکتے ہیں۔موجودہ حالات میں شام کی ظالم حکومت کی معاونت اور پشت پناہی ایران کر رہاہے جبکہ مصر میں آمر وقت ،یہود و ہنود کے اعلیٰ کار جنرل ابو الفتاح السیسی کے تمام مظالم کی تایید و حمایت سعودی عرب نے کی۔انہوں نے نبی مکرم ﷺ کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالم عرب پر زوال کا آغاز 
مصر سے ہوگا ۔اگر عالم اسلام اپنی بقا چاہتے ہیں تومصر کے مظلومین کی مدد و اعانت کے لیے میدان عمل میں اتر کر اسلام پسندوں کی حمایت کریں۔
موجودہ عالمی حالات پر ہر ذی شعور کا دل خون کے آنسو رورہاہے۔ملت اسلامیہ پر مظالم کے جاروں اطراف سے حملے کیے جارہے ہیں ان حملوں میں امریکہ،اسرائیل،ایران،بھارت ،عالم کفر بلاواسطہ اور یہود و ہنود کے نمک خور عالم اسلام کے عیاش حکمران سعودی عرب،متحدہ عرب امارات کا بشرمناک کردارشامل ہیں ابھی چند دن قبل مصر میں فوج کے مظالم کے بعد عالم کفر نے برائے نام مذمتی بیان جاری کیا ہے مگر سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے فرانسیسی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگر عالم مغرب نے مصری فوج پر پابندیاں عائد کیں تو ہم براہ راست مصری حکومت کی ہر ممکن مدد کریں گے۔۔انہی ناگفتہ بہہ حالات پر ہندوستان کے علما ء نے برصغیر کے علماء اور عامۃ الناس کے نام اپنا تفصیلی پیغام جاری کیا ہے۔وہ پیغام مسلم حکمرانوں ،علماء اور عوام کے استفادے کے لیے نقل کر رہاہوں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینات والھدی من بعد بیناہ للناس فی الکتاب اولٰئک یلعنھم اللہ ویلعنھم اللاعنون (سورۃ البقرۃ آیت ۱۵۹)
اس کا ارشاد ہے : ( واذ اخذ اللہ میثاق الذین اوتواالکتاب لتبیننہ للناس ولاتکتمونہ ، فنبذوہ وراء ظھورھم واشتروا بہ ثمنا قلیلا فبئس ما یشترون سورۃ (آل عمران آیت ۱۸۴)
جولوگ ہماری نازل کردہ واضح ہدایات و تعلیمات اور رہنمائی اور ہدایت کو چھپاتے ہیں جبکہ ہم نے انہیں لوگوں کے لئے وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب میں بیا ن کردیا ہے ان پر اللہ کی لعنت اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔ 
(سورہ البقرہ آیت ۱۵۹)
سورۃ آل عمرا ن میں فرمایا : اور یاد کرو ا س وقت کو جب اللہ نے ان لوگوں سے عہد لیا تھا جن کو کتاب دی گئی کہ تم اسکو کھول کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کروگے۔ اور ا ن کے مضامین کو نہیں چھپاوٗگے لیکن انہوں نے حکم الہی کو پس پشت ڈال دیا او راس کے معاملہ میں دنیا کی حقیر پونجی لے لی۔ بڑ ا بدترین سود اکرتے ہیں ۔ (آل عمران آیت ۱۸۷)
عالم عربی اور عالم اسلامی کے حالات آج جس دور سے گذر رہے ہیں وہ سخت کش مکش، ٹکراؤ اور ہیجان کا دور ہے، تقریباً چالیس پچاس سال سے عراق وشام سے لے کر الجزائر ومراکش تک پورا عالم عربی ،عالمی صہیونی اور صلیبی طاقتوں کے زیراثر اوران کی نگرانی میں اور ان کی ہدایت اور مدد کے ساتھ۔ فوجوں، پولیس اور عدلیہ کی۔ صہیونی مقاصد کی تکمیل۔ کے لئے تیاری میں لگارہا ، اورمسلمانوں کے سینوں پر شہ زوری کرتارہا۔
ان تمام ملکوں میں سب سے بڑا ’’جرم‘‘ یہ قرار دیا گیا کہ شریعت اسلامیہ کے نفاذ کا مطالبہ کیا جائے ۔ جن جماعتوں اور تنظیموں نے اسلامی بنیادوں پر عوام اور نوجوانوں کی تربیت کا کام کیا اورمعاشرہ کو اسلامی بنیادوں پر منظم کرنے اور نظام حکومت کو اسلامی بنانے کی کوشش کی وہ سب سے بڑے مجرم ، دہشت گرد اور باغی قرار دئیے گئے ۔ ان کے بڑوں کو شہید کردیاگیا۔ اور دیگر افراد کو جیل کی کوٹھریوں میں ڈال کر بد ترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ سارے ممالک فلسطین کی اسلامی تحریکات کے مخالف رہے اور ہر کمیونسٹ ، بددین، ملحد تحریک کے ساتھی اور معاون بنے رہے، لاکھوں فلسطینیوں کے ساتھ جوکچھ ہوتارہا ،یہ اس کے تماشائی بنے رہے ۔ اندورون خانہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور روس کے توسط سے سازشوں میں شریک رہے ۔ کوئی امریکہ کی گود میں بیٹھا تھا، کوئی روس کی گود میں ۔جب روس کی عالمی طاقت افغانستان کے میدانوں میں طویل جنگ کے بعد بکھر گئی تو یہ دوہری ذمہ داری یک قطبی دنیا کے مالک امریکا کے سرآگئی ۔۴۷۔ ۱۹۴۸ سے مسلسل مظالم کاجودور ان ملکوں میں چلتا رہا، وہ ہمیشہ ان کے کالے کرتوتوں میں لکھا جائے گا ۔ اور بے شمار کتابیں اس کی گواہ ہیں۔
۸۰۔ ۱۹۸۲ء میں شام کی ملحد وحشی اور ظالمانہ حکومت نے جس طرح شہر’’ حماۃ‘‘ کو بلڈوزروں سے اڑایا اور ۸۰ہزار اخوانیوں کو شہید کیا، وہ انسانیت کے ساتھ چنگیز وہلاکو سے بڑھ کر ظلم کی وہ سیاہ تاریخ ہے جسے مسلمانوں کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ 
زوال روس کے بعد سے امریکہ نے اسلام اور مسلمانوں کی طاقتوں کو تہس نہس کرنے کا جو عالمی صہیونی ٹھیکہ لے رکھا ہے، اسی کی خاطرافغانستان کو کھنڈر بنایا گیا۔ اور تقریبا دس لاکھ انسان شہید کئے گئے ۔پھر عراق پر الزام تراشیاں کر کے اس کے ۹۔۱۰؍ لاکھ فوجی اور عوام پر بموں کی آزمائش کی گئی۔ اور عراق کو ننگا بُچّا کرکے چھوڑا ۔ 
یہ یاد رہے کہ ان تمام مظالم میں آل سعود نے ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جزیرۃ العرب کو۔ جس کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے پہلے صاف طور پر حکم فرمادیا تھا کہ’’ اخرجوا الیہود والنصاری من جزیرۃ العرب‘‘ ۔ ’’ یہود یوں اور عیسائیوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دو‘‘ ۔ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جس کا مکمل نفاذ کیا تھا،اورجس کو ایک سازش کے تحت جزیرۃ العرب کے تشخص کو اغوا کرنے، اور ا سکے تقدس کے تصور کو ذہنوں سے نکالنے ،اور حدیثوں کے پس منظر سے اسے دور کرنے کے لئے۔ اپنے نامعلوم النسب خاندان کے بزور طاقت غالب آنے والے ایک حاکم ’’سعود‘‘ کے نام پر ’’سعودی عرب‘‘ کا نام دے دیا۔ اورناسمجھ مسلمانوں نے اسے اپنی ابلہی میں قبول کر لیا ، اور اس گہری سازش کو سمجھ نہ سکے۔
جی ہاں! آل سعود کے مجرموں نے جزیرۃ العرب کو خفیہ معاہدات کی بنیاد پر امریکا کی فوجوں اورصہیونی سازشوں کے حوالہ کردیا۔ اور جن طالبان کی ابتدا میں ریا کارانہ مدد کی تھی ان کو دہشت گرد قرار دے کر پورے افغانستان کو نیست ونابود کرنے میں امریکا کا خادمانہ و غلامانہ ساتھ دیا۔ یہی کردار ان کا عراق کے بارے میں رہا۔ جب ایران میں خمینی کا انقلاب آیا تو صدام ان کا سب سے بڑا حامی تھا۔ اور اس کو خمینی سے لڑانے کے لئے اربہا ارب ریال دیئے گیے۔ پھر جب وہ اس جنگ سے فار غ ہوا تو اس کے خلاف امریکا کی مدد کرکے عراق میں شیعہ حکومت قائم کروائی گئی، دوغلی پالیسی کے ماہروں نے ایک طرف احمدی نجاد کا ریاض میں پرجوش استقبال کیا اور جب شیعوں کے ایک وفد نے مسجدنبوی اور روضہ اطہر پر آخری درجہ کی بدمعاشیوں اور بے ہودگیوں کا مظاہرہ کیا جس پر امام مسجد نبوی شیخ حذیفی نے اعتراض کیا ، تو انہیں امامت و خطابت سے ہٹا دیا۔ مسجد نبوی کے سامنے شیعوں کو تبرا کی اجازت دی۔ دوسری طرف ذرائع ابلاغ میں شیعیت اور سنیت کی مصنوعی جنگ بھی چھیڑی۔ 
عالم عربی کے انقلابات میں بگڑے ہوئے بدمعاش حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ تونس میں سب سے پہلے انقلاب آیا،تو تونس کے ظالم وبدکردار حاکم بن علی کو اپنے ہاں پناہ دی، حسنی مبارک کے استقبال کی تیاریاں بھی تھیں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ 
مصر کا انقلاب کامیاب ہوا اورتمام اسلامی پارٹیوں کے تعاون سے ڈاکٹر محمد مرسی صدر جمہوریہ منتخب ہوئے، پوری دنیائے اسلام کے مسلم عوام نے خوشیاں منائیں، مبارکبادیں دیں۔ ایک صاحب علم ، حافظ، متقی، صالح انسان، جدید و قدیم کا سنگم، منصف و عادل ،رحم دل و شفیق قائد مصر کی صدارت کی کرسی پر بیٹھا، اور اس نے اسلامی اخلاق، بے انتہا نرمی اور رواداری کے ساتھ ایک سویلین حکومت کے عنوان سے۔ کیونکہ اسلامی حکومت تو ایک ڈراؤنا خواب ہے جس سے دشمن اتنا نہیں ڈرتے جتنے آستین کے سانپ اور چھپے دشمن ڈرتے ہیں۔ اصلاحات شروع کیں، قوم کی اصلاح، پولیس کی اصلاح، عدلیہ کی اصلاح، معاشرہ کی اصلاح، ذرائع ابلاغ کی اصلاح کے کام کا آغاز کیا، اور ملک کی ترقی، اور لوگوں کی حقیقی آزادی کے لئے کامیابی کے ساتھ بڑھنا شروع کیا تو ان کے خلاف سازشوں کا جال بچھانے میں آل سعود سب سے آگے رہے۔ 
وہ فوج جو چالیس پچاس سال سے صہیونی مقاصد کے لئے تیار کی گئی تھی، اور جس نے ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کو مارا، جیلوں میں ٹارچر کیا، جس نے اسلامی تحریکوں کو کچلا، اور ان سے انتقام لیا، اور پولیس کا گندہ، کمینہ محکمہ جو ایک حقیر ایجنسی کی طرح جلادوں کا کام کرتا رہا، اور ملحدانہ عدلیہ کے ذمہ دار جو شریعت اسلامی کے سب سے بڑے دشمن رہے، اور مسخ شدہ ، اباحیت زدہ ، مجرمانہ، شراب و کباب میں دھت ابلاغ جس نے اخلاق و حیا اور دین و ایمان کی تمام حدوں کو پار کرلیا اور کھلے بندوں اللہ ، رسول، قرآن، اور شریعت کا مذاق اڑایا، اور اب اور زیادہ زور و شور سے، انتقامی جذبات اور فاتحانہ نشہ کے ساتھ اس بد بختانہ کام میں مشغول ہے۔اس کی امداد اور اس کو مصر میں دوبارہ طاقت فراہم کرنے میں سب سے زیادہ ناپاک کردار آل سعود کا ہے۔ 
سابقہ حکومت کے پورے ٹولہ نے ۔جس کو صدر مرسی نے بلند اخلاقی کے ساتھ گوارا کیا تھا۔ مرسی کے ایک سالہ دور میں ایک دن بھی چین سے نہیں گذارا، اس کے نزدیک مرسی کا کھلا جرم یہ تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ برابر کی سطح پر بات کرتے ہیں، وہ فلسطین کے مظلوموں کی مدد کے لئے ہمت بلند رکھتے ہیں، انہوں نے سوڈان اور دیگر افریقی ممالک،اور تونس، لیبیا، الجزائر اور مراکش سے اچھے تعلقات قائم کئے ہیں، انہوں نے ترکی سے ملک کی ترقی کے زبردست معاہدات کئے ہیں ۔وہ شام کے مظالم کے خلاف محاذ بنارہے ہیں اور آخر ی سب سے بڑا جرم ان کا وہ تھا کہ انہوں نے تمام اسلامی تحریکات اور تنظیموں کے اجلاس قاہرہ میں، شام میں اسلامی جہاد کی دعوت دی۔ اور شامی حکومت کے مظالم کے خلاف سب سے طاقتور محاذ کھولنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
بس یہ وہ فیصلہ تھا جس سے صہیونیت و صلیبیت کے کیمپ میں آگ لگ گئی جس کی خدمت کے لئے مصری فوج اور پولیس اور عدلیہ کو چالیس پچاس سال سے تیار کیا گیا تھا، ایک سال میں صدر مرسی اسکی اصلاح کیا کرتے، اس کی سازشوں کے شکار ہوتے رہے، اورانھوں نے اپنے حسن ظن کی بنیاد پر ’’ عبدالفتاح سیسی‘‘کو فوج کا کمانڈر اعلیٰ اور وزیر دفاع بنایا تھا۔
امریکا، سعودیہ، اور امارات کے سازشیوں، اور اللہ و رسول کی عدالت کے مجرموں نے اسی وزیر دفاع کو اسلامی حکومت کے خاتمہ، صدر جمہوریہ کے اغوا، عیسائیوں، صہیونیوں ، ملحدوں اور اباحیت پرست افراد کے میدان تحریر میں جمع کرنے، اور اباحیت پرست ملحد ذرائع ابلاغ کو پوری طرح ان کے خلاف جھونک دینے، اور پھر اسلامی تحریکات کو ہر قیمت پر کچل دینے، اور ہر بے حیائی، ڈھٹائی ، اور ظلم و بربریت کو روارکھنے کے لئے آمادہ کیا۔
پانچ ہزار ملین ڈالر سعودی عرب نے، تقریباً اتنی ہی رقم امارات نے اور امریکا جو مصری فوج کا پالن ہار ہے، اور جس نے اسی دن کے لئے اس کو تیار کررکھا تھا، سب نے مل کر صدر مرسی کی حکومت کو لادینوں، ملحدوں اور اباحیت پرستوں کے ذریعہ گرادیا، اور سرکار کا زرخرید غلام شیخ الازہر، اور قبطی چرچ کا پوپ، اورسلفیوں کا ایک دنیا دار اور بدکردار دھڑا، حزب النور، اس جرم میں شریک ہوئے۔
جمہوریت میں عوام اصل ہوتے ہیں، لاکھوں کروڑوں مصری مسلمان صدر مرسی کے حق میں سڑکوں پر آگئے، انہوں نے میدان بھر دیئے، اور صبر و استقامت کا وہ مظاہرہ کیا ، تاریخ جس کے ریکارڈ سے خالی ہے، دنیا میں کبھی ۴۵ دن تک جس میں پورا رمضان کا مہینہ بھی گذرا لاکھوں انسانوں کو ایک میدان میں دین کی نصرت کے لئے، اللہ سے لو لگاتے ہوئے، روزہ رکھتے، تراویح پڑھتے، قرآن کی تلاوت کرتے، دعائیں مانگتے، اور نعرہ حق بلند کرتے، اور اسلامی نظام حکومت کی دہائی دیتے، اور اللہ کی شریعت کا مطالبہ کرتے، کبھی نہیں دیکھاگیا۔
سعودی عرب کا سیاسی نظام، معاشی نظام، مالیاتی نظام، سرتاسر باطل پرستانہ، مغرب زدہ، اور سود اور حرام پر مبنی ہے، حج اکبر کے موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں کے خاتمہ کے اعلان کے لئے تشریف لائے تھے وہ ساری چیزیں تقریبا دوبارہ جزیرۃ العرب میں قائم کردی گئیں ہیں، گندے چینل، صہیونی اڈے، ملحدانہ کمپنیاں، سودی نظام، جابرانہ شاہی تسلط، کیا نہیں ہے جو جاہلیت کی نمائندگی نہیں کررہا ہے، اسلامی نظام عدل کا مطالبہ کرنے والے جیلوں میں ہیں، یا نظر بند ہیں، یاپابندیوں کے شکار ہیں۔ خاندان آل سعود کے غیرتمند، اور مظلوم افراد آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں بھی ملک چھوڑنا پڑتا ہے، یا اچھوت بن کر رہنا پڑتا ہے۔
یہ سب کچھ جاننا ہے تو آپ انٹرنیٹ پر آل سعود کا کچاچٹھا معلوم کرلیجئے، شیخ محمد عریفی، شیخ عائض قرنی، شیخ سلمان عودہ، شیخ سفر الحوالی جو کچھ زیر لب کہیں گے ، اس کی تفصیل ، شیخ عواجی، شیخ سعد الفقیہ، شیخ محمد المسعری کے ویب سائٹ سے معلوم کرلیجئے۔
مصر کی اسلامی حکومت گرانے، اس کے لئے اُکسانے، اس کے لئے رقمیں دینے کا کام امارات اور سعودی عرب کے بے غیرتوں نے تو کیا ہی، لیکن اخوان المسلمین کی دشمنی میں وہ اس قدر آپے سے باہر ہوئے کہ اپنے جامہ ہی کو چاک کردیا، اپنے غلاف کو تار تار کردیا۔ نسبت حرمین کو داغ دار کردیا، وہ نہیں سمجھتے تھے کہ ان کی سازش طشت از بام ہوگی، اور مصر کا اسلامی انقلاب پورے ملک میں پھیل جائے گا، اللہ کے بندے جانوں کے نذرانے پیش کریں گے۔وہ اللہ کے دین، اللہ کی شریعت۔ مصر کی اسلامیت، اور اس کی سا لمیت کے لئے بازی لگادیں گے۔
آج مصر کے تمام علماء، علماء ازہر کا فرنٹ، شرعیہ بورڈ، اخوانی، سلفی، عام مسلمان اور پوری دنیا کے علمائے حق، اور مسلم عوام صدر مرسی کے حق میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔
سعودی عرب کے۶۵ علماء کرام نے اپنی دستخطوں کے ساتھ ، فوجی انقلاب کے خلاف اور صدر مرسی کے حق میں بیان شائع کیا ہے۔
رمضان المبارک کی ۱۰ ؍تاریخ کو شیخ محمد العریفی، جو اس وقت سعودی عرب کے سب سے کامیاب مقرر وداعی ہیں، اور شیخ محسن العواجی کو مصر کی اسلامی حکومت کی تائید کے جرم میں سعودی حکومت نے گرفتار کرکے جیل میں ڈالا تھا، اور ان سے حکومت کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا جبری معاہدہ لے کر انھیں چھوڑا گیا، تفصیلات براہ کرم انٹرنیٹ پر دیکھ لیں اور چاہیں تو سعودی علماء سے براہ راست رابطہ کرلیں۔
رابطہ عالم اسلامی،منظمہ موتمر اسلامی، اور ندوۃالشباب الاسلامی یہ سعودی عرب کے سرکاری امدادیافتہ ادارے ہیں، ان کے صدور صرف قرارداد پاس کرسکتے ہیں، ان میں بھی ان کو حکومت کی مرضی دیکھنی پڑتی ہے، ان اداروں نے کبھی عالم اسلام میں کوئی عملی کردار ظلم کے مقابلہ میں ادا نہیں کیا، یہ’’ ریڈ کراس‘‘ جیسے ادارہ کی دھول کے برابر نہیں ہیں۔ ان کو مظلوم مسلمانوں کی عملی مدد کی اجازت نہیں ہے۔ یہ کروڑوں روپئے نمائشی کانفرنسوں میں صرف قراردادوں کے لئے خرچ کرتے ہیں ، تاکہ یہ’’ منافق حکومت‘‘ کے چہرہ پر پالش کرتے رہیں۔
نوجوان سعودی علماء، سعودی اہل فکر و دانش، یونیورسٹیوں کے طلباء اور عام انسان اس حکومت کی پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں، وہ کہیں بغاوت نہ کربیٹھیں، اس لئے عرب ممالک میں ظالموں ۔اور بدکردار اور دشمنوں کی ایجنٹ حکومتوں ۔کے خلاف انقلابات کو ناکام کرنے کی پالیسی سعودی حکومت اورحکومت امارات نے اپنا رکھی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ امارات، جزیرۃ العرب کا حصہ ہے، جس کو انگریزوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ رجواڑوں میں تبدیل کیا اور آج اس پورے حصہ کو قحبہ گری کا ایک اڈہ اور ایک شراب خانہ بنانے والے مجرم، وہ زر خرید بدو ہیں، جن کو ان کے آقاؤں نے اپنے مقاصد کے لئے گدی پر بٹھا رکھا ہے۔
ان سب کو معلوم ہے کہ اگر اسلامی تحریکات کے نمائندے جمہوری راستہ سے بھی سیاست کے ایوانوں میں آگئے تو باطل پرستوں کے تمام بت چکناچور ہوں گے۔ قحبہ گری کے اڈے ختم کردئے جائیں گے اور شراب و کباب اور بدمعاشیوں اور اباحیت پرستیوں کا موقعہ نہیں رہے گا ، عوامی دولت پر کچھ خاندان ڈاکے نہیں مارسکیں گے، پوری ملت تیل کے ذخائر ، سونے کے ذخائر اور دیگر ذخائر سے مستفید ہوگی، پولیس اسٹیٹ ختم ہوجائے گی۔ انسانیت آزادی کی فضا میں سانس لے گی، جیلوں میں اسلام کے جرم میں کوئی محبوس نہیں رہے گا۔ جیل مجرموں کے لئے ہوگا۔
انہیں کیوں کر یہ معلوم ہے کہ مصر کے یہ جانباز صرف مسجد کے ملا، خانقاہ کے صوفی، اور چارہ کھانے والے ریوڑ نہیں ہیں۔ انہوں نے اللہ سے اور رسول اللہ سے عہد کیا ہے کہ ان کی شریعت پر چلیں گے اور روئے زمین پر اسے نافذ کریں گے، یہی ان کا جرم ہے۔
اس لئے یادرکھئے کہ جمہوری راستے سے آپ آئیں یا دعوتی واصلاحی راستہ سے۔ آپ پر شب خوں مارنے، بلکہ دن دہاڑے قتل کرنے کے لئے یہ تیار ہیں۔
یوروپ کے گماشتے، اور شیطانی نظام کے نمائندے اپنے درآمد کئے ہوئے جمہوری، سیکولر، کمیونسٹ، لبرل، وغیرہ، نظاموں کی عزت رکھنے کے لئے بیانات بازی کرتے ہیں۔ اور اپنی مجلسوں میں عالم اسلامی کی تباہی پر قہقہے لگاتے ہیں۔ اور امت مسلمہ کی یتیمی کی حالت پر ہنستے ہیں ، اس لئے ان کو پکارنا بھی سوائے ابلہی اور حماقت کے کچھ نہیں۔
حل وہی ہے ، علاج وہی ہے، اصلاح اسی سے ہوگی، جس سے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا کی اور جس کو عروج تک عدل فاروقی نے پہونچایا۔ ہم بر صغیر کے تمام علماء کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مصر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لادینیت اور الحاد کے محاذ کی طرف سے ایک بھیانک جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔’’ رابعہ عدویہ‘‘ کے میدان میں پورا رمضان ، ذکر و عبادت میں گذارنے والوں اور اسلامی اور قانونی حق کا مطالبہ کرنے والوں پر صہیونی فوج اور فرعونی پولیس نے گولیوں کی بوچھار کرکے دو ہزار افراد کو شہید کیا اور دس ہزار افراد کو زخمی کرکے میدان خالی کرالیا۔ مسجد رابعہ کو اور وہاں موجود اسپتال کو آگ لگادی جس کے نتیجہ میں بیمار افراد جھلس کر مرگئے، مسجد الفتح میں پناہ گزین افراد پر حملہ کرکے بموں اور گولیوں کی بارش کی۔ اب تک سات ہزار افراد کو شہید کیا جاچکا ہے، پچاس ازہری علماء کو شہید کیاگیا، اور ہزارہا ہزارہا افراد زخمی اور بیسیوں ہزار جیلوں میں ہیں، ہر داڑھی والے اور دین دار کو گولی ماری جارہی ہے، اور مصر کو کفر کے جہنم میں جھونکا جارہا ہے، ان مافیاؤں اور کھلے مجرموں کی سرپرستی آل سعود کررہے ہیں۔
مظالم اس حد تک پہونچ گئے کہ امریکا جیسا دوغلا اور بے شرم بھی تنقید کرنے لگا، یوروپی یونین کے مسلمان مظاہروں کے لئے نکل کھڑے ہوئے تو اسے بھی مظالم کے خلاف زبان کھولنا پڑی، جب پوری دنیا ان مظالم پر حیران ہے، یہاں تک مجرم نائب صدر البرادعی بھی استعفا دے کر مصر سے فرار ہوگیاہے، حزب النور کے دنیاداروں کی آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، اورا نھیں بے وقت پشیمانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، سعودی عرب کے علمائے حق، حکومت کی بدکردارانہ پالیسیوں کے باوجود خاموش نہ رہ سکے، اورا نہوں نے اجتماعی طور پر اپنی حکومت کے خلاف موقف اختیار کیا۔
کیا ان حقائق کے سامنے آجانے کے بعد علمائے بر صغیر کے لئے ۔چند ٹکوں کی امید میں۔ اور دور جاہلیت کی نمائندہ حکومت سے عمروں اور حج کے ویزوں کی توقع میں۔ یہ جائز ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کھلے مظالم پر خاموش رہیں ؟ !کیا وہ اللہ اور رسول کا سامنا اپنے اس موقف کے ساتھ کرسکیں گے؟ انہیں اگر اب بھی اپنی لا علمی کی وجہ سے کچھ شک ہے تو غیر سرکاری سعودی علماء سے رابطہ کرلیں۔ مصر کے علمائے حق سے معلوم کرلیں، ازہر کے غیور وخوددار علماء کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں۔ اور حقائق سے واقف ہوجائیں اور مجرم حکومتوں کے خلاف متحدہ موقف اختیار کریں، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس عالمی جنگ کے مقابلے کے لئے دامے، درمے، قدمے، سخنے، جو کچھ ہوسکے اس سے دریغ نہ کریں۔
من جانب 
اتحاد علمائے ہند
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617