جمعہ، 31 اکتوبر، 2014

عالم عربی کی صورتحال کے بارے میں اعلان حق

معروف تجزیہ کار اورسینئیر کالم نگار اوریا مقبول جان نے چند دن قبل ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں عصر حاضر کے حالات پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ تاریخ اسلام میں اب تک جتنا بھی عالم اسلام کونقصان پہنچا ہے اس کے پس و پیش میں دوممالک کا اہم کردار رہاہے وہ دو ممالک ایران اور سعودی عرب ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ممالک اپنے سیاسی و مذہبی مفادات کے تحفظ کے لیے ہر درجہ کا قدم اٹھا سکتے ہیں۔موجودہ حالات میں شام کی ظالم حکومت کی معاونت اور پشت پناہی ایران کر رہاہے جبکہ مصر میں آمر وقت ،یہود و ہنود کے اعلیٰ کار جنرل ابو الفتاح السیسی کے تمام مظالم کی تایید و حمایت سعودی عرب نے کی۔انہوں نے نبی مکرم ﷺ کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالم عرب پر زوال کا آغاز 
مصر سے ہوگا ۔اگر عالم اسلام اپنی بقا چاہتے ہیں تومصر کے مظلومین کی مدد و اعانت کے لیے میدان عمل میں اتر کر اسلام پسندوں کی حمایت کریں۔
موجودہ عالمی حالات پر ہر ذی شعور کا دل خون کے آنسو رورہاہے۔ملت اسلامیہ پر مظالم کے جاروں اطراف سے حملے کیے جارہے ہیں ان حملوں میں امریکہ،اسرائیل،ایران،بھارت ،عالم کفر بلاواسطہ اور یہود و ہنود کے نمک خور عالم اسلام کے عیاش حکمران سعودی عرب،متحدہ عرب امارات کا بشرمناک کردارشامل ہیں ابھی چند دن قبل مصر میں فوج کے مظالم کے بعد عالم کفر نے برائے نام مذمتی بیان جاری کیا ہے مگر سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے فرانسیسی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگر عالم مغرب نے مصری فوج پر پابندیاں عائد کیں تو ہم براہ راست مصری حکومت کی ہر ممکن مدد کریں گے۔۔انہی ناگفتہ بہہ حالات پر ہندوستان کے علما ء نے برصغیر کے علماء اور عامۃ الناس کے نام اپنا تفصیلی پیغام جاری کیا ہے۔وہ پیغام مسلم حکمرانوں ،علماء اور عوام کے استفادے کے لیے نقل کر رہاہوں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینات والھدی من بعد بیناہ للناس فی الکتاب اولٰئک یلعنھم اللہ ویلعنھم اللاعنون (سورۃ البقرۃ آیت ۱۵۹)
اس کا ارشاد ہے : ( واذ اخذ اللہ میثاق الذین اوتواالکتاب لتبیننہ للناس ولاتکتمونہ ، فنبذوہ وراء ظھورھم واشتروا بہ ثمنا قلیلا فبئس ما یشترون سورۃ (آل عمران آیت ۱۸۴)
جولوگ ہماری نازل کردہ واضح ہدایات و تعلیمات اور رہنمائی اور ہدایت کو چھپاتے ہیں جبکہ ہم نے انہیں لوگوں کے لئے وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب میں بیا ن کردیا ہے ان پر اللہ کی لعنت اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔ 
(سورہ البقرہ آیت ۱۵۹)
سورۃ آل عمرا ن میں فرمایا : اور یاد کرو ا س وقت کو جب اللہ نے ان لوگوں سے عہد لیا تھا جن کو کتاب دی گئی کہ تم اسکو کھول کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کروگے۔ اور ا ن کے مضامین کو نہیں چھپاوٗگے لیکن انہوں نے حکم الہی کو پس پشت ڈال دیا او راس کے معاملہ میں دنیا کی حقیر پونجی لے لی۔ بڑ ا بدترین سود اکرتے ہیں ۔ (آل عمران آیت ۱۸۷)
عالم عربی اور عالم اسلامی کے حالات آج جس دور سے گذر رہے ہیں وہ سخت کش مکش، ٹکراؤ اور ہیجان کا دور ہے، تقریباً چالیس پچاس سال سے عراق وشام سے لے کر الجزائر ومراکش تک پورا عالم عربی ،عالمی صہیونی اور صلیبی طاقتوں کے زیراثر اوران کی نگرانی میں اور ان کی ہدایت اور مدد کے ساتھ۔ فوجوں، پولیس اور عدلیہ کی۔ صہیونی مقاصد کی تکمیل۔ کے لئے تیاری میں لگارہا ، اورمسلمانوں کے سینوں پر شہ زوری کرتارہا۔
ان تمام ملکوں میں سب سے بڑا ’’جرم‘‘ یہ قرار دیا گیا کہ شریعت اسلامیہ کے نفاذ کا مطالبہ کیا جائے ۔ جن جماعتوں اور تنظیموں نے اسلامی بنیادوں پر عوام اور نوجوانوں کی تربیت کا کام کیا اورمعاشرہ کو اسلامی بنیادوں پر منظم کرنے اور نظام حکومت کو اسلامی بنانے کی کوشش کی وہ سب سے بڑے مجرم ، دہشت گرد اور باغی قرار دئیے گئے ۔ ان کے بڑوں کو شہید کردیاگیا۔ اور دیگر افراد کو جیل کی کوٹھریوں میں ڈال کر بد ترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ سارے ممالک فلسطین کی اسلامی تحریکات کے مخالف رہے اور ہر کمیونسٹ ، بددین، ملحد تحریک کے ساتھی اور معاون بنے رہے، لاکھوں فلسطینیوں کے ساتھ جوکچھ ہوتارہا ،یہ اس کے تماشائی بنے رہے ۔ اندورون خانہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور روس کے توسط سے سازشوں میں شریک رہے ۔ کوئی امریکہ کی گود میں بیٹھا تھا، کوئی روس کی گود میں ۔جب روس کی عالمی طاقت افغانستان کے میدانوں میں طویل جنگ کے بعد بکھر گئی تو یہ دوہری ذمہ داری یک قطبی دنیا کے مالک امریکا کے سرآگئی ۔۴۷۔ ۱۹۴۸ سے مسلسل مظالم کاجودور ان ملکوں میں چلتا رہا، وہ ہمیشہ ان کے کالے کرتوتوں میں لکھا جائے گا ۔ اور بے شمار کتابیں اس کی گواہ ہیں۔
۸۰۔ ۱۹۸۲ء میں شام کی ملحد وحشی اور ظالمانہ حکومت نے جس طرح شہر’’ حماۃ‘‘ کو بلڈوزروں سے اڑایا اور ۸۰ہزار اخوانیوں کو شہید کیا، وہ انسانیت کے ساتھ چنگیز وہلاکو سے بڑھ کر ظلم کی وہ سیاہ تاریخ ہے جسے مسلمانوں کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ 
زوال روس کے بعد سے امریکہ نے اسلام اور مسلمانوں کی طاقتوں کو تہس نہس کرنے کا جو عالمی صہیونی ٹھیکہ لے رکھا ہے، اسی کی خاطرافغانستان کو کھنڈر بنایا گیا۔ اور تقریبا دس لاکھ انسان شہید کئے گئے ۔پھر عراق پر الزام تراشیاں کر کے اس کے ۹۔۱۰؍ لاکھ فوجی اور عوام پر بموں کی آزمائش کی گئی۔ اور عراق کو ننگا بُچّا کرکے چھوڑا ۔ 
یہ یاد رہے کہ ان تمام مظالم میں آل سعود نے ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جزیرۃ العرب کو۔ جس کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے پہلے صاف طور پر حکم فرمادیا تھا کہ’’ اخرجوا الیہود والنصاری من جزیرۃ العرب‘‘ ۔ ’’ یہود یوں اور عیسائیوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دو‘‘ ۔ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جس کا مکمل نفاذ کیا تھا،اورجس کو ایک سازش کے تحت جزیرۃ العرب کے تشخص کو اغوا کرنے، اور ا سکے تقدس کے تصور کو ذہنوں سے نکالنے ،اور حدیثوں کے پس منظر سے اسے دور کرنے کے لئے۔ اپنے نامعلوم النسب خاندان کے بزور طاقت غالب آنے والے ایک حاکم ’’سعود‘‘ کے نام پر ’’سعودی عرب‘‘ کا نام دے دیا۔ اورناسمجھ مسلمانوں نے اسے اپنی ابلہی میں قبول کر لیا ، اور اس گہری سازش کو سمجھ نہ سکے۔
جی ہاں! آل سعود کے مجرموں نے جزیرۃ العرب کو خفیہ معاہدات کی بنیاد پر امریکا کی فوجوں اورصہیونی سازشوں کے حوالہ کردیا۔ اور جن طالبان کی ابتدا میں ریا کارانہ مدد کی تھی ان کو دہشت گرد قرار دے کر پورے افغانستان کو نیست ونابود کرنے میں امریکا کا خادمانہ و غلامانہ ساتھ دیا۔ یہی کردار ان کا عراق کے بارے میں رہا۔ جب ایران میں خمینی کا انقلاب آیا تو صدام ان کا سب سے بڑا حامی تھا۔ اور اس کو خمینی سے لڑانے کے لئے اربہا ارب ریال دیئے گیے۔ پھر جب وہ اس جنگ سے فار غ ہوا تو اس کے خلاف امریکا کی مدد کرکے عراق میں شیعہ حکومت قائم کروائی گئی، دوغلی پالیسی کے ماہروں نے ایک طرف احمدی نجاد کا ریاض میں پرجوش استقبال کیا اور جب شیعوں کے ایک وفد نے مسجدنبوی اور روضہ اطہر پر آخری درجہ کی بدمعاشیوں اور بے ہودگیوں کا مظاہرہ کیا جس پر امام مسجد نبوی شیخ حذیفی نے اعتراض کیا ، تو انہیں امامت و خطابت سے ہٹا دیا۔ مسجد نبوی کے سامنے شیعوں کو تبرا کی اجازت دی۔ دوسری طرف ذرائع ابلاغ میں شیعیت اور سنیت کی مصنوعی جنگ بھی چھیڑی۔ 
عالم عربی کے انقلابات میں بگڑے ہوئے بدمعاش حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ تونس میں سب سے پہلے انقلاب آیا،تو تونس کے ظالم وبدکردار حاکم بن علی کو اپنے ہاں پناہ دی، حسنی مبارک کے استقبال کی تیاریاں بھی تھیں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ 
مصر کا انقلاب کامیاب ہوا اورتمام اسلامی پارٹیوں کے تعاون سے ڈاکٹر محمد مرسی صدر جمہوریہ منتخب ہوئے، پوری دنیائے اسلام کے مسلم عوام نے خوشیاں منائیں، مبارکبادیں دیں۔ ایک صاحب علم ، حافظ، متقی، صالح انسان، جدید و قدیم کا سنگم، منصف و عادل ،رحم دل و شفیق قائد مصر کی صدارت کی کرسی پر بیٹھا، اور اس نے اسلامی اخلاق، بے انتہا نرمی اور رواداری کے ساتھ ایک سویلین حکومت کے عنوان سے۔ کیونکہ اسلامی حکومت تو ایک ڈراؤنا خواب ہے جس سے دشمن اتنا نہیں ڈرتے جتنے آستین کے سانپ اور چھپے دشمن ڈرتے ہیں۔ اصلاحات شروع کیں، قوم کی اصلاح، پولیس کی اصلاح، عدلیہ کی اصلاح، معاشرہ کی اصلاح، ذرائع ابلاغ کی اصلاح کے کام کا آغاز کیا، اور ملک کی ترقی، اور لوگوں کی حقیقی آزادی کے لئے کامیابی کے ساتھ بڑھنا شروع کیا تو ان کے خلاف سازشوں کا جال بچھانے میں آل سعود سب سے آگے رہے۔ 
وہ فوج جو چالیس پچاس سال سے صہیونی مقاصد کے لئے تیار کی گئی تھی، اور جس نے ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کو مارا، جیلوں میں ٹارچر کیا، جس نے اسلامی تحریکوں کو کچلا، اور ان سے انتقام لیا، اور پولیس کا گندہ، کمینہ محکمہ جو ایک حقیر ایجنسی کی طرح جلادوں کا کام کرتا رہا، اور ملحدانہ عدلیہ کے ذمہ دار جو شریعت اسلامی کے سب سے بڑے دشمن رہے، اور مسخ شدہ ، اباحیت زدہ ، مجرمانہ، شراب و کباب میں دھت ابلاغ جس نے اخلاق و حیا اور دین و ایمان کی تمام حدوں کو پار کرلیا اور کھلے بندوں اللہ ، رسول، قرآن، اور شریعت کا مذاق اڑایا، اور اب اور زیادہ زور و شور سے، انتقامی جذبات اور فاتحانہ نشہ کے ساتھ اس بد بختانہ کام میں مشغول ہے۔اس کی امداد اور اس کو مصر میں دوبارہ طاقت فراہم کرنے میں سب سے زیادہ ناپاک کردار آل سعود کا ہے۔ 
سابقہ حکومت کے پورے ٹولہ نے ۔جس کو صدر مرسی نے بلند اخلاقی کے ساتھ گوارا کیا تھا۔ مرسی کے ایک سالہ دور میں ایک دن بھی چین سے نہیں گذارا، اس کے نزدیک مرسی کا کھلا جرم یہ تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ برابر کی سطح پر بات کرتے ہیں، وہ فلسطین کے مظلوموں کی مدد کے لئے ہمت بلند رکھتے ہیں، انہوں نے سوڈان اور دیگر افریقی ممالک،اور تونس، لیبیا، الجزائر اور مراکش سے اچھے تعلقات قائم کئے ہیں، انہوں نے ترکی سے ملک کی ترقی کے زبردست معاہدات کئے ہیں ۔وہ شام کے مظالم کے خلاف محاذ بنارہے ہیں اور آخر ی سب سے بڑا جرم ان کا وہ تھا کہ انہوں نے تمام اسلامی تحریکات اور تنظیموں کے اجلاس قاہرہ میں، شام میں اسلامی جہاد کی دعوت دی۔ اور شامی حکومت کے مظالم کے خلاف سب سے طاقتور محاذ کھولنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
بس یہ وہ فیصلہ تھا جس سے صہیونیت و صلیبیت کے کیمپ میں آگ لگ گئی جس کی خدمت کے لئے مصری فوج اور پولیس اور عدلیہ کو چالیس پچاس سال سے تیار کیا گیا تھا، ایک سال میں صدر مرسی اسکی اصلاح کیا کرتے، اس کی سازشوں کے شکار ہوتے رہے، اورانھوں نے اپنے حسن ظن کی بنیاد پر ’’ عبدالفتاح سیسی‘‘کو فوج کا کمانڈر اعلیٰ اور وزیر دفاع بنایا تھا۔
امریکا، سعودیہ، اور امارات کے سازشیوں، اور اللہ و رسول کی عدالت کے مجرموں نے اسی وزیر دفاع کو اسلامی حکومت کے خاتمہ، صدر جمہوریہ کے اغوا، عیسائیوں، صہیونیوں ، ملحدوں اور اباحیت پرست افراد کے میدان تحریر میں جمع کرنے، اور اباحیت پرست ملحد ذرائع ابلاغ کو پوری طرح ان کے خلاف جھونک دینے، اور پھر اسلامی تحریکات کو ہر قیمت پر کچل دینے، اور ہر بے حیائی، ڈھٹائی ، اور ظلم و بربریت کو روارکھنے کے لئے آمادہ کیا۔
پانچ ہزار ملین ڈالر سعودی عرب نے، تقریباً اتنی ہی رقم امارات نے اور امریکا جو مصری فوج کا پالن ہار ہے، اور جس نے اسی دن کے لئے اس کو تیار کررکھا تھا، سب نے مل کر صدر مرسی کی حکومت کو لادینوں، ملحدوں اور اباحیت پرستوں کے ذریعہ گرادیا، اور سرکار کا زرخرید غلام شیخ الازہر، اور قبطی چرچ کا پوپ، اورسلفیوں کا ایک دنیا دار اور بدکردار دھڑا، حزب النور، اس جرم میں شریک ہوئے۔
جمہوریت میں عوام اصل ہوتے ہیں، لاکھوں کروڑوں مصری مسلمان صدر مرسی کے حق میں سڑکوں پر آگئے، انہوں نے میدان بھر دیئے، اور صبر و استقامت کا وہ مظاہرہ کیا ، تاریخ جس کے ریکارڈ سے خالی ہے، دنیا میں کبھی ۴۵ دن تک جس میں پورا رمضان کا مہینہ بھی گذرا لاکھوں انسانوں کو ایک میدان میں دین کی نصرت کے لئے، اللہ سے لو لگاتے ہوئے، روزہ رکھتے، تراویح پڑھتے، قرآن کی تلاوت کرتے، دعائیں مانگتے، اور نعرہ حق بلند کرتے، اور اسلامی نظام حکومت کی دہائی دیتے، اور اللہ کی شریعت کا مطالبہ کرتے، کبھی نہیں دیکھاگیا۔
سعودی عرب کا سیاسی نظام، معاشی نظام، مالیاتی نظام، سرتاسر باطل پرستانہ، مغرب زدہ، اور سود اور حرام پر مبنی ہے، حج اکبر کے موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں کے خاتمہ کے اعلان کے لئے تشریف لائے تھے وہ ساری چیزیں تقریبا دوبارہ جزیرۃ العرب میں قائم کردی گئیں ہیں، گندے چینل، صہیونی اڈے، ملحدانہ کمپنیاں، سودی نظام، جابرانہ شاہی تسلط، کیا نہیں ہے جو جاہلیت کی نمائندگی نہیں کررہا ہے، اسلامی نظام عدل کا مطالبہ کرنے والے جیلوں میں ہیں، یا نظر بند ہیں، یاپابندیوں کے شکار ہیں۔ خاندان آل سعود کے غیرتمند، اور مظلوم افراد آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں بھی ملک چھوڑنا پڑتا ہے، یا اچھوت بن کر رہنا پڑتا ہے۔
یہ سب کچھ جاننا ہے تو آپ انٹرنیٹ پر آل سعود کا کچاچٹھا معلوم کرلیجئے، شیخ محمد عریفی، شیخ عائض قرنی، شیخ سلمان عودہ، شیخ سفر الحوالی جو کچھ زیر لب کہیں گے ، اس کی تفصیل ، شیخ عواجی، شیخ سعد الفقیہ، شیخ محمد المسعری کے ویب سائٹ سے معلوم کرلیجئے۔
مصر کی اسلامی حکومت گرانے، اس کے لئے اُکسانے، اس کے لئے رقمیں دینے کا کام امارات اور سعودی عرب کے بے غیرتوں نے تو کیا ہی، لیکن اخوان المسلمین کی دشمنی میں وہ اس قدر آپے سے باہر ہوئے کہ اپنے جامہ ہی کو چاک کردیا، اپنے غلاف کو تار تار کردیا۔ نسبت حرمین کو داغ دار کردیا، وہ نہیں سمجھتے تھے کہ ان کی سازش طشت از بام ہوگی، اور مصر کا اسلامی انقلاب پورے ملک میں پھیل جائے گا، اللہ کے بندے جانوں کے نذرانے پیش کریں گے۔وہ اللہ کے دین، اللہ کی شریعت۔ مصر کی اسلامیت، اور اس کی سا لمیت کے لئے بازی لگادیں گے۔
آج مصر کے تمام علماء، علماء ازہر کا فرنٹ، شرعیہ بورڈ، اخوانی، سلفی، عام مسلمان اور پوری دنیا کے علمائے حق، اور مسلم عوام صدر مرسی کے حق میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔
سعودی عرب کے۶۵ علماء کرام نے اپنی دستخطوں کے ساتھ ، فوجی انقلاب کے خلاف اور صدر مرسی کے حق میں بیان شائع کیا ہے۔
رمضان المبارک کی ۱۰ ؍تاریخ کو شیخ محمد العریفی، جو اس وقت سعودی عرب کے سب سے کامیاب مقرر وداعی ہیں، اور شیخ محسن العواجی کو مصر کی اسلامی حکومت کی تائید کے جرم میں سعودی حکومت نے گرفتار کرکے جیل میں ڈالا تھا، اور ان سے حکومت کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا جبری معاہدہ لے کر انھیں چھوڑا گیا، تفصیلات براہ کرم انٹرنیٹ پر دیکھ لیں اور چاہیں تو سعودی علماء سے براہ راست رابطہ کرلیں۔
رابطہ عالم اسلامی،منظمہ موتمر اسلامی، اور ندوۃالشباب الاسلامی یہ سعودی عرب کے سرکاری امدادیافتہ ادارے ہیں، ان کے صدور صرف قرارداد پاس کرسکتے ہیں، ان میں بھی ان کو حکومت کی مرضی دیکھنی پڑتی ہے، ان اداروں نے کبھی عالم اسلام میں کوئی عملی کردار ظلم کے مقابلہ میں ادا نہیں کیا، یہ’’ ریڈ کراس‘‘ جیسے ادارہ کی دھول کے برابر نہیں ہیں۔ ان کو مظلوم مسلمانوں کی عملی مدد کی اجازت نہیں ہے۔ یہ کروڑوں روپئے نمائشی کانفرنسوں میں صرف قراردادوں کے لئے خرچ کرتے ہیں ، تاکہ یہ’’ منافق حکومت‘‘ کے چہرہ پر پالش کرتے رہیں۔
نوجوان سعودی علماء، سعودی اہل فکر و دانش، یونیورسٹیوں کے طلباء اور عام انسان اس حکومت کی پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں، وہ کہیں بغاوت نہ کربیٹھیں، اس لئے عرب ممالک میں ظالموں ۔اور بدکردار اور دشمنوں کی ایجنٹ حکومتوں ۔کے خلاف انقلابات کو ناکام کرنے کی پالیسی سعودی حکومت اورحکومت امارات نے اپنا رکھی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ امارات، جزیرۃ العرب کا حصہ ہے، جس کو انگریزوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ رجواڑوں میں تبدیل کیا اور آج اس پورے حصہ کو قحبہ گری کا ایک اڈہ اور ایک شراب خانہ بنانے والے مجرم، وہ زر خرید بدو ہیں، جن کو ان کے آقاؤں نے اپنے مقاصد کے لئے گدی پر بٹھا رکھا ہے۔
ان سب کو معلوم ہے کہ اگر اسلامی تحریکات کے نمائندے جمہوری راستہ سے بھی سیاست کے ایوانوں میں آگئے تو باطل پرستوں کے تمام بت چکناچور ہوں گے۔ قحبہ گری کے اڈے ختم کردئے جائیں گے اور شراب و کباب اور بدمعاشیوں اور اباحیت پرستیوں کا موقعہ نہیں رہے گا ، عوامی دولت پر کچھ خاندان ڈاکے نہیں مارسکیں گے، پوری ملت تیل کے ذخائر ، سونے کے ذخائر اور دیگر ذخائر سے مستفید ہوگی، پولیس اسٹیٹ ختم ہوجائے گی۔ انسانیت آزادی کی فضا میں سانس لے گی، جیلوں میں اسلام کے جرم میں کوئی محبوس نہیں رہے گا۔ جیل مجرموں کے لئے ہوگا۔
انہیں کیوں کر یہ معلوم ہے کہ مصر کے یہ جانباز صرف مسجد کے ملا، خانقاہ کے صوفی، اور چارہ کھانے والے ریوڑ نہیں ہیں۔ انہوں نے اللہ سے اور رسول اللہ سے عہد کیا ہے کہ ان کی شریعت پر چلیں گے اور روئے زمین پر اسے نافذ کریں گے، یہی ان کا جرم ہے۔
اس لئے یادرکھئے کہ جمہوری راستے سے آپ آئیں یا دعوتی واصلاحی راستہ سے۔ آپ پر شب خوں مارنے، بلکہ دن دہاڑے قتل کرنے کے لئے یہ تیار ہیں۔
یوروپ کے گماشتے، اور شیطانی نظام کے نمائندے اپنے درآمد کئے ہوئے جمہوری، سیکولر، کمیونسٹ، لبرل، وغیرہ، نظاموں کی عزت رکھنے کے لئے بیانات بازی کرتے ہیں۔ اور اپنی مجلسوں میں عالم اسلامی کی تباہی پر قہقہے لگاتے ہیں۔ اور امت مسلمہ کی یتیمی کی حالت پر ہنستے ہیں ، اس لئے ان کو پکارنا بھی سوائے ابلہی اور حماقت کے کچھ نہیں۔
حل وہی ہے ، علاج وہی ہے، اصلاح اسی سے ہوگی، جس سے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا کی اور جس کو عروج تک عدل فاروقی نے پہونچایا۔ ہم بر صغیر کے تمام علماء کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مصر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لادینیت اور الحاد کے محاذ کی طرف سے ایک بھیانک جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔’’ رابعہ عدویہ‘‘ کے میدان میں پورا رمضان ، ذکر و عبادت میں گذارنے والوں اور اسلامی اور قانونی حق کا مطالبہ کرنے والوں پر صہیونی فوج اور فرعونی پولیس نے گولیوں کی بوچھار کرکے دو ہزار افراد کو شہید کیا اور دس ہزار افراد کو زخمی کرکے میدان خالی کرالیا۔ مسجد رابعہ کو اور وہاں موجود اسپتال کو آگ لگادی جس کے نتیجہ میں بیمار افراد جھلس کر مرگئے، مسجد الفتح میں پناہ گزین افراد پر حملہ کرکے بموں اور گولیوں کی بارش کی۔ اب تک سات ہزار افراد کو شہید کیا جاچکا ہے، پچاس ازہری علماء کو شہید کیاگیا، اور ہزارہا ہزارہا افراد زخمی اور بیسیوں ہزار جیلوں میں ہیں، ہر داڑھی والے اور دین دار کو گولی ماری جارہی ہے، اور مصر کو کفر کے جہنم میں جھونکا جارہا ہے، ان مافیاؤں اور کھلے مجرموں کی سرپرستی آل سعود کررہے ہیں۔
مظالم اس حد تک پہونچ گئے کہ امریکا جیسا دوغلا اور بے شرم بھی تنقید کرنے لگا، یوروپی یونین کے مسلمان مظاہروں کے لئے نکل کھڑے ہوئے تو اسے بھی مظالم کے خلاف زبان کھولنا پڑی، جب پوری دنیا ان مظالم پر حیران ہے، یہاں تک مجرم نائب صدر البرادعی بھی استعفا دے کر مصر سے فرار ہوگیاہے، حزب النور کے دنیاداروں کی آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، اورا نھیں بے وقت پشیمانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، سعودی عرب کے علمائے حق، حکومت کی بدکردارانہ پالیسیوں کے باوجود خاموش نہ رہ سکے، اورا نہوں نے اجتماعی طور پر اپنی حکومت کے خلاف موقف اختیار کیا۔
کیا ان حقائق کے سامنے آجانے کے بعد علمائے بر صغیر کے لئے ۔چند ٹکوں کی امید میں۔ اور دور جاہلیت کی نمائندہ حکومت سے عمروں اور حج کے ویزوں کی توقع میں۔ یہ جائز ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کھلے مظالم پر خاموش رہیں ؟ !کیا وہ اللہ اور رسول کا سامنا اپنے اس موقف کے ساتھ کرسکیں گے؟ انہیں اگر اب بھی اپنی لا علمی کی وجہ سے کچھ شک ہے تو غیر سرکاری سعودی علماء سے رابطہ کرلیں۔ مصر کے علمائے حق سے معلوم کرلیں، ازہر کے غیور وخوددار علماء کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں۔ اور حقائق سے واقف ہوجائیں اور مجرم حکومتوں کے خلاف متحدہ موقف اختیار کریں، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس عالمی جنگ کے مقابلے کے لئے دامے، درمے، قدمے، سخنے، جو کچھ ہوسکے اس سے دریغ نہ کریں۔
من جانب 
اتحاد علمائے ہند
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617

منگل، 28 اکتوبر، 2014

تعلیمی اداروں کو عصبیتوں سے پاک کیا جائے


  کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں اس کی نئی نسل کا اہم حصہ شامل ہوتاہے ۔ان نوجوانوں کی تعلیمی وتربیتی رہنمائی کا خیال رکھنا معاشرے کے تمام ذمہ دار طبقے پر لازم ہے۔والدین ،اساتذہ،حکومت اور تعلیمی اداروں کی اہمیت و ذمہ داری سب سے بڑھ کر ہے۔والدین گھر میں اچھی تربیت کا اہتمام کریں اور اساتذہ اس بچے کی تعلیم پر مکمل توجہ دیں کہ کہیں اس میں علمی کمی نہ رہ جائے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے بہتر مواقع فراہم کرے ۔تعلیمی اداروں پر لازم ہے کہ وہ صرف روپیہ پیسہ جوڑنے کی بجائے اپنے پاس آنے والے طلبہ کی تعلیم و ترنیت کے ساتھ ان کو بہتر و مناسب ماحول فراہم کریں ۔جہاں وہ آنے والے ایام میں اپنی ذمہ داریوں سے آگہی حاصل کرنے کے ساتھ ہی ان کی انجام دہی کی بھی بہتر تربیت حاصل کرسکے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ملک پاکستان کے تعلیمی ادارے نت نئی اقسام میں منقسم ہوچکے ہیں ۔یہاں دینی تعلیمی اداروں کی تفریق ہے تو کہیں عصری تعلیم پھر عصری تعلیمی اداروں میں بھی اردومیڈیم و انگلش میڈیم کی تفریق پائی جاتی ہے اور اسی پر بس نہیں ہے بلکہ اس میں بھی اول لیول اور اے لیول کی تقسیم بھی موجود ہے ۔اس وجہ سے ہمارے ملک کی تعلیم ثنویت کا شکار ہوچکی ہے اور اسی وجہ سے ملک پاکستان کی عوام کو مخلص و دیانت دار قیادت ستاسٹھ برسوں میں بھی نہ مل سکی ۔یہیں پر ایک ایک ظلم یہ بھی ہورہاہے کہ تعلیم کے انتقال میں قابلیت و صلاحیت یا اس کی افادیت و کوالٹی کودیکھنے کی بجائے صرف اور صرف پیسہ و مادیت کو اہمیت دی جاتی ہے اسی لیے سبھی تعلیمی ادارے طلبہ سے تو بھرے ہوئے ہیں مگر ان میں سے نکلنے والی کھیپ میں یہ صلاحیت موجود ہی نہیں کہ وہ اسلامی یا انسانی معاشرے کی قیات کر سکیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اخلاقیات ،معاملہ فہمی،انسانی ہم دردی،اسلامی اخوت و محبت ناپید ہوچکی ہے۔
اسی کے ساتھ ظلم یہ بھی ہے کہ بہت سے تعلیمی ادارے صرف پیسہ بٹورنے کے لیے قائم ہوچکے ہیں ۔بس طلبہ سے بھاری بھر فیسیں وصول کرتے ہیں مگر ان کو علم و عمل اور اخلاقیات کی تربیت دینے سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔اسی طرح کی صورت حال سے دوچار عالم اسلام کی واحد و مایہ نازجس کو قائم ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ یہاں سے مسلم قوم کی عملی زندگی میں رہنمائی کرنے والے افراد و نوجوان تیار کیے جائیں گے ۔اس سلسلے میں عرب ممالک کے امراء و سلاطین نے بھاری بھر زکواۃ و صدقات میں سے مالی مدد کی اور پاکستان نے زمین مختص کی ۔مگر مرور زمانہ کے ساتھ یہ تعلیمی ادارہ دوسرے مادیت کے پرستار تعلیمی اداروں سے بھی کئی درجہ زیادہ پیش قدمی کر چکا ہے۔اس میں میرٹ و صلاحیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طلبہ کو دھڑادھڑ داخلے دیے جاتے ہیں۔مگر داخلہ دینے کے بعد ان پر ظلم و جبر کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں ان کو رہائش فراہم نہیں کی جاتی جس کے سبب طلبہ دربدر دکھے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔اس کثرت کے ساتھ نئے شعبے قائم کیے جاتے ہیں پھر ان میں آنے والے طلبہ کو تعلیم دینے کے لیے کلاس روم میسر نہیں ہوتے کہیں اساتذہ اپنے دفتروں میں کلاسیں لیتے ہیں تو کہیں طلبہ اپنا قیمتی وقت سیر سپاٹوں اور گپوں اور فضول قسم کی سرگرمیوں میں وقت برباد کرتے ہیں وہ ایسا کیوں کرتے ہیں کیوں کہ کلاس روم نہ ہونے کی بدولت وہ منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی کمرہ فارغ ہو تو ہم کلاس لیں۔اسی طرح اسلامی یونیورسٹی میں اساتذہ کی مصلحت و منفعت کو ہمیشہ مدنظر رکھا جاتاہے وہ جیسا بھی ہو اگر اس کو یونیورسٹی میں سفارش و اقرباء پروری کی بدولت استاذ کی سیٹ ملگئی ہے تو اب وہ سیاہ و سفید کا مالک اور مکمل خود مختیار ہے جیسا چاہے طالب علم کے ساتھ سلوک اختیار کرے۔حال ہی میں اس امر کا مشاہدہ کا اتفاق ہوا کہ طلبہ کے اصرار پر کہ ہم اب اعلیٰ تعلیم کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اس لیے ہمیں پرانے و ماہر استاذ دیا جائے تو ان طلبہ کو اول تو دوماہ تک چھوٹی تسلیاں دی جاتی رہیں اور جب استاذ دینے پر راضی بھی ہوئے تو اپنی مرضی کی شرائط سامنے رکھ کر طلبہ کو بلیک میل کرنا شروع کردیا گیا۔جب طلبہ نے اصرار کیا کہ چلیں ہم آپ کے بتائے ہوئے اساتذہ میں سے فلاں کو اختیار کرتے ہیں تو پھر لیت ولعل کا سہارالینے کے ساتھ طلبہ کو کہا گیا کہ ہوگا وہی جو میں چاہتاہوں تم سب طلبہ متفق ہوبھی جاؤکسی استاذ پر میں نہیں دوں گا ۔کیوں کہ استاذ کونسا دینا ہے اور کونسا نہیں یہ ہماری مرضی سے ہوگا۔پھر جب انہی صاحب کی بات سے طلبہ نے ایک استاذ کا انتخاب کیا تو منتظم صاحب نے طلبہ کو ہدف تنقید بنا لیا کہ تم سیاست کرتے ہوئے اور ہمارے لیے مسائل و مشکلات پیداکرتے ہو۔اس امر کا اظہار اصلاح کی نیت سے نہیں بلکہ تضحیک و تحقیر کی نیت سے سرراہ کرنے لگے۔
کسی بھی تعلیمی ادارے میں اگر منتظمین و اساتذہ اور طلبہ کے درمیان اس طرح کی چپقلیشیں پروان چڑھیں گی تو کیا خاک نئی نسل کو بہتر قیادت میسر آئے گی ۔من پسند افراد کو نوازنا ،کاسہ لیسی کو فروغ دینا،آمریت و عصبیت و نفرت کو ہوادینے سے کس طرح صالح و مصلح قیادت میسر آئے گی۔باتیں تو بہت ہیں بس اسی ایک دل کی دنیا کو اذیت میں مبتلا کرنے والے حادثے کو نقل کردیا ہے ۔اس تحریر کے ذریعے سے اسلامی یونیورسٹی کی انتظامیہ کو یہ واضح پیغام دیاجاتاہے کہ آپ کے پاس بیس ہزار سے زائد طلبہ وطالبات ملت اسلامیہ کی امانت ہیں خدار ا ان کی سیرت و کردار سازی میں غفلت نہ برتیں بصورت دیگر عنداللہ مجرم ہو گے ان طلابہ وطالبات کی زندگیوں اورآئندہ نسل کی قیادت و رہنماؤں کو بانجھ کرنے کی سزا سے لازماً دوچار ہوں گے۔حکومت پاکستان اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے بھی مطالبہ کرتاہوں کہ تعلیمی اداروں میں سیاسی و مذہبی،قومی لسانی ،مسلکی و فرقہ واریت پر مبنی عصبیتیں فروغ دینے والوں کی بیخ کنی کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں ورنہ تا قیامت مسلم امہ کو نیک و صالح قیادت نہیں ملے گی ۔اس امر کا آغاز اسلام کے نام پر بننے والے ادرے سے کیوں نہ کیا جائے؟؟؟؟؟؟
دیس کی بات عتیق الرحمن

03135265617

atiqurrehman001@gmail.com

اتوار، 26 اکتوبر، 2014

اسلامی یونیورسٹی میں اسرئیلی کلچر کی نمائش


اسلامی یونیورسٹی میں اسرائیلی کلچر کی نمائش


ملک پاکستان عالم اسلام کا وہ واحد ملک ہے کہ جس نے اسرائیل جو کہ خالص یہودیت قومیت کی طاقت کو دنیا میں مجتمع کرنے اور عالم اسلام پر اس کی بالادستی قائم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ،ساری دنیا کے بشمول اسلامی ممالک نے اس کی حیثیت کو تسلیم کیا مگر پاکستان واحد اسلامی ریاست ہے جس نے اب تک اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیایہ فیصلہ مسلمانوں اور اسلام سے محبت کی آئنہ دار دلیل ہے۔ کیوں کہ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ یہودیوں نے اپنے امتیازی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے فلسطین کے مسلمانوں کوقلع قمع کرکے ان کوان کے اپنے علاقے و خطے سے جچؤبراً بے دخل کردیں۔اسرائیل خطہ عرب میں اپنی چوہدراہٹ جمائے ہوئے ہے اور آئے روز فلسطین کے معصوم و بے گناہ بچوں،بزرگوں اور عورتوں کا قتل عام کرتارہتاہے۔ افسوس اس امر پر ہے کہ عرب کے اسلامی ممالک اسرائیل کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہیں ۔بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عرب ممالک کے بادشاہوں کو عیش وعشرت سے ان کو فرصت نہیں ملتی اسی لیے اسرائیل سے عرب مسلمانوں کو آزاد کرانے میں ناکام ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی جو کہ ایک خالص نظریہ پر قائم کی گئی تھی اس کے قیام کامقصد واحد یہ تھا کہ نوجوانان مسلم کو دینی و عصری علوم سے مسلح ہوکر سارے عالم کے سامنے اسلام کی دعوت ببانگ دہل پیش کرسکیں ۔اسلام کی تعلیمات کو اپنی زندگویں میں عملاً نافذ العمل کرسکیں اور یہ ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ اسلام نے جو حقوق عطاکیے وہ کسی اور مذہب نے نہیں دیے۔لیکن عجب امر ہے کہ اسی یونیورسٹی میں ایک عرصہ سے وہ ماحول پیداکیا جارہاہے کہ اس کے امتیازی تشخص کو مجروح کیا جارہاہے۔کبھی یہاں مسلکیت و قومیت کوفروغ دینے والے افراد اس یونیورسٹی میں فرقہ واریت کو فروغ دیاجاتاہے اور کبھی ایران و سعودیہ اور امریکہ کی مداخلت سے اس کے پر امن فضا کو متنازع بناکر اس یونیورسٹی کے اساسی قواعد و ضوابط کو تہہ وبالاکیاجاتاہے۔
اسی اسلامی یونیورسٹی میں حال ہی میں اسرائیلی کلچر کی نمائش کا اہتمام کیاگیا تھاجو کہ ناصرف فلسطین کے مظلوم و نہتے مسلمانوں کے خون کا مذاق اڑایا گیا ہے اور اسی طرح اسرائیل جو کہ اسلام کا ازلی و ابدی دشمن ہے اور یہودیوں نے اسرائیل کا قیام صرف اس لیے کیا کہ اسلام اور مسلمانوں کے نظام کو تہہ وبالا کرنے اپنا ہدف مقرر کیا تھا۔مگر آج اسلامی یونیورسٹی جو کہ اسلامی تعلیمات کے محافظ کے طور پر وجود میں لائی گئی آج اسی میں اسلام اور مسلمانوں پر ظلم و جبر ڈھانے والی ریاست کے کلچر کی نمائش ۔اسلامی یونیورسٹی کے موجودہ صدر جو کہ سعودیہ سے ہیں ان کی موجودگی میں ملک ناصرف اسلامی یونیورسٹی بلکہ پاکستان میں فرقہ واریت کی فضا کو فروغ مل رہاہے کیوں کہ وہ اس یونیورسٹی کو ایک خاص مشن و منصوبے کے تحت آل سعود کی پرستش کرنے والوں کو نواز رہے ہیں ۔ا س سلسلے میں وہ منظم طریقے سے اسلامی یونیورسٹی سے باصلاحیت اساتذہ کی بے دخلی اور ان کی جگہ پر سعودیہ کے مفادات کے محافظوں کونااہل و کٹھ پتلی اساتذہ بھرتی کرنے کا کام سرانجام دے رہے ہیں جس سے ناصرف طلبہ کی صلاحیتیں مانند پڑیں گی بلکہ متشدد ذہن کے حامل افراد تیار ہوں گے یہ امر ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے اور یہ محسوس ہورہاہے کہ ملک پاکستان کی واحد غیرجانب دار دینی درس گا ہ سے اب فرقہ واریت کی آگ ملک بھر میں منتقل ہوگی ۔اس عصبیت و دہشت گردی کی فضا کو پاکستان کے مسلمان بالکل کسی طور پر برداشت نہیں کرسکتے اصول الدین فیکلٹی،شریعہ فیکلٹی ،دعوۃ اکیڈمی اور ادارہ تحقیقات اسلامی کو پورے اہتمام کے ساتھ سعودی مفادات کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جارہاہے ،اس سازش سے ہونے والے نقصان کا اندازہ آنے والے وقت میں ہوجائے گا ۔موجودہ صدر اسلام و مسلمانوں کی خدمت کرنے سے عاری ہیں بلکہ وہ صرف اور صرف امریکہ و اسرائیل نواز سعودیہ کی پالیسیوں کو پاکستان جو کہ جمہوری ملک ہے آمرانہ وباشاہانہ انداز میں نافذ کرنے کی سعی کررہے ہیں ۔اس کا عملی مظاہر ہ حال ہی میں اسلامی یونیورسٹی میں اسرائیل کلچر نمائش کا اہتمام کر کے کر دیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ سعودیہ اسلام کا ترجمان یا مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ نہیں چاہتابلکہ وہ ہر قیمت پر امریکہ واسرئیل کے مفادات کا تحفظ کرے گا جیسے مصر،تونس،افغانستان،عراق اور شام ویمن کے اسلام پسندوں کے خلاف مظاہرہ کیا اور اب اس کا اگلا ہدف پاکستان اور ترکی ہیں ۔ہم بحیثیت مسلم سعودیہ کی اس مجرمانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسلامی یونیورسٹی میں اسرائیلی کلچر کی نمائش کے انعقاد کے ذریعہ پاکستان کے آئین و قانون کا تمسخر اڑایاگیا ہے اس کے ذمہ داروں کے تعین اور ان کو اس لاابالی حرکت پر سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔جہاں ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس قبیح واقعہ کا سختی سے نوٹس لے وہیں یونیورسٹی انتظامیہ کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں غیر جانبداری کے ساتھ اس یونیورسٹی کو تعلیمی سفر خوش اسلوبی کے ساتھ کرائیں یہاں سے بہترین قیادت مسلمانوں کو فراہم کریں اور اگر فرقہ واریت یا سعودیہ کی غلامانہ ذہنیت کو یہاں نافذ کرنے کی کوشش کی تو اس کے اثرات و نتائج درست نہیں ہوں گے۔
دیس کی بات

عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com 

عالم اسلام دشمن کے نرغے میں