منگل، 4 نومبر، 2014

مسلم مفکرین و مؤرخین نے دینی علوم کے ساتھ سائنسی علوم کے میدان میں بھی بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔

مسلم مفکرین و مؤرخین نے دینی علوم کے ساتھ سائنسی علوم کے میدان میں بھی بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔اسلام میں کسی بھی طرح کی تعلیمی ثنویت و تقسیم کا وجود نہیں۔مغرب کی موجودہ ترقیوں کاسبب مسلم علماء کی ایجادات ہیں جو انہوں نے محنت ومشقت اور لگن کے ساتھ علم کو پایہ عروج تک پہنچایا۔ڈاکٹر عمرالحمزاوی الازہری
تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں جامعہ ازہر کے اساتذہ نے طلبہ کو اسلاف کی علمی انجازات اور سائنسی علوم کے میدان میں پیش قدمیوں سے واقفیت دلانے اور امت مسلمہ میں موجودہ رائج علمی تقسیم کے نقصانات سے خبردار کرنے کے لیے ایک سیمینار کا اہتمام کیا ۔اس سیمینار کو سربراہ وفدازہر ڈاکٹر خالد فواد الازہری نے کیا۔انہوں نے کہا کہ اس سیمینار کے انعقاد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلم طلبہ اپنی روشن تاریخ سے ناصرفیت شناسائی حاصل کریں بلکہ وہ اپنی ان سابقہ خدمات کو مزید بھڑانے میں اپنا کردار اداکریں۔اسلام میں دین و دنیوی علم کی کوئی تفریق نہیں ہے اس کا ثبوت ہمیں قرآن و سنت کی جانب رجوع کرنے ساے ملتاہے کہ قرآن میں سائنسی و جدید اور عصری و تطبیقی علوم کا ذکر جابجا ملتاہے ۔انہوں نے کہا کہ مغرب نے ایک سازش کے ساتھ مسلمانوں پر علمی دروازے بندکرنے کے لیے ان کو داخلی و معاشی الجھنوں میں الجھا رکھا ہے تاکہ مسلمان اپنے ماضی کی علمی و عملی تاریخ کو دوبارہ زندہ نہ کرلیں کیوں کہ اس کے نتیجہ میں مغربی تہذیب مردہ ہوجائے گی۔ڈاکٹر عمرالحمزاوی الازہری نے سائنسی علوم میں مسلمانوں کی خدمات پراپنا تفصیلی مقالہ پیش کیا ۔جس میں انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کی علمی ترقی کا آغاز دوسری صدی ہجری سے شروع ہوا اور آٹھویں صدی ہجری تک بدستور چلتارہا اوراس دوران مسلمانوں نے علم فلکیات ،کمیسٹری،فزکس،ریاضی،میڈیکل سائنس اور انجینرنگ وغیرہ علوم میں بے بہاخدمات پیش کیں جن کی تفصیلات سے تاریخ کے اوراق ملون ہیں۔مسلمانوں نے یونانی ،فارسی اور ہندی تہذیبوں سے بہت کچھ حاصل کیا ان کی کتب کو عربی میں ترجمہ کروایا عباسی خلیفہ مامون ترجمہ کرنے والوں کو ترجمہ شدہ کتاب کے بدلے میں سونا وزن کرکے دیتے تھے۔جدیدو سائنسی علوم کے میدان میں مسلم مشہور علماء میں حسن ابن الحھیثم جنہوں نے انجینئرنگ کے میدان میں کام کیا،امام الرازی نے میڈیکل کے شعبہ میں چیچک اور خسرہ کے درمیان فرق،گردے کے درد اور بڑی آنت کے درد کو بیان کیا،ابو القاسم الزھراوی سرجری کے ماہر تھے،موسیٰ الخوارزمی نے ریاضی میں طاق و جفت کو بیان،اعداد کی درجہ بندی مقرر کی،دائرے کے درمیان تناسب کے تعین کو بیان کیا ۔ریاضیات میں خوارزمی کو دیکارت وغیرہ پر سبقت حاصل ہے،الاصطخری نے دنیاکا پہلا نقشہ بنایا جس سے بعد میں آنے والوں نے استفادہ و رہنمائی حاصل کی جن میں صقلیہ کے بادشاہ کے کہنے پر ادریسی نے دنیاکا نقشہ بنایا اور اس میں زمین کی لمبائی و چوڑائی کو بھی بیان کیا،یاقوت الحموی نے معجم البلدان علم جغرافیہ سے متعلق تحریر کی،خالد ابن یزید بن معاویہؓ نے کمیسٹری میں اپنی انجازات و تجربات پیش کیے جس کو بعد میں جابر بن حیان نے تفصیل کے ساتھ اس علم پر کام کیا،اسی طرح البیرونی ،ابن خلدون،ابن سیناء ،ابن رشد سمیت کثیر تعداد میں مسلم علماء نے جدید علوم کو تطور اور بام عروج تک پہنچانے کے لیے کام کیا ۔
اس سلسلہ میں یہ بات مدنظر رہنی چاہیے مسلمانوں نے ماسبق تہذیبوں کی اچھائیوں کو کھلے دل سے ناصرف تسلیم کیا ہے بلکہ ان کے علوم و فنون کو محفوظ بھی کیا ہے جیسے یونانی علوم کی اکثر کتب ضائع ہوچکی تھیں جو باقی رہ گئی تھیں ان کو مسلمانوں نے محفوظ بھی کا اور ان علوم و فنون کو زندہ بھی کیا ۔البتہ مسلمانوں نے اسلامی عقائد سے ٹکرانے والے افکار سے گلوخلاصی کے لیے سحر ،جادو،کفر و شیاطین جیسے علوم کو حذف کردیا۔انہوں نے کہا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنی ماضی کی تاریخ سن یا بڑھ کر کبر و غرور سے سینہ چڑھانے کی بجائے از سر نو اپنی ذمہ داری جو ان کو اللہ کی طرف سے انسانیت کی تاقیامت تک رہنمائی و قیادت کی دی گئی ہے اس کو مضبوطی سے تھا مے اور دوبارہ دینی و شرعی علوم کے ساتھ سائنسی و تطبیقی علوم کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتیں ترجیحی بنیادوں پر صرف کریں۔
سمینار سے جامعہ ازہر کے اساتذہ میں سے ڈاکٹر عبدالحافظ عسیلی ،ڈاکٹر عبدالحمید سیف ،ڈاکٹر حسن عبدالباقی اور ڈاکٹر محمد الناشی نے بھی خطاب کیا ۔سیمینار میں اصول الدین فیکلٹی ،عربی فیکلٹی کے طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور اس طرح علمی و تحقیقی و تاریخی سیمیناروں کے آئندہ اہتمام کرنے پر اصرار کیا اور سیمینار کو تجویز و ترتیب دینے والوں کا شکریہ اداکیا کہ انہوں نے ان کو اس دورآفتادہ دور میں ماضی کی تاریخ کی جانب غور کرنے اور اس سے سبق حاصل کرکے عزم وہمت اور لگن کے ساتھ کام کرنے کی داخلی طور پر تحریک کو بیدارکردیا۔ 

سائنسی علوم میں مسلمانوں کی خدمات



موجودہ زمانے میں علم سے وابستہ افراد کی جانب سے عجیب و غریب قسم کے خیالات سامنے آرہے ہیں ۔جس میں کوئی یہ کہتاہے کہ جدید و دنیوی علم کے ساتھ وابستگی اختیار کرنا حرام ہے تو کوئی یہ کہتاہے کہ ہمیں قدیم و دینی علوم کی حاجت ہی نہیں ۔جن علوم سے وابستگی کو حرام سمجھاجاتاہے ان میں میڈیکل سائنس،علم کیمیاء،علم ریاضی،علم فلکیات ،علم فیزیاء اور انجینئرنگ وغیرہ علوم شامل ہیں۔اسی سبب سے دینی و دنیوی علوم کے حاملین کے مابین سخت قسم کے اختلافات بھی معرض وجود میں آئے اور ان کے مابین دوریاں اس قدر پروان چڑھیں کہ ایک دوسرے کو مادہ پرست و تنگ نظر تک کہاجانے لگا۔دوسری طرف سے جدید علوم سے وابستہ افراد انہوں نے ان دینی علوم سے دوریاں اختیار کرلی ہیں جس کی شدت یہاں تک ہے کہ وہ اپنے خالق حقیقی کی تعلیمات سے کوسوں دورجاپہنچے ہیں۔گویاکہ علم کے میدان میں افراط و تفریط سے کام لیا جارہاہے۔علم حقیقی و علم فرعی کے مابین دوریاں قائم کردی گئی ہیں جس کی بدولت معاشرے میں متعدد خرابیاں پایہ عروج کو پہنچ چکی ہیں اور دوسری جانب علم دین سے وابستہ افراد اسلام کے پیغام کو جدید طرز پر منتقل کرنے میں یا پھر دنیا کی قیادت کرنے میں جو ان کی ذمہ داری لگائی گئی تھی اس سے تہی دام ہوچکے ہیں۔
اس سلسلہ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں جامعۃ الازہر (مصر) سے تعینات اساتذہ نے طلبہ کو اسلاف کی جدید علوم میں خدمات سے واقفیت و متعارف کرانے کے لیے ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔اس سیمینارکو ڈاکٹر خالد فواد( سربراہ بعثۃ الازہر) نے ترتیب دیا۔جس میں ڈاکٹر حسن عبدالباقی،ڈاکٹر عبدالحفیظ عسیلی اور ڈاکٹر محمد علی الناشی صاحب نے موضوع سے متعلق عالمانہ و فاضلانہ گفتگوکی۔اس سیمینار میں ہمیشہ کی طرح ایک مصری استاذ نے اپنا علمی و تحقیقی مقالہ پیش کیا۔اس مقالے کو قارئین کے استفادے کے لیے تحت السطور میں نقل کیا جارہاہے۔
ڈاکٹر عمر الحمزاوی نے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ علم کی دنیا میں مسلمانوں کی ترقی و عروج کا آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا اور یہ عروج اپنی بلندی کا زمانہ مسلسل آٹھویں صدی ہجری تک چلتا رہا۔مسلمانوں کو علم کی دنیا میں جو عروج ملااس کے لیے بہت سے مواقع حکمرانوں کی جانب سے اور خود اپنی لگن و تڑپ کے جذبے سے سرشار علمانے نمایہ کردارنبھایا۔یہ وجہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جس نے بھی مثلاًمغرب نے جو علم کی دنیا میں ترقی کی ہے اس نے یہ سب مسلمانوں کے تجربات و خدمات سے ہی خوشہ چینی کا ثمرہ ہے۔مسلمانوں نے ناصرف علوم حقیقی و شرعی (قرآن و حدیث،فقہ ،تفسیر،قرأت،علم لغت و ادب اور علم تاریخ )کے پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیا بلکہ جدید دنیوی علوم (میڈیکل سائنس،فارمیسی،کیمسٹری،فزکس،ریاضی ،علم فلکیات،انجینئرنگ اور معاشرتی علوم میں بھی اپنا نمایاں حصہ پیش کیا۔
عرب اسلام کے ظہور سے قبل علم واقعی و تطبیقی سے ناآشنا تھے اور ان کو اس سے متعارف اسلام نے ہی کرایا۔اسی سبب انہوں نے دوسری قوموں کے علوم کی جسجتوشروع کردی۔جب مسلمان مستحکم ہوئے تواسلامی دعوت کو دنیا بھر میں پہنچانے کے لیے انہوں نے پیش قدمی کی جس کی بدولت ان کو بے پناہ فتوحات ملیں۔ان ہی فتوحات کے آغاز کی بدولت وہ مصر و شام،فارس کو بھی مسخر کرنے میں کامیاب ہوئے۔تو اسی سے ہی فارسی ،یونانی اور ہندی زبان میں موجود علمی کتابوں کے ترجمے کا آغاز ہوا۔اس سلسلہ میں سب سے پہلے مسلمانوں نے ان علوم کی کتب کے ترجمے کیے جن کی ان کو ضرورت وقتاًفوقتاًہوتی رہتی تھی۔ان ہی علوم میں میڈیکل سائنس/علم طب اور فارمیسی کی کتب کے ترجمے کیے گئے۔پھر اسی طرح علم فلک،علم میکانیکی،آرکیٹکچر،دیکھنے جانے والی اشیاء کا علم اور ہاتھوں سے بننے والی اشیاء جوروزمرہ کے استعمال میں آتی ہیں ان سے متعلق رہنمائی فراہم کرنے والی کتب کے ترجمے بھی کیے گئے۔اس زمانے میں ترجمہ کا کام کرنے والے بہت سے افراد موجود تھے کیوں کہ ان کو مسلمان بادشاہوں کی جانب سے بہت بڑی اجرت جاری کی جاتی تھی۔عباسی خلیفہ مامون ترجمہ کرنے والوں کو کتاب کے وزن کے برابر سونا دیا کرتاتھا۔اس سبب سے بہت سے غیر مسلم اسلام میں بھی داخل ہوئے تاکہ وہ اس نئے دین کی خدمت کرسکیں اور مختلف علوم کی کتب ترجمہ کریں اور مسلمانوں کو جن علوم سے وہ متعارف ہیں ان کی تعلیم دیں۔
یہ امراسلامی ثقافت کا روشن باب ہے ۔کیوں کہ باقی جتنی بھی ثقافتیں وجود میں آئی وہ پرانی ثقافتوں کا نہ تو احترام کرتی تھیں اور نہ ہی ان سے کچھ استفادہ کرتی تھیں۔بلکہ ان کو صف ہستی سے مٹانے کے لیے ان کی کتب کو جلادیتے تھے اور علماء کو قتل کرکے ان کی پیش قدمیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے اس کو ختم کرنے کے جتن کرتے تھے جیسے تاتار نے بغداد میں اور عیسائیوں نے غرناطہ وقرطبہ میں مسلمانوں کی ثقافت کے نام و نشان مٹادینے کی کوشش کی ۔جب کہ مسلمانوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیابلکہ قدیم تہذیبوں کے تجربات سے استفادہ کیا اور ان کی خدمات کا بھی اعتراف کیا اور ساتھ میں ان کی لغزشوں کو درست بھی کیا۔اسی طرح یونانی علم جو کے ناپید ہوچکے تھے مغرب کے مظالم کے باعث یا پھر جو کچھ بچے کچے تھا بھی تو وہ ظلمتوں سے معمور کتب خانوں کی نذر ہوچکے تھے ان یونانی علوم کو دوبارہ زندہ کرنے کا سہرا بھی مسلمانوں کے سر ہے۔
کتب کے ترجموں کی تکمیل کے بعد مسلمانوں نے ان علوم کو پڑھنا شروع کیا ان میں جو کفر و شرک ۔جادو اور عقائد مسلم کو بگاڑنے والے نظریات تھے ان کا تصفیہ کیا اور ان علوم کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کی اور ان علوم میں نئے امور کا اضافہ بھی کیا جس سے مسلمان کی زندگی کو نفع پہنچ سکے۔تعلیم و تعلم کے بعد مسلمانوں نے ان علوم پر مکالمے کا آغاز کیا جس کی بدولت مسلمانوں نے تحقیق و جستجو اور مکالمے و مباحثے سے تجربات کی دنیا میں قدم رکھا۔اور یہ بتایاکہ حق اور سچ میں کیا فرق ہے ،صحیح اور غلط کواپنے تجربات کی روسے ثابت کیا ۔بہت سے علوم کے ماہرین پیدا ہوئے جن میں سے بعض کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتاہے:
علم فلکیات(Astronomy):یہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ ستاروں اور سیاروں کی معلومات حاصل کرتے ہیں ان کی حرکتوں اور مسافتوں کے بارے میں جان کاری ملتی ہے۔اس علم میں بہت سے مسلم علماء نے خدمات پیش کیں جن میں ابوعبداللہ محمد بن جابر بن سنان البتانی(۳۱۷ھ)اور ابواسحاق ابراہیم بن یحیٰ النقاش الزرقالی شامل ہیں۔ابن الزرقالی نے دوربین ایجاد کی جس کے ذریعہ ہواکی سمت اور اس کی شدت اور دن و رات کا تعین کا اندازہ لگایاجاسکے۔جس سے علماء یورپ متاثر ہوئے اور ان کی کتب سے یورپی عالم کوبرنیکس نے استفادہ کیا۔البتانی نے آلات فلکیات ایجاد کیں اور ان کے استعمال کے طریقے کو بیان کیا ۔اسی طرح انہوں نے ستاروں سے متعلق کتاب لکھی جس میں ان کی حرکت اور ان کی تعداد کو بیان کیا،یہ کتاب یورپی اداروں میں علمی عروج کے زمانے تک پڑھائی جاتی رہی ۔


علم ریاضی(Mathematics):اس علم میں حساب و کتاب ،جبراء اور انجینئرنگ وغیرہ کے بارے میں مدد لی جاتی ہے۔محمد بن موسی الخوارزمی نے علم ریاضی میں بے پناہ خدمات انجام دیں جن میں طاق و جفت کو بیان کرنا اور واحد و عشرہ اور سوکے خانے وجگہوں کے تعین کو بیان کرنا شامل ہیں۔اور اسی طرح دائرے کے درمیان تناسب کا تعین کا طریقہ بھی بتایا جس سے مغرب ناآشناتھے۔انہوں نے علم جبرا ء پر کتاب بھی لکھی (الجبر والمقابلہ)اسی طرح خوارزمی نے اساسیات و علامات ریاضی کو بھی بیان کیا۔مسلمانوں کے زمانے میں علم ریاضی عروج کی بلندیوں پر پہنچا۔خوارزمی کو دیکارت جوکہ مغربی ریاضی دان ہے اس پر سبقت کاملہ حاصل ہے۔اور مسلمانوں کو یہ انعام جاتاہے کہ انہوں نے صفر کے ہندسہ کو متعارف کروایا جس سے پہلے کوئی واقف نہ تھا۔علم ریاضی میں ابوالوفاء البوزجانی نے بھی خدمات انجام دیں۔اسی طرح انجینئرنگ کے شعبہ میں حسن بن الھیثم و ابوجعفر الخازن اور تیسری صدی ہجری موسی کے تین بیٹوں نے بھی حصہ شامل کیاان کے نام شاکر،احمد اور حسن ہیں۔ انہوں نے انجینئرنگ ،فلکیات اور میکانیکی پر کتب لکھیں۔
علم الجغرافی(Geography):مسلم علماء نے علم جغرافی کا بھی اہتمام کیا جس کے لیے انہوں نے سمندری و صحرائی علاقوں میں سفر کیے ،راستوں ،مسافتوں اور مختلف شہروں کے بارے میں باریک بینی کے ساتھ معلومات جمع کیں۔اسی سبب سے مختلف شہروں اور علاقوں کے نقشہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ابواسحاق الاصطخری،البلخی ،المسعودی،الخوارزمی،یعقوبی اور یاقوت الحموی وغیرہ مشہور علماء ہیں جنہوں نے علم جغرافی پر کام کیا۔الاصطخری جو چوتھی ہجری میں گذرے ہیں پہلی مرتبہ دنیا کا نقشہ بنایا اور اسی نقشہ سے بعد کے نقشہ نویسوں نے مدد لی جن میں بادشاہ صقلیہ کے مانگنے پر الادریسی نے الاصطخری کے نقشہ سے مدد لیتے ہوئے دنیا کا نقشہ پیش کیا اور اس میں اس نے زمین کے طول وعرض کو بھی بیان کیا۔مسعودی ایک مشہور مؤرخ اور معرف سیاح ہے جس کو مستشرقین نے ھیرودت العرب،بطلیموس المسلمین(یعنی ماہر فلکیات و جغرافیہ اور علم ریاضی کا ماہر) کہا ہے۔یعقوبی نے کتاب فتوح البلدان لکھی جس میں بہت سے فارس کے متعددشہروں کے جغرافیہ پر تفصیل سے بات کی۔
علم الفیزیاء(Physics):مسلمانوں نے سمند ر سے متعلق معلومات پیش کیں اس میں سمندر کے عروج و ہبوط اور پانی کی موجوں پر بات کی اسی طرح مسلمانوں نے ہواکے بارے میں بھی اپنے تجربات کو پیش کیا جس میں ہوا کی شدت ،طوفانی کیفیت اور موسم کے تغیر و تبدل میں ہوا کے کردار پر بات کی۔بارش و بادل بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرچ پر بھی بات کی۔ان علماء میں حسن بن الھیثم ،البیرونی شامل ہیں ۔مسلمانوں نے سب سے پہلے گھڑی کی سوئیاں ایجاد کی جو کہ ھارون الرشید کے زمانے جست سے تیار ہوئیں ۔زمین کی گردش پر بھی مسلمانوں نے بات کی اور معدنیات سونا،چاندی،لوہا،اور یاقوت کے وزن اور ان کی خصوصیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں بھی محنت صرف کیں۔یہ چند چیدہ مثالیں علم فیزیاء کے بارے میں پیش کیں کھلی بات ہے کہ اگر مسلمان اس میدان میں اتنا کام نہ کرجاتے تو آج مغرب علم فیزیاء میں اس مقام پر نہ ہوتاجہاں آج ہے ۔
علم نباتات و حیوان(Animals, plants):مسلمان پودوں اور حیوانات کے علم پر بھی کام کیا جیسے انہوں نے زراعت کے علم کا اہتمام کیا ۔مغرب اس بات کا اعتراف کرتاہے کہ مسلمانوں نے پودوں و زراعت کے علم میں بے پناہ خدمت کی ہے۔جس میں مصر و اندلس اور صقلیہ سے زراعت کی بہت سے اقسام منتقل ہوئیں۔مغرب نے کپاس ،گنا،لیمو اورتربوز کی زراعت سے فائدہ اٹھایا۔زراعت کے شعبہ میں اہم کتاب (الفلاحۃ الاندلسیۃ)ابی زکریا محمد بن العوام الاشبیلی کی شامل ہے۔اس کتاب میں مٹی کی اقسام و خاصیت پر بات کی اور اس میں کس چیز کے قبول کرنے کی صلاحیت ہے اور کس چیز کے قبول کرنے کی نہیں اس کو بھی بیان کیا۔اسی طرح مسلم علماء نے جانوروں کے علم پر بھی کام کیا جن میں کتابہ الحیوان لابن جاحظ،حیاۃ الحیوان الکبری الدمیری اور علاج الحیوانات للرّماح شامل ہیں۔

علم کیمیاء(Chemistry):مسلمان کمیسٹری سے بہت جلدی متعارف ہوگئے تھے اور انہوں نے اس میں اپنی محنتیں صرف کی سب سے پہلے خالد بن یزید بن معاویہ (۸۵ھ)نے اس علم میں کام کیا۔جابر بن حیان نے اس علم کے بارے میں ابتدائی و مضبوط کام کیا جس میں تجربہ کا طریقہ کار کو بیان کیا۔اس تجربے سے مشاہدہ کرنے اور نتیجہ حاصل کرنے میں آسانی ہوتی۔ اسی طرح ابن حیان نے عملی کمیسٹری میں زیادہ کام کیا اور اس کی صفات کو بیان بھی کیا۔اسی طرح دھواں،عمل کشید،صفائی اور تحلیل کو بیان کیا ۔اس میدان میں سوسے زائد کتابیں مسلمانوں نے ضبط تحریر کیا۔اسی طرح خوصیات میزان کو بھی بیان کیا گیا۔محمد بن زکریا الرازی ،یعقوب بن اسحاق الکندی نے بھی متعدد مقالات لکھے۔مسلمانوں نے کمیسٹری میں بہت زیادہ کام کیا جس سے مرکبات بوٹاشیم و سوڈیم کو ایجاد کرناشامل ہے۔اسی طرح کاربن ڈائی اکسائڈ کو شیشہ کی تیاری کے لیے استعمال کیا۔صابن و خوشبو کے لیے اشیاء ایجاد کیں۔
علم الطب(Medical science): علم الطب میں بھی مسلمانوں نے کام کیا اسلامی خلافت کے زمانے میں اطباء کی تعداد کافی زیادہ تھی ۔ جن میں مشہور طبیب رازی ہیں جنہوں نے بڑی آنت کے درد ،گردے کے درد کو بیان کیا اور اسی طرح چیچک اور خسرہ (Smallpox and measles)کے مرض کے مابین فرق کو بھی واضح کیا۔اور بعض بیماریوں کے اسباب و عوامل بھی بتائے۔ابن نفیس نے خون کی گردش (Micro-circulation)کو سب سے پہلے بیان کیا۔لسان الدین ابن الخطیب نے اندلس میں طاعون کے دوران بیماری سے بچنے کے لیے عوام کی رہنمائی کی اور ان کو طاعون سے نجات کے لیے ادویات تجویز کیں۔مسلمان کسی بھی ڈاکٹر کو بریکٹس کی اجازت نہیں دیتے تھے جب تک کے وہ اس وقت کی مشہور علم الطب کی کتب کے امتحان کے مراحل سے نہ گذرجاتا۔مسلمانوں نے علم الطب کے مجال میں تمام جہتوں سے کام کیا جس میں داخلی امراض،معدہ کے امراض ،آنتنیوں کے کیڑے اور بواسیر کو بھی بیان کیا۔سرجری سے متعلق (رازی نے کتاب الحاوی)لکھی جس میں سرجری کے آلات اور طریقہ کار پر بات کی جن میں پیٹ کی سرجری،کان میں موجود پھوڑوں کی سرجری،جنسی اعضاء کی سرجری کو ترجیحی طور پر بیان کیا ۔سرجری کے علم میں اندلس کے عالم ابی القاسم الزھراوی کی کتب سے مغرب نے پانچ صدیوں تک استفادہ کیا ۔ان کی کتب کو لاتینی زبان میں ترجمہ بھی کروایاگیا۔زھراوی نے ران و چھاتی کے ٹیومر کو بیان کیا،اسی طرح مختلف جراثیم کے علاج اور مثانے کے پتھروں اور اس کے توڑنے کے لیے دواتجویز کیں۔اسی طرح سرجری کے سلسلہ میں دوسو سے زیادہ آلات سرجری اور ان کے طریقہ استعمال کو بھی ذکر کیا۔بعدمیں آنے والے اطباء نے زھراوی سے رہنمائی حاصل کی۔آنکھوں کی بیماریوں کے بارے میں بھی مسلمانوں نے بہت کام کیا اور آنکھوں کے امراض کے علاج بھی تجویز کیے۔دانتوں کے درد اور دانتوں کی بیماریوں کو بیان کیا کمزور دانتوں کو نکالنے اور اس کی جگہ گائے کی ہڈی سے تیار شدہ دانت سونے و چاندی کے ذریعہ جوڑ کر لگانے کا کام بھی مسلمانوں نے کیا۔عورتوں اور بچوں کے امراض سے متعلق بھی تخصص کااہتمام کیا۔بچوں کی بیماریوں مثلاً غیر ارادی طور پر بستر میں قضائے حاجت کردینا،بچوں کو فالج کا ہونا،قے اورکھانسی جسے امراض کو بیان کیا اور ان کے علاج تجویز کیے۔اس سلسلہ میں (رسالۃ فی اوجاع الاطفال لابی علی بن احمد بن مندویہ الاصفھانی ۴۱۰ھ)تحریر کی گئی۔
علم الصیدلیۃ(Pharmacy):فارمیسی کے شعبہ میں بھی مسلمانوں نے کام کیا اس مجال میں کئی انکشافات بھی کیے ۔ ادویات میں بہت سی منشیات و اشیاء کا استعمال کیا جیسے ہلدی،مہندی،کافور اور جیرہ ۔ادویات کی تیاری میں نباتات ،معدنیات اور حیوانات کے مختلف مواد کو استعمال میں لایاگیا ۔رازی پہلے عالم ہیں جنہوں نے کمیسٹری کو علم الطب کی خدمت کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔کڑوی ادویات میں چینی اور سیب پھلوں کے جوس کو شامل کیا تاکہ مریض بآسانی اس دوا کو استعمال کرے۔
المستشفیات(Hospitals):مسلمانوں نے سب سے پہلے ہسپتالوں کو متعارف کروایا ۔سب سے پہلا ہسپتال اموی خلیفہ ولید ابن عبدالملک (۸۸ھ) میں دمشق کے قریب قائم کیا گیا ۔جس میں جذام(کوڑھ) کا علاج کیا جاتاتھا۔ان ہسپتالوں میں مریضوں کی سہولت کا مکمل خیال رکھاجاتاتھا ہر قسم کی ادویات دستیاب ہوتی تھیں۔مشہور ہسپتالوں میں مصر کا مستشفیٰ احمد بن طولون،دمشق کا مستشفیٰ نورالدین محمود زنگی اور مصر کا مستشفیٰ صلاح الدین ایوبی شامل ہیں۔
مندرجہ بالاتحریر پڑھنے سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ مسلمانوں نے کس قدر جدید اور دنیوی و سائنسی علوم میں اپنی خدمات پیش کیں ۔مگرافسوس ایک طرف مغرب نے یہ سب علوم مسلمانوں سے حاصل کرنے کے بعدجب پایہ عروج پر پہنچے تو مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف کرنے کی بجائے تمام ایجاداد ت مسلم کو یکسر اپنی طرف منسوب کرلیا۔اور مسلمانوں کی جانب برائیوں اور خامیوں کو منسوب کرکے ان کو علم دشمن ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔دوسری جانب مسلم علماء نے مغرب کے طعن و تشنیع سے مغلوب ہوکر بالکل سائنسی علوم سے کنارہ کشی اختیار کرلی جس سے انہوں نے اپنے اسلاف کے منہج کو چھوڑ دیا۔یہ مسلم بات ہے کہ اسلام میں علم کی کوئی ثنویت نہیں ،اسلام میں علم شرعی و علم دنیوی کی کوئی تقسیم نہیں ہے ۔قرآن مجید و احادیث نبویﷺعلم دنیوی کے تذکرہ سے معمور ہے۔جس میں سورج،چاند،ستارے،ریاضی ،اعداد اور وراثت نمایاں طور پر بیان کیے گئے ہیں۔




ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانان مسلم علم جدید سے مسلح ہوں اس سلسلہ میں قرآن و سنت کا وسعت و گہرائی کا مطالعہ بھی کریں اور اس طرح مسلمانوں کو مغرب کے رحم وکرم اور ان کی جانب للچائی نظروں سے دیکھنے کی بجائے مغرب کو مرعوب و مرغوب اور متاثر کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ مسلمانوں کو ہی اس دنیا کی حقیقی قیادت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com


پیر، 3 نومبر، 2014

نسل نو کی درست دینی راہنمائی۔۔


چند دن قبل ایک کالج طالب علم نے سوال کیا کہ میں اور مجھ جیسامعاشرے کا ایک عامی فردجب اسلام سے متعلق درست راہنمائی حاصل کرنے کی غرض سے کسی بھی عالم دین کے پاس جاتا ہے تواس سوال کے جواب پرتمام اختلافات کے باوجود باہمی اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے بجائے دینی راہنمائی دینے کے ہر ایک یہ کہتا ہے کہ میرا مسلک درست اورناجح ہے نیزاسکے ساتھ ساتھ اپنے مخالف فرقوں کی خامیوں کو بیان کرنا شروع کردیتا ہے ایسے میں مجھ سمیت معاشرے کے دیگر افراد کو کیا کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔؟؟؟اس طالب علم نے بعض علماء کرام کے نام لیتے ہوئے کہا کہ میں ان حضرات کے ساتھ ملاقات سے قبل یہ سمجھتا تھا کہ یہ گہری سوچ و فکر کے حامل علماء ہیں، مگر اس نے کہا کہ میرا یہ تصور زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا جلد ہی مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ علماء کرام بھی معاشرے میں موجود مختلف فرقوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی بو سے محفوظ نہیں ہیں،اس کے باعث میرے دل میں ان کے عزت واحترام کی جو تصوراتی عمارت موجود تھی اس کو شدیدٹھیس پہنچی۔۔۔۔۔۔!
اس طالب علم کی درددل سے بھری داستان سن کر مجھے دلی طور پر افسوس ہوامگر میں نے اس بھائی کی ناامیدی ومایوسی کو ختم کرنے اور امید کی شمع اس کے دل میں روشن کرنے کے لیے دو باتیں کہیں،جو درج ذیل ہیں:
1:میں اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عیب محسوس نہیں کرتا کہ ہمارے معاشرے کے اکثر علماء معاشرہ کے افراد کی درست سمت راہنمائی کرنے کی بجائے ان کو بین المسالک اختلافات میں الجھاتے ہیں جس کے سبب ہمارے معاشرے میں انارکی کی فضابدستور مضبوط ہو رہی ہے۔مگر اس کے باوجود ہمیں مایوس ہونے اور ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے کے بجائے خود آگے بڑھناچاہیے، الحمد للہ آج بھی اسی معاشرے میں ایسے علماء موجود ہیں کہ وہ بذات خود نہ تو کسی دوسرے مسلک پر تنقید کرتے ہیں اور نہ ہی وہ ایسے افراد کی حمایت کرتے ہیں جومعاشرے میں فروعی اختلافات کا ذکر کر کے معاشرہ میں توڑپیداکرنے کی کوشش کرتے ہیں،اس پر مستزاد یہ کہ وہ اسلام کی آفاقی وعالمی تعلیمات کو پوری انسانیت کے سامنے خلوص دل سے بیان کرتے ہیں اور اسلام کے عملی نفاذکے لیے دلی ہمدردی کے ساتھ کوشاں ہیں ۔ بین المسالک کے اختلافات کو ذکر کرنا تو در کنار یہ علماء حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ اپنا مؤقف دلائل کے ساتھ شائستہ انداز میں بیان کرتے ہوئے اپنے مؤقف کی درستگی کا فیصلہ اللہ پاک ،عوام کے باشعور وتعلیم یافتہ افراد پر چھوڑدیا جائے ۔اسلامی معاشرے کی اصلاح کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا فریضہ بھی ذمہ داری کے ساتھ اداکرنے کی روایت انہی علما کے دم قدم سے زندہ و تابندہ ہے۔میں نے اس طالب علم کو بتایا کہ ان میں سے بعض علماء جن کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حضرات فروعی ونزاعی قسم کے اختلافات کو فروغ دینے میں شامل نہیں ہیں ۔پاکستان کے علماء میں سے مولناٰمفتی تقی عثمانی ،مولناٰزاہدالراشدی ،پیرسید امین الحسناٰت شاہ ، مولناٰسید حسین الدین شاہ ،علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، انڈیا کے علماء میں سے مولناٰسید سلمان ندوی الحسینی،ڈاکٹر ذاکر نائیک اور عالمی سطح کے اسلامی سکالرز میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی شامل ہیں ،اس کے علاوہ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ جو کہ خود دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں مگر ان کے خطابات جو انہوں نے خلوص دل سے بیان کیے اور ان کی کتب جو انہوں نے دقت نظری سے لکھیں ہیں (جو مجھ عاصی سمیت ہزاروں انسانوں کی راہنمائی کا سبب بنی ہیں اور یہ بات یقین کامل کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان کی متروکہ علمی میراث حقیقت میں صدقہ جاریہ ہے) ان سے بھی استفادہ حاصل کیا جاسکتاہے۔
2:دوسری بات یہ کہ معاشرہ میں موجودعلماء کی خامیوں اور ان کی انسانہونے کے ناطے سرزد ہونے والی لغزشوں سے در گزر کرتے ہوئے ان کے مثبت افکارکولے لیں اورمنفی افکار کو ترک کردیں۔اسی طرح جب آپ دیکھیں کے کوئی عالم دین امت میں جوڑ اوراتحاد واتفاق پیداکرنے کی بجائے امت کی صفوں میں فروعی و نزاعی اختلافات کا ذکرکرکے دراڑیں ڈالنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے تو ایسے میں لازم ہے کے آپ ان کی تابعداری نہ کریں اور نہ ہی ان کے اس امر کی کسی بھی طرح حمایت کریں کیونکہ یہ امر ملت اسلامیہ کو دو لخت کرنے کا موجب ہے۔
قارئین کرام !اس بات کا فیصلہ آپ میں سے ہر فرد کرنے میں حق بجانب ہے کہ راقم اس طالب علم کی مایوسی کو ختم کرنے کے لیے کس حدتک کامیاب ہواہے،یا ناکام ہواہے ۔۔۔۔۔۔؟
آخر میں تمام مسلم مکاتب فکرکے علماء سے دست بستہ درخواست کروں گا کہ خدارا فروعی ونزاعی اختلافات کو عوام میں بیان کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کو پار ہ پارہ نہ کیجئے ۔ان اختلافات کوذکرکے آپ اپنے مسالک کی خدمت کرپاتے ہیں یانہیں لیکن یہ بات مسلم ہے کہ اسلام جو کہ ازلی وابدی دین ہے اس کو ضرور نقصان پہنچا رہے ہیں۔ملت اسلامیہ میں صحابہ کرامؓکے زمانے سے آج تک فقہی وفروعی اختلافات چلتے آرہے ہیں مگر ماضی کی اسلامی تاریخ میں کسی نے بھی ان اختلافات کی وجہ سے کبھی ملت اسلامیہ کی وحدت کو نقصان نہیں پہنچنے دیابلکہ جب بات اسلام اور کفر کی آتی تھی تو آپس میں شیر وشکر ہوکر کفر پر ٹوٹ پڑتے تھے۔اللہ عافیت میں رکھے اس امر کے واقع ہونے سے کہ اگر بد قسمتی سے آپ کے ان فروعی و نزاعی اختلافات کی وجہ سے اگر کوئی ایک فرد بھی لادین چل بسا تو سوچیں اور غوروفکر کریں کہ عنداللہ کیاجواب دیں گے۔
حضرت امیر معاویہؓ کے اس مشہورقول کو ذکر کے دیندار طبقوں سے وابستہ تمامی افراد کوبالعموم اورعلماء کرام کوبالخصوص دعوت فکر دیتاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!جب حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے مابین قصاص حضرت عثمانؓپر اختلاف ہوا تو اسلام دشمن قیصر روم نے یہ سمجھا کہ اب موقع ہے اسلامی سلطنت کو زیر کرنے کا ،اسی پس منظر میں اس نے حضرت معاویہ ؓ کو پیغام بھجوایا کہ میں حضرت علیؓ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں آپؓ میری مدد کریں ،اس پیغام کے پہنچتے ہی آپؓنے فوراًاس سازشی اسلام دشمن کو للکارااور کہا کہ ’’اورومی کتے !کیا تو اسلامی سلطنت کو نقصان پہنچانے کی تیاری کررہاہے؟ کان کھول کر سن اگر تونے اسلامی سلطنت پرحملہ کیا تومعاویہؓ ،تیرے خلاف خلیفۃ المسلمین حضرت علیؓکے لشکر میں صف اول میں نظر آئے گا‘‘۔اسی لیے اللہ پاک نے صحابہؓ کے متعلق اپنے کلام میں فرمایا ’’اشداء علی الکفار رحماء بینھم‘‘۔
دیس کی بات 
عتیق الرحمن
Email:atiqurrehman001@gmail.com
Mob:03135265617

سعودیہ عرب اورعالم عرب کی بے حمیتی


نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان کا مفہوم ہے کہ ’’ایک زمانہ آئے گا کہ عالم کفر غالب اور عالم اسلام مغلوب ہوجائے گا۔اس پرصحابہ کرامؓ نے آ پ ﷺ سے استفسار کیا ! کیا مسلمان اس وقت اقلیت میں ہو گے تو جواب میں آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ کے مسلمان اکثریت میں ہوں گے مگر دین پر عمل کرنے کو ترک کر چکے ہوں گے ایسے میں لازم ہے کہ تم کتاب اللہ اور میری سنت کو لازم پکڑے رہنا فلاح پا جاؤگے‘‘۔آپﷺ کا فرمان آج کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ دور اور زمانہ یہی آج کا زمانہ ہی ہے۔کرہ عرض پرباون سے زائد اسلامی ممالک موجود ہیں جبکہ مسلم اقوام کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زائد ہے۔ان تمام اسلامی ممالک کے پاس اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ بے پناہ نعمتوں کی فراوانی ہے۔ اللہ نے اسلامی ممالک میں تیل، گیس،سونا،زرخیز زمین،بہترین موسم،قیمتی معدنی وسائل کے ساتھ ان مسلم ممالک میں بہترین اورباصلاحیت و بہادر نوجوانوں کی کثرت عطا کی ہے۔ان اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہے کہ ان کے بینک بیلنس اکاؤنٹ امریکہ،سوئس،اور دیگر یورپی ممالک میں موجود ہیں ۔اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے شہنشاہی محلات ان کی عیاشیوں،محوومستیوں ،لہو لعب کی محفلیں جمانے کے لیے یورپ کے مہنگے ترین علاقوں میں اپنے نام کر رکھے ہیں۔مگر افسوس اس بات پر ہے کہ ان تمام نعمتوں کی فراوانی کے باوجود ان کے دلوں میں سے رب تعالیٰ کا اس کی عطاکردہ نعمتوں پر شکر گزار بندہ بننے کی بجائے یہ نافرمانی اور سرکشی میں اسی قدر زیادہ ہوچکے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی گرفت بھی اس قدر مضبوط ہے کہ ان اسلامی ممالک کے پاس تمام نعمتیں اور وسائل کی موجودگی کے باوجود ان سے براہ راست فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت سلب کرلی گئی ہے اسی وجہ سے آج عالم عرب امریکہ ،اسرائیل،،ایران اوریہود و نصاریٰ کی غلامی میں شرم ناک حد تک گہر چکے ہیں۔ مصر،شام،تیونس،یمن،بحرین،برما،عراق،افغانستان،کشمیر،اور فلسطین کی حالت زار پرسعودیہ عرب ،متحدہ عرب امارات،کویت اورعالم عرب کے تمام ممالک کی مجرمانہ خاموشی ان کی اسلام سے عملاًبے رخی ،بے حمیتی،بے غیرتی بلکہ اسلامی نظام سے کھلی دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سعودیہ عرب ،متحدہ عرب امارات،کویت اور عالم عرب اور تمام اسلامی ممالک یک جان ہوکر مصر،شام،فلسطین،تیونس،بحرین،یمن،عراق،افغانستان،برما اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے ان کی بھر پور مدد بھی کریں اور اس کے ساتھ ہی اللہ کے حضور اپنی ماضی کی کوتاہیوں پر معافی طلب کریں بصورت دیگر موجودہ ذلت و پستی جو کہ تمام اسلامی ممالک پرآج دنیا میں مسلط ہے اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب تیار ہے اس سے بچاؤ کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔حکومت پاکستان کی جانب سے مصر میں اسلام پسندوں کے حق میں بیان کا سامنے آنانیک و خو ش آئند امر ہے لیکن اسی بیان پر قناعت نہ کی جائے بلکہ جرات و بہادری کے ساتھ مصر،شام سمیت تمام اسلامی ممالک جن پراغیار کی جانب سے جنگ مسلط کی گئی ہے۔اس امر واقعہ پر امریکہ ،اسرائیل،ایران اورعالم کفر کے سامنے مظلوموں مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والوں کی دستگیری پر احتجاج بھی کیا جانا چاہیے۔ آخر میں اللہ رب العزت سے التجا ہے کہ ہم مسلمانوں کی نافرمانیوں ،کوتاہیوں اور غفلتوں کو معاف فرمائے اور تمام عالم میں مسلمانوں کی غیب سے مدد و نصرت فرمائے۔(آمین) دنیا کہ فرعون و نمرود ظلم و جور کی تمام داستانیں رقم کرنے کے باوجودیہ یاد رکھیں کہ دین اسلام اور دین القیم بہر حال غالب آکر رہے گا ۔
دیس کی بات 
عتیق الرحمن(اسلام آباد)
03135265617


اتوار، 2 نومبر، 2014

تعلیم وتبلیغ کا ایک منفرد انداز


ہر مسلمان کو اپنی روزمرہ زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کے لیے علم دین کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں دین سے گہری عقیدت اور محبت رکھنے والے دوستوں کو مختلف مسائل کا حل پیش کرنے میں اس لیے دقت پیش آتی ہے کہ ان کے پاس دین کا کافی علم نہیں ہوتا۔جدیدتعلیم یافتہ طبقہ محسوس کرتاہے کہ ان کے پاس دینی علوم کا مناسب علم نہیں اور مدارس سے فارغ احباب کو جدید علوم سے واقفیت نہیں ہوتی۔اسی طرح تبلیغ کا فریضہ انجام دینے والے احباب جس دین کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں اس کے بارے میں ان کا اپنا علم بہت معمولی ہوتاہے۔درس قرآن دینے والے اکثر متحرک بھائی علم دین کے نہایت اہم شعبوں سے آگاہ نہیں ہوتے۔مشکل یہ ہے کہ اس قسم کے قابل احترام خواتین وحضرات کے پاس روایتی انداز تعلیم کے لیے وقت نہیں ۔اس اہم دینی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دعوت فاؤنڈیشن پاکستان نے ایسا پروگرام ترتیب دیا ہے جس کے ذریعے ہر عمر کے مرد و خواتین نہایت آسان طریقے سے اپنے اپنے شوق کے مطابق گھر بیٹھے علم دین حاصل کرسکتے ہیں۔
بنیادی مقاصد:۱۔کم سے کم وقت میں دین کے بنیادی پیغام، قرآن و سنت ،فقہ وسیرت اور جدید معاشیات و سیاسیات کے مباحث سے واقفیت۔۲۔طلبہ میں دین کے مطالعہ کا گہرا ذوق پیداکرنا۔۳۔کم از کم ۳۵بنیا دی دینی کتب کا لازمی مطالعہ ۔۴۔طلبہ میں مدرس قرآن بننے کی صلاحیت پیداکرنا۔۵۔دین کی وسیع سوچ اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پیدا کرنا۔.
اس پروگرام کا زیادہ ترحصہ درس نظامی کے نصاب سے اخذ کیا گیاہے لیکن جدید سکالرز کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا گیاہے۔دوسرے لفظوں میں یہ قدیم و جدید کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔پورانصاب فہم دین کے نوحصوں پر مشتمل ہے: ۱۔قرآن حکیم۔۲۔حدیث نبویﷺ۔۳۔اسلامی فقہ۔۴۔عربی گرائمر۔۵۔سیرۃ النبیﷺ۔۶۔اسلام کا معاشی نظام۔۷۔اسلام کا سیاسی و معاشرتی نظام۔۸۔تصوف و تزکیہ نفس۔۹۔معاونات فہم دین(مثلاًاقبالیات،فن خطابت،اسلامی تاریخ ،اہم دینی موضوعات وغیرہ )
یہ تعلیمی پروگرام تین حصوں پر مشتمل ہے:۱۔تعلیم الاسلام سرٹیفیکیٹ،کورس (مکمل)۔۲۔ڈپلومہ فاضل علوم اسلامی۔۳۔اسناد فضیلت (الاستاذ،رئیس الاساتذہ)۔مندرجہ بالا ۹حصوں پر مشتمل نصاب مکمل کرنے کے لیے کم از کم۳۵کتب کا مطالعہ ایک منظم طریق کار سے کرنا پڑے گا۔۳۵کتب میں سے ۱۳کتب تعلیم اسلام سرٹیفیکیٹ میں پڑھنی ہوں گی جبکہ بقیہ کتب ڈپلومہ فاضل علوم اسلامی کے لیے پڑھنا ہوں گی۔اسناد فضیلت کے لیے مرحلہ وار۴۵ کتب پڑھنا ہوں گی۔ڈپلومہ کے بعد الاستاذ کے لیے ۱۵اور رئیس الاساتذہ کے لیے ۳۰پڑھنا ہوں گی ۔۷۰ سے زیادہ شائقین علم نے ملک کے طول عرض سے انفرادی طورپر داخلہ لیا ہے ۔علاوہ ازیں دینی مدارس کے ۳۷اساتذہ بھی یہ نصاب پڑھ رہے ہیں۔
اوپردئیے گئے چار کورس اور مبلغ اسلام اور مدرس قرآن کورس ،شارٹ کورسز ہیں جن کی مدت ۶ماہ سے ایک سال ہے جبکہ مربی کورس ایک لانگ کورس ہے جوتین سال کے عرصہ پر محیط ہے ۔لانگ کورس کے لئے نہ تو خلاصہ لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی پیشکش کی۔کتاب پڑھ کر ایک حلف نامہ دیناہوگا کہ طالب علم نے یہ کتاب سمجھ کر پڑھ لی ہے۔ اس کورس میں تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی۔
عام طورپر تربیت دینے والے کومربی کہتے ہیں لیکن اصطلاحی معنوں میں مربی ایک ایساشیخ ہے جو بلند پایہ عالم اور روحانی شخصیت ہو۔ہمارے نزدیک مربی ایک ایسا شخص ہے جو صاحب علم بھی ہو اوراپنی تمام زندگی علم سے محبت میں گذارنا چاہتاہو،روحانی طورپروہ اپنے اللہ سے مضبوط تعلق استوار کرناچاہتاہواور ذکر وفکر سے مسلسل اس تعلق میں اضافہ کرنے کا خواہشمند ہو۔اپنے تمام علم اور روحانی بالیدگی کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کی بجائے اسے دوسروں تک پھیلانے کی ذمہ داری بھی قبول کرے۔اسے اپنی نمود ونمائش کی بجائے خالصتاًاللہ کی رضامطلوب ہو۔وہ نہ تودنیاوی جاہ وجلال کا پجاری ہواور نہ اپنی کرامات سے اپنے لئے عقیدت و احترام پیداکرنے کا خواہش مند ہو۔
حفظ کرنے والے بچوں اوردین کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا دینی علم نہ ہونے کے برابر ہے ۔اسی طرح ہمارے مڈل اور ہائی سکولوں کے طلبہ وطالبات کے لیے اسلامیات کی تعلیم انتہائی ناکافی ہے ۔انگلش میڈیم کے طلبہ وطالبات کی حالت انتہائی قابل رحم ہے ۔وہ دن بدن قومی زبان اور دینی تعلیم سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے تعلیم الاسلام سرٹیفیکیٹ کورس(ابتدائی) متعارف کروایاگیا ہے جس کے تحت مندرجہ ذیل سات کتب پڑھائی جاتی ہیں:
(۱) رحمت عالمﷺ،(۲) اہم دینی مسائل،(۳) چہل احادیث(امام نووی)،(۴) مسدس حالی،(۵،۶) گلستان و بوستان(شیخ سعدی)اور (۷) منتخب کلام اقبال۔
اس تعلیم کے لیے بچے کو نہ تو حفظ ،ناظرہ یا کوئی دوسری دینی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑتی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے مدرسے میں جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس پروگرام کے لیے دن میں صرف ایک گھنٹہ دینے کی ضرورت ہوگی اور جس مدرسہ میں بچہ پڑھ رہاہوگا اس کے اساتذہ ہی یہ کورس پڑھائیں گے۔بچوں کو مفت کتب اور اساتذہ کو معقول وظیفہ دیاجاتاہے۔ترجیح یہ ہے کہ پسماندہ علاقوں کے بچے اس پروگرام سے زیادہ استفادہ کریں۔سکولوں اور کالجوں کے طلبہ بھی اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس وقت صوابی،درگئی،چارسدہ،سوات،نوشہرہ اور دیگر اضلاع کے۲۶مدارس کے ۸۱۵طلبہ و طالبات دعوت فاؤنڈیشن کا نصاب پڑھ رہے ہیں جن میں مڈل اور ہائی سکول بھی شامل ہیں ۔اب تک ۱۸مدارس کے ۵۲۴طلبہ وطالبات ابتدائی کورس مکمل کرکے اسناد حاصل کرچکے ہیں۔بے شمار مدارس اور سکول یہ نصاب پڑھنے کے لیے دوردراز علاقوں سے رابطہ کررہے ہیں۔اس کام کو فوری طور پر کم از کم چارگنا بڑھانے کی گنجائش ہے۔آہستہ آہستہ اسے پورے ملک میں پھیلایاجائے گا۔مربی والے کورس میں ملک کے طول وعرض سے ۶۱طلبہ و طالبات اب تک داخلہ لے چکے ہیں۔دیگرکورسوں میں انفرادی طورپر داخلہ لینے والوں کی تعداد۷۰ہے۔


الحمدللہ ادارے کا تعلیمی بورڈ ایسے فاضل علما اور دانشوروں پر مشتمل ہے جن کا علمی مرتبہ اپنے اپنے حلقوں میں مسلّمہ ہے ۔مختلف مسالک اور اعلیٰ علمی حلقوں سے متعلق تعلیمی بورڈ کے ارکان یہ ہیں:
۱۔ڈاکٹر سہیل حسن ،صدر شعبہ قرآن و سنت ادارہ تحقیقات اسلامی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔۱۔صاحبزادہ ڈاکٹر ساجد الرحمن ،سابق ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈمی و نائب صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔۳۔علامہ ابوعمار زاہدالراشدی،صدر شریعہ اکادمی گوجرانوالہ۔۴۔جناب خلیل الرحمن چشتی،(دینی سکالر و مصنف )۔۵۔جناب اکرام اللہ جان ،ڈائریکٹر جنرل(ریسرچ اینڈ ریفرنس)وزارت مذہبی امور،حکومت پاکستان اسلام آباد۔۶۔پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم،صدر شعبہ عربی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔۷۔شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک،صدر جمعیت اتحادالعلماء پاکستان و سابقہ ممبر قومی اسمبلی۸۔حافظ عاکف سعید،امیر تنظیم اسلامی پاکستان۔(جانشین،ڈاکٹر اسراراحمدؒ )۔۹۔ڈاکٹر ایس ایم زمان،سابق چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد۔۱۰۔ڈاکٹر حافظ سید زاہد حسین،امیر تحریک اسلامی پاکستان۔۱۱۔قاری حنیف جالندھری،جنرل سیکریڑی وفاق المدارس پاکستان۔۱۲۔ڈاکٹر نجم الدین،سیکرٹری جنرل ،تحریک عظمت اسلام،پاکستان۔۱۳۔مولانامحمد صدیق ہزاروی،شیخ الحدیث جامعہ ہجویریہ،لاہور۔۱۴۔ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم بھی ادارے کے تعلیمی بورڈ کے رکن رہ چکے ہیں۔
محمد الیاس ڈار ،سابق جوئنٹ سیکریٹری(زکوٰۃ وحج وعمرہ)،سابق ڈائریکٹر جنرل سیکریٹریٹ ٹرنینگ انسٹی ٹیوٹ ،حکومت پاکستان،اسلام آباد فاؤنڈیشن کے چئیرمین ہیں اور بلحاظ عہدہ تعلیمی بورڈ کے رکن ہیں۔
تمام کورسز کے امتحانات کا طریق کار نہایت سادہ اور آسان ہے۔ہم ’’ایک وقت میں ایک کتاب‘‘ پڑھاتے ہیں۔طلبہ کتاب مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ابواب یا صفحات کا خلاصہ لکھتے جائیں یا چارپانچ اشخاص کے کسی بھی حلقے میں ان کو زبانی پیش (PRESENTATION)کریں اور تاریخ وار اس کا ریکارڈ اپنے پاس رکھیں۔کتاب مکمل ہونے پر خلاصہ یا تاریخ وار پیشکش کا ریکارڈ بھیجیں۔جواب کا انتظار کیے بغیر اگلی کتب کا مطالعہ شروع کردیں۔ اس کے علاوہ کسی امتحان یا ٹیسٹ کی ضرورت نہیں۔متعلقہ نصاب کی تکمیل پر تعلیم الاسلام سرٹیفیکیٹ،ڈپلومہ فاضل علوم اسلامی ،اسناد فضیلت ،مدرس قرآن سرٹیفیکیٹ،مبلغ اسلام سرٹیفیکیٹ اور مربی کی نہایت قابل قدر اسنادعطاکی جائیں گی جن کی قبولیت کی ضمانت تعلیمی بورڈ کے فاضل ارکان کے اسمائے گرامی ہوں گے۔
نہایت اہم بات یہ ہے کہ طلبہ وطالبات مندرجہ بالا کتب انفرادی طور پر بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن اپنے آپ کو ایک نظم کا پابند کرنے اور ایک اعلیٰ سطح کے ادارے کی راہنمائی میں قدم بہ قدم جو علم وہ حاصل کریں گے وہ انفرادی طورپر ممکن نہیں۔ایک بڑامقصد حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنے آپ کو چند ماہ کا پابند بنا ناہوگا ۔اس سے وہ جو علم 
سیکھیں گے اس کا اندازہ ا نہیں چند ہفتوں کی محنت سے ہوجائے گا۔
مندرجہ بالاسطور سے قارئین کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ایک منظم انداز سے علم دین پھیلانا کس قدر اہم تبلیغی اورتعلیمی خدمت ہے جس کے لیے دین سے محبت رکھنے والے تمام اہل خیر کو پاکستان سے بھرپور تعاون کے لیے آگے بڑھنا چاہئیے اس کے علمی پروگراموں سے خود بھی استفادہ حاصل کرنا چاہئیے اور اپنے اردگر افراد واہل خانہ کو بھرپور انداز سے ترغیب دینا چاہئیے ۔وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ محسوس کریں گے کہ یہ کام تعلیم وتبلیغ کا ایک منفرد انداز ہے جس کا اجررب ذوالجلال کے پاس ہے۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com