اتوار، 28 دسمبر، 2014

اسلام میں نہیں۔۔۔۔۔۔!

ایک آدمی اپنے پرانے دوست کے ساتھ خوشگوار ماحول میں بیٹھاہوا تھا۔اس نے اپنے دوست سے کہا کہ ہماری دوستی کو ایک طویل مدت بیت چکی کیوں نہ ہم اس کو مزید مضبوط و گہرا بنائیں تو اس نے کہا میں چاہتاہوں کہ آپ کی بیٹی کے ساتھ میرے بیٹے کی شادی ہوجائے۔اس پر دوسرا دوست خوش ہوا اور اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں اس طرح تو ہم ایک دوسرے کے مزید قریب آجائیں گے ۔پھر اس نے پوچھا آپ کا بیٹاکہاں ہوتا ہے؟پہلے دوست نے جواب دیا کہ وہ کینڈاا میں پانچ سال سے تعلیم کے سلسلہ میں مقیم ہے۔تو اس نے پوچھا کب واپس آئے گا تولڑکے کے باپ نے جواب جواب دیا معلوم نہیں۔ اس پر لڑکی کا باپ اللہ برکت دے کہتے ہوئے مجلس سے اٹھا اور گھر آیا توخوشی کے ساتھ اعلان کیا کہ میں نے بیٹی کا رشتہ طے کر دیا ہے اپنے دوست کے بیٹے کے ساتھ اس پر گھر میں بے حد خوشی منائی جانے لگی اسی اثنا میں لڑکی گھر میں داخل ہوئی ،وہ گھر میں ماحول مسرت دیکھ کر متعجب ہوئی اور اس نے سبب پوچھا تو اس کی ماں نے بتایا کہ تمہاری وجہ سے یہ خوشی ہو رہی ہے ، تیرا رشتہ طے کردیا گیا ہے ۔اس پر حیرت و غصہ کے ساتھ لڑکی بلند آواز کے سے چیخی!
لڑکی نے بہت کوشش کی کہ وہ یہ رشتہ مسترد کردے مگر وہ کامیاب نہ ہوسکی۔معاشرے میں زمانہ جاہلیت کی قبیح رسمیں موروثی طور پر چل رہی ہیں۔لڑکے کے باپ نے لڑکے کو پیغام بھیجا کہ ہم نے تیرا رشتہ دوست کی بیٹی سے طے کیا ہے تو جواب میں بیٹے نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک لڑکی کو نہ میں جانتاہوں اور نہ ہی میں نے دیکھا اسے اور آپ نے میرا رشتہ طے کردیا !!تو اس پر باپ نے کہا کہ والد کی نافرمانی نہ کرو میں حکم دیتاہوں یہ رشتہ ہوکر رہے گا۔اس پر لڑکے نے جواب دیا کہ میں نہیں آؤں گا بلکہ یہیں کینڈامیں ہی رہوں گا ۔دوسری طرف لڑکی بے اطمینانی کے ساتھ دوامور میں سے کسی ایک کے ہونے کا انتظار کررہی تھی یا تو اس کا منگیتر آجائے اور اس سے کراہیت کے ساتھ شادی کرلے یا پھر اس کے مرنے کی خبر آجائے جس سے وہ سوکھ کا سانس لے سکے۔
ہم یہ پوچھتے ہیں کیا یہ رویہ مسلمانوں کے اخلاق میں سے ہے؟اسلام نے شادی سے قبل لڑکی و لڑکے کو دیکھنے کی اجازت کیوں دی؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کو اپنی رفیقہ حیات کو اختیار کرنے سے پہلے دیکھنے کا حکم دیا کیوں کہ انہوں نے ایک طویل عمر رفاقت اختیارکرنی ہے۔ہم کیا کررہے ہیں اور کیسے کررہے ہیں جبکہ اسلام نے عورت کو جو آزادی دی اس کا احترام کہاں گیا؟بہت سے غبی اذہان حق سے روگردانی اختیار کرتے ہیں اور اپنی عادات و تقالید کو دین حنیف سے مقدم رکھتے ہیں گویا کہ دین حقیقی کسی اور قوم کے لیے آیا ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک آدمی جو کبھی تعلیمی ادارے میں داخل نہیں ہوا اور وہ بنک میں معمولی درجے کی ملازمت کرتاہے(ہم کسی بھی صورت کام کا مذاق نہیں اڑاتے اور نہ تحقیر کرتے ہیں)وہ اپنی کزن سے شادی کرنے کی خواہش رکھتاتھاجو کہ تعلیمی ادارے میں معلمہ کے منصب پر فائز تھی،لڑکی کا باپ اپنی بیٹی کی شادی اس کے ساتھ کرنے پر راضی ہوجاتاہے باوجود اس کے کہ ان دونوں کا جوڑ نہیں بنتاکیوں کہ وہ آدمی علم میں لڑکی سے کم درجے میں ہے۔۔۔احناف شادی میں برابری کو مدنظر رکھتے ہیں تاکہ لڑکی اپنے سے کم درجے علمی و مالی اعتبار سے شوہر کا استہزاء و تمسخر کے ساتھ پیش نہ آئے۔اگر ایسا ہوجائے تو یہ ہوگا کہ بچے والد کو جاہل اور والدہ کو تعلیم یافتہ پائیں گے جب کہ ضروری ہے کہ والد صاحب علم ہوتاکہ بچوں کی تربیت و نشونما پر اچھا اثر پڑے۔۔۔۔۔۔اس جبری شادی سے کیا فائدہ ہوگا جب کہ لڑکی سے اس کا شوہر کم درجے کا ہو ؟؟؟
یہ جبر و زبردستی اور دین کی تعلیمات سے پہلو تہی بہت قبیح عمل ہے۔دین متین سمجھانے والے کہاں چلے گے خاص طور پر علمائے احناف جو کہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر جبرا کسی کی شادی کی جائے تو ایسا ہے گویا کہ ہوئی ہی نہیں کیوں کہ یہ صرف شادی نہیں بلکہ اس پر بہت سے دیگر امور بھی مرتب ہوتے ہیں۔کاش کہ ایسا نہ ہوتا کہ یہ لوگ دین کے ترجمان ہوتے کیوں کہ ان کے سبب اسلام بدنام ہورہاہے ۔یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن ان کا دین حقیقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔شرح طلاق کی کثرت و زیادتی کا سبب بھی یہی ہے ،ان لوگوں کا فہم مبنی پر خطاء ہے یعنی لڑکی کی زبردستی شادی یا اس کے علم کے بغیر اس کا رشتہ طے کردینا۔۔۔ہم نہیں جانتے کہ لوگ کب تک دین کی حقیقی تفہیم اور اس کی روح سلیم سے جاہل رہیں گے!!
ڈاکٹر خالد فواد الازہری

انسان کمزور پیدا ہوا ۔۔۔مگر!

ایک آدمی بہت زیادہ نشہ کرتاتھا،ہمیشہ وہ نشہ کی حالت میں گرفتارہوتاتھا۔ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو وہ حالت نشہ میں تھا۔حاضرین میں سے ایک نے کہا کہ ’’لعنت ہوتم پر ہمیشہ سزاکے لیے اس حالت میں لائے جاتے ہو‘‘۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناراض ہوئے اور آپ نے فرمایاکہ’’ تم اس کو ملامت نہ کرو !برابھلانہ کہو!کیوں کہ یہ اللہ اور اس کے پیغمبرﷺ کو پسند کرتاہے‘‘۔بہت سے علما ء نے اس واقعہ کو تعجب و حیرت سے لیا اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک آدمی اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہواور پھر بھی نافرمانی کرے ؟کسی پر حکم اس کے ظاہر کو دیکھ کر نہیں لگایا جاسکتابلکہ ہمیشہ کوئی بھی حکم انسان کے باطنی اعمال پر مرتب لگایا جاتاہے،کوئی بھی کسی انسان کی اندرونی کیفیت کو نہیں جان سکتا۔ممکن ہے کہ ایک آدمی نماز و روزوں کا پابند ہو لیکن اس کا دل تاریکیوں سے معمور ہو۔مگر وہ دوسروں پر یہ حکم لگاتاہو کہ وہ مرتد ہے یا اسلام سے خارج ہے۔ممکن ہے کہ وہ گناہوں میں اس قدر لت پت ہو کہ وہ ان سے دامن نہ بچاسکے جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ایمان کم و زیادہ ہوتارہتاہے ،ایمان کی کیفیت و حالت میں زیادتی عبادات کے دوام کے ساتھ دل کی صفائی کے ساتھ ہوتی ہے،جب کہ ایمان میں کمی و تخفیف دل کی سختی و برے اعمال کے سبب ہوتی ہے۔

امام ابوحنیفہ ؒ کے خواب میں ایک نشہ کرنے والاآیا تو اس کو جنت میں پایا ،انہوں نے اس کی بیوی سے پوچھا کہ تمہارا شوہر کیا عمل کرتاتھا کہ وہ جنت میں ہے تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس کا ویسے تو ایساکوئی خاص قابل ذکر عمل نہیں ہے،البتہ جمعہ کے دن یتیم و مساکین کو کھانا کھلاتاتھا اور اسی طرح ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتاتھا اور روتاتھااور ان سے کہتا تھا کہ میرے لیے دعاکیا کرو۔امام ابوحنیفہ ؒ نے کہا کہ یہ آدمی مقبول القلب ہے یعنی کہ اس کا عمل عنداللہ پسند کیا گیاہے اس کی نیک نیتی اور دل کی صفائی کے سبب۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم کسی گناہ گار پر سب و شتم نہ کریں اور نہ ہی اس پر اترائیں یا اس کو حقارت کی نظر سے دیکھیں کیوں کے ہمارے عیوب پر اللہ تعالیٰ نے پردہ داری کی ہوئی ہے اگر وہ لوگوں پر منکشف ہوجائیں تو اس کے بعد زندہ رہنے کو عذاب تصور کریں۔زیادہ نماز و روزے رکھ کر تکبر و غرور کو ہر گز نہ اختیارکریں کیوں کہ یہ کون جانتاہے کہ اللہ کے ہاں کون مقبول و محترم ہے۔
ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تو اس پر حد جاری کی گئی اس موقع پر ایک صحابی نے اس عورت کو برابھلاکہا تو آپﷺ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا’’کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر یہ زمین والوں پر تقسیم کردی جائے تو سب کو کافی و شافی ہوجائے‘‘بیشک وہ عورت صدق دل سے اللہ رب العزت سے اپنے گناہ سے درگزر و مغفرت کی امید رکھتی تھی ۔یہاں پر بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس علم تو ہے مگر اسی کے ذریعہ سرکشی کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہی علم بعض کو گمراہ بھی کرتاہے ۔وہ علم جس سے انسان سرکشی کا مرتکب ہوتاہو وہ ایسے ہے کہ انسان کے پاس علم تو ہو مگر اس کا دل ایمان سے خالی ہو۔۔۔ایسی عبادت جو بلاتاثیر ہو یعنی اس میں کچھ حقیقت نہ ہو۔
حدیث میں ہے کہ نبی کریم8 صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ ابھی جو آدمی آپ پر داخل ہوگا وہ جنتی ہے۔جب وہ آیا تو صحابہ نے دیکھا کہ وہ بہت عاجز انسان تھااور اس کو جانتے بھی نہیں تھے ۔آپﷺ نے اپنے اس موقف کا متعدد بار اظہار فرمایا تو حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے اس آدمی کا تعاقب کیا اور اس کے گھر تک گئے تین دن تک اس کا جائزہ لتے رہے مگر کوئی امتیازی بات نظر نہ آئی کیوں کہ وہ عشا کی نماز کے بعد سوجاتاتھا اس میں کوئی ایسی صفت نہ تھی جو اس کو دوسروں سے ممتاز کرے تو بلآخر حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے اس سے پوچھ لیا کہ کیا بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنتی قرار دیا اس کا کیا سبب ہے تو اس نے جواب دیا کہ ویسے تو کوئی خاص عمل نہیں میرا البتہ میں رات کو جب سوتاہوں تو میرے دل میں کسی انسان کے خلاف کوئی بات نہیں ہوتی۔
روزقیامت جب حقائق ظاہر ہوں گے تو آنکھیں مارے تعجب کے تھرتھرا جائیں گی۔بعض گروہ جو صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوگے وہ جہنم کے گھڑے میں نظر آئیں گے اور دوسرا گروہ جس کو سماج اہل شر میں سے سمجھتاہوگا وہ جنت میں موجود ہوگا ۔۔۔۔بے شک اللہ کے ہاں کوئی عمل تب تک قابل قبول نہیں جب تک کہ وہ قلب سلیم سے جاری نہ کیا گیا ہو۔ 
تحریر:ڈاکٹر خالد فوادالازہری 

بہت سے لوگ ابھی تک اسلام کے فروغ سے متعلق غلط تعبیرو تفسیر پیش کرتے نظر آتے ہیں،اسلام دشمن ببانگ دہل یہ کہتے ہیں کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا جب کہ باعث حیرت امر یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مصدر اساسی قرآن پاک میں تلوار کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ہم نہیں جانتے کہ یہ لوگ کیوں مصر ہیں کہ اسلام نے جبر و زبردستی اور تلوار کے زور پر غلبہ حاصل کیا اور دنیا بھر میں پھیلا۔درحقیقت اس امر سے اسلام کی صحیح تصویر کو مجروح کرنے کی مشتبہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اسلام کے فروغ سے متعلق امر ماقبل تفسیر کے بالکل برعکس ہے ۔بہت سے مسلمانوں کو کفارمکہ و مشرکین کے ہاتھوں مصائب و مشکلات اور سزاؤں کا صرف اسلیے سامنا کرنا پڑا کیوں کہ انہوں نے برضا و رغبت اسلام کے دامن عافیت میں پناہ حاصل کی۔ بتایا جائے ان پہلے مسلمانوں پر تلوار کس نے اٹھائی جن میں ابوبکر و عمر ،عثمان و علی؟؟ ان کو کس بات نے مجبور کیا کہ وہ اسلام قبول کریں۔۔۔۔۔۔؟؟جبکہ دوسری جانب کمزور مسلمانوں کو جنہوں نے اسلام قبول کیا مشرکین مکہ نے زیر عتاب کرکے ان پر ظلم و جور کی انتہائی حدوں کو کراس کیا ،ان مظلوم صحابہ کرامؓ میں حضرت بلال بن رباحؓ،خاندان یاسرؓ اور ان کی اہلیہ حضرت سمیہؓ پر کس قدر مظالم ڈھائے گئے۔جبکہ تصویر کا ایک اور رخ دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ فتح مکہ کے بعد عرب قبائل اپنے شوق و رغبت سے اسلام میں جوق در جوق داخل ہوئے جبکہ ان پر تو کوئی قوت جبر کرنے والی یا ان پر تلوار اٹھانے والی نہ تھی۔ اسی طرح مدینہ کے گرد عرب قبائل نے بھی اسلام کو اپنا اوڑھنا پچھونا بنانا شروع کیا۔اسی سبب ۹ہجری کو عام الوفود کہتے ہیں کہ عرب قبائل پے در پے حضورﷺ کی دست حق پر بیعت کرنے حاضر ہوتے تھے۔
اسلام نے تلوار اٹھانے کی اجازت مشروط دی ہے کہ جب کوئی دین اسلام کی دعوت جو کہ عین فطرت ہے کے راستے میں رخنہ ڈالے یا پھر مسلمانوں پر کوئی دست درازی کرے۔اس کے سوا اسلام نے تلوار کو اختیار کرنے کی کوئی اجازت نہیں دی۔قرآن پاک کی سورۃ انفال ’’اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا وان اللہ علیٰ نصرھم لقدیر،الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع بیع وصلوات و مساجد یذکر فیھااسم اللہ۔۔۔‘‘میں جنگ کی اجازت سے متعلق امر ثابت ہے لیکن اس میں جس سبب کو بیان کیا گیاہے کہ مسلمانوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ قتال کریں ان لوگوں سے جو ان کے اوپر ظلم ڈھاتے ہیں ،قتال کا حکم اس لیے دیا جاتاہے کیوں کہ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے صرف اس لیے نکال دیاگیا کہ وہ اللہ کو اپنا رب مانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!اس آیت میں قتال یا جنگ کا حکم دیا گیا ہے اگر ہم اس کو دیکھیں تو اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو قتال کی اجازت دی ہے مطلب یہ کہ جنگ یا قتال اسلام میں اصل نہیں ہے بلکہ ضرورت کے وقت اس کی اجازت دی گئی ہے کیوں کہ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے ،ان کے مال و متاع سے ،ان کو اپنے وطن سے محروم کردیا گیااس کے ساتھ مسلمانوں پر گاہے بگاہے متعدد طرق سے مظالم ڈھائے جاتے تھے اور دعوت اسلام کے راستے کو مسدود کیا جاتاتھا تو ایسے میں اجازت قتال صرف نقصان و ضرر کو دور کرنے کے لئے اجازت دی گئی اوریہ نقصان و ضرر دور کرنے کا سوائے قتال و جنگ کے کوئی راستہ موجود نہ تھا۔
ہم کیسے مان لیں مان لیں کہ اسلام بزور تلوار کے فروغ پایا قرآن پاک کی سورۃ بقرۃ میں ارشاد ہے کہ’’لااکراہ فی الدین قد ربین الرشد من الغی‘‘کہ ’’دین میں اجبار نہیں تحقیق ہدایت کو بیان کیا جاتاہے گمراہی کے مقابل‘‘ہم کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام صرف دورست و غلط،حق و باطل کے درمیان فرق کو واضح کرتاہے اس کے بعدانسان کے سامنے اختیار چھوڑدیتاہے کہ چاہے تو وہ حق کو اختیار کرے اور اگر چاہے تو گمراہی کو اپنائے۔اسی بات کو دوسری آیت میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ’’قل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن و من شاء فلیکفر‘‘ کہ’’کہہ دیجئے کہ حق اللہ کہ پاس ہے چاہو تو ایمان لاؤ اور چاہوتو انکار کردو‘‘مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتاکہ مسلمان صرف دعوت اسلام کو بیان کرنے ظاہر و واضح طور پر بیان کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں اس کے بعد انسان کو اختیار دے دیا جاتاہے وہ چاہے تو اسلام کے پیغام کو قبول کرے اور چاہے تو انکار کرے۔
چلیں اگر مان لیا جائے کہ اسلام جزیرۃ العرب اور اس کے اطراف میں تلوار کے زور پر پھیلا تو بتائیں کہ مشرق و مغرب ،ایشیاء و افریقہ میں اسلا م کیسے پھیل گیا یہاں تو کوئی عرب لشکر قتال کی غرض سے نہیں آیا بلکہ یہاں تو عرب تاجر تجارت کرنے آتے تھے تو یہاں اسلام تاجروں کے ذریعہ پھیلا کیوں کہ ان کے اخلاق و کردار ان کے حسن معاملہ و امانت و دیانت جو کہ ان کو اسلام کے صدقے ملی تھی کو دیکھ کر ایشیاءء و افریقہ کے لوگوں نے اسلام کو اپنے زندگی کا مقصد بنالیا۔اس کی دوسری مثال سے سمجھیں کہ حضرت عمروبن العاصؓ نے جب مصر کو فتح کیا تو انہوں نے وہاں کے باشندوں کی اکثریت جو کہ عیسائی مذہب کے پیروکار تھے ان کو اسلام میں داخل ہونے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا بلکہ جن لوگوں نے مصر میں اسلام قبول کیا وہ ان کی ذاتی رغبت و خواہش تھی اور یہ ان جزیرۃ العرب سے آنے والے داعیوں کی عملی دعوت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئے۔اگر ایسانہ ہواہوتاتو آج مصر میں ایک بھی عیسائی قبطی موجود نہ ہوتااس سے واضح درس و پیغام ملتا ہے کہ اسلام نے مصر میں کسی پر جبرا اپنے پیغام کو مسلط نہیں کیا۔اسی طرح مسلمانوں نے جب عالم پر قیادت کی توکیسے مان لیں کہ وہ لوگوں پرقبول اسلام فرض یا لازم کرتے تھے کہ آپ اسلام کو قبول کرو جب کہ ان سے اسلام ان کی خدمت و حفاظت کی مد میں جزیہ یعنی ٹیکس وصول کیا جاتاتھااس سے ثابت وہوتاہے کہ وہ لوگ اپنے ادیان پر قائم تھے مسلمانوں کی مملکت کے رہنے کی وجہ سے جزیہ بھی دیتے تھے ان کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گای۔
مندرجہ بالا حقائق سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اسلام نہ تو تلوار کے بل پر پھیلا اور نہ ہی اسلام کسی کے خون ناحق کے بہانے کو جائز سمجھتابلکہ اسلام تو امن و سلامتی اور دائمی کامیابی و کامرانی کی طرف دعوت دیتاہے اور اسلام کے پیغام سے فطرت سلیم اتفاق کرتی ہے ،اسلام سوچنے و سمجھنے ،غور و فکر کرنے والے ذہنوں کو دعوت دیتاہے ،انسانیت کے مقام کو بلند کرتاہے اور اللہ پاک نے جو قانون دنیا ترتیب دیا ہے اس کی جان صرف اسلام ہی ندا دیتا ہے۔ 
ڈاکٹر عبدالحمید سیف الازہری
03135265617

جمعہ، 26 دسمبر، 2014

قوم کا روشن مستقبل ۔۔۔حاجی عبدالحکیمؒ ٹرسٹ




تاریخ شاہد ہے کہ جس بھی معاشرے نے ترقی کی ہے اور دنیا پر قیادت کی ہے اس کے پس پردہ اس کی نوجوان نسل کا ہاتھ نظر آئے گا ۔مسلمانوں نے اپنے زمانے حکومت میں اپنے نوجوانوں کی تربیت کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جن میں سب اول یہ تھا کہ تعلیم کو ہر مرد وعورت پر لازم قرار دے دیا اور اس مشروعیت کی عملی تصویر بدر کے قیدیوں کو مسلمانوں کے بچوں تعلیم دینے کا فدیہ مقرر کیا گیا اور زمانہ عروج میں مسلم خلفا نے تعلیم گاہیں قائم کیں اور اس میں حصول تعلیم کے لیے آنے والے طلبہ اور اساتذہ جواپنا علم قوم کے مستقبل تک پہنچاتے تھے ان کے گذر بسر کا خرچ اسلامی حکومت نے اپنے ذمہ لیا ۔اسلام میں تعلیم کی اہمیت و ضرورت مسلم ہے قرآن میں جابجا عالم اور جاہل کے فرق کو بیان کیا گیا ہے ،حصول علم کی ترغیب دی گئی ہے انسان کو دیگر مخلوقات پر برتری بھی اسی علم کے سبب عطاہوئی۔البتہ یہ ضرور ہے کہ اسلام صرف کتابوں کو رٹنے یا بھاری بھر ڈگریاں جمع کرنے کی چنداں حمایت نہیں کرتا بلکہ اس علم پر عمل کرنے اور اس پر غور و فکر کرنے اور اس کے انتقال کی اہمیت کو لازمی قرار دیتاہے۔
مرور زمانہ کے ساتھ مسلمان علم کی دنیا میں پیچھے رہ گئے اسی سبب سے مسلم امہ زوال پذیر ہوئی اور دشمن ہم پر غالب آگئے کیوں کہ انہوں نے علم کی دنیا میں بتدریج ترقی کی۔مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتی مگر افسوس ایسا نہیں ہوا اگر بیت المال یا کسی دیگر معاونتی فنڈ کے ذریعہ سے مدد کا پروگرام شروع بھی کیا جاتاہے تو وہ سفارش و تعلقات کی نظر ہوکر غیر مستحقین افراد کو نوازا جاتاہے۔اس سبب سے بہت سے مستحق و نادار اور باصلاحیت طلبہ علم کے حصول سے محروم کیے جاچکے ہیں۔ایسے میں بعض رفاہی ادارے انفرادی طور پر نادار طلبہ کی مددکرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ایسے ہی ایک ادارے سے میرا تعارف بذریعہ استاد محترم وقار فانی مغل (سب ایڈیٹرروزنامہ نوائے وقت) حاجی عبدالحکیمؒ ٹرسٹ سے ہوا ۔چونکہ میرے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں بے پناہ روکاوٹیں حائل ہوچکی تھیں بلآخر حاجی عبدالحکیمؒ ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرنل(ر) محمد یونس اعوان صاحب نے میری مدد کی۔اس سبب سے میرایہ فرض بنتاہے کہ میں ان کے اس للہ فی اللہ احسان عظیم کے اعتراف میں ان کے کارخیر کے تذکرہ کروں۔مندرجہ ذیل میں حاجی عبدالحکیمؒ ٹرسٹ کا تعارف اور اس کی ۲۰۱۴ ؁ء کی سرگرمیوں کا تعارف و جائزہ پیش کرتاہوں۔
حاجی عبدالحکیمؒ ٹرسٹ (رجسٹرڈ) راولپنڈی ایک غیر سیاسی، غیر گروہی ، غیر لسانی ویلفئیر (رجسٹرڈ) ٹرسٹ ہے جو صرف \" اللہ کی رضااور انسانیت کی خدمت \" کے لئے معرض وجود میں آیا۔ اسکی سرگرمیوں کا آغاز 8 اکتوبر 2005 تحصیل بالاکوٹ ، اس کے مشہور گاؤں بھنگیاں ، جوسچہ ، اربن اور گردونواح میں زلزلہ سے متاثر مفلس و نادار افراد کو \" مفت صحت اور تعلیمی ریلیف\" پہنچانے سے ہوا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ادارہ کی سرگرمیاں جڑ پکڑتی گئیں اور آج ادارہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات بہم پہنچارہاہے ۔ راولپنڈی ، چارسدہ ، مینگورہ، سوات، بالاکوٹ اور مانسہرہ کے غریب مستحق لوگوں میں خیرات ،صدقات ، رمضان پیکج اور قربانی کا گوشت ہرسال غریب اور نادار خاندانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ملک میں آسمانی آفات کے موقع پر باوجود محددوذرائع کے ،ریلیف کے کاموں میں بھرپور حصہ لیا۔ تعلیم کے شعبہ میں دسمبر 2014 تک کی کاوشیں اور فلاحی کاموں کی تفصیل مندرجہ ذیل ہیں۔
27 اپریل 2014 تحصیل بالاکوٹ کی یو نین کو نسل گھنول کے ( آٹھ) گورنمنٹ پر ائمری سکولوں کے طلباء و طالبات ،اُنکے والدین ، اسکولوں کے اساتذہ اور اہل علاقہ میں تعلیم اور صحت کی آگاہی کے لیے ایک تقریری مقابلہ کا اہتمام حاجی عبد الحکیم ؒ ٹرسٹ (رجسٹرڈ) راولپنڈی نے کیا۔ جس کا موضوع \" ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کا م آنا\"تھا۔ ٹرسٹ ھذا کے پیڑن ڈاکٹر انورنسیم اور علاقے کے معززین نے شرکت کی۔ کامیاب طلباء و طالبات میں انعامات اور تحائف تقسیم کئے گے۔ ڈاکٹر انور نسیم اورمعززین علاقہ نے ٹرسٹ کی کوششوں کو سراہا۔ معززین میں صوبیدار (ر) محمد تاج، پروفسیرابرار حسین ، ماسٹر صفی اللہ ، پروفسیر سمندرخان سمندر ، قاری محمد حسین ،سردار اسلم اور گورنمنٹ کالج مانسہرہ کے پروفسیر سعید احمد اور ٹرسٹ کے طلباء نے ٹرسٹ کی کاوشوں کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ ٹرسٹ نے اس موقع پر ہزارہ یونیورسٹی کے دس طلباء کو سمسٹر کی فیسوں کے لئے 1,11,000/= روپے کے چیک تقسیم کئے ۔ چیئرمین ڈاکٹرعبدالقیوم اعوان نے مختلف بیماریوں سے بچنے کے لیے سامعین کو آگاہ کیااور ڈاکٹر انور نسیم نے تقریب کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا اور ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔راولپنڈی کے دو تعلیم یافتہ نوجوانوں (مسٹرحمزہ ڈار اورشہریار) نے بھی شرکت کی اور ٹرسٹ کی کوششوں کو سراہا۔



31مئی 2014 کو ٹرسٹ نے یونیورسٹی لیول کی 15 طالبات کو مبلغ 2,54,000/= روپے کے سمسٹر زکے وظائف تقسیم کئے۔ان میں ایم فل ، ماسٹراور بی ایس کی طالبات تھیں۔مہمان خصوصی محترمہ میڈم روبینہ کے علاوہ پہلی دفعہ ٹرسٹ کی تقریب میں شرکت کرنے والی معززخواتین نے شاندار الفاظ میں ٹرسٹ کی کاوشوں کی تعریف کی اور کہا کہ دوردرازعلاقوں سے آنے والی طالبات ہمارے تعاون کی مستحق ہیں اور ذہین و محنتی لڑکیوں نے محدد وسائل کے باوجود کتنی اعلیٰ کلاسوں میں بہتریں صلاحیتوں کا مظاہر ہ کیاہے۔ کاش اشرافیہ کے خاندانوں کی بچیاں بھی اس تقریب میں شامل ہوتیں اور اس سے سبق حاصل کرتیں ۔ تقریب کے اختتام سے پہلے محترمہ سعیدہ فیض نے نہایت پُر اثر دعا کرائی۔حاضر خواتین نم ناک آنکھوں سے طالبات کی ترقی اور کامیابی کی دعا میں امین کہتی رہیں اور تعاون کرنے والوں کی صحت ،ایمان اور قبولیت کی دعا پر امین کہا۔بریگیڈئیر(ر) زاہد مجید نے طالبات کیلئے عید گفٹ کے طور پر پارچہ جات دئیے۔جزا ک اللہ 
8جون 2014 کو جامع مسجد عسکری تھری راولپنڈی میں ٹرسٹ کی طرف سے یونیورسٹی لیول کے 13 طلباء کو مبلغ 2,08,000/= روپے کے چیک تقسیم کئے۔ ان میں ایم بی بی ایس، ایم فل ، اور ماسٹر ڈگریوں کے طلباء شامل تھے۔ گومل یونیورسٹی کے مستقیم شاہ نے چوتھے سال میں فسٹ پوزیشن لی ۔ کرنل عبدالرؤف نے انہیں خصوصی نقد انعام بھی دیا۔ اس طرح جون 2014 سے پہلے کل فیس بصورت چیک 5,73,000/= روپے تقسیم ہوئے۔ مہمانوں میں بریگیڈیر شفقت خان، کرنل مقصود ، کرنل عبدالرؤف، ڈاکٹر عبدالقیوم اعوان، یاسرنجیب،میجر سہیل شیخ،عبدالحمید اور بہت سے حضرات تھے جنہوں نے تعلیم کی ترقی میں ٹرسٹ کی کاوشوں کو سراہا۔اختتامی دعا مفتی خوشنود صاحب نے کرائی۔
رمضان پیکج 2014 اس سال بھی حسب معمول تحصیل راولپنڈی ، تحصیل بالاکوٹ ،تحصیل مانسہرہ کے مختلف محلوں ، تحصیل مینگورہ (سوات)کے محلہ بنڑ، چارسدہ کے محلہ رجڑ ، تونسہ شریف، لکی مروت، مردان،وغیرہ میں رمضان پیکج تقیسم کیاگیا۔اس دفعہ اللہ کے فضل وکرم سے تحصیل بالاکوٹ کی 104 ، مینگورہ کی 80 ،چارسدہ کی 0 4،راولپنڈی کی 27 اور متفرق25 (کل 276 )فیملیز میں ایک ماہ (رمضان المبارک ) کا راشن تقسیم کیا گیا۔ جس پر مجموعی اخراجات 9,99,940/= روپے ہوئے۔
ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی عید الاضحی2014 میں ٹرسٹ کی طرف سے اجتماعی قربانیوں کا اہتمام کیاگیا ۔ سیلاب زدہ علاقوں میں 19 قربانیاں کیں گئیں۔اور 75 قربانیاں راولپنڈی ،تحصیل بالاکوٹ کے گاؤں ،بھنگیاں، جوسچہ ، اربن ،جرید ، مٹی کوٹ ، پہڑ،تحصیل چارسدہ کے گاؤں رجڑ اور مینگورہ کے محلہ بنڑ میں کیں گئیں اور گوشت غرباو مساکین میں تقسیم کیاگیا۔ مستحق افرادنے ٹرسٹ اور اس کے معاونین کے لئے انفراد ی اور عید کے موقع پر اجتماعی دعائیں مانگیں۔
زلزلہ 2005 میں زمین بوس ہونے والی مساجد کی تعمیر نوجاری ہے۔پہاڑی علاقے کے زیادہ تر لوگ غریب ہیں اس لئے مساجد کی تعمیر کی رفتار سست ہے۔ٹرسٹ کے کچھ معاونین نے ٹرسٹ کومسجد فنڈزمختلف اوقا ت میں دیئے چنانچہ7 Xمساجدکی تعمیرنو میں 530,080/-ْ روپے معاو نت سے کی۔سیلاب 2010 / 2011 کے دوران عام ریلیف کے علاوہ 15 xگھر چارسدہ کے محلہ رجڑکے نہائیت غریب اور مستحق فیملیز کو بنا کر دیے ۔ کل اخراجات 3,109,719روپے ہوئے 
ہر سا ل کی طرح اس سال بھی ۷دسمبر کو طلباء و طالبات میں تقسیم وظائف کی تقریب راولپنڈی میں منعقد ہوئی ہے ۔ اس تقریب میں ڈونر ز اور مہمانا ن گرامی اپنی آنکھوں سے اپنی دی ہوئی رقوم کو خرچ ہوتے ہوئے دیکھا اور باقی خواتین وحضرات کو ترغیب ملی ۔ تقسیم وظائف کی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر سلطانہ فاونڈیشن اسلام آباد کے چیئرمین اورملک کے مشہور معالج ڈاکٹر نعیم غنی شرکت کی۔ اس سال (2014) 87طلباء و طالبات نے اپنا نام رجسٹر ڈ کرایا جسمیں 38طلباء اور 23 طالبات کے وظائف منظور ہوئے۔ جن میں 700,000روپے کے وظائف تقسیم ہوئے۔ اللہ تعاون کر نے والوں کے درجا ت بلند فرمائے (امین)اس طرح پورے سال (2014 )میں تقریباً13,00,000 روپے صرف تعلیم کے شعبہ میں خرچ ہوئے۔
مذکورہ بالاتحریر کا مقصد نیکی کے کام کو فروغ دینے والے احباب کی حوصلہ افزائی اور دوسروں کو اس خیر کے کام کو اختیار کرنے کی ترغیب و دعوت دینا ہے ،یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ اسلام گوشہ نشینی کی زندگی یا اپنی من مستی اور نفسا نفسی کی حیات کو محبوب نہیں سمجھتابلکہ اسلام وہ دین ہے جس نے انسانوں کو انسانیت کا حقیقی درس دیا اور ان کو یہ تعلیم دی کہ اپنے قرب و جوار،اعزہ و اقارب ،ضعفا ء و مساکین ،یتیم و فقیر کے دست بازو بننے سے ہی اسلام کامل ہوتاہے ۔دین اسلام صرف دین عبادت و عقیدہ نہیں بلکہ دین معاشرت و معاملات بھی اہم اور اٹوٹ انگ ہے۔اللہ رب العزت سے دعاہے کہ رب لم یزل انسانیت کی خدمت کرنے والوں کی زندگیوں میں برکت عطافرمائے اور ملت اسلامیہ اور ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے(آمین)
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com

منگل، 16 دسمبر، 2014

اسلامی یونیورسٹی علمی و عملی عہدوں میں اصلاح کی ضرورت


چند روز قبل بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک شرمناک واقعہ پیش آیا۔ جس میں مینجمنٹ سائنسز کی طالبات کی جانب سے منعقدہ کانفرنس میں عالمی دنیا میں موجود ممالک کی ثقافت کو پیش کرنے کے لیے کلچر سٹال کا اہتمام کیا گیا ۔ان ہی سٹالوں میں ایک سٹال ایسا بھی سجایاگیا جس میں عالم اسلام کے ازلی و ابدی دشمن اسرائیل کی ثقافت کوپیش کرنے کا سٹال بھی لگایاگیا۔اس امر کا طلبہ و اساتذہ کو علم ہوجانے پر احتجاج کیا گیا جس پر وہ ثقافتی سٹال بندکردیا گیا۔مگر یہ خبر جیسے ہی یونیورسٹی کے قائداعظم آڈیٹوریم سے باہر آئی تو اسلام سے محبت و مودت رکھنے والے اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی قربیانیوں کو عزت وقدر کی نگاہ سے دیکھنے والے طلبہ و اساتذہ میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ایسا ہونا ایک فطری امر تھا کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے اور قرآن پاک نے مسلمانوں کو یہود سے دوستی و قرابت کا رشتہ استوار کرنے سے منع کیا ہے۔مگر افسوس عالم اسلام کے تمام ممالک اعلانیہ و غیر اعلانیہ یہود و نصاریٰ سے دوستی قائم کیے ہوئے ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی میں اس ان ہونے واقعہ پر ملک بھر میں نوجوانوں اور مذہبی حلقوں اور صحافتی اداروں سے وابستہ تمام افراد احتجاج درج کروانے میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔باعث تشویش امر یہ ہے کہ اس امر سے متعلق افراط و تفریط اور بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے سے کام بھی لیا جارہاہے ۔کہیں یہ باتیں سامنے لاجارہی ہیں کہ یونیورسٹی کے سابق ریکٹر فتح محمد ملک کو یونیورسٹی سے اس لیے نکالاگیا کہ انہوں نے کلچر ویک میں ایرانی سفیر کو بطور مہمان بلایا تھاتو یہ بات سعودیہ کو ہضم نہ ہوئی اس سبب سے ریکٹر صاحب کوگھر جانا پڑا۔کہیں یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ اس مسئلہ پر یونیورسٹی کے صدر کو استعفیٰ دے دینا چاہیے کیوں کہ یہ واقعہ ان کی انتظامی نااہلی کے باعث پیش آیا۔اسی طرح متعدد کالم نگار اپنے اپنے تجزیے پیش کررہے ہیں اور اپنی من کے مطالبات بھی پیش کررہے ہیں۔اور دوسری جانب سے یونیورسٹی کی جانب سے تین اہم ذمہ داران کو معطل کرنے کا بیان بھی جاری کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی خبریں ہیں کہ اس واقعہ میں ملوث طالبات کو یونیورسٹی سے نکالا جاسکتاہے !۔اس سارے منظر نامے کو دیکھنے کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہے جو اپنی رپورٹ جلد پیش کرے گی ۔
ہم یونیورسٹی کے ان مندرجہ بالافیصلوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کو نہ تو طالبات کو یونیورسٹی سے نکالنا چاہیے اور نہ ہی صرف تین افراد کوبلاکسی ٹھوس ثبوت و شواہد کے بغیر معطل کرناچاہیے ،کیوں کہ اس واقعہ کے حقیقی مجرم پس پشت چلائے جائیں گے اور وہ پھر موقع مناسب دیکھ کر اس یونیورسٹی کے تشخص کو مجروح کرنے کی ناپاک حرکت کا ارتکاب کرسکتے ہیں ۔ یونیورسٹی طالبات کو اس قبیح امرکی جانب ابھارنے یا رہنمائی کرنے والوں کا سراغ ضرور لگانا چاہیے اور یہ بھی جائزہ لینا چاہیے!!! کہ اس ملک کی ثقافت کو پیش کرنے کے لیے جو ضروری سامان اور لوازمات کا انتظام کیا گیا تو یہ سب فراہم کرنے والے کون سے عناصر ہیں؟؟۔اسی طرح اس پروگرام کی اجازت دینے والوں اور نگرانی کرنے والوں کی نشاندہی بھی کی جائے !!!اور اس کے ساتھ ہی یہ سب تحقیقات دفتری کارروائی کی نظر کرنے کی بجائے ان کو یونیورسٹی کے طلبہ اور عوام کے سامنے پیش لائی جائے !!!بصورت دیگر اس امر میں کسی بھی قسم کی غیر ذمہ داری کا ثبوت یونیورسٹی کو دائمی نقصان سے دوچارکرسکتاہے۔اور بعض نادان دوست جو کہ اس مسئلہ کو بڑھاچڑھاکر پیش کرکے اسلامی یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان سب احباب کے تمام ناجائز مطالبات کو ہم ناصرف مسترد کرتے ہیں بلکہ ان کی مذمت بھی کرتے ہیں کہ وہ انجانے میں سیکولر طبقوں کو کی مددکرنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے اس یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو سخت خطرات لاحق ہیں۔اسی طرح ہم اسلامی یونیورسٹی کولادینی و سیکولر طبقوں کے ہاتھوں میں ہر گز نہیں جانے دیں گے۔ اسلامی یونیورسٹی کے صدر کے استعفیٰ کا مطالبہ بالکل بے جا ہے اور اس کے ذریعے سے دشمنان اسلام اس یونیورسٹی کو لادین طبقے کے ہاتھوں میں دینا چاہتے ہیں اس لیے ہم اس امر کی مذمت میں اپنی آوازکو بلند کرنادینی فریضہ جانتے ہیں ۔البتہ کھلی بات ہے کہ اسلامی یونیورسٹی کے صدر گذشتہ دوسالوں سے بہت سی صریح اور ناقابل بیان غلطیاں کی ہیں، جن پر کان نہ دہرنے کے سبب گاہے بگاہے اس یونیورسٹی میں جانے یا انجانے میں مسائل پیدا کیے جارہے ہیں، جس سے اس یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو نقصان پہنچنا ایک فطرتی امر ہے۔ان امور میں سے چند اہم غلطیوں کی ہم یہاں نشاندہی کیے دیتے ہیں ۔
اسلامی یونیورسٹی جو کہ11 /9 کے بعد سے عالمی سازش کے کا شکار ہے ۔اس کو صف ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جاتی رہی بس یہ اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ یہ یونیورسٹی اب تک تمام سازشوں کے باوجود قائم و دائم ہے اور قائم رہے گی۔اس یونیورسٹی کو سیکولر تعلیمی ادارہ میں بدلنے کی کوشش ماضی میں بھی کی جاتی رہی ہے، یونیورسٹی کو مسلکی و سیاسی عصبیتوں کا مرکز بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ، یونیورسٹی کو ایران نواز بنانے کی کوشش بھی کی گئی اور پھر اب اس یونیورسٹی کوسعودی اور متشددسلفی(غیر مقلدین) یونیورسٹی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اوریہ امر کسی طرح نا تو پاکستان کی فضا میں درست ہے اور نہ ہی یہ یونیورسٹی اس بوجھ کو اٹھانے کی متحمل ہے۔جبکہ یہ مسلمّہ بات ہے کہ ہم اس تعلیمی ادارے کو ہر قسم کی سیاسی و مذہبی ،قومی و لسانی عصبیتوں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں مگر افسوس کہ اب اس کو ایک خاص فکر کی نشونما کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی کے سعودی صدر نے اپنے آپ کو آمر وقت اور بادشاہ بنا لیا ہے اپنے اور طلبہ کے مابین اس قدر دوریاں پیدا کرلیں ہیں کہ کوئی طالب علم اس تک بآسانی رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔اپنے دائیں بائیں ایسے افراد کو معمورکرلیا ہے جو ایک خاص مسلک سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر اس کی ترجیح یہ ہے کہ کاسہ لیس ،بھکاری و جی حضوری کرنے والے اللے تللے افراد کو نوازا جائے ۔اسی طرح طلبہ و ملازمین کی زبانیں گنگ کرنے کی خاطر عمرہ و حج جیسے مقدس عبادتوں کو بطور ہتھیا راستعمال کیا ہے ۔اسی طرح طلبہ کو سکالرشپس دیکر ان کو کلمہ حق کہنے سے روک لیا ہے۔اپنی آمد و رفت پر درجن بھر سیکیورٹی عملہ کو مامور کر لیا ہے ۔اردو و انگریزی سے عدم واقفیت کے باعث درجن بھر مترجمین کو اپنے آفس میں لگالیا ہے۔یونیورسٹی کو دینی طور پر بہتر و ممتاز مقام دلوانے کے لیے اب تک کوئی بہتر و نیک کام نہیں کیا ہے۔ان دوسالوں میں متعدد کانفرنسیں ہوئی ہیں جن کا عملی نتیجہ تاحال سامنے نہ آسکا اور ان کانفرنسوں پر خرچ ہونے والی رقم کو پانی کی طرح بہایا گیا جو کہ باعث تشویش ہے۔
صدر جامعہ نے یونیورسٹی کے اہم عہدوں پر قبضہ جما رکھاہے جن میں اصول الدین فیکلٹی کی ڈین شپ،دعوۃ اکیڈمی کی ڈائریکٹر کی شپ قابل ذکر ہیں۔اصول الدین فیکلٹی کو ناکارہ کرنے کی مکمل کو شش کی جارہی ہے ۔شعبہ حدیث میں خالص فکر کے حامل پاکستانی اساتذہ کو لایا گیا ہے جو کہ صدر جامعہ کی جائز و ناجائز امورمدد کرسکیں۔اصول الدین فیکلٹی ان اساسی فیکلٹیوں میں سے ایک ہے جویونیورسٹی کی تاسیس کے ساتھ قائم کی گئی۔ مگر افسوس آج اس فیکلٹی اہل علم و دانشور وں کی تیاری کا کام معدوم ہوچکا ہے ۔یہاں من پسند اور بھاری بھر اسناد کے حامل اساتذہ کو مقرر کیا جاتاہے اور ان کی ہر خواہش کو پوراکیا جاتا ہے بھلے وہ طلبہ کے مستقبل کے ساتھ ہی کیوں نہ کھیل رہے ہوں بس چونکہ وہ استاذ مقرر ہوچکے ہیں اس لیے وہ نئی نسل کو تختہ مشق بنائیں گے ۔اس امر سے واضح یہ سبق لیا جاسکتاہے کہ صدر جامعہ اور ان کے مخصوص فکرر کے حامل پیروکار اصول الدین فیکلٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے انتہائی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔عرب اساتذہ کے ساتھ ظالمانہ و آمرانہ و دشمنانہ سلوک روارکھا جارہاہے ۔جب کہ ان حضرات کو یونیورسٹی کے تمام طلبہ عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں شائد اسی وجہ سے یونیورسٹی کے اہم معاملات سے ان کو دور کردیاگیا ہے،جن میں دعوتی و فکری نشستیں جو طلبہ کی دینی رہنمائی کے لیے سارے ہفتہ یونیورسٹی کے ہاسٹلز کی مسجدوں میں لیکچر دینے کے لیے اپنے خرچوں پرعرب اساتذہ آتے تھے ان حضرات سے دعوتی شعبہ ہی چھین لیا گیا جس کے باعث اب طلبہ دین کے اہم و ضروری مسائل سے واقفیت حاصل کرنے میں پریشانی محسوس کررہے ہیں ۔لیکن یہ پاکستانی اساتذہ اور سعودی صدر اور اس کی ہاں میں ہا ں ملانے والی انتظامیہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان ہے اور اس پاکستان میں کوئی بھی ظالم و جابر زیادہ عرصہ اپنی مرضی جبراًمسلط نہیں کرواسکتا۔یہ ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں طلبہ اپنا حق لینا اچھی طرح جانتے ہیں بس ان کے جائز حقوق کی فراہمی میں لیت و لعل کے ذریعہ نظر انداز نہ کیا جائے۔
اسلامی یونیورسٹی میں بہت سے ایسے افراد برسر اقتدار اہم عہدوں پر موجود ہیں جو صرف نفرتیں بانٹیں کا کام سرانجام دیتے ہیں یونیورسٹی کی تعمیر کی بجائے تخریب کی فضا بنانے میں اپنا کردار ڈالتے ہیں ۔ان میں مسلک پرست،سیاست زدہ،اور قوم پرست لوگ اہم کردار اداکررہے ہیں۔اسی طرح یونیورسٹی کے ہوسٹلوں میں چرس نوشی اور اس کی خریدوفروخت کا بازار سجا نظر آتا ہے اور خبر یہ بھی ہے کہ یہاں شراب بھی بیجی و استعمال کی جاتی ہے جس کی گواہی یونیورسٹی کے اہم ذمہ دار خود دے سکتے ہیں مگر یہ الگ بات ہے کہ وہ اس امر پر نوٹس لینے میں متردد نظر آتے ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ کو داخلے میرٹ کی بجائے پیسہ بٹورنے کے لیے بنا کسی نظم وترتیب کے دیے جاتے ہیں مگر ان طلبہ کو سنبھالنے کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ۔اس یونیورسٹی میں تعلیمی بلاک کی تعداد ناکافی ہے کہ جہاں طلبہ بآسانی اپنی کلاسز لے سکیں اور اسی سبب بہت سے اساتذہ چھوٹی کلاسوں کو اپنے دفتروں میں پڑھالیتے ہیں مگر بڑی کلاسوں کے لیے اپنے سارے دن کو ضائع کرنا پڑتاہے اس صورت میں استاذ و طلبہ سبھی کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتاہے۔اسی طرح نئے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل کا کوئی نظام موجود نہیں تین تین سمسٹر تک طلبہ ہاسٹل کے حصول میں ذلیل و خوار اور دربدر کی ٹھوکر کھانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔البتہ سیاسی و مذہبی،قومی و لسانی گروپ سے تعلق کی صورت میں ہاسٹل کی فراہمی کے لیے یونیورسٹی کے تمام قوانین تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔
یونیورسٹی میں طلبہ کو سکالرشپس کا اجراء صرف اس صورت میں کیا جاتاہے جب وہ کاسہ گدائی لے کر صدر جامعہ کے دربار پر مہینوں طواف کرے،لازم بات ہے غریب و مجبور طالب علم اس قدر اپنا وقت ضائع نہیں کرسکتا اس سبب سے یہ سکالر شپس مالدار طلبہ کا مقدر ٹھہرتی ہے۔جب کہ ہونایہ چاہیے کہ اس یونیورسٹی کے اساسی شعبوں اصول الدن،شریعہ اینڈ لاء اور عربی میں داخل ہونے والے تمام طلبہ کو مفت تعلیم دی جائے چونکہ دین سے محبت کرنے اور اس کو پڑھنے والے افراد اکثر و بیشتر متوسط و کمزور گھرانوں سے ہوتے ہیں ۔مگر یہاں نیکی و بھلائی کا کام تو کوئی نظر نہیں آتا بلکہ بھکاری گداگری کے ہنر سے متصف ہونے والے کو مستحق مدد سمجھا جاتاہے۔اسی طرح حال ہی میں بعض اساتذہ کو یونیورسٹی سے صرف اس بنیاد پر نکالا گیا کہ یونیورسٹی ان کو تنخواہیں نہیں دے سکتی افسوس ہے اس بات پر کہ صدر جامعہ اپنے پروٹوکول اور آمد و رفت اور اپنی بادشاہت و آمریت کو باور کروانے کے لیے لاکھوں روپے صرف کریں تو کوئی بات نہیں جب اساتذہ کی بات آئے جو سالہاسالوں سے یونیورسٹی کی جان و دل اور خون و پسینہ بہاکر طلبہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں ان کو یونیورسٹی سے نکال دیا جائے۔جب کہ یہ کھلی بات ہے کہ یونیورسٹی کے پاس پیسہ وافر مقدار میں موجود ہے تبھی تو لغو و عبث کانفرنسوں کا انعقاد بار بار مختلف عنوانات سے کیا جاتاہے اور ان میں شرکت کرنے والے مقالہ نگار سوائے چند کے سبھی بار بار ہر کانفرنس میں نئے میک اپ کے ساتھ نظر آتے ہیں اور ان میں سے اکثر نااہل و وقت برباد کرنے والے اور پیسہ پرست ہوتے ہیں ۔جس سے اسلام و مسلمانوں کو ایک ذرہ بھر کا بھی فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہی ایسی کانفرنسوں سے کچھ فائدہ ہوگا کیوں کہ یہ تعمیری تو ہوتی نہیں ہیں بس صرف فوٹو سیشن و کاغذی کارروائی کو مکمل کرنے کے لیے کھیل کھیلا جاتاہے۔صرف یہی نہیں خود صدر جامعہ ادارہ تحقیقات اسلامی پر قبضہ کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کروارہے ہیں جب کہ تسلیم شدہ بات ہے کہ پاکستان ایک ممتاز اسلامی ریاست ہے اور اس میں فقہی و معاملاتی ومعاشرتی موضوعات پر بڑے بڑے اہل قلم طبع آزمائی کرچکے ہیں ایسے میں صدر جامعہ کی کتب کو ترجمہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔
ان تمام بکھری میٹھی و کڑوی باتوں کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صدر جامعہ پر یہ امر واضح کیا جائے کہ ہم آپ کا استعفیٰ تو نہیں مانگتے مگر آپ سیچند اہم امور پر غور وفکر کی دعوت ضرور دیتے ہیں ۔جن سے آپ گذشتہ دوسالوں سے مسلسل آنکھیں چرارہے ہیں ان پر سنجیدگی سے غور کریں اور اپنی ان غلطیوں اور کمزوریوں کا ازالہ کریں تاکہ آپ اپنا مقررہ وقت عزت و عظمت کے ساتھ بسر کرسکیں ۔
آخر میں جن امور کو انجام دینا صدر جامعہ پر لازم ہے وہ درج کیے دیتاہوں۔اولاً:صدر جامعہ اپنے اور طلبہ کے مابین قائم کردہ آمرانہ و جابرانہ دیوراکو ختم کریں ۔اگر انہوں نے طلبہ کے ساتھ نیک و اچھا سلک رکھا تو ان کو طلبہ اپنے حقیقی والدین سے زیادہ عزت و احترام دیں گے اور رہی بات سیکیورٹی تھرڈ کی تو ان کو یہ جان لینا چاہیے جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں آسکتی پھر بھی اگر کوئی مسئلہ ہے تویونیورسٹی سے باہرسیکیورٹی کا استعمال کریں مگر یونیورسٹی کے اندر طلبہ کو ذلیل و خوراکرنے کے لیے راستے جدا کرنا اور ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھنا درست امر نہیں ۔ثانیاً:اسلامی یونیورسٹی میں کسی بھی قسم کی سیاسی و مذہبی یا قومی و لسانی عصبیتوں کو پنپنے یا فروغ دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے چہ جائے کہ خود صدر جامعہ ایک خاص فکرجو عالمی و داخلی سیاست سے مرکب ہو کو فروغ دینے میں کردار اداکررہے ہوں۔کیوں کہ پاکستان کی فضا کسی طور پر بھی فرقہ ورانہ خیالات کو ہوادینے والے عناصر کو قبول نہیں کرتی کیوں کہ ہم پہلے ہی اس ایندھن میں جل کر اپنے ستاسٹھ سال ضائع کرچکے ہیں ۔خدارا!اب یہاں بریلوی ،دیوبندی اور اہل حدیث سمیت دیگر عصبیتوں کو پھلنے و پھولنے نہ دیں۔ اصول الدین فیکلٹی کو بالخصوص فرقہ ورانہ عصبیت سے پاک کیا جائے ،ہم اس یونیورسٹی میں علم و عمل اور اخلاق و تربیت کے اسلحہ سے مسلح ہونے کے لیے آئے ہیں ورنہ پاکستان میں مسالک و گروہی تعلیم دینے والے تو ادارے بہت ہیں۔ثالثاً:عرب اساتذہ جن کو یونیورسٹی سے ذاتی بغض و عناد کے سبب نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا صرف تنخواہ نہ دے سکنے کا بہانہ استعمال کیا گیا اور پھر طلبہ کے شدید احتجاج و اصرار پر ان کو جنوری تک کے لیے دوبارہ بحال کیاگیا ہے ۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان محترم و مکرم اساتذہ کو طلبہ و یونیورسٹی کے علمی وعملی مفاد میں مستقل طورپر بحال کیاجائے اور ان حضرات کے ساتھ کسی بھی قسم کی سازش رچانے کی کوشش نہ کی جائے چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ اساتذہ علم دوست و محبت و مودت کو بانٹنے والے ہیں اور ان کا وجود پاکستان کے مسلم عوام کو علم و عمل کے شعبہ سے وابستہ رکھنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔رابعاً:ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی میں فی الفور طور پر تعلیمی بلاک تعمیر کیے جائیں تاکہ طلبہ بروقت استفادہ کرسکیں اور ان کا وقت لہولعب میں ضائع نہ ہو۔اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ اصول الدین فیکلٹی جس کے چھ شعبے ہیں ان شعبوں کو مستقل کمرے دیے جائیں تاکہ حصول علم میں کسی طرح کا حرج واقع نہ ہو۔خامساً:ہمیں معلوم ہے کہ یونیورسٹی کے پاس مال کثیر صدقات و زکوٰۃ اور عطیات کی مدمیں موجود ہے جس سے اصول الدین ،شریعہ اور عربی فیکلٹی کے طلبہ کی فیسیں اداکی جائیں اور طلبہ کو ذاتی جیب خرچ میں سے اپنی کتب خریدنے کی ترغیب دی جائے ۔سادساً:یونیورسٹی میں فی الفور ترجیحی بنیادوں پر سٹوڈنٹس ہاسٹل تعمیر کرائے جائیں تا کہ طلبہ دربدر کی ٹھکریں کھانے میں وقت برباد کرنے کی بجائے اپنے ہاسٹلوں میں رہ کر علم کی پیاس بجھاسکیں ۔سابعاً:یونیورسٹی میں تمام اساتذہ کو اخلاقی و معاملاتی تربیت اور حس سلوک و حسن معاملہ کی تربیت دی جائے اور اسی طرح اساتذہ کے ذریعہ سے یہ طلبہ تک یہ دعوت منتقل ہونی چاہیے۔ثامناً:اصول الدین فیکلٹی کو اسلام کی ترجمان فیکلٹی کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے نہ کہ یہاں پر صرف سعودیہ سے تعلیم یافتہ سعودی افکار کو فروغ دینے والوں کا تقرر کیا جائے بلکہ ہم پوری شدت کے ساتھ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی میں تمام مقامات پر ہم آہنگی و اتحاد کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے مسالک کی تفریقات سے بالاتر ہوکر تقرریاں کی جائیں اور اسی طرح نااہل و کٹھ پتلی افراد کو نوازنے سے اجتناب کیا جائے بالخصوص صدرجامعہ اصول الدین فیکلٹی کی ڈین شپ ترک کر کے جلد از جلد نیک و باصلاحیت اور علم دوست خودمختار ڈین کا تقرر کریں کیوں کہ ان کا اس عہدے پر براجمان رہنا نہ تو قانوناً درست ہے اور نہ ہی اخلاقی طور پر کیوں کہ یہ فیکلٹی اب ایک خاص مسلک کی ترجمان بن چکی ہے اگر یہ ظلم در ظلم جاری رہا تو عالم اسلام میں یونیورسٹی کا منفرد علمی مقام تھا وہ ہمیشہ کے لیے خاک میں مل جائے گا۔تاسعاً:اسلامی یونیورسٹی میں ہر قسم کی تنظیموں کو ایک دائرہ کار کا پابند بنایا جائے جس میں نہ تو دین اسلام کے دائرے سے نکلنے کی اجازت ہو اور نہ ہی امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ بازور بازو اور طاقت کے ساتھ مسلط کرنے کی اجازت دی جائی۔عاشراً:صدر جامعہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے گرد نواح میں متعین ایک خاص مسلک کے چنگل سے نجات حاصل کریں کیوں کہ ان کی موجودگی میں وہ اسلام اور یونیورسٹی کو فائدہ دینے کا کوئی بھی قابل ذکر کام سرانجام نہیں دے سکتے۔یہ سب ایک خاص قسم کی سوچ و فکر کے حامل ہیں ان کا وجود یونیورسٹی کو تباہی و بربادی کی کہائیوں میں لے جانے کا باعث ہوگا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ اگر صدر جامعہ اور ان کے متعلقین اگر ان مندرجہ بالاگذارشات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرلیں تو چنداں ان سے استعفیٰ مانگنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور اگر خداناخواستہ وہ اپنی موجودہ ضدو عناد اور منفی ذہنیت پر کاربند رہے تو بعید نہیں کہ یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو اہمیت دینے والے ان سے اپنے ملک لوٹ جانے کا مطالبہ کریں اور اس لیے صدر جامعہ کو معلوم ہونا چاہیے پاکستانی قوم کسی بھی بیرون ملک کے آلہ کا رنہیں بن سکتی اور ان کو اپنے ملک سے بے دخل کرنا اچھی طرح جانتی ہے۔چونکہ ہم نے پاکستان صرف اسلئے حاصل کیا ہے کہ یہ ایک اسلامی فلاحی مملکت ہوگی اس میں کسی کی بادشاہت و جبروتیت کو نہیں پنپنے دیا جائے گااور ہمیں اسلام ہر قیمت پر عزیز ہے شخصیات و ممالک کے مفادات کو تحفظ دینا یہ ہماراکام نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس کو انجام دیں گے ۔بس اس پہ بات ختم کرتاہوں ۔ 
؂ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے۔ 
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617