جمعرات، 26 نومبر، 2015

تزکیہ و تربیت سے خالی تعلیم کے نقصانات

رب کریم نے نبی مکرم ۖ کی بعثت فرماتے ہوئے پہلی وحی جو نازل کی اس میں تعلیم کی اہمیت، اس کے مقاصد اساسیہ،اس کے حصول کے ذرائع کو شاندار انداز میں بیان کر دیا ”پڑھ اپنے رب کے نام سے جو پیدا کرنے والا ہے، پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے ،پڑھ عزت والے رب کے نام سے، وہ جس نے تعلیم سیکھائی قلم کے ذریعہ سے، انسان کو وہ تعلیم دی جس کو وہ نہیں جانتاتھا”۔سورہ علق کی ان پانچ آیات میں تعلیم اور اس کے مشتقات اور اس کے اغراض و مقاصد کو کھولے انداز میں بیان کر دیا گیا۔ امت محمدیہ کا رشتہ علم کے ساتھ ایسا وابستہ کردیا گیا ہے کہ وہ کبھی بھی چھوٹ نہیں سکتا بالاضافہ اس بات کے کہ اللہ نے انسان کو کائنات کی تمام مخلوقات پر جو فضیلت دی اس کا بنیادی سبب بھی علم سے واقفیت کی وجہ سے ہی ہے۔

فرشتوں کو(جو کہ نورانی اور معاصیات سے پاک مخلوق ہے ) انسان(باوجود اس بات کے رب ذوالجلال کے علم میں تھا کہ انسان دنیا میں انتشار و فسادات کو بپاکرنے کے ساتھ گناہوں کا مرتکب ہوگا) کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا گیا ۔سورہ البقرہ میں اس مکالمہ کا ذکر موجود ہے جو اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے مابین ہوا ۔اللہ رب العزت نے جب فرشتوں کا امتحان لیا وہ عاجز ہوگئے اور حضرت آدم علیہ السلام کامیاب ٹھہرے بالآخر فرشتوں نے ان کو سجدہ کیا۔یہ فضیلت و منزلت علم ہی کی وجہ سے حاصل ہوئی کہ انسان مسجود ملائک بنا۔
Islamic Teachings
Islamic Teachings
سورہ علق کی آیا ت میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ علم وہی علم ہے جس میں رب کائنات کی رضا کا حصول مضمر ہو ،دنیا کا کوئی علم فی نفسہ مضر یا نقصان دہ نہیں ہے ہاں جب اس کی ٹہنی کو غیر اللہ کی جانب سے حرکت دی جائے گی اور اس کو حاصل کرنے کا مقصد دنیا میں خود کومستعلی کرنے کی کوشش کی جائے گی ،ظلم و ستم کا راستہ اختیار کرکے کمزور و ناتواں لوگوں پر مصائب ڈھائے جائیں گے ،یا علم کو حاصل کرنے کے بعد انسانیت کے حقوق کو غصب کیا جائے گا،یا علم کے آجانے کے بعد مادر پدر آزادی کی لہر کو فروغ دیاجائے گا،یا پھر اسلامی تعلیمات اور اس کے تہذیب و ثقافت کو کمتر جانتے ہوئے غیراللہ کی اندھی تقلید کی جائے گی تو ایسے میں لازم ہوگا کہ یہ علم فائدہ دینے کی بجائے انسانیت کو ہلاکت کی تہوں میں داخل کرنے کا موجب ہوگا ۔جیساکہ عصر حاضر کا مشاہدہ بتاتاہے کہ انسان نے خود ہی اپنی ہلاکت کا سامان تیار کرلیا ہے۔
پہلی و دوسری جنگیں اس بات کی شہادت ہیں اور اسی طرح ایٹمی مواد کے تیار ہوجانے کے بعد دنیا کا ہر گوشہ غیر محفوظ ہوچکا ہے۔اسی وجہ سے سورہ علق کی پہلی دوآیات میں علم کے حصول اور اس کے رب عظیم کے ساتھ رشتہ و تعلق کی اہمیت کے ساتھ انسان کو بتادیا گیا ہے کہ انسان کو متکبر و گھمنڈ کارویہ اختیار کرنے کی چنداں حاجت نہیں کیوں کہ انسان کی اصل و اساس پانی کے ایک گندے قطرے کے بعد خون کے لوتھڑے سے زیادہ کچھ بھی نہیں تاوقتیکہ وہ اپنی بعثت و تخلیق کے مقصد پر اپنی زندگی بسر کرنا شروع نہ کردے ۔قرآن میں بیان ہواہے کہ ”ہم نے پیدانہیں کیا انسان کو مگر اپنی عبادت کی خاطر”۔احادیث مبارکہ میں بھی حصول کی اہمیت اور اس کے مقصد و مطلب کو واضح کیا گیا ہے۔”علم حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے”و”میں معلم بناکر بھیجا گیاہوں”و”اے اللہ علم نافع عطافرما” جیسی بے شمار احادیث نبویۖ اور دعائیں موجود ہیں۔
تیسری آیت میں بیان کردیا گیا ہے کہ پڑھنے کے بعد واجب ہے کہ ہم انسانیت کے ساتھ متواضع کے رویہ کواختیار کرتے ہوئے ان کے ساتھ بھلائی و ہمدردی اور نیکی و تکریم کا تعلق استوار کریں۔کیوں کہ جو علم اسے دیا گیا ہے یہ علم کریم و عزت والے رب کی جانب سے ملا ہے ۔اس علم کو انسانیت کی خدمت اور ان کی دست گیری کا ذریعہ بناناچاہیے نہ کہ اس کے بعد انسان مارے غرور کے حیوانیت کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے صرف اپنے مفادات کے تحفظ کو تو یقینی بنائے چاہے اس کے سبب دوسروں کے گھر ویران و تاریک ہوتے ہوں۔گویا کہ اس آیت میں اللہ رب العزت انسان کاتزکیہ فرمارہے ہیں کہ علم کے حصول کے بعد مادہ پرستی کا دامن نہ تھام لینا اور اس کے ساتھ سرکشی و بڑائی کو اپنا شعار نہ بنالینا کیوں کہ اسی کے سبب شیطان کو تاقیامت مردود اور جن و انس اور کائنات کی تمام مخلوقات کی لعنت کا مستحق بنا دیا گیا۔
Allah
Allah
چوتھی اور پانچویں آیت میں اول تو علم کے حاصل ہونے کے اہم ترین ذریعہ کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ آگے واشگاف الفاظ میں اللہ نے انسانیت کی استعداد و صلاحیت کی بنیاد کو بیان کردیا کہ جوکچھ تم جانتے ہو وہ ہمی نے تم کو بتایا اور سیکھلایا وگرنہ تم تو جانتے ہی نہ تھے ۔اس بات کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کو اپنا سینہ اس بات پر چوڑا کرنا چاہیے جو اس کی اپنی تخلیق ہو اور وہ چیز کسی اور کے پاس موجود نہ ہو اور اس نے یہ کسی کی مدد و نصرت کے بغیر حاصل کیا ہو ۔اور یہ امر ایسا ممکن ہی نہیں تو لٰہذا امر واقع ہے کہ انسان کو عاجزی کو اپنا چاہیے۔
مندرجہ بالاگذار شات کودرج کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام وہ دین متین ہے جس نے نہ صرف علم کی اہمیت کو ببانگ دہل بیان کیا اور اس کے حصول پر زور دیا بلکہ اس کے حدود اربع کو بھی متعین کردیا کہ یہ حد فاصل ہے علم رحمانی اور علم شیطانی کے مابین جو علم رحمانی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے گا وہ ہمیشہ کے لیے کامیاب ہوجائے گا وگرنہ ابدی لعنت اور ناکامی کا مستحق ٹھہرے گا۔
اللہ جل جلالہ نے قرآن میں حضورۖ کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ” ہم نے امیین (ان پڑھ)میں رسول بناکر بھیجا انہیں میں سے ہیں وہ تلاوت کرتے ہیں آیات کی ،اور تزکیہ کرتے ہیں،تعلیم دیتے ہیں کتاب و حکمت کی ۔۔۔۔۔الخ”اس آیت میں اور اس جیسی دیگر آیات میں اللہ نے نبی کریم ۖ کی چار صفات کا ذکر کیا ہے جن کی تعلیم دینا آپۖکے فریضہ میں شامل تھا۔اول ۔آیات کی تلاوت۔ثانی۔ تعلیم کتاب۔ثالث۔ تعلیم حکمت و دانشمندی ۔رابع ۔تزکیہ ۔علم کا رشتہ جب تک تزکیہ کے ساتھ استوار و قائم رہے گا اس علم کے ذریعہ انسان عروج کے اقبال تک پہنچے گا اور جب علم سے تزکیہ کے رشتہ کو کاٹ دیا جائے گا تو یہ علم ضلالت و گمراہی اور انسانیت کی کشتی کو ڈبودینے کا سبب بھی بن جائے گا اور اس کے ساتھ ہی اللہ کی ناراضگی ہمیشہ کا مقدر بن جائے گی۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آج کل کے تمام تعلیمی ادارے بالخصوص حکومتی و عصری تعلیمی اداروں کا رشتہ تزکیہ سے کٹا ہوا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ طالب علم استاذ پر دست درازی ، والدین ،اساتذہ ،بڑوں ،دوستوں اور رشتہ داروں کی عزت و تکریم سے تہی دامن ہوچکا ہے ۔اور اسی کابدیہی ومشاہداتی نتیجہ ہے کہ معاشرہ عدم اطمینان کی کیفیت سے دوچار ہے اور کرپشن،لوٹ مار ،چوربازاری،دھوکہ دہی و بددیانتی کا رواج عام جاری و ساری ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ علمی چوری ،مالی خیانت کو عزت و منزلت کے حصول کے لئے گنہونے جرم کو بھی کر گذرنے میں کوئی حجاب نہیں کرتے ۔آئے روز اخبارات و ٹی وی پر خبریں چلتی ہیں کہ فلاں مقام پر فلاں طالب علم یا فلاں طالبہ نے خودکشی کرلی ہے او ر اس کے متعدد اسباب بیان کیے جاتے ہیں کہ محبت میں ناکامی پر یا گھریلوناچاقی پر،شادی بالجبر کے اندیشے پر خودکشی کی گئی ہے مگر ایک اہم نقطہ کو ہمیشہ نظروں سے اوجھل رکھاجاتاہے کہ اس حدتک پہنچنے کا ذریعہ کونسا سبب بناہے شاید کبھی کسی نے اس پر غور کرنا مناسب نہیں سمجھا جبکہ یہ امر مسلتزم ہے کہ جب آپ بانجھ و غیر مئوثر اور ناکارہ تعلیم جو تزکیہ و تربیت سے خالی ہوگئی کو حاصل کرنے والے طالب علم یا طالبہ سے یہ کسیے امید رکھ سکتے ہیں کہ اس میں اخلاقیات سے عاری سرگرمیاں ،یورپ و مغرب کی تقلید میں مشغول ہوتے ہوئے عشق و معاشقہ کی لعنت سے دور رہ سکتے ہیں۔
تعلیم وہ مطلوب ہے جو تزکیہ و تربیت کے ساتھ مربوط ہو اور استاذ صرف کتاب کو رٹوانے یا ازبر کروانے اور امتحانات میں کامیابی کے چور راستے بتانے کا مکلف نہیں بلکہ یہ وہ منصب ہے کہ جس پر فائز ہونے والے کی ابدی کامیابی کا انحصار اور معاشرے کی ترقی و فلاح کا منبع تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات ہوتے ہیں ۔اگر ان کی خط مستقیم پر رہنمائی و نگہبانی نہیں کی گئی تو مسلم معاشرہ ہمیشہ کی ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوجائے گاجس کا آغاز بڑی سرعت کے ساتھ پروان چڑھ رہاہے اس کے سامنے بندھ باندھنے کا واحد ذریعہ تعلیم ہے اوروہ تعلیم جس کا تعلق و رشتہ تزکیہ و تربیت کے ساتھ اٹوٹ ہو۔
Attiq-ur-Rehman
Attiq-ur-Rehman
تحریر: عتیق الرحمن (اسلام آباد)
ایم فل ریسرچ سکالر
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com

جمعرات، 23 جولائی، 2015

بعنوان ’’والدین کے ساتھ بدسلوکی ۔۔۔۔!‘‘


مغرب کے معاشروں میں والدین کی رتی بھر بھی اہمیت اور قدر و منزلت نہیں کیوں کہ مغربی معاشرہ مادرپدر آزاد معاشرہ ہے۔وہاں ہرفرد بشر اپنی من کی زندگی میں زندگی بسر کرتا نظر آتاہے ۔سلسلہ نسب والد کی بجائے ماں کی جانب منسوب کیا جاتاہے ۔وہاں پر خاندان کا اجتماعی تصور معدوم ہوچکا ہے۔مغربی معاشرہ میں باپ بیٹا ،ماں بیٹی ہر ایک اپنے ذاتی کا م کے امور آزادانہ سرانجام دیتے ہیں اس سلسلہ میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ جب اس معاشرہ میں والدین بزرگ ہوجاتے ہیں اور اپنی ذاتی کام کرنے سے عاجز آجاتے ہیں تو ان کی اولا انہیں اولڈ ہاؤس کی نظر کر آتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ان کی اس عمر آخیر میں کوئی خدمت کرسکیں اور نہ ہی ان کو بوڑھے و بزرگ لوگوں کے ساتھ رہنے میں اپنی پرتعیش زندگی بسر کرنے میں لطف ملتا ہے۔(اگرچہ آج کل مغربی معاشرہ خاندان کے بندھن کی جانب لوٹنے کے لئے بے تاب ہی نہیں بلکہ عملاً اس کا آغاز بھی ہوچکا ہے)
ستم ظریفی ہے کہ آج کا مسلم معاشرہ بھی مغرب زدہ ہوچکا ہے ۔مسلم معاشرہ مغرب کے تہذیب و تمدن اور اس کی عیش و عشرت سے ہمہ جہت متاثر ہوچکا ہے۔اس سلسلہ کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔بہت سارے بیوروکریٹ ،اعلیٰ و اغنیا خاندان کے لوگ بھی اپنے والدین کو دھتکارتے اور گھروں سے بے گھر کرتے نظر آتے ہیں یا ان کی زندگی اجیرن کرتے ہیں گو یا کہ وہ زندہ رہ کر بھی موت کی عبرت ناک اذیت کو سہنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ذیل کی تحریر میں دوواقعات درج کرتاہوں ۔ایک واقعہ متعدد بار پیاس تحقیقاتی و سائنسی ادارہ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الرحمان کے لیکچر میں سنایا ہے اور یہ واقعہ باعث حیرت و تعجب ہونے کے ساتھ اولاد کے رویہ کی بدترین مثال پیش کرتے ہوئے مسلم معاشرہ کے ہر فرد کو خبردار کرتاہے کہ یہ وحشیانہ سلوک والدین کے ساتھ روارکھنے والے دنیا و آخرت میں بدترین و دردناک ترین عذاب سے ضروربالضرور دوچار ہوں گے۔دوسرا واقعہ خود راقم کے مشاہدہ میں آیاہے اور اس کو بعض وجوہ کے سبب فرضی تمثیل کے ساتھ ضبط تحریر کروں گا۔
ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ راول پنڈی کے مدرسہ اصحاب صفہ کے مہتمم قاری عبدالمالک صاحب بیان کرتے ہیں ان کے ہاں ایک بزرگ کا بہت آنا جانا تھا اور وہ صاحب ایک بڑے عہدہ ریٹائر تھے ۔اکثر و بیشتر اپنے بچوں کی بے پروائی کی شکایت کرتے تھے،وہ شراب و شباب کی محفلیں گھر میں سجاتے ہیں اور میں گھر سے آنے جانے میں خوف محسوس کرتاہوں گویا کہ میں گھر کے ایک کونے میں محصور ہوں۔چونکہ ان صاحب کی رہائش فیصل مسجد کے قرب و جوار میں رہائش تھی ۔قاری صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ہم کچھ دوستوں کی معیت میں ان کے گھر پر حاضر ہوئے تو دروازے پر دستک دی تو جب دروازے کھولا تو ہمیں غیر متوقع طور پر ان کے بچوں کا سامنا کرنا پڑا جن کے چہروں پر اذیت ناک شکنیں پڑچکیں تھیں ۔بے رغبتی کے ساتھ ہمیں گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی ۔جب ہم نے ان کو والڈ صاحب کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دینے کی کوشش کی تو ان کا لہجہ تلخ ہوگیا اور سب و شتم تک نوبت آگئی تو ہم نے رخصت ہونے کی اجازت طلب کرکے روانہ ہوگئے ۔قاری صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ بزرگ وقتاً فوقتاً بعد میں بھی حاضر ہوتے رہے اچانک طویل مدت ہوگئی تھی تو وہ صاحب نہیں آئے ہم پھر ان کی خیریت دریافت کرنے ان کے گھر پہنچے اور دستک دی تو دروازہ کھولا تو ہم نے محسوس کیا کہ ان صاحب کے بچوں کا رویہ مثبت و خوشگوار پایا،ایک لمحہ تو ہم سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا وجہ ہے کہ آج یہ خوشگور انداز سے استقبال کررہے ہیں یا تو یہ تبدیل ہوگئے ان کو اپنے ماضی پر ندامت ہوئی ہوگی اور انہوں نے بدمعاملگی سے توبہ کرلی ہوگی یا دوسری صورت یہی ہوسکتی ہے کہ یہ ہم خراب ہوگئے ہیں تبھی ہم سے اچھے رویہ سے پیش آرہے ہیں ۔بپرحال ہم جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے تو ہمارے اوسان خطا ہوگئے کہوہ ہمیں گھر کے ایک کونے میں لے کر گئے اور کہنے لگے یہ تمہارا دوست مرا پڑا ہے لے جاؤاسے اور اس کے جنازہ کا انتظام کرو اور پھر اسے دفن کردو کہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس قدر اولاد کی بے رغبتی و بے پروائی کی بدترین مثال کہیں نہیں ملتی اور یہ ہمارے مسلم معاشرہ کی مغرب زدگی کا ہی مظہر ہے جس کو ہمارا میڈیا اور حکمران مختلف طور و طریقوں سے فروغ دے رہے ہیں اور اس بدمعاملگی کو فروغ ملنے میں ہمارا نظام تعلیم و تربیت بھی اساسی کردار اداکررہاہے جس کے سبب اخلاقیات کا جنازہ نکل رہاہے۔اسی طرح اس قضیہ کو معاشرہ میں پنپنے کا موقع فراہم کرنے میں ہمارے مذہبی ذمہ داروں کا بھی بنیادی کردار ہے کیوں کہ وہ اس طوفانِ بدتمیزی پر سردمہری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
دوسرا واقعہ ظلم و جبر اور طاغوتیت کی مثالوں میں آخری درجہ کی مثال ہے کہ تمام مظالم اس واقعہ کے سامنے ہیچ ہیں کہ اس واقعہ کا مرکزی کردار وہ بیٹی ہے جو اپنے والدین کا مان و سامان ہوتی ہے ۔بیٹی کا رشتہ ماں باپ سے اس قدر استوار ہوتاہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی ۔بیٹی سے والدین جس قدر محبت کرتے ہیں اس کا عشرعشیر بھی بیٹوں کو میسر نہیں ہوتا۔بیٹی جب ان کے گھر سے رخصت ہوتی ہے تو والدین کا جگر ٹکڑے ہوجاتاہے شاید اسی سبب غربت و تنگ دستی کے باوجود کوئی باپ اپنی بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت کرنے میں شرم محسوس کرتا ہے اس کی یہ خواہش و آرزو ہوتی ہے کہ وہ بہتیرے جتن کرکے اور محنت کرکے اپنی بیٹی کے راحت و سکون کی خاطر کچھ اس کو ہدیہ دے(اگرچہ آج کل معاشرے میں جہیز کی لعنت اس قدر فروغ پاچکی ہے کہ جس کے باعث بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کرنے کی تمنادل میں لئے دنیا سے ہی رخصت ہوجاتے ہیں چونکہ ان کے پاس اس ناجائز خواہش کی تکمیل کی کوئی مناسب صورت نہیں ہوتی(اس رسم کے خلاف بھی مذہبی طبقہ کی غیر ذمہ داری باعث تاسف ہے)۔
ٍٍ ایک بزرگ شخصیت(ن۔ذ) جن کی ولادت ہندوستان کے ضلع جالندھر میں ۱۹۲۰ء میں ہوئی اور انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تنگ دستیوں کے باعث اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے میں عاجز تھے اور انہوں نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی ۔انگریز سے آزادی کی تحریک میں پیش پیش رہے اور مسلم لیگ کے جلسوں میں مسلم ریاست کے حصول کی جدوجہد میں برابرشریک ہوتے رہے یہاں تک کے قائد اعظمؒ کے ساتھ بھی ملاقات کا موقع میسر آیا۔اپنا سب کچھ ہندوستان میں چھوڑ کرآزادی کی پہلی ٹرین میں سوار ہوکر پاکستان ہجرت کر آئے ۔ان صاحب نے اپنی محنت و لگن کے سبب ہندستان اور پھرپاکستان میں اعلیٰ شخصیات کے ساتھ کام کیا تھا ۔ان کو مغربی و شرقی ملکوں میں اسفار کے مواقع بھی میسر بھی آئے ۔اور پاکستان کے قرب و جوار کے ملکوں میں قریباً پندرہ سال تک سفارت کاری کے بھی فرائض انجام بھی دئے تھے .۔وہ وزیر اعظم نواز شریف کء مشیر بھی رہے تھے۔ اس دوران میں ان کی زندگی کا اولین مقصد یہی تھا کہ پاکستان اور اسلام کے تحفظ کے لئے شب وروز تگ ودو کرتے تھے ان کی عقابی نظریں ہر فرد ،ہر اخبار ،ہر حکومت،ہر نشریاتی ادارے پر جمی رہتی تھی کہ کوئی پاکستان یا اسلام کے پیٹھ مین چھپکے وارکرنے کی تاک میں تو نہیں بیٹھا ہوا۔اسی امر کا مظہر انہوں نے اپنی ذاتی ڈائری لکھنے کو معمول بنا لیا تھا اور پھر درجن بھر ہزاروں صفحات پر مشتمل کتب تصنیف کیں جن کے مطالعہ سے پاکستان اور اسلام کی محبت پھوٹتی نظر آتی ہے۔ ان کے بچے تعلیم یافتہ ہوکر امریکہ و برطانیہ میں حصول روزگار اور شادی کرکے رہائش پذیر ہوگئے۔مرور وقت کے ساتھ ان کی صحت ڈھلتی گئی اور ضعف غالب آتا گیا اور کمزوری کے سبب گرئے تو ہاتھ سے معذور ہوگئے ۔مگر اس کے باوجود ان کی ایمان و سلامتی کو سلام کرنے کو خود سے دل کرتاہے کہ وہ بیماری و تکلیف کے باوجود صوم و صلاۃ کے پابند رہے اور شب زندہ دار رہے اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بے سہارا کرکے اپنے درپر سجدہ ریز ہونے کا وافر قیمتی وقت عنایت فرمایا ہے میں نے اپنا نماز تہجد سے لے کر رات سونے تک کے معمولات ترتیب دئے ہوئے ہیں ۔تلاوت ،مطالعہ تفسیر ،ذکر اذکار اور نمازوں کی ادائیگی کا وقت مقرر ہے جس کی خلاف ورزی کسی صورت نہیں کرتا۔انہوں نے اپنا گھر ایک بیٹی کے نام کردیا اور اپنی ذاتی گاڑی بھی ایک بیٹی کو گفٹ کردی تھی۔مگر افسوس وہ ہی بیٹیاں ان کی جان کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑگئیں۔یہ حسرت و تمنا کرتی نظر آئیں کہ وہ یہ چاہتی تھی کہ جلد سے جلد یہ دنیا سے رخصت ہوجائیں ۔جس کے لئے مختلف اذیتی حربے استعمال کئے گئے تھے ۔جن میں ان کو کھانے بازار سے خریدنے پر مجبور کیا گیا گھر پر تیار شدہ کھانے میں سے ایک لقمہ بھی نہ ملتاتھا،انہیں معذور و کمزوری و نقاہت کے باوجود اپنے کپڑے خود دھونے ہوتے تھے،انہیں گھر کے ایک کمرہ میں محصور کردیا گیاتھا ،ان کے ساتھ کسی بھی فردبشر کی ملاقات پر پابندی عائد کردی گئی تھی،ان کے ساتھ کلام و سلام تک کی کوئی ممکنہ صورت بھی نہ ملتی تھی وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک گھر میں رہ کر بھی ان کی محبت بھری آواز اور ہمدردی سے محروم تھے،ان سے ملاقات کرنے والوں پر رکیک الزامات عائد کئے گئے اور کچھ کو دھمکا کران سے دور کردیا گیا ،مردوں اور عورتوں کے مابین اپنے والد کی ذات پر ذلیل قسم کے الزامات عائد کئے جاتے تھے۔ان سب حرکتوں اور حیلوں کا سبب یا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ ان کو زچ کیا جائے اور ان کو جیتے جی قبر جیسی تنہائی و تاریکی دنیا ہی میں چکھائی جائے ۔رب کریم ہی جانتا ہے کہ اس بیٹی کے دل میں کیا راز و مقصدتھا کہ جس کے سبب وہ اس قدر گھٹیا اور امتیازی سلوک اپنے مجبور و مقہور اور ضعیف والد کے ساتھ کرتی تھی۔بلآخر گذشتہ برس وہ نیک صفت بزرگ تقریباً۹۴ سال کی عمرپاکراپنی جان جان آفریں کے حوالے کرگئے (انا للہ و انا الیہ راجعون۔اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کا بقعہ نور بنائے ۔آمین)یہ خبر مجھے ٹھیک ایک سال بعد معلوم ہوئی(کیوں کہ میں نے ان سے اپنا رابطہ صرف اس سبب سے منقطع کیا ہواتھا کہ ان کی بیٹی نے مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں تھیں اور میرا چونکہ ان کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہ تھا تب یہ قطع تعلقی لازمی ہوگئی تھی)۔
امر جو بھی ہو اسلام کا نام لینے والے کے لئے کسی طور پر بھی جائز و درست نہیں کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اس قدر ہتک آمیز سلوک کا رویہ اختیار کرے۔قرآن کریم میں بار بار والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دئی گئی ۔نبی کریم ؐ نے بھی والدین کے ساتھ اچھے برتاؤکا حکم دیا یہاں تک کے کافر و شقی والدین کے ساتھ بھی ادب کے ساتھ گفتگو کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے۔مگر افسوس کہ آج یہ دونوں بزرگ دنیا سے تو پردہ فرماچکے ہیں اور وہ قبر کے پر تال میں اتار دئیے گئے ہیں ۔لیکن یہ یاد رہے کہ جنہوں نے اپنے والدین کے ساتھ اس طرح کا بہیمانہ سلوک کا معاملہ روا رکھا تھا وہ دنیا کی زندگی میں اس کا نقصان و ازالہ ضرور بالضرور بھگتیں گے ۔آخرت میں دردناک انجام ان کا مقدر ہے ،جہنم کی آگ ان کی منتظر ہے ۔اور جو لوگ اب بھی اپنے والدین کی نافرمانی کررہے ہیں یا ان کو اولڈ ہاؤس (جو اب پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں قائم ہوچکے ہیں ) میں والدین کو چھوڑ آتے ہیں یا والدین کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں اسباب جو بھی ہوں وہ یاد رکھیں کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ۔ بزرگ والدین کسی طرح اپنی زندگی دکھ سکھ کے ساتھ بسر کرجائیں گے مگر ایسے بیٹے اور بیٹیوں کی دنیا میں زندگی اجیرن و تنگ ہونے کے ساتھ ساتھ قیامت میں اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔یاد رہنا چاہیے دنیا کی زندگی ،مال و دولت کی فراوانی،عیش و عشرت کے لمحات ،حسن و جمال یہ سب کچھ فانی ہے جن کے سبب والدین کو ٹھکرادیا جاتاہے۔
قران و سنت میں متعدد مقامات پر والدین کے ساتھ حسن معاملہ کا حکم دیا گیا ہے۔معاشرے کی اکثریت یا تو واقف ہی نہیں یا پھر غفلت کی نیند سورہے ہیں اور خود کو جہنم کا ایندھن بنانے پر مصر نظر آتے ہیں۔یہاں چند آیات و احادیث کے ترجمے پیش کیے جارہے ہیں۔سورہ بنی اسرائیل میں اللہ نے فرمایا کہ اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو۔اگر ان میں سے ایک یا دونو بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک بھی نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا اور عجزونیاز سے۔سورہ نساء میں اللہ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آؤ۔سورہ لقمان میں فرمایا کہ تو میرا شکراداکرو اور اپنے والدین کا بھی۔احادیث میں وارد ہوا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعدؓ روایت کی حدیث ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے نبی کریمؐ سے پوچھا اے اللہ کے رسول ؐ اللہ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندہے؟آپؐ نے فرمایا کہ نماز کی ادائیگی اپنے وقت پر من نے پوچھا پھر کون سا؟ آپؐ نے فرمایا کہ والدین سے اچھا سلوککرنا،من نے پوچھا پھر کون سا؟آپؐنے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہادکرنا۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا :اس کی ناک غبار الود ہو ،اس کی ناک خاک آلود ہو ،اس کی ناک خاک آلود ہو(یعنی ذلیل و رسوا ہو)کسی نے عرض کیا یا رسول اللہؐ کون ہے؟حضورؐ نے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوکو یا ایک کو پڑھاپے کے وقت پایا پھر (پھر ان کی خدمت کرکے )جنت میں داخل نہ ہوا۔حضور ؐ کا فرمان ہے کہ والدین اولاد کے لئے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی اگر اولاد نے ان کی خدمت کی اور حسن نے سلوک کا معاملہ کیا تو جنت میں داخل ہوں گے اور اگر ان کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آیا یا پھر ان کی نافرمانی کی تو یہ کافی ہے اس کے جہنم جانے کے لئے۔ایک حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالی کی رضا والد کی رضامندی میں ہے اور رب کی ناراضگی بھی والد کی ناراضگی میں ہے۔رب ذوالجلال سے عاجزانہ دعاہے کہ ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار بنائے اور ان کے توسط سے ہمارا ٹھکانا جنت مقرر ہوجائے۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
atiqurrehman001@gmail.com
03135265617

منگل، 21 جولائی، 2015

برائی سے نفرت لیکن۔۔۔۔۔


کسی بھی مذہب و معاشرے میں برائی و بدکاری کو بہتر نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس سے نفرت کی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ لوگ جو خود اس قبیح عمل کی تہہ میں زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں وہ بھی اس کو برا و غلط سمجھنے کے ساتھ ہی ساتھ اس سے نفرتکرتے ہیں اور یہ خواہش بھی ان کے سینوں میں جگہ لیے ہوئے ہوتی ہے کہ وہ اس غلیظ و مغلظ دنیا سے نکلنے کی کوئی سبیل تلاش کرلیں۔کوئی بھی ذی شعور انسان مرد ہو یا عورت ،جوان ہو یا بوڑھا ،اگر اس میں ایمان کی ریت کے ذرہ کے برابر بھی ایمان ہو تو وہ ضرور بالضرور برائی و بدکاری سے نفرت کرے گا اور خود کے اس میں لت پت ہونے پر ندامت تاسف کے آنسو بہائے گا ۔حال ہی میں عبدالکریم آغاشورش کاشمیری (ؒ جو ایک بے باک و بہادر صحافی تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کے ہر گوشہ کو ممکنہ حدتک کھول کر جگ بیتی ضبط تحریر کردی )کی کتاب ’’اُس بازار میں‘‘کے مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا ۔اس کتاب میں آغا شورش مرحوم نے کوئی چھ سو کے قریب خواتین(جو اپنے جسم کو لاہور کے مشہور بازاروں میں فروخت کرتی تھیں) سے ملاقاتوں کے بعد جو ماحاصل مناسب جانا وہ نقش قلم کردیا�آ آغا شورش نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس لعنت میں گرفتار ہونے کے اسباب پر روشنی ڈالی اور مختلف طوائفوں کے انٹرویوقلم بند کیے ۔شورشؒ نے ایک جملہ پر بڑا زور دیا کہ معاشرے کے سبھی مولوی ہوں یا سیاستدان ،عام ہوں یا خاص سبھی کے سبھی طوائفیت کی زندگی بسر کرنے والوں کو حقارت و ذلت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ عورتیں اس حرام پیشہ میں ملوث ہوکر اپنی عاقبت کو خراب کررہی ہیں اور وہ مرتکبین گناہ ہونے کے سبب اپنا ٹھکانہ نار کو بنا چکی ہیں ۔مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ سبھی لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ جو ہورہاہے ،جو کررہاہے وہ معصیت کی لعنت میں گرفتار ہے اور اس کو کوستے نظرآتے ہیں مگر آج تک کسی نے بھی اس کسبی کاروبار میں داخل ہونے کے اسباب کے بارے میں کسی سے استفسار کرنا مناسب نہ سمجھا یا پھر فتوی لگانے سے قبل یہ ضروری نہ جانا کہ کن وجوہات اور کون سے اسباب ان عورتوں یا مردوں یا خنثوں کو اس بدترین حالت میں زندگیبسر کرنے پر مجبور کیا ہے ۔آغا صاحب نے اجمالاً فہرست دی ہے کہ کون کس سبب سے اس دنیا میں آدھمکا ،کسی نے غربت کو سبب بتایا تو کسی نے والدین کی بے رخی ،کسی نے یاروں کی بے ووفائی کو وجہ بیان کیا تو کسی نے خاندانی پیشہ قرار دیا،کوئی بک بکا کر اس بازار میں پہنچی تو کسی کو بے سہاراہونے نے اس بازار تک پہنچا دیا ۔
اس کتاب کو پڑھنے سے یہ واضح طور پر درس ملتا ہے کہ جو لوگ بھی اس جنسی بدکاری و فحاشی کے عمل میں شب و روز بتاتے ہیں وہ لازمی نہیں کہ اپنی خوشی یا رضامندی سے اس عمل کو اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ یہ امر بعید نہیں کہ اگر اس فعل و عمل میں شریک افراد کو ٹٹولا جائے اور ان کے ساتھ نشست و برخاست کی جائے ،اور ان سے اسباب و وجوہات معلوم کرلی جائیں اور پھر ان کا تدارک کردییا جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ لوگ اس لعنت کی دنیا سے ہمیشہ کے لئے باہر نکل آئیں گے بلکہ ہمارے معاشرہ مکمل طور پر فحاشیت و عریانیت اور جنسی فروخت کی دنیا سے پاک ہوجائے گا۔
راقم کے مشاہدہ میں متعددواقعات ایسے ہیں کہ جو معاشرہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں مگر افسوس کہ معاشرے کے سبھی طبقے دم بخوداور بے حس ہیں۔(دوسری قسط میں بعض مشاہداتی واقعات ذکر کروں گا ) اگر میں یوں کہوں کہ معاشرے میں بدکاری و فحاشی کے فروغ میں محرکات بننے والے سبھی طبقے ذمہ دار ہیں تو ہر گز غلط نہیں ہوگا کیوں کہ سیاستدان ،صحافی ،پولیس ،مولوی و صوفی ان کی نگاہوں کے سامنے سب کچھ بین و ظاہر ہے مگر تغافل برتتے ہیں اس عمل کی روک تھام کے انتظام کرنے کے سلسلہ میں۔مثلاً سیاستدان و حکمران ملک میں عادلانہ قانون نافذ کرسکتے ہیں کہ جس سے معاشرے میں موجود تفاوت مٹ سکتی ہے اور ہر فرد بشر کو باعزت روزگار ،گھر،لباس میسر آسکتاہے ۔صحافی ذرائع نشرواشاعت میں فحاشیت و عریانیت کو فروغ دینے کی بجائے ان کے مضمرات و نقائص کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں حیا پاک دامنی کی اہمیت و فوائد کو بیان کرسکتاہے ۔پولیس جو کہ اس عمل کی سرپرستی کرتی ہے اور اپنا حصہ وصول کرکے اس کلنگ کے ناسور کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔مولوی و صوفی صرف گناہ کے بیان اور اس کی سزا کے ذکر کرنے اور اس عمل میں لت پت افراد کو حقیر ذلیل سمجھنے ہی پر اکتفا کرنے کی بجائے وہ ان اسباب و عوام پر غورفکر کریں کہ جس کے باعث معاشرہ میں یہ برائیاں اور بدکاریاں فروغ پاتی ہیں اور پھر اپنا قائدانہ کردار اداکرتے ہوئے مسجد کے منبر و محراب سے ان کے تدارک کو تفصیل کے ساتھ بیان کریں ۔واضح رہے کہ دین اسلام کسی فرد کی ذات تک صرف محدود ہونے والا دین نہیں ہے بلکہ اس کا مقتضی اجتماعی ہے اور اس نے نوع بشر کو ماں کی گود سے قبر کے آغوش تک سبھی امور کی رہنمائی کردے رکھی ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے کہ مولوی فرقہ واریت و مسلکیت اور گداگری و بادشاہوں ،سرداروں اور طاقتور طبقوں کی کاسہ لیسی میں دھت ہے اس کو فرصت ہی نہیں کہ وہ معاشرہ کو جہیز کی لعنت سے آگاہ کرسکے ،اس کو معلوم ہی نہیں کہ گھر میں بیٹھی جوان بیٹی کے مسائل سے آگہی حاصل کرکے اس کے تدارک کی جستجو کو بیان کرسکے ،انہیں وقت نہیں ملتا کہ وہ شادی بیاہ میں سادگی کو بیان کریں کہ نبی کریم ؐ نے اپنی صاحبزادی کا رشتہ کس قدر سادگی سے فرمایا تھا اور پھر حضورؐ کا ہر عمل صرف کہنے کی حدتک نہیں عمل میں لانے کی حدتک بھی اسوہ حسنہ ہے،ان کو پتہ ہی نہیں کہ والدین پر بچوں کی تربیت اور ان کے شادی بیاہ میں عجلت کی اہمیت و ضرورت کیا ہے؟کہ وہ بیان کرکے والدین کو خبردار کرسکیں کہ بچوں کی تربیت میں ذراسی غفلت اور ان کی شادی بیاہ میں غفلت و تعطل کس قدر ان کے لئے عنداللہ وبال جان ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی زندگی میں بھی سوہانِ روح بھی بن سکتاہے۔
راقم شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتاہے کہ معاشرے میں جس قدر بھی خرابیاں اور برائیاں موجود ہیں ان سے صرف مسلمان ہی نہیں (جس کو اسلامی تعلیمات کے سبب معصیت سے روکنے کی تعلیم دی گئی ہے)تمام انسان نفرت کرتے ہیں اور اس ظلمت و تاریک دنیا سے باہر نکلنے کی خواہش دل میں لئے ہوئے ہیں مگر ان تک کوئی سبیل راہ کی راہنمائی کرنے والا نہیں ہے ،ان سیے سبھی لوگ نفرت تو کرتے ہیں مگر یہ لمحہ بھر کے لئے بھی نہیں سوچتے کہ انہوں نے اس زندگی کو کیوں اور کس وجہ اور کن اسباب کے باعث اختیار کرکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس اس لئے کہتا ہوں کہ برائی سے نفرت لیکن۔۔۔۔۔۔۔!یہ پیرایہ ہرفرد بشر کے لئے خالی چھوڑرہاہوں کہ وہ اپنی حسب استطاعت اس کو مکمل کرے۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
atiqurrehman001@gmail.com
03135265617

جمعرات، 21 مئی، 2015

حکومت اور HECاسلامی یونیورسٹی میں جاری علم دشمنی کا نوٹس لے!


بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی پاکستان عالم اسلام کا ایک منفرد و مایہ ناز تعلیمی ادارہ ہے ۔اگر ہم یہ کہیں کہ یہ مصر و سعودیہ کے بعد عالم اسلام کا تعلیم کے میدان میں تیسرا قبلہ ہے تو غلط و بے جا نہ ہوگا۔اسلامی یونیورسٹی میں تقریبا تیس سے زائد ممالک کے طلبہ و طالبات اپنی تعلیم کی تشنگی کو مٹانے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ان طلبہ میں سے بہت سے متوسط و کم سرمایہ ممالک سے آئے ہوئے ہیں یہاں تک کہ ان کے تعلیمی اخراجات ان کی بوڑھی ماں برداشت کرتی ہے تاکہ ان کا بیٹا اس عظیم اسلامی درس گاہ میں دینی تعلیم حاصل کر کے اپنی والدہ محترمہ کی نیک تمناؤں پر پورا اتر سکے اور اس امر کا خالص مقصد رضا للہ ہی ہوسکتاہے اور ہے بھی۔ اسلامی یونیورسٹی میں دینی و دنیاوی تعلیم میں کوئی انفرادی و امتیازی حیثیت حاصل کرنے یا اس کے حصول کی جدوجہد کرنے کی بجائے یہ تعلیمی ادارہ مروجہ دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح مال بٹورنے کا مرکز بن چکا ہے۔
اسلامی یونیورسٹی گذشتہ چندسالوں سے ایک تعلیمی ادارے کی بجائے سیاسی اکھاڑے کا منظربن چکا ہے،جس میں ہر کوئی سیکولر و لادین طبقے اور تنگ نظر اور خودپسند دین کی تفہیم رکھنے والے افراد اس کو اپنے ناپاک عزائم کے لیے استعمال کرنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں۔ یہاں پر کبھی ایران کی بالادستی رائج کرنے کی جدوجہد ہوتی ہے تو کبھی سعودیہ عرب اپنا حکم مسلط کرنے کی کوشش کرتاہے۔اسلامی یونیورسٹی میں سیاسی عنصر اس حد تک قوی و مضبوط ہوچکا ہے کہ طلبہ تنظیمیں،اساتذہ تنظیم،ملازمین کی تنظیم ایک دوسرے پر اپنی بالادستی ثابت کرنے کے لیے کوئی ایک دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے ۔آئے روز کے احتجاجی مظاہرے،تنظیموں کے سیاسی و مذہبی ،نسلی و قومی عصبیت پر مبنی پروگرامات سے طلبہ کی تعلیمی سرگرمیاں معطل ہوچکی ہیں۔
حال ہی میں ایک میڈیا رپورٹ جاری ہوئی ہے جس کو مکمل طور پر درست تسلیم و حق نہیں سمجھاجاسکتاالبتہ اس امر تک مجھے اتفاق ہے کہ یہ تعلیمی ادارہ اپنی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کو اداکرنے میں بے پناہ حدتک ناکام ہوچکاہے اور اس کے اصلاح احوال کی ضرورت ہے ۔مندرجہ ذیل تحریر میں اس ادارے میں موجود لاتعداد خرابیوں میں سے چند کا اجمالاً ذکر کیا جاتاہے ۔اور یہ امید کی جاتی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ دیانت داری و نیک نیتی کے ساتھ ان امور کا جائزہ لے گی اور جن اصلاحات کی حاجت ہوئی تو ضرور اس کو عمل میں لائے گی قطع نظر اس کے کہ یہ کلام یا تحریر کس کی ہے۔
اسلامی یونیورسٹی میں سیاسی سرگرمیوں کی عملی چند مثالوں سے اندازہ ہوسکتاہے کہ یہ ادارہ تعلیمی مرکز ہے یا ایک سیاسی اکھاڑہ کہ جس پر ہر ایک اپنے جوہر دیکھانے میں پیش قدمی کرتاہے اور حریف مخالف کو چت کرنے کے نئے نئے ہنر ایجاد کرتاہے۔حال ہی میں ایران ،سعودیہ اوریمن کی صورتحال پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا کہ جس کا عنوان ’’سعودیہ اور پاکستان کے مابین تعلقات میں علماء کا کردار‘‘،اس سیمینار سے قبل یونیورسٹی میں متعدد کانفرنسیں منعقد کی گئیں اور ان میں علمی و تعلیمی اور فکری تربیت پر غور کرنے کی بجائے صرف اور صرف فوٹوسیشن ہوئے ،اور چند متعین لوگوں کو مدعو کیا جاتارہاہے تاحال ان کانفرنسوں میں منظور شدہ متفقہ نکات پر عمل درامد کا آغاز نہیں ہوا۔گذشتہ ماہ میں بھی ’’اسلامی تعلیمات جہاد کے بارے میں اور عصر حاضر کے مسائل و اشکالات ‘‘پر بھی دوروزہ سیمینار ہوا اور اپریل کے آخر میں ایک عالمی سیرت کانفرنس منعقد ہوئی ۔اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں اور اس کے ذیلی شعبوں کے زیر انتظام متعدد پروگرامات و کورسز کرائے جاتے ہیں جن میں اربوں روپے سالانہ صرف ہوتے ہیں مگر ان کے نتائج سے کوئی ذی شعور آگاہ نہیں۔ہمیں یقین ہے کہ یہ سرگرمیاں شعبدہ بازی اور ڈرامہ بازی سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ان کانفرنسوں اور سیمینارز پر کروڑوں روپیہ کا فنڈ خرچ کیا گیا ہے کیا یہ یونیورسٹی میں موجود طلبہ کی تعلیم و تحقیق کے معیار کو درست کرنے کے لیے صرف نہیں ہوسکتے تھے؟یا پھر درجن سے زائد کانفرنسز کی عملی رپورٹ کوئی دیکھا سکتاہے کہ اتنی خطیر رقم اسراف کے زمرے میں خرچ نہیں کی گئی بلکہ اس کے ظاہری نتائج بھی موجود ہیں؟یونیورسٹی میں سیاسی عنصریت اس قدر غالب ہے کہ طلبہ ،اساتذہ،اور ملازمین اپنے جائز و ناجائز مطالبات کی منظوری کے لیے گاہے بگاہے احتجاج کرتے رہتے ہیں اور اسی طرح ایک دوسرے پر اپنی بالادستی ثابت کرنے کے لیے اپنے سیاسی پلیٹ فارم کا غلط استعمال بھی کرتے نظر آتے ہیں اور حال ہی میں یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبہ کے مابین مسجد کے قضیہ پر فرقہ وارانہ کشمکش اخباروں کی زینت بنی رہی اور یہ معاملہ عدالت تک بھی جاپہنچا۔اس امر میں شک نہیں کہ اسلامی یونیورسٹی میں ایک مخصوص فکر کو غالب کرنے کی ماضی کی طرح اب دوبارہ منظم کوششیں کی جارہی ہیں ۔
اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم و تربیت اور اخلاق و فکرکی پختگی کی بجائے عہدے و مناصب من پسند افراد اور ایک مخصوص مسلک کے وابستگان میں خیرات کی طرح بانٹے جارہے ہیں۔درجن سے زائد اہم عہدوں پر یا تو صدر جامعہ کا قبضہ ہے یا پھر ان پرمخصوص مسلک کے احباب یا کٹھ پتلی اور غیر قانونی طور پر من پسند افراد کو تعینات کیا گیا ہے۔ان عہدوں میں ریکٹر کے عہدے سے لے کر کلیات ڈین ،شعبہ جات کے سربراہان،اور انتظامی و ذیلی اداروں کے عہدے شامل ہیں۔ جن شخصیات کو نوازا جارہا ہے اور وہ یونیورسٹی کے سیاہ و سفید کے مالک بن چکے ہیں ان کے نامدرج کرنے کی بجائے صرف ان کے ماتحت شعبوں اورنقصانات کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتاہے۔ حسب ذیل ہیں ۔ادارہ شؤن طلاب الوافدین کی زیر نگرانی طلبہ کے مابین تفریق کی اساس رکھنے کا فریضہ انجام دیاجاتاہے،عمرہ پیکج ،طلبہ کو سکالرشپس ،اور دیگر یونیورسٹی میں ایک خاص فکر کو رائج کرانے کے لیے صدر جامعہ کے دائیں بازو کا فریضہ نبھارہے ہیں۔سٹوڈنٹ ایڈوائزر،طلبہ تنظیموں کی مجرمانہ سرگرمیوں میں سرپرستی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں، اصول الدین فیکلٹی مجموعی طور پر زوال پذیر ہوچکی ہے، من پسند اساتذہ کی تقرری اور ان کی ظالمانہ جابریت نے طلبہ کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیا ہے،عرب اساتذہ سے محرومی اس کلیہ کے طلبا کا تاریک مستقبل کا پیش خیمہ ہے،واضح رہے کہ یہ فیکلٹی اسلامی یونیورسٹی کے اساسی و امتیازی فیکلٹی ہے جس کو دن بدن مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ تاریکیوں میں دھکیلا جارہاہے ،علمی چوری میں اساتذۃ و طلبہ کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ،میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ اسلامی یونیورسٹی کی تنزلی میں اس کلیہ کابنیادی کردار ہے کیوں کہ یہاں دین پڑھااور پڑھایا جاتاہے مگر سب پیسوں کی خاطر اخلاق و کرداراور عمل میں اسلامی روح ناپید نظر آتی ہے۔صدر جامعہ کے ساتھ سعودی عرب سے مبعوث بعض شخصیات اساتذہ و طلبہ کی توہین و تحقیر کو اپنا فریضہ جانتے ہیں اور یونیورسٹی کے فنڈز و بیرون ممالک سے آنے والی امداد کوطلبہ و اساتذہ میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے، بے رحمی کے ساتھ بغیر کسی ترتیب کے تقسیم خیرات کی طرح بانٹتے نظر آتے ہیں جبکہ کہا یہ جاتاہے کہ اسلامی یونیورسٹی مالی طور پر کمزور ہے اسی سبب ہم شعبہ جات کے متخصصین اساتذہ میسر کرنے سے عاجز ہیں۔ ایک صاحب پر اپنے تھیسز میں چوری کا الزام HECکی طرف سے عائد ہے اور متعدد بار اخباروں میں بھی ذکر آچکا ہے مگر اس پر کوئی ایکشن نہیں لیاگیا بلکہ ان کو بڑے عہدوں اور منصبوں سے نوازاجارہاہے۔،شعبہ مالیات کے ذمہ داران کی بداخلاقی و سینہ زوری سے طلبہ عاجز آچکے ہیں ،من پسند یا طاقتور طلبہ کی یکمشت فیسیں معاف کرنا ان کا خاص پیشہ ہے ۔یہ تمام محترم حضرات یونیورسٹی میں تعلیم و تعلم کی خدمت کرنے کی بجائے صدر جامعہ کی خوشنودی کے حصول اور ان کی مدح سرائی و کاسہ لیسی میں شب و روز مصروف عمل رہتے ہیں۔یہ خبر بھی سننے میں آرہی ہے کہ صدر جامعہ نے یونیورسٹی کے بعض کلیدی عہدوں پر فائز ذمہ داران کی تنخواہ میں اضافہ کے نام پر سعودیہ سے بھاری بھر کم رشوت بھی عطاکرتے ہیں معلوم یہی ہوتاہے ان حضرات نے بدلے میں اسلامی یونیورسٹی کی اساس و و بنیادوں کو کمزور وناکارہ بنانے کی قسم لے رکھی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ طلبہ کو ہی پڑہارہے ہیں بلکہ ظلم تو یہ ہے کہ متعدد طلبہ تنظیموں کے سرکردہ ذمہ داران استاد کا لباس اوڑھ کرنے اپنے مسلک و مکتب کی فکر کو فرو غ دے رہے ہیں جس کا لازمی نتیجہ تعلیم کی افادیت و علم و فن کی مہارت معدوم بن چکی ہے۔خبر نگاری و تقریرکے انداز میں لیکچر دیئے جاتے ہیں ۔اس اندوہناک امر سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ طلبہ کے ساتھ کس درجہ ظلم و زیادتی کا سلسلہ روا رکھا جارہاہے۔اسی کے ساتھ ہی اسلامی یونیورسٹی میں متعدد شعبہ جات میں متخصصین و ماہرین علم و فن اساتذہ معدوم ہیں۔اس دانش گاہ کا امتیاز عرب اساتذہ تھے جن کا سیشن مکمل ہوجانے کے بعد ان کے سیشن میں اعادہ یا متبادل اساتذہ کی بروقت طلبی کی بجائے ان سے پیدا ہونے والے خلاء کو مکمل کرنے کے لیے سعودیہ کے فنڈ پر پاکستانی اساتذہ ایک خاص مسلک کے لائے گئے جن کے سبب صرف اصول الدین فیکلٹی کے تین ڈیپارٹمنٹ روبہ زوال ہیں(شعبہ سیرت و تاریخ،شعبہ حدیث اور شعبہ عقیدہ و فلسفہ)۔یونیورسٹی میں موجودہ عرب اساتذہ کو ویزہ کے حصول،تنخواہ کے حصول ،کنٹریکٹ کی بار بار تجدید جیسے غیر ضروری امور میں الجھایاجاتاہے جو ان کا اصل مقصد و ہدف یونیورسٹی میں تعلیم اورطلبہ کی خدمت کرنا ہے اس سے ہٹاکر ان کو زچ کیا جاتاہے اور ان کو انتظامی مشاکل میں پھنسا کر ان کی صلاحیتوں کو روگ لگادیا جاتاہے۔ یہاں ایک امر کی جانب اشارہ ضروری سمجھتاہوں کہ اگر یہ جامعہ مختلف عرب ممالک سے اپنے تعلقات بہتر کرے تو سیکنڑوں متخصصین اور ماہرین و علم فن اساتذہ انہیں ان ممالک کے تعاون سے آسکتے ہیں۔مگر پاکستانی اساتذہ و منتظمین کو علم دوستی کم اپنی جاہ و حشمت زیادہ عزیز ہے۔ 
اسلامی یونیورسٹی میں جمع ہونے والی فیسوں اور عرب ممالک سے ملنے والی امدادکا من پسند افراد پر پانی کی طرح بلاکسی قاعدے و ضابطے کے استعمال کیا جارہاہے اور یونیورسٹی میں غیر ضروری مقامات اور لہو ولعب کی تقریبات پر خرچ کیا جاتاہے ۔صدر جامعہ کا شیش محل تعمیر کیا گیا،صدر جامعہ کے سیکیورٹی کے نام پر لاکھوں روپے صرف ہوئے ،صدر جامعہ نے بی ایم ڈبلیو حاصل کی،صدر جامعہ کی درجن سے زائد کتب شائع کی گئیں،درجن سے زیادہ کانفرنسز و سیمینارز منعقد کیے گئے ،شریعہ اکیڈمی،دعوۃ اکیڈمی مختلف کورسز میں کروڑوں روپے مال بے رحم کی طرح صرف کرتی ہیں،حال ہی میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر یونیورسٹی کے ہر اہم مقام پر جہاں سے طلبہ کو دن میں متعدد بار گذرنا ہوتاہے وہاں پر ان کو موذی امراض میں مبتلا کرنے کے لیے لاکھوں روپے کی سکینر مشینیں نصب کردی گئی ہیں جس کے سبب مستقبل قریب میں متعدد طلبہ جان لیوامراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں جب کہ یونیورسٹی میں سیکیورٹی کا ناقص انتظام ہے اور پرائیویٹ کمپنی کے افراد کو سبزی منڈی و روڈوں پر گشت کرنے والے افراد کو بشکل محافظ متعارف کروایا گیا ہے ۔اور ان میں متعدد سیکیورٹی گارڈ طلبہ و اساتذہ کی تذلیل و تحقیر کرنا اپنا پیشہ بنائے ہوئے ہیں۔جب کہ اسلامی یونیورسٹی کا ایک منفرد امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں جامعہ مسجد گذشتہ پندرہ سالوں میں تعمیر نہ ہوسکی اور مسجد کے نام پر اربوں روپے کا فنڈ بادل نخواستہ انتظامیہ کے نہ پر ہونے والے کنویں میں دفن ہوچکا ہے۔
جب کہ دوسری طرف دیکھا جائے تو طلبہ و اساتذہ اور ملازمین دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ان کی تعلیم و تعلم کے لیے تعلیمی بلاکس کی کمی ہے ،کلاسز اپنے اساتذہ کے کمروں یا مسجدوں میں لی جاتی ہیں،سب لائبریریزکا فقد ان ہے مرکزی و فیکلٹی کی لائبریری میں کوئی کتاب گھنٹوں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتی،شعبہ جات کے تخصصات کی کتب تو نایاب و ناپید ہیں۔جب کہ طلبہ کو رہائش کے لیے مسجدوں میں ڈیرے ڈالنے پڑتے ہیں یا پھر ہاسٹلوں میں بوجہ مجبوری حاجت سے زیادہ لڑکے رہنے پر مجبور ہیں۔ایم ایس و پی ایچ ڈی کے کمروں میں ڈبل ڈبل لڑکوں کو سیٹ الاٹ کی جاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ طلبہ اپنے مطالعہ و مراجعہ اور ریسرچ و تحقیق سے محروم ہوجاتے ہیں۔اسی طرح متعددچھوٹے درجہ ملازمین بھی رہائش کے سلسلہ میں پریشانی سے دوچار نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں متعدد افراد سرائے خانہ کے طور پر بھی رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں تعلیم کہیں اور حاصل کرتے ہیں یا نوکری و ملازمت کرتے ہیں مگر رہتے اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں ہیں ،ہاں ان کے پاس یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ و ہاسٹل کارڈزبھی موجود ہوتے ہیں۔
امتحان سیکشن و فنانس سیکشن میں موجود بڑے و چھوٹے سبھی طلبہ سے بداخلاقی و بدتہذیبی،استہزاء کا رویہ اختیار کرنا اور طلبہ کو نظر حقارت سے دیکھنااپنا فرض منصبی گردانتے ہیں جبکہ خود اپنی یہ حالت ہوتی ہے کہ دفتری اوقات میں فیس بک کا استعمال ،اخبارات کا مطالعہ ،اور میٹنگ و کھانے کے نام پر طلبہ کو گھنٹوں انتظار میں ذلیل کرتے ہیں اور جب اپنی کرسی پر پہنچ جائیں تو سب و شتم اور طلبہ پر الزامات کی بھرمار کردیتے ہیں۔جب کہ متعدد ملازمین دفتری اوقات میں اپنا ذاتی کام کرتے ہیں۔ مہمان اساتذہ من پسند طلبہ یا سفارشی طلبہ کو نوازنا اپنا فرض منصبی جانتے ہیں جبکہ تعلیم و تربیت فراہم کرنے کی بجائے طلبہ کے ساتھ لہو لعب قسم کا مذاق کرکے ان کا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں یا پھر ان کو خبریں پڑھاتے ہیں یا طلبہ کو رٹا سسٹم سے متعارف کرواتے ہیں کہ جو ہم نے آپ کو نوٹس و لیکچر دیا من و عن اسی میں سے اور اسی طرح امتحان آئے گا اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی چنداں حاجت نہیں اور غیر تخلیقی اسائمنٹس دیکر طلبہ کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرتے ہیں۔ مستقل اساتذہ پرکوئی دست سوال کرنے کی ہمت نہیں کرسکتاوہ چاہیں تو لڑکوں کو پاس کریں ،وہ چاہیں تو لڑکوں کو فیل کریں ،وہ چاہیں تو کلاسز لیں وہ چاہیں تو کلاسز نہ لیں ،وہ چاہیں تو امتحانات کے پیپر طلبہ سے چیک کروائیں ،وہ چاہیں تویکمشت باصلاحیت طلبہ کو زیر کردیں اور چاہیں تو نکمے و نکٹھو اور وقت پاس کرنے والے کو اقبال پر پہنچائیں۔اور میٹنگ و معمولی مصروفیات کا بہانہ تو معمول ہے ہی۔یہاں ایک اہم بات کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ ہمارے یہاں اساتذہ ایسے بھی ہیں جو چند ہزار کی خاطر خیانت علمی کا ارتکاب سے گریز نہیں کرتے۔
ہم حکومت پاکستان اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسلامی یونیورسٹی میں جاری و ساری مندرجہ بالا علم دشمن سرگرمیوں کا ناصرف دیانت داری کے ساتھ جائزہ لے بلکہ ان عوامل و وقائع کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائے۔تمام انتظامی و تعلیمی عہدے باصلاحیت و ماہرین فن میں تقسیم کیے جائیں ۔اسلامی یونیورسٹی کو ہر قسم کی سیاسی و مذہبی ،لسانی و قومی عصبیتوں کو پاک کیا جائے،یونیورسٹی کے فنڈز کا جائزہ لیا جائے ،فرقہ وارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ایسے سازشی و ملک دشمن اور تعلیم دشمن عناصر کو یونیورسٹی سے بے دخل کیا جائے یا پھر ان کے اصلاح احوال کو یقینی بنایاجائے۔طلبہ تنظیموں کے ذمہ داران و وابستگان کے منصب استاذ پر فائز ہونے پر پابندی عائد کی جائے۔ماہرین علم و فن ترکی اورعرب ممالک سے فی الفور طلب کیے جائیں ۔اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ و اساتذہ کی تذلیل و تحقیر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔سکالرشپس کی تقسیم کو من پسند افراد میں تقسیم کا نوٹس لیا جائے ۔تعلیمی بلاکس کی تعمیر،ہاسٹل کی تعمیر اور جامع مسجد کی تعمیر فورا اور ترجیحی بنیادوں پر عمل میں لائی جائے۔
آخر میں نہایت بنوائی کے ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کو مطلع کرتاہوں کہ میرا آپ سے اختلاف کرنا یا اس کو لکھنا قانونی طور پر نہیں بلکہ یہ صرف اخلاقی و ایمانی حمیت و غیرت کو جلادینے کی سعی ہے اس کے ساتھ یہ بھی کہنا چاہتاہوں کہ مجھے آپ سے کوئی ذاتی منفعت یا فائدہ حاصل کرنا مطلوب و مقصود نہیں اور نہ ہی کسی فرد سے ذاتی بغض و عناد ہے کہ اس کے نتیجے میں آپ کے بارے میں قلم کوجنبش دوں بلکہ میں آپ سے صرف اس قدر مطالبہ کرتاہوں کہ اس یونیورسٹی کو ایک مسلم تعلیمی ادارہ رہنے دیں اس کو سیاسی مفادات و مصالح کے لیے ہر گز استعمال نہ کریں اور اس میں موجود خامیوں پر قابوپایاجائے یہاں انفرادی و جماعتی مفادات و مصالح سے بالاتر ہوکر صرف اسلامی سوچ و فکر اپنے اندر اجاگر کی جائے چونکہ تاابد مسلمانوں پر انبیاؑ والا فریضہ اداکرنا مقرر فرمادیاگیا ہے۔ اگر آپ حضرات بدستور اپنی اس روش کو جاری رکھتے ہیں تو ہم آپ کے خلاف آواز حق بلند کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں یہ پاکستان اسلامی و جمہوری ملک ہے اس میں آمریت و بادشاہت کا تصور ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔اس کے ساتھ ہی سیکولر نظریات کو فروغ دینے کے خواہش مند حضرات کی خدمت میں بھی عرض ہے کہ پاکستان اسلامی ملک ہے اور اسلامی یونیورسٹی اسلام کے نام پر قائم کی گئی اس کے اساسی و بنیادی اہداف کو ہدف تنقید بنانے ناصرف اسلام دشمنی کا ثبوت ہوگا بلکہ ہم یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہوں گے کہ آپ خود اپنے اسلامی نظریہ پر وجود میں آنے والے یکتاملک کے بھی دشمن اور رقیب ہیں ایسے میں ہم لادینی تحریکوں کے خلاف بھی آواز حق اٹھانے میں حق بجانب ہیں۔آئندہ کسی تحریر میں یونیورسٹی کے ترجمان سید مزمل حسین شاہ کی جانب سے موصول شدہ تحریر و خط پر چند معروضات ضرور تحریر کروں گا۔

دیس کی بات
عتیق الرحمن
atiqurrehman001@gmail.com
0313525617

منگل، 14 اپریل، 2015

اسلامی یونیورسٹی میں فرقہ واریت کا فروغ

چھٹی و ساتویں صدی عیسوی میں معاشرہ ظلمت و تاریکیوں میں ڈوب چکاتھا ،اس میں ہر طرح و ہر قسم کی بد سے بدتر خرابیاں اور بیماریاں سرطان جیسے موذی و طاقتور مرض سے بھی زیادہ خطرناک حد تک سرایت کرچکی تھیں۔اس معاشرے میں باہمی محبت و مودت نام کو نہ تھی،طاقتورکمزور پر ظلم و جبر کو روا رکھنا اپنا حق سمجھتاتھا،ماتحتوں کے حقوق کو غصب کرنے کو باعث فخر و اعزاز سمجھا جاتاتھا،مادیت و ہوس پرستی کا ایسا دور دورہ تھا کہ انسان کی عزت و عظمت خاک میں مل چکی تھی ،معاشرے کا ہر فرد اپنے حق کو حاصل کرنے کا طالب اور دوسرے کے حقوق سلب کرنا اپنا طرہ امتیاز بنا چکا تھا۔اگر یوں کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت کا معاشرہ حیوانیت و سربریت کی تمام حدود سے آگے بڑھ کر وحشی و درندہ بن چکا تھا ۔ اس معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دینا کسی عام انسان یا مصلح کا کام نہ تھا بلکہ صرف اور صرف تائید الٰہی کے ذریعہ سے ہی ان گہری و راسخ امراض کو معاشرے کے جسم و جان سے نکالا جاسکتاتھا ۔اور یہ ہوکر رہاکہ دین اسلام کی دعوت کے ساتھ نبی مکرمﷺ کا ظہور ہوا اور اپنے نے اس سماج کے تمام امراض و جراثیم کو حکمت و دانائی اور حکم خداوندی کے مطابق بتدریج اساس سے مٹانے میں اہم کردار اداکیا۔آپ ﷺ کی بذریعہ وحی ایسی نصرت کی گئی کہ اس وقت معاشرے میں موجود تمام خرابیوں کو جڑسے مٹادیا گیا اس سے علمی و عملی واقفیت کے لیے کتب سیرت و تاریخ اسلامی کا مطالعہ کرکے تشنگی کو مکمل کیا جاسکتاہے اور اسلام کی روز روشن کی طرح عیاں کامیابی و کامرانی کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے ۔
اس مختصر سی تمہید کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دین اسلام تاقیامت تک انسانیت کی راہنمائی فراہم کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتاہے اور معاشرہ میں جس قدر مضبوط و طاقتور خرابیاں ہی کیوں نہ پیدا ہوجائیں ان کا مقابلہ اسلام کے درست و صحیح مطالعہ اور اس کی درست تفہیم کے ساتھ حل کیا جاسکتاہے۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ۱۱/۹کے بعد سے درجہ بدرجہ تنزلی و پستی کی جانب دن بدن گہرتی چلی جارہی ہے اور اس زوال میں کبھی تو سیکولرزم سبب بنااور کبھی فرقہ واریت ۔دس سال کے ظالمانہ و جابرانہ دور جس میں یونیورسٹی میں براہ راست سیاسی مداخلت کی گئی نے یونیورسٹی کے اساسی اہداف کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی کہ یہ محسوس ہوتاتھا کہ یہ یونیورسٹی اسلامی تعلیمات کے ماہرین تیار کرنے کی بجائے اسلام کو زیر یا کمزور کرنے والے افراد پیدا کرنے کے لیے قائم ہوئی ۔ایسے میں سعودی عرب کی مداخلت سے یہ محسوس ہوچلاتھا کہ وہ یونیورسٹی کو ایسی قیادت فراہم کرے گا کہ جو نا صرف ملک پاکستان اور اسلامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم و وابستہ افراد کی مختلف کرنوں سے واقف ہوگااور وہ اعتدال پسندی کو اپنا طرز عمل بناتے ہوئے تمام طبقوں اور نسلوں اور مکاتب فکر کو ایک ساتھ لے کر چلے گا بلکہ اس کی ترجیح صرف اور صرف دین اسلام کی نشر و اشاعت اور علوم کے میدان کے ذریعہ نوع انسانیت کو بذریعہ اسلام ایک و مخلص قیادت فراہم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیرکرنا ہوگا۔
اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ ہم سعودی عرب کی مداخلت سے خوش ہوئے کیوں کہ ہم یہ محسوس کرتے تھے کہ سعودی عرب کے حکام نے اس گلشن کو نیک تمناؤں اور بڑی جدوجہد اور محنتوں کے ذریعہ سجانے میں پاکستان و مصر و کویت سے کم کردار ادا نہیں کیا اس لیے وہ اس گلشن کو اپنی آنکھوں کے سامنے بکھرتا و ٹوٹتا و ناکام ہوتانہیں دیکھ سکتے ۔مگر جیساکہ کہاوت ہے کہ( انسان جو سوچتاہے ویسا نہیں ہوتا) کچھ اسی طرح کا معاملہ ہمارے قلب و جگر کے ساتھ بھی ہوا وہ تمام نیک امنگیں سرعت کے ساتھ خاک میں ملتی نظر آئیں ۔ ہوا یوں کہ سعودی عرب نے اسلامی یونیورسٹی میں انتظامی مداخلت کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ یہاں پر ایران کے وفود کی آمد ہورہی ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے لوگ ایران کے دورے کررہے ہیں اس سے ان کو یہ محسوس ہواکہ یہ یونیورسٹی جس پر ہم نے اپنے مخصوص مقاصدکو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مال صرف کیاتھا وہ حاصل ہونے کی بجائے اس میں ایران کی مداخلت پھیلتی نظر آتی ہے۔تو سعودیہ عرب نے مداخلت اپنی کے ذریعہ اسلامی یونیورسٹی میں ردعمل کے طور پر انتشار سلفیت و منجمد و پست سوچ کے حامل اور تنگ نظر و تنگ دل اور اسلام کو صرف داڑھی و کپڑوں اور عبادت تک محدود کرنے والے فرقہ کو نوازنے کا فیصلہ کیا ۔کھلی بات ہے کہ سعودیہ کو اسلامی تعلیم یا یونیورسٹی کے اسلامی تشخص سے چنداں کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ صرف ملک پاکستان اور اسلامی یونیورسٹی میں فرقہ واریت کی آگ کو جلانے کے لیے اس عظیم ادارہ کی صدارت شپ حاصل کی ۔جب کہ دوسری جانب ملک پاکستان کی بے حس قیادت چند ٹکوں کے عوض ملک کو ظلمتوں میں دیکھلنے کا سبب بننے والایہ سودا کربیٹھی۔
اسلامی یونیورسٹی میں عقل و فکر سے عاری گروہ اور اسلامی غیرت و حمیت سے بے بہرہ طبقے کو فروغ دینے کے لیے صدر جامعہ نے جہاں یونیورسٹی کے اختیارات کاناجائز استعمال کرتے ہوئے ادارہ تحقیقات اسلامی اور یونیورسٹی کے نشریاتی ادارہ سے اپنی درجن بھر کتب ترجمہ کرواکرشائع کروائیں۔جس کی پاکستانی معاشرہ کو ادنی سے ادنی درجہ میں بھی حاجت نہ تھی اور نہ ہے کیوں کہ پاکستان جو اسلامی ریاست ہے اور اس میں عالم اسلام کے جید علماء موجود ہیں جو معاشرہ کی ہمہ جہت رہنمائی کا فریضہ اداکرنے میں شب و روز مصروف عمل ہیں۔راقم یہ سمجھتاہے کہ صدر جامعہ نے یونیورسٹی کے وسائل کا غلط و ناجائز اور بے مقصد استعمال کیا ہے ۔ان کتب کی اشاعت کا صرف مقصد وحید یہی ہے کہ سعودیہ کا جمود فکری و عملی پاکستان کے لوگوں میں منتقل ہوجائے مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس گلشن کو سجانے والوں نے اپنے خون کا پانی دیا ہے ،ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اسی طریقہ سے اپنی تقرری سے اب تک درجن بھر کانفرنس و سمینارز منعقد کرواچکے ہیں جن کے ذریعہ اسلام یا علم کی خدمت کی بجائے وسائل کا بے دردی کے ساتھ استعمال اور فوٹو سیشن کے ذریعہ ہوس پرستی کی تکمیل اور اپنی مخصوص فکر کی تبلیغ کا کام لیا گیا اس پر بھی آئندہ تفصیلاً کبھی بات ہوگی۔اسلامی یونیورسٹی کو علمی و فکری انحطاط میں مبتلا کرنے کے لیے ایک مخصوص فرقہ کے درجن سے زائد اساتذہ کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے جس کے سبب اصول الدین فیکلٹی علمی و فکری انحطاط سے برسرپیکارہے۔جب کہ یہ وہ کلیہ ہے جو نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو اسلامی تعلیمات کی درست و مبنی بر اعتدال فکر کے حامل قیادت فراہم کرنے کا فریضہ انجام دیتی رہی ہے۔اس کلیہ کا طرہ امتیاز اور معتدل افکار کو فروغ دینے اور باہمی اسلامی روداری و ہمدوردی اور اخوت کا جذبہ پیدا کرنے میں اسی فیصد صلاحیتیں صرف کرنے والے عرب اساتذہ تھے جن کے راستے میں ایک سال سے صدر جامعہ کی نااہلی و غفلت یا پھر بغض عداوت ان کے تقرر میں روکاوٹ کا سبب بنے ہوئے ہے۔صدر جامعہ نے اس گلشن کو پارہ پارہ کرنے کے لیے یونیورسٹی کے اہم عہدوں کو اپنی شہرت و جاہ طلبی کی حرص و ہوس کے لیے درجن سے زائد عہدوں میں سے بعض پر آمرانہ و جابرانہ قبضہ کررکھا ہے اور بعض پر عارضی تقرریاں کررکھی ہیں ان ہر دوصورتوں کا مقصد وحید یہی ہے کہ اس ادارہ کو مستقل اور خودمختار اور مصلح قیادت فراہم نہ کی جائے بلکہ اللے تللوں کو نواز کر اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کو یقینی بنایاجائے۔اس سلسلہ میں آیندہ تفصیل کے ساتھ بات کروں گا۔صدر جامعہ نے اپنے ساتھ فوج ظفر موج جو متعین کی ہوئی ہے اس میں غالب اکثریت صرف ایک مخصوص فرقہ کو حاصل ہے اور صدر جامعہ انہی کے حکم کے پابند اور عامل ہیں ۔اس میں اگرچہ کچھ دیگر افراد کو شامل کیا گیا ہے مگر وہ بھی ضمیر فروش اور عملاً اسلام و علم دشمن ہیں بلکہ ان کا مقصد صرف عہدے و منصب ہیں۔
اس پھیلتی پھولتی فرقہ وارانہ آگ کوگذشتہ چند عرصہ سے مزید دہکایا جارہاہے جس کے ذریعہ بریلوی مکتب فکر کے حامل طلبہ کی نمازجمعہ علیحدہ ادا کرنے کو روکنے کے لیے مسجد علی المرتضیٰؓ کو سیل کردیا گیا اور اس کے نتیجہ میں عدالت و میڈیا تک بات پہنچنے اور طلبہ کے احتجاج کے نتیجہ میں بعض طلبہ کو یونیورسٹی سے بے دخل کیا گیا جس کے ری ایکشن میں طلبہ نے سیل شدہ مسجد کے گیٹ کو توڑ کراس میں گذشتہ جمعہ نماز اداکی تو اس پر پولیس طلب کی گئی اور اس دوران بعض طلبہ کو پولیس سے چھوڑانے کے لیے انتظامیہ کے ساتھ معمولی چھڑپ بھی ہوئی ۔اس کے نتیجہ میں طلبہ نے سخت احتجاج کیا اور انتظامیہ نے آئندہ جمعہ سے پہلے مسئلہ کو حل کرنے کا وعدہ کیا ۔یہ قضیہ اگرچہ قابل بحث و فحص ہے مگر یہاں فی الوقت اختصار کے ساتھ اتنا کہا جاتاہے کہ صدر جامعہ اگر واقعتاً اسلامی یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کوتحفظ کو یقنی بنانا چاہتے ہیں تو چاردیواری سے باہر نکل کر طلبہ و اساتذہ کے مابین حاضر ہوکر ان کے مسائل جاننے کی کوشش کریں اور من پسند اور جاہ ومنصب افراد سے گلو خلاصی حاصل کریں ۔اپنی تعریف سننے کی بجائے اپنے طرز عمل پر ہونے والی تنقید کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کریں اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا بذات خود جائزہ لیں قبل اس کے کہ طلبہ و پاکستانی معاشرہ ان کا خود محاسبہ کرے ۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com

پیر، 6 اپریل، 2015

اسلامی یونیورسٹی میں طلباکی تذلیل و تحقیر

معاشرے کی ترقی کے پیچھے نسل نو کا اہم کردار پنہاں ہوتاہے ۔نوجوان نسل کی درست نہج پر تعلیم و تربیت ضروری ہوتی ہے ۔اس فریضہ میں معمولی سی کوتاہی و کاہلی صدیوں تک تاریک و بد نتائج کا اثر چھوڑجاتی ہے۔طلبہ ایک ایسی نازک کلی کی مانند ہوتے ہیں جسے ذرا سی بے احتیاطی ہونے سے ضائع ہوجاناامر واقع ہے۔اس لیے ان کو سنبھال سنبھال کر اور احتیاط کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کرنا ازحد ضروری ہوجاتاہے اس میں نہ تو شدت و سختی کے اختیار کرنے کی حاجت ہوتی ہے کہ اگر اس کو آزادی میسر آجائے تو اس میں جرائم کو قبول کرنے کی رغبت تیزی کے ساتھ پیدا ہوجائے یا پھر وہ ڈر و خوف کے سبب اپنے اندر موجود عطیہ الٰہی کی پوشیدہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے احتراز کرے۔اسی طرح طلبہ کو شطر بے مہار کی طرح، مادر پدر کی آزادی مہیا کرنا بھی کسی صورت مناسب و درست نہیں بلکہ مضر و نقصان دہ ہے۔یہ افراط و تفریط کے معاملے کا برتاؤ ہم اپنے معاشرہ میں ملاحظہ کرتے رہتے ہیں ۔لازمی بات ہے کہ والدین ،اساتذہ اور تعلیمی ادارے نوجوان نسل کی تعلیم وتربیت میں اعتدال کے اصول پر گامزن ہوں۔
میں اپنی گذشتہ تحریر میں اسلامی یونیورسٹی میں پنپنے اور دن بدن پھیلتی خرابیوں اور بے اعتدالیوں کی نشاندہی کی تھی اور ساتھ میں یہ بھی درج کیا تھا کہ میں آئندہ ان امراض میں سے ایک ایک پر مستقل الگ مضمون میں بات کروں گا ۔اس سلسلہ میں پہلے اور سب سے اہم مسئلہ پر آج کی نشست میں بات کرنی ہے۔تعلیمی ادارہ چونکہ نوجوان نسل کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار اداکرتے ہیں اور یہ نوجوان اپنی باقیہ زندگی میں اس مرحلہ میں گذرے ہوئے لمحات و تجربات سے استفادہ کرتارہتاہے۔اگراس مرحلہ تعلیمی میں اس کو اچھے اساتذہ ،اچھے دوست ،بااخلاق و حسن معاملہ سے پیش آنے والے احباب میسر آجائیں تو اس کی بقیہ زندگی روشن و تابناک ہوتی ہے ۔اگر اس مرحلہ میں بداخلاق اساتذہ،کرپٹ و بددیانت افراد اوربرے دوست مل جائیں تو یقیناًناصرف اس نوجوان کی زندگی تاریک ہوجاتی ہے بلکہ وہ معاشرے میں خرابیوں،بیماریوں اور فساد فی الرض کوفروغ دینے کا موجب بن جاتاہے ۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ایک ایسامنفرد و مایہ ناز تعلیمی ادارہ ہے کہ جس کے نام سے ہی اس کی اہمیت و افادیت اور اس کے منہج و مقصد کی وضاحت ہو جاتی ہے۔اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ جب انسانی معاشرہ اپنی فطرتی اساس و پاکیزگی سے روگردانی اختیار کرلیاور اس میں اللہ کا ڈر و خوف جاتا رہے تو اس کی بری حرکات و جرائم کشش و اثر سے کوئی بھی معاشرے کا فرد اور ادارہ محفوظ نہیں رہ سکتا۔البتہ اس بات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتاہے کہ ان خرابیوں و بیماریوں کو دور کرنے کا فریضہ معاشرہ کے اہل علم و عمل اور اہل حل و عقد پر لازم ہوجاتاہے ۔ایسے میں وہ ادارہ جو خالص اسلامی نظریہ پر قائم ہواہو تو اس پ رپہلے مرحلہ میں ضروری ہوجاتاہے کہ وہ انسانی معاشرے میں نیکی کے فروغ اور اس کو رواج دینے میں اپنا قائدانہ کردار اداکرے۔مگر ماتم کیا جائے اس امر پر یا کیا کہا جائے کہ اگر وہی ادارہ بجائے اس کے کہ اس برے معاشرے کو درست کرنے کی بجائے بذات خود اس میں اضافہ کرنے کے جرم میں شریک ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اختصار شدید کے ساتھ یہاں وہ امراض ذکر کرتاہوں جن کا سامنا اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ کو مسلسل کرنا پڑرہاہے اور جس کے سبب اس معاشرہ سے قائد و رہبر تیار ہونے کی بجائے مادہ پرست اور ہوس پرست افراد تیار ہورہے ہیں اور وہی نوجوان معاشرہ کو مزید گندگی کا ڈھیر بنانے میں اپنا برابر حصہ لے رہے ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ کو جو مسائل درپیش ہیں اور جس طریقہ سے ان کی تذلیل و تحقیر کی جاتی ہے اس کو تفصیل کے ساتھ الگ الگ ذکر کرنا مشکل ہے مختصر اتنا کہا جاسکتاہے کہ صدر جامعہ سے لے کر نائب قاصد تک کے تمام انتظامی و تعلیمی مناصب پر فائز احباب طلبہ کی تذلیل و تحقیر کرنا اپنا فریضہ یا اپنے منصب کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔صدر جامعہ نے طلبہ اور اپنے مابین شیش محل تعمیر کرکے دوریاں ہی پیدا نہیں کی ہوئی بلکہ جس راستہ میں یا جس مقام پر صدر جامعہ نے بیٹھنا ہو یا گذرنا ہووہاں سے طلبا کو گذرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی ۔صدر جامعہ اور طلبا کے راستے جدادجدا ہیں جیسے یہ ایک دوسرے کے حریف ہوں۔صدر جامعہ سے ملاقات کرنا اور اپنے مسائل و ضروریات سے آگاہ کرنے کا وقت لینا تو محال ہے ہی۔عجب بات ہے کہ ایک ادارے میں بسنے والے افراد ایک خاندان کی مثل ہیں ان کے مابین کسی طرح کا بھی حجاب ناممکن ہوتاہے مگر یہ معاملہ اسلامی یونیورسٹی میں آپس کی محبت کی بجائے مومن کے مابین نفرت کا مظہر پیش کرتاہے۔ امتحان سیکشن و فنانس سیکشن میں موجود بڑے و چھوٹے سبھی طلبہ سے بداخلاقی و بدتہذیبی،استہزاء کا رویہ اختیار کرنا اور طلبہ کو نظر حقارت سے دیکھنااپنا فرض منصبی گردانتے ہیں جبکہ خود اپنی یہ حالت ہوتی ہے کہ دفتری اوقات میں فیس بک کا استعمال ،اخبارات کا مطالعہ ،اور میٹنگ و کھانے کے نام پر طلبہ کو گھنٹوں انتظار میں ذلیل کرتے ہیں اور جب اپنی کرسی پر پہنچ جائیں تو سب و شتم اور طلبہ پر الزامات کی بھرمار کردیتے ہیں۔جب کہ ان بندگانِ خدا کو اتنا بھی لحاظ و خیال نہیں ہوتاکہ اگر طلبہ اس ادارے میں موجود ہیں توہی ان کویہ رزق بھی مل رہاہے۔اساتذہ کی صورت حال کا تو حال ہی نہ پوچھا جائے کہ یا تو وہ مضبوط سفارش پر وزیٹنگ مقرر ہوتے ہیں اور ایسے میں من پسند طلبہ یا سفارشی طلبہ کو نوازناوہ اپنا فرض منصبی جانتے ہیں جبکہ تعلیم و تربیت فراہم کرنے کی بجائے طلبہ کے ساتھ لہو لعب قسم کا مذاق کرکے ان کا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں یا پھر ان کو خبریں پڑھاتے ہیں یا طلبہ کو رٹا سسٹم سے متعارف کرواتے ہیں کہ جو ہم نے آپ کو نوٹس و لیکچر دیا من و عن اسی میں سے اور اسی طرح امتحان آئے گا اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی چنداں حاجت نہیں اور غیر تخلیقی اسائمنٹس دیکر طلبہ کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرتے ہیں۔
دوسری جانب مستقل اساتذہ کی تو چاندنی ہے کیوں کہ ان پر تو کوئی دست سوال کرنے کی ہمت نہیں کرسکتاوہ چاہیں تو لڑکوں کو پاس کریں ،وہ چاہیں تو لڑکوں کو فیل کریں ،وہ چاہیں تو کلاسز لیں وہ چاہیں تو کلاسز نہ لیں ،وہ چاہیں تو امتحانات کے پیپر طلبہ سے چیک کروائیں ،وہ چاہیں تو یکمشت باصلاحیت طلبہ کو زیر کردیں اور چاہیں تو نکمے و نکٹھو اور وقت پاس کرنے والے کو اقبال پر پہنچائیں۔اور میٹنگ و معمولی مصروفیات کا بہانہ تو معمول ہے ہی۔واضح رہے جو خرابیاں وزیٹر اساتذہ کی درج کی گئی ہیں ان میں سے متعدد من و عن بلکہ اس سے زیادہ مستقل اساتذہ میں بھی موجود ہوتی ہیں۔یہاں ایک اہم بات کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ ہمارے یہاں اساتذہ ایسے بھی ہیں جو چند ہزار کی خاطر خیانت علمی کا ارتکاب سے گریز نہیں کرتے۔لیکن ان معزز و مکرم حضرات کو نہ تو اخلاقیات کا پاس ہے اور نہ ہی روز محشر خوف کہ وہ لوگ جو مال یونیورسٹی سے طلبہ کو تعلیم دینے کے نام پر حاصل کررہے ہیں وہ اس صورت میں سوفیصد حرام ہے اگر وہ اپنے فرض میں ذرابھر بھی کوتاہی کررہے ہیں۔ مزید کچھ خامیوں کا ذکر’’ اسلامی یونیورسٹی میں تربیتی شعبہ کی کمزوری ‘‘سے متعلق مضمون میں درج کی جائیں گی۔
مرکزی و فیکلٹی کی لائبریریز کی صورتحال بھی مخدوش ہے اس میں مامور افراد چائے پینے ،ٹیلی فون پر طویل گپ شپ سے فارغ ہی نہیں ہوتے کہ وہ لائبریری میں موجود کتب اور مقالوں کو بالترتیب رکھ سکیں۔ایک کتاب بھی تلاش کرنے کے لیے طلبہ گھنٹوں ذلیل ہوتے ہیں۔یہاں ایک اور امر کی طرف اشارہ دینا بھی ضروری سمجھتاہوں کہ یونیورسٹی میں جو کام ایک یا دوفرد باآسانی سرانجام دے سکتے ہیں اس کی جگہ ڈبل ڈبل افراد تعینات ہیں اور کام کے وقت کوئی ایک بھی یا تیار نہیں ہوتایا میرے دائرے کا کام نہیں کا بہانہ بناکرکام چوری کرتے ہیں اور ظلم پر ظلم تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کے متعدد ملازمین دفتری اوقات میں اپنا پرائیویٹ کام کرتے نظر آتے ہیں یا پھر کرکٹ میچ،فیس بک ،یا گیمز کھیلنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
تعلیمی بلاکس ،ہاسٹل کی کمی اور جامع مسجد کی عدم تعمیر کے پارے میں متعدد بار راقم بھی لکھ چکا ہے اور یونیورسٹی میں طلبہ بھی احتجاج و مظاہرے کے ذریعہ مطالبہ کرچکے ہیں مگر کیا کیا جائے کہ جب کسی انسان کو اللہ رب العزت کی قادر و قہار ذات کا خوف نہ ہو تو ایک اخبار میں چھپنے والے کالم یا طلبہ کے احتجاج سے کوئی فرق نہیں پڑتاکیوں کہ ان کے دلوں اور ضمیروں پر تالے پڑچکے ہیں وہ نہیں کھل سکتے تاوقتیکہ کوئی غیبی معجزہ ظاہر نہ ہویا رب کریم کی جانب سے عقاب الیم نازل ہوجائے تو ہی بہتری آسکتی ہے۔تعلیمی بلاکس کی مستقل ضرورت ہے کیوں کہ کلاس روم کی عدم دستیابی کے باعث اساتذہ کلاسز اپنے دفتروں یا پھر مسجدمیں لینے پر مجبور ہیں اور یونیورسٹی میں موجود ۹ فیکلٹیوں کے ۴۰ کے قریب شعبہ جات کی مستقل لائبریاں عدم دستیاب یا ناکافی ہیں جن کی اشد حاجت ہے کہ ہرشعبہ کی اپنی لائبریری ہونی چاہیے اور اس میں اس شعبہ سے متعلق بہتر تنظیم کے ساتھ کتب موجود ہوں۔ ہاسٹل کا مسئلہ تو ایک مستقل مسئلہ ہے ہی کہ داخلے دینے میں تو کوئی دیر نہیں کی جاتی چونکہ اس کے ذریعہ سے بھاری بھر کم فیسوں کی مد میں مال و دولت جمع ہوتی ہے جس سے انتظامیہ کو جائز و ناجائز تصرف کا کھولا موقع میسر آجاتاہے۔جبکہ طلبا کو ہاسٹل کی سہولت فراہم کرنے میں ہمیشہ مترددرہتے ہیں اور دوسری جانب ظلم یہ ہے کہ سیاسی و غیرسیاسی ذرائع سے سفارش،طلبہ تنظیمو ں کے اثر و رسوخ سے سیٹوں کی دستیابی و منتقلی آسان ہوجاتی ہے۔بڑے افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ یونیورسٹی کے ہاسٹلز سیٹوں کی فروخت ذریعہ معاش و تجارت بن چکا ہے اور اگر یہ اس حد تک محدود رہے کہ اس سے یونیورسٹی کے طلبہ مستفید ہوسکیں تو عجب نہیں مگر یہاں تو خارجی عناصر زیادہ مستفید ہوتے نظر آتے رہتے ہیں۔کھلی بات ہے کہ جو طالب علم اپنی سیٹ فروخت کررہاہے اس کو اس کی حاجت ہی نہیں ہے اور وہ مستحق طلبہ کے حقوق کو غصب کیے ہوئے ہے ایسے عناصر سے گلو خلاصی کے لیے عملی اقدام کی ضرورت ہے۔بس اس سلسلہ میں بعض طلبہ گروپس اور طاقتور انتظامیہ کے لوگ روکاوٹ بنے نظر آتے ہیں ۔ہاسٹل پروسٹ کا عہدہ اعزازی طور پر دیاجاتاہے ،بلکہ صرف یہ عہدہ نہیں بلکہ متعدد مناصب پر فائز اصحاب اقتدار عناصر اعزازی ہیں اس میں دو امر ہیں اول یا تو یہ کٹھ پتلی و کمزور اور کرسی کے خواہشمند ہیں اور صدر جامعہ اور دیگر کے مظالم پر ناصرف خاموش رہتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ برابر کے شریک بھی ہیںیا پھر واقعتاً مخلص مگر کام تو کرنا چاہتے ہیں مگر ان کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ وہ کچھ بہتر کرنے سے عاجز ہیں تو ایسے افراد کے نام یہی پیغام ہے کہ اقبال کے پیغام کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیں :
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
معزز و مکرم حضرات ایسے عہدے و منصب سے ہزار بار توبہ کریں اور پناہ طلب کریں جو ان کو حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کی ہمت و جرأت چھین لے۔یہ اعزازی احباب کلاسز بھی لیتے ہیں اور دوسرے عہدوں پر بھی فرائض انجام دیتے ہیں ایسے میں نہ تو وہ طلبہ کو دیانت داری کے ساتھ صحیح تعلیم دے سکتے ہیں اور نہ ہی وہ ان انتظامی عہدوں پر کماحقہ اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں ۔جبکہ طلبہ کا زیادہ تر وقت ان انتظامی عہدے دائروں کے گرد گھومنے اور ان کے دفتروں کے طواف کرنے میں گذرجاتاہے۔اسی سبب سے کوئی اچھا اور باصلاحیت قائد و رہبر یہ ادارہ پیدا نہیں کرسکا۔
مسائل تو اور بھی بہت ہیں اور قابل گرفت و ذکر بھی ہیں مگرآج کی تحریر کو اس وضاحت کے ساتھ اختتام تک پہنچاتاہوں کہ مندرجہ بالا جن خرابیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے اس میں کلام کو عام بیان کیا گیا ہے (جس سے یقیناً بعض شخصیات مخاطب ہیں،یہ حکم عام نہیں ہے)اس کی وجہ سوا اس کے نہیں ہے کہ راقم کسی شخصیت یا اشخاص کو محدد کرنے کو درست نہیں سمجھتا۔البتہ عام پیغام فکردیتاہے کہ ہمارے محترم تمام احباب جس قدر جس بھی خرابی میں مبتلا ہیں وہ اس کو ترک کردیں ،طلبہ کو اپنے بچوں کے مقام پر رکھیں ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اچھی تربیت کا نیک نیتی کے ساتھ اہتمام کریں اور اس کا اجر ان کو طلبہ نہیں دے سکتے بلکہ رب ذوالجلال یوم حساب کو عنایت فرمائیں گے ۔اور اگر انہوں نے اپنے فرائض میں پہلو تہی کا سلسلہ روا رکھا تو ان کو مختلف شکلوں میں دنیا میں بھی ذلت آمیز مناظر کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور یوم آخرت تو اللہ کریم جو عادل ذات ہے اور انسانیت کے حقوق کو غصب کرنے والوں کی ضرور گرفت کرے گا۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com

جمعہ، 3 اپریل، 2015

اسلامی یونیورسٹی کے صدر کے نام کھلا خط

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد اسی کی دہائی میں رکھی گئی اور اس کے قیام کی ضرورت و اہمیت اس وقت کے عالم اسلام کے دردمند اور دین اسلام کو تاقیامت تک رہنمائی و قیادت کا اصلی حقدار سمجھتے تھے اسی لیے انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمیں عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں عالمی معیار کے حامل علوم شرعیہ و علوم کونیہ کا مشترکہ حسین گلدستے کی شکل میں تعلیمی اداروں کا وجود عمل میں لایا جائے ۔اس سبب میں صرف ایک ہی پہلومدنظر تھا کہ مسلمانوں پر انگریزکے استعمار کے سبب پیداہوجانے والے جمود کو توڑ دیا جائے کیوں کہ مسلمانوں نے ایک طرف جدید علوم سے اپنے چہرے پھیر لیے اور دوسری طرف یہ فکرتھی مسلمان صرف اس قدر تعلیم حاصل کرے کہ وہ مغرب کلرک یا ان کے استعمال و منفعت کا ایک آلہ بن جائے ۔مسلم رہنماء اس امر کو ہرجہت سے اسلام و مسلمانوں کے لیے مضر و نقصان دہ سمجھتے تھے۔ان قائدین کا مطالعہ قوی تھا اور رب العزت نے ان کو ایمانی حمیت کی دولت سے نوازا تھا۔
ان دینی تعلیمی اداروں کا مقصد اصلی یہی تھا کہ عالم اسلام کی نوجون ملت میں مستقبل کی سرد جنگ کے مقابلے کی طاقت و صلاحیت پیداکی جاسکے ۔اس امر میں شک نہیں کہ اس وقت دینی تعلیمی ادارے مدارس کی شکل میں موجود تھے اور علوم کونیہ کی تعلیم دینے والے ادارے بھی موجود تھے ایسے میں ایک نئے ادارے کے قیام کی چنداں ضرورت نہ تھی مگر چونکہ وہ مسلم رہبر یہ احساس رکھتے تھے کہ مروجہ دونوں طرح کے تعلیمی ادارے افراط و تفریط کے عمل سے دوچار ہوچکے ہیں اور وہ عالم اسلام اور مسلمانوں کی کسی طور پر بھی عہد جدید کی مشکلات میں کوئی قابل فخر خدمت کرسکیں۔اسلامی یونیورسٹی کے قیام کے مقاصد میں سے اساسی مقصد یہ تھا کہ یہاں ایسے نوجوان تیار کیے جائیں جو تعلیم کے ساتھ تربیت کے مرحلے سے بھی گذریں،طلبہ جہاں علوم کونیہ و فنون میں مہارت رکھتے ہوں وہیں پر شریعت اسلامیہ سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہوں،نئی نسل ذاتی مفاد پرستی کی دنیا سے نکل کر اجتماعی و ملی مفادات کا تحفظ کریں،جوانان ملت مادیت پرستی کی دنیا سے نکل کر اسلام کے پیغام کو پوری دنیا میں سربلند کرنے کے لیے جرأت و جواں مردگی کا اظہار کریں۔ان امور سے خلوص نیت کا انداز اس امر سے کیا جاسکتاہے کہ اس ادارے میں آنے والے طلبہ سے فیسیں بٹورنے یا ان کو انتظامی ذلتوں میں الجھانے کی بجائے ان کی ہر ممکن طور پرمالی اعانت کی جاتی تھی تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنی تعلیم و تربیت کے اس مرحلہ کو مکمل کریں۔
مرورزمانہ کے ساتھ جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں میں مسلمان زوال پذیری کا شکار ہوئے وہیں پر اسلامی یونیورسٹی بھی اس آگ کا ایندھن بن گئی ۔اس یونیورسٹی میں مادیت پرست اور ہوس پرست افراد کی اکثریت قابض ہوگئے اور اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوئے اور جلتی پر تیل کا کام ستمبر ۲۰۱۱ کے واقعہ کے بعد حکومت کی مداخلت اور یونیورسٹی میں سیاسی و مذہبی تنظیموں کی سرکش سرگرمیوں نے اس عظیم ادارے کو اپنے اساسی مقاصد سے دور کردیا ۔اب یہ ادارہ علم ومعرفت کی شمع روشن کرنے کی بجائے مختلف حیلے و بہانوں سے طلبہ سے مختلف مدّات میں مال جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اس تعلیمی دانش گاہ کو مادیت کی دلدل اور اس کوحقیقی اسلامی تعلیم وتربیت فراہم کرنے والے ادارے کی بجائے ایک مروجہ دینی مدرسے یا ایک عام سیکولر یونیورسٹی کی حیثیت دلوانے میں کوششیں نمایاں نظر آتی ہیں۔اس یونیورسٹی کے نام نہاد اسلام پسند افراد بھی شریک جرم ہیں کیوں کہ وہ لوگ عہدوں اور منصبوں کی لالچ میں اس یونیورسٹی میں پیداہونے والی آئے روزکی خرابیوں سے مسلسل چشم پوشی ہی نہیں کرتے بلکہ ان مجرموں کا دفاع بھی کرتے نظر آتے بھی رہے اور ابھی تک ان ظالموں اور غاصبوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔یہ امر باعث تشویشناک ہے کہ وہ لوگ جو دین اسلام اور قرآن و سنت کا شب و روز چلتے پھرتے ورد کرتے ہیں وہی ہی اسلام کی تعلیمات کی صریح مخالفت یا ان کے مرتکبین کے ہمنوالہ و ہم پیالہ بن جائے تو دل خون کے آنسو روتاہے۔
کچھ امید ہوچلی تھی کی سحر کی نوید لیے سعودیہ عرب سے اس عظیم دانش گاہ میں بحیثیت صدر آپ جناب (ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش )کی صورت میں اسلامی علوم سے گہری واقفیت رکھنے والی مخلص قیادت ضرور بالضرور ماضی کے مظالم کی تلافی کریں گے۔جن احباب نے جانے یا انجانے میں اس یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو مجروح کیا ان سے گلو خلاصی حاصل کرکے اس یونیورسٹی کو ایک مثالی جامعہ بنانے کی کوشش کریں گے اور ماضی کی تمام خامیوں کو بتدریج دور کرنے کی سعی کریں گے ۔اصول الدین ،شریعہ اینڈلاء اور عربی فیکلٹیز کے مناھج تعلیم و نظام تربیت کو درست شکل میں تبدیل کرواکر اس یونیورسٹی میں دیگر فیکلٹیوں جن میں علوم کونیہ کی تعلیم دی جاتی ہے کو اسلامی تعلیمات سے مطابقت قول و عمل کے ذریعہ سے دلوانے کی کوشش کریں گے اور تعلیم کی بہتری کے ساتھ ہی اخلاق و تربیت کا بھی خاطر خواہ انتظام کریں گے چونکہ اسلام نے صرف تعلیم کی بات کہیں نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ ہی تربیت و تزکیہ کی جانب بھی متوجہ کیا ۔اسلام صرف خالی خولی فلسفوں یا باتوں کے ہیرپھیر کی تعلیم نہیں دیتابلکہ اسلام عمل کی دعوت و ترغیب دیتاہے۔
مگر افسوس ک ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آپ نے ماضی کی تمام ترخامیوں کو ناصرف برداشت کیا بلکہ آپ کے دور اقتدار میں نئے جرائم کو پنپنے کے مواقع بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔جن میں بنا کسی تفصیل کے صرف اجمالاً عرض کردینا کافی سمجھتاہوں۔ماضی کے کرپٹ اور بدنامِ زمانہ افراد کو اعلیٰ عہدوں پر بدستور برقرارکھا ہواہے،اساتذہ و طلبہ کی تذلیل کا سلسلہ بدستور ناصرف جاری ہے بلکہ آپ نے اس میں اضافہ کیا ہے خود کو شاہی محل میں مقید کیا اور خطیر رقم کی مالیت کی گاڑی اور سیکیورٹی رسک کے نام پر محافظین کی جماعت بھی بنا رکھی ہے اگر کوئی استاذ یا طالب علم آپ سے ملنا چاہے تو اسے مختلف مراحل سے گذارنے کے علاوہ، ہفتوں چکرلگانے پڑتے ہیں ۔ملک پاکستان بالعموم اور اسلامی یونیورسٹی بالخصوص کسی بھی عصبیت کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جبکہ آپ کے دوسال سے زائد عرصہ کے طرز عمل سے یہ ثابت ہورہاہے کہ آپ کسی خاص مسلک کو طاقتور بنانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔یونیورسٹی کے اہم ترین عہدوں پر کمزور و کٹھ پتلی افراد کواپنے نائبین یا عارضی طور پر اعزازی تعیناتیاں کی ہوئی ہیں جن میں اصول الدین ،شریعہ ،منیجمنٹ سائینسز،انجینرنگ،دعوۃ اکیڈمی ،شریعہ اکیڈمی و ادارہ تحقیقات اسلامی وغیرہ کے اہم عہدے شامل ہیں ۔ ان عہدوں پر مستقل باصلاحیت افراد کی تعیناتی سے آپ کیوں خوفزدہ ہیں اس کا جواب آپ ہی دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔!۔یونیورسٹی کی تربیتی و ثقافتی کمیٹی کی سربراہی سمیت اور اہم امور کی ذمہ داریاں ایک فرد واحد کو سپرد کررکھی ہیں اگر یوں کہا جائے کہ وہ شخصیت یونیورسٹی کے سیاہ و سفید کی مالک بن چکی ہے تو چنداں غلط نہ ہوگا۔آپ نے عمرہ جیسی عبادت پر من پسند افراد کو ناصرف بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا بلکہ طلبہ و اساتذہ اور انتظامیہ کے لوگوں کی زبانیں خریدنے کے لیے استعمال کیا جو کہ باعث ندامت امر ہے۔یونیورسٹی کے آغاز زمانے میں طلبہ کو تعلیمی معاونت رضاکارانہ طور پر دیجاتی تھی مگر اس مسئلہ کو آپ نے گداگری اور طلبہ کی تحقیر کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔عرب اساتذہ کے راستوں میں روکاوٹ ڈال کرمن پسند ایک خاص فکر کے حامل اساتذہ کو یونیورسٹی میں لایاگیا۔باصلاحیت و مخلص اور وہ اساتذہ جو کسی بھی لمحہ رب کریم کے علاوہ کسی انسان کی غلامی برداشت کرنے کو تیار نہیں ان کو یونیورسٹی سے نکالنے کے لیے مختلف حیلے بہانے کا سلسلہ جاری رکھاہواہے جو آپ کی علم دشمنی اور سرکشی کا منہ بولتاثبوت ہے۔کیا ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کا شاہی محل،آپ کا پروٹوکول موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں، آپ کی گاڑی کی قیمت،آپ کے من پسند افراد پر شاہ خرچیوں کے لیے تو پیسہ میسر ہیں مگر اساتذہ و طلبہ صرف اور صرف علم دین سیکھنے اور سکھلانے کو فریضہ جانتے ہیں ان پر پیسہ خرچ کرنے میں بخل یا قسوت قلبی کے شکار کیوں ہوجاتے ہیں؟طلبہ کے لیے ہاسٹل کی سہولت میسر نہیں پھر بھی داخلے برابر جاری ہیں جبکہ طلبہ ہاسٹل کی سیٹ کے حصول میں دربدر پھرتے نظر آتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔تعلیمی بلاک ناکافی ہونے کی وجہ سے اساتذہ وطلبہ کلاسز مسجد اور اپنے دفتروں میں لینے پر مجبور ہیں۔بڑے تعجب کی بات ہے کہ اسلام پر قائم یونیورسٹی میں مسجد کی تعمیر تاحال نہ ہوسکی جو مسلمانوں کی اجتماعیت و وحدت کا مظہر حقیقی ہے۔متعدد کانفرنسوں پر خطیر رقم صرف کرنے کے نتائج سے آگاہ کیا جاسکتاہے یا وہ صرف فوٹوسیشن اور خانہ پری کے لیے منعقد کی گئیں ان کانفرنسوں کے ذریعہ حق کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش سرے سے کی ہی نہیں گئی۔اسلامی یونیورسٹی کے ذیلی اداروں کے پروگرامات و سرگرمیوں پر دیانت دارانہ نظر ڈالی گئی ؟کیا یونیورسٹی میں اساتذہ کے طور طریقے اور طلبہ کی اخلاقی و معاملاتی و دینی تربیت کا کوئی انتظام کیا ؟کیا اساتذہ و انتظامیہ کے اخلاقی معیارکو اس قدر بلند کرنے کی تھوڑی سی بھی سعی کی کہ وہ چند ہزاروں کی خاطر کرپشن و علمی چوری اور اپنے فرائض میں کوتاہی سے احتراز کریں ؟؟ایسے واقعات کی فہرست تو بہت طویل ہے مگر میں اسی پر اکتفاکرتاہوں۔
واضح رہے کہ آپ کے زمانے میں یونیورسٹی میں بہتر امور بھی سرانجام دئے گئے ہیں ،جن میں طلبہ و اساتذہ میں علمی پیش رفت کے باب کو کھولنے کے لیے درجن بھر کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا ،یونیورسٹی کی چاردیواری کی تعمیر کی تکمیل عمل میں لائی گئی اور اسی طرح انجینرنگ بلاک تعمیر کروایاگیا ۔آپ کی علم دوستی کا کچھ اثر مجھ ناچیز پر بھی پڑا ہے کہ میں نے آپ ہی کے اسرار پر عربی زبان لڑکھڑاتے ہوئے بول چال کا آغاز کیا ۔مگر محترم میں دردمندانہ اپیل کرتاہوں کہ خدارا اپنی ذات کی تعریف وتوصیف سننے کی بجائے آپ ایسے افراد کو تیار کریں جو آپ کے ساتھ نیک و مخلص ہوں اور آپ کی خامیوں پر جرأت و بے باکی کے ساتھ اظہار خیال کرسکیں ۔آ پ ان افراد کی جماعت تیارکرنے کی کوشش سہوا بھی نہ کریں جو دنیا میں تو آپ کی تعریف میں زمین و آسمان کے مابین خلاء کو مکمل کردیں پر روز محشر میں آپ کے معاون و مددگار بننے سے معذور ہوجائیں۔
میں اپنی اس مختصر اور بکھری ہوئی تحریر کو جرأ ت و ہمت کے ساتھ پیش کرتاہوں اس میں کوئی غلط بات یاغلط مؤقف میں نے پیش کیا ہے تو میری گرفت کرنے میں آپ حق بجانب ہیں اور اگر میری باتیں درست ہیں اور الفاظ کا چناؤطرز تحریر سخت ہیاس بہانے سے مجھے ڈرانے دھمکانے یا زیرعتاب لانے کاسہارالے کر ان غلطیوں اور مظالم کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں تو ایسا کبھی نہیں ہوسکتاکیوں کہ کبھی بھی حق کے راستے میں ظلم و جور کے راستے پر چل کر دبایانہیں جاسکتا۔ ایک امر کی نشاندہی ضرور کروں گا کہ بعض عناصرکی جانب سے یہ کہا جاتاہے کہ راقم ذاتی منفعت کے حصول یا کسی دوسرے فرد یا گروہ کی ترجمانی کرتاہے تو میں اتناہی کہنا چاہتاہوں کہ یہ معاملہ دنیا میں واضح نہیں ہوسکتامگر وقت ساعت کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتاہوں کہ یہ آواز و صدا میری اپنی ہے البتہ اس میں قوت و طاقت میرے مطالعہ کے سبب ہے ۔باقی زیادہ اپنے منہ میاں مٹھوبننے کی حاجت نہیں معاملہ اللہ کے حضور میں چھوڑتاہوں وہ احکم الحاکمین ہے۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ آپ ان امور میں کوتاہی و غفلت کا اعتراف کریں گے اور روز محشر رب ذوالجلال کے حضور فخر کے ساتھ حاضر ہونے کے لیے مندرجہ بالاتمام خامیوں کا ازالہ کریں گے بلکہ ہماری محدود فکر سے بڑھ کر آپ بہتر نتائج پیش کریں گے۔میں نے یہ تحریر مختصرا پیش کی ہے ہر نکتہ پر تفصیلات کے ساتھ بات اور اٹھائے گئے مسائل سے کس طرح نجات حاصل کی جاسکتی ہے بہت جلد کسی تحریر میں درج کروں گا ان شا اللہ۔ بکھری باتیں تحریر کی ہیں مگر یہ درددل ہے اس کو قبول کریں یا نہ کریں یہ آپ کی مرضی ہم تو تادم زیست یہ صدائے حق بلند کرتے رہیں گے ۔اس شعر پر بات ختم کرتاہوں:۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلاکے سرے عام رکھ دیاہے
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com

جمعہ، 27 مارچ، 2015

عقیدہ ختم نبوت ،قادیانیت پر مولانا ابوالحسن علی ندوی کا موقف

بنی نوع انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی رب کریم نے انسانیت کی رہنمائی و نگہبانی کے لیے بعثت انبیاؑ کا سلسلہ شروع فرمایا،چونکہ انسان و جن ہی وہ مخلوقات ہیں جن کو رب العزت والجلال نے نیک یا بد راستہ اختیار کرنے کا اختیار دیا، البتہ انسان کی فطرت میں یہ بات ودیعت رکھ دی گئی ہے کہ وہ بدی و نقصان کی کشش کے سبب اس کی جانب سرعت سے متوجہ ہوجاتاہے ،اللہ رب العزت نے انسانیت کو درست و غلط راستے میں سے کسی کے چناؤ اور اختیار کرنے سے قبل اس کے سامنے حق و باطل ،درست وغلط راہ کو واضح اور بین کرنے کے لیے انبیاؑ مبعوث فرمائے ،انبیاء کرامؑ کی بعثت کا یہ سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہوکر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم فرمایا۔اب حضورکریمﷺ کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا اسی سبب سے اللہ رب العزت نے آپ ﷺ پر سورہ مائدہ کی آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل فرمائی ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘۔اس آیت کے نازل ہونے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اب انسانیت کوکسی دوسرے نبی و رسل کی آمد کے انتظار کی حاجت نہیں بلکہ جو کچھ شریعت محمدیﷺ میں نازل ہوچکا اب یہی حرف آخرہے اور اپنے خالق و مالک کی رضامندی کے حصول اور روز محشر میں نبی کریمﷺ کی شفاعت کی نعمت سے مستفید ہونے کی شرط ہی یہ ہے کہ شریعت محمدیﷺ کی تعلیمات پر بلاکسی تردد کے عمل کیا جائے۔
انسانی فطرت چونکہ نت نئی چیزوں کی جستجو میں محو رہتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ہرانسان شہرت و عزت کا دلدادہ رہتاہے چاہے وہ اسے درست و غلط طورپر بھی حاصل ہوجائے ۔اِلّایہ کہ ان لوگوں کے جو اپنی ذاتی خواہشوں کی تسکین اتباع شریعت میں سمجھتے ہوں اور اپنی ابدی و اخروی نجات کو نبی کریم ﷺ کی اتباع میں ہونے کا یقین رکھتے ہوں ایسے لوگ بہت کم بھٹکتے ہیں اور ان کا ایمان غیر متزلزل رہتاہے ۔شہرت و انفرادیت اور خواہشات نفس کے غٖلاموں نے مختلف راستوں کے ذریعہ دین متین کو زچ و نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر اللہ رب العزت نے چونکہ دین کی حفاظت کی ذمہ داری خود ہی لی ہے ،اس لیے سازشی عناصر کی بدلتی شکل و صورت میں ظاہر ہونے کے باوجود ان کا سخت تعاقب ہمیشہ کیا جاتارہا۔انہی سلسلوں میں ایک سلسلہ عقیدۃ ختم نبوت کا انکار بھی ہے ،اسی کے نتیجہ میں وقتا فوقتاعہد نبویﷺ میں مسیلمہ کذاب ،طلیحہ اسدی،سجاح سے شروع ہوکر بیسویں صدی تک متعدد مدعیان نبوت ظاہر ہوتے رہے اور ہر دور میں دین حق کے رہبروں نے ان کا کڑامحاسبہ کیا جس کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کی ذلت میں مبتلا ہوکر ناکام و نامراد ہوئے۔
ذیل کی تحریر میں بھی ایسے ہی مدعی نبوت کے ظہور(مرزا غلام احمد قادیانی) اور اس کے تعاقب میں مختلف علماء میں سے برصغیر کے عظیم مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی کی جدوجہد اور ان کے مؤقف کو اجمالاً کہیں کہیں مناسب ترمیم و اضافہ کے ساتھ بیان کیا جاتاہے ۔مولانا فرماتے ہیں قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے واضح فرمادیا کہ ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین‘‘لفظ خاتم بفتح التا ء اور بکسر التاء دونوں صورتوں میں معنی ایک ہی ہے یعنی آخر۔عقیدہ ختم نبوت پر ایمان و اعتقاد ازحد ضروری ہے کیوں کہ اس اسی کے سبب ملت اسلامیہ وحدت کی لڑی میں پروی ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں مسلمان دین اسلام کے عالم ارضی پر غلبہ کے لیے کائنات میں جدوجہد کرنے کا مکلف بنایاگیا ہے ،اسی کی وجہ بھی یہی ہے کہ اب اس کو نئے نبی و رسل اور نئی شریعت کے منتظر رہنے کی چنداں ضرورت نہیں،اللہ رب العزت نے نوع بشرپراپنی حجت تمام کردی ہے۔لہذااب ملت اسلامیہ کے سامنے صرف ایک ہی میدان ہے اور وہ میدان عمل ہے۔اگر عقیدہ ختم نبوت پر ایمان کو ترک کردیاجائے تو لازمی بات ہے کہ نئے نبی ورسول کا انتظار کرنا پڑے گا اور عمل کی دنیا سے کنارہ کش ہوجاناپڑے گا اور اسی کے بدیہی نتیجہ کے طور پر ملت تفرقوں اور گروہوں میں بٹ جائے گی چونکہ ہر کوئی نبوت کا دعویٰ کرکے اپنے لیے اتباع پیداکرلے گا اور اس صورت میں ملت کی وحدت و امت کا تصور پارہ پارہ ہوجائے گا۔اسی بات کو علامہ اقبال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ’’ دین و شریعت کی بقا تو کتاب و سنت سے ہے لیکن امت محمدیہ کی بقاختم نبوت کے عقیدۃ سے وابستہ ہے‘‘۔
مولانا فرماتے ہیں کہ قادیانیت نبوت محمدیﷺ اور شریعت اسلام کے خلاف ایک سازش و بغاوت ہے ،جس پر ضرب لگانے کا لازمی نتیجہ دوسری امتوں پر امت محمدیہ کو ملا ہوا مقام شرف و کرامت معدوم کرناہے۔امت محمدیہ کا مکمل عہد پراز تغیرات ہے اس میں وقتا فوقتا مسائل مختلف روپ میں ظاہر ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی پیش آتے رہیں گے اور ان سے مقابلہ کرنے کی ذمہ داری ملت کے رہبروں پر عائد کی گئی ہے۔اسی طرح اللہ رب العزت نے ملت محمدیہ پر دوایسے احسان کیے ہیں کہ جن کی مدد سے ملت مشکل سے مشکل اور سخت سے سخت مسائل کا مقابلہ سہولت کے ساتھ کرسکتے ہیں۔اول: حضرت محمدﷺ کی کامل و مکمل ذات کی بعثت کے ذریعہ زندگی کے تمام گوشوں کو واضح طور پر کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے،اب کسی نئے نبی و رسول یا مسیح موعود کی امت کو حاجت چنداں نہیں کیوں کہ نبی کریمﷺ کے ذریعہ حاصل شدہ تعلیمات تا روز ابد زندہ جاوید رہیں گی۔ثانی :دین حق کی حفاظت کا ذمہ یعنی کے اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘اسی دین کی حفاظت کے لیے اللہ رب العزت ہر دور میں اپنے مقرب لوگوں کوان سے فتنوں سے برسرپیکار ہونے کی جرأت و ہمت عطافرماتے رہیں گے اور دین پر حملہ آور بہروپیوں سے نمبرد آزمارہنے کی صلاحیت وقوت عطافرمائیں گے۔
مدعیان نبوت کی کثرت سابقہ ادیان میں بکثرت موجود رہی ۔چونکہ یہودیت و عسائیت میں کسی نئے نبی کے ظہور یا آمد کی نفی موجود نہیں اس لیے اس میں بکثرت مدعیان نبوت پیداہوتے رہے ہیں ،وہ کسی مدعی نبی کو سچا یا جھوٹا قرار دینے میں متردد رہتے تھے ،جس کے باعث ان مذاہب کے پیروکار سخت اذیت سے دوچار رہتے تھے۔مولانا فرماتے ہیں کہ مجھے اس امرکا احساس پہلی مرتبہ علامہ اقبال کی تحریر کے مطالعہ سے ہوا اور پھر میں نے خود مسیحیت و یہودیت کے مصنفین کی کتب کا براہ راست مطالعہ کیا تو اس امر پر غیرمتزلزل یقین ہوگیا۔یہاں پر ان مذاہب کے اصحاب قلم کی دوتحریریں بطور مثال پیش کی جاتی ہے جس سے یہ اندازہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ وہ مدعیان نبوت کی کثرت سے کس قدر مشکل سے دوچار تھے۔
امریکی برطانی جیوش ہسٹاریکل سوسائٹی کا ایک فاضل رکن Atlbert M Saymson))انسائیکلوپیڈیا مذاہب و اخلاق میں لکھتاہے’’یہودی حکومت کی آزادی سلب ہوجانے کے بعد پچھلی چند نسلوں تک بہت سے خود ساختہ مسیحاؤں کا ذکر یہود کی تاریخ میں ملتاہے،جلاوطنی کے تاریک زمانوں میں امید اور خوش خبری کے یہ پیغام بر،خودساختہ قائدین کی حیثیت یہود کو ان کے وطن(جہاں سے ان کے آباء و اجداد نکال باہر کیے گئے تھے)واپس لے جانے کی امیدیں دلاتے رہتے تھے،اکثر اوقات اور خصوصاًقدیم زمانہ میں ایسے’’مسیح‘‘ان مقامات پر اور ایسے زمانہ میں پیداہوتے تھے جہاں یہود پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ جاتاتھا،اور اس کے خلاف بغاوت کے آثار پیداہوجاتے تھے ،اس قسم کی تحریکیں عموما سیاسی نوعیت کی حامل ہواکرتی تھیں،خصوصاًبعد کے زمانہ میں تو تقریباً ہر تحریک کا یہی رنگ تھا۔اگرچہ یہ تحریکیں مذہبی عنصر سے کم عاری ہواکرتی تھیں،لیکن اکثر ان کے بانی بدعات کو فروغ دے کر اپنی سیادت کا دائرہ اور اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتے تھے،جس کے نتیجے میں یہودیت کی اصل تعلیمات کو بہت نقصان پہنچتاتھا،نئے نئے فرقے جنم لیتے اور بالآخر اعیسائیت یا اسلام میں ضم ہوجاتے تھے‘‘۔(Encyclopaedia of Religions and Ethics) 
مدرسہ دینیات میں یونانی ،رومی اور مشرقی کلیسا کی تاریخ کے پروفیسر ہارٹ فورڈ مسیحیت کو پیش آنے والے اس ابتلا کے بارے میں لکھتے ہیں’’ان جھونے نبیوں کے ظہور نے جوماورائی حکمت(Superior Wisdom)کے مدعی ہوتے تھے،بہت جلد بے اعتمادی پیداکردی اور کلیساؤں اور ان کے رہنماؤں کو اس خطرہ کا احساس دلایا جو ان کی فلاح و بہبود کے گرد منڈلارہاتھا ،تاہم ابھی کوئی ایساتادیبی طریقہ وجود میں نہیں آیاتھا جو جانا پہچانا بھی ہوتا،اور ان مکاروں کا زور بھی ختم کرنے کی صلاحیت رکھتاہو،جنہیں یہ دعویٰ تھا کہ خدا ان سے کلام کرتاہے اور ان پر بذریعہ وحی اپنے راز ہائے سربستہ منکشف کرتاہے،ابھی تک ایساکوئی معیار نہیں دریافت ہوپایا تھا جس کے ذریعہ ان مدعیان روحانیت کی صداقت کا امتحان لیا جاسکتا،ایسے معیار کا دریافت ہونا قطعاً ضروری تھا،اور اگر یہ دریافت نہ بھی ہوتا تو بھی کلیسا اس کی تخلیق کرکے رہتاتھا کہ اس کے ذریعہ مذہب کو بنیادی اصولوں میں انتشار اور زندگی کا الحاد کے راستہ پر جاپڑنے سے بچاسکے اور اس طرح خود اپنی حفاظت کا انتظام کرسکے‘‘۔(Encyclopaedia of Religions and Ethics. Vol. X P. 383) 
مولانا فرماتے ہیں کہ احمدی تحریک دراصل انگریز و استعمار کے خلاف برسرپیکارہونے والے محسنین اسلام سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید کی تحریک کی باقیات کو مٹانے کے لیے قائم ہوئی ۔اسی لیے جہاد کی ممانعت اور انگریز حکومت کی بغاوت کو حرام قراردیااس پر مختلف زبانوں میں کتب انگریز کے خرچ پر تحریر کیں۔مرزاغلام احمدقادیانی نے دنیا بھر میں جہاد کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے اپنے تیار کردہ شاگردوں کو بھی بھیجا جن میں سے بعض افغانستان میں سازشوں کے فروغ کے جرم میں قتل کئے گئے جن میں ملاعبدالحلیم قادیانی،عبداللطیف اورملا نورعلی قادیانی کو پھانسی دی گئی۔مرزا کے والدمرزا مرتضیٰ نے ۱۸۵۷ ء کی جنگ میں انگریز کی بھرپور مدد کی اور مرزا کے بڑے بھائی غلام قادر بھی انگریز کی معاونت و خدمت کرتے رہے انہیں خدمات کے صلہ میں مرزا نے انگریز کو اپنے وفاداری کا احساس دلاتے ہوئے اپنی سرپرستی و مدد طلب کرنے کے لیے متعدد خطوط تحریر کیے جن میں سے بطور نمونہ ایک پیش کیا جاتاہے۔لفٹنٹ گورنر پنجاب کو ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کو درخواست بھیجی جس میں لکھتے ہیں کہ’’یہ التماس ہے کہ سرکارِ دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس سال کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار ،جانثار خاندان ثابت کرچکی اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چھٹیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریز ی کی خیر خواہ اور خدمت گذار ہے،اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم و احتیاط اور تحقیق و توجہ سے کام لے ،اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائیے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں‘‘(تبلیغ رسالت جلد ہفتم ص۱۹)
مسلمانوں کی وحدت کو پارہ کرنے کے لیے انگریز براہ راست دخل اندازی نہیں کرسکتاتھا وہ اس کام کے لیے چور دروازے کی تلاش میں تھے جو انہیں مرزا غلام احمد کی شکل میں میسر آگیا ۔مرزا غلام احمد ذہنی انتشار کے مریض تھے اور بڑی شدت کے ساتھ اپنے دل میں یہ خواہش رکھتے تھے کہ وہ ایک نئے دین کے بانی بنیں ،ان کے کچھ متبعین اور موافقین ہوں اور تاریخ میں ان کا ویسا ہی نام و مقام ہو جیسا جناب رسول اللہ ﷺ کا ہے ،وہ انگریز کو اس کام کے لیے موزوں شخص نظر ائے اور گویا انہیں ان کی شخصیت میں ایک ایجنٹ مل گیا جو ان کے اغراض کے لیے مسلمانوں میں کام کرے،چناچہ انہوں نے بڑی تیزی سے کام شروع کیا ،پہلے منصب جدید کا دعویٰ کیا پھر ترقی کرکے امام مہدی بن بیٹھے،کچھ دن بعد مسیح موعود ہونے کی شہادت دی اور آخر کار نبوت کے تخت بچھادیا ،اور انگریز نے جو چاہا تھا وہ پوراہوگیا۔
مرزا غلام احمد میں تین ایسی چیزیں ایک ساتھ جمع تھیں ،جنہیں دیکھ کر ایک مؤرخ یہ فیصلہ نہیں کرپاتاکہ ان میں اہم ترین اور حقیقی سبب کسے قرار دیاجائے جس نے ان سے یہ ساری حرکات سرزد کروئیں(۱)دینی رہنمائی کے منصب پر پہنچاجائے اور نبوت کے نام سے پورے عالم اسلامی پر چھایاجائے(۲)وہ مالیخولیا کے باربار تذکرہ سے ان کی ان سے متعلق اس کے ماننے والوں کی کتابیں بھری ہوئی ہیں(۳)مبہم اور غیر واضح قسم کے سیاسی اغراض و مفادات اور سرکار انگریز ی کی خدمات گذاری اور نمک حلالی،یہ ایسی صفات ہیں کہ جن میں سے ایک کے وجود کے باعث انسان راہ راست سے بھٹک سکتاہے اور مرزا غلام احمد میں یہ تینوں صفات بیک وقت موجود تھیں۔
مرزاصاحب نے ۱۸۹۱ میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر ۱۹۰۱ میں نبوت کا دعویٰ کردیا۔مرزا صاحب نے اپنی نبوت کے دعوئے کو درست ثابت کرنے کے لیے مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب کو۱۹۰۷ء میں ایک اشتہار کے ذریعہ چیلنج کیا کہ اگر میں غلط ہواتو آپ سے پہلے مرجاؤں گا اور اگر میں غلاط ہوا تو آپ سخت مرض میں مبتلا ہوکر میری حیات ہی میں انتقال کرجائیں گے۔اس اشتہار کی اشاعت کے ایک سال بعد ۲۵مئی ۱۹۰۸ کو مرزا صاحب اسہال کے مرض میں مبتلاہوگئے اور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو دن چڑھے انتقال کرگئے۔مولانا ثناء اللہ امرتسری نے مرزاصاحب کی وفات کے ۴۰ سال بعد۱۵ مارچ ۱۹۴۸میں اسی برس کی عمر میں وفات پائی جس سے واضح ہوجاتاہے کہ مرزا صاحب کے اپنے ہی دعوئے کی روشنی میں جھوٹے مدعی نبوت تھے۔
مولانا فرماتے ہیں کہ قادیانیت ملت اسلامیہ کو اصل ذمہ داری جو اس کو تاقیات دنیا میں سربراہی و سیادت کی ملی ہے اس سے ہٹاکر ان کو لاحاصل فلسفیانہ و مناظرانہ مباحث میں الجھانا چاہتی ہے اور اس کا واحد مقصد ہے کہ انگریز و مغرب کی خدمت ہمہ وقت انجام دی جائے۔اسی مقصد کے لیے مرزا غلام احمد نے جہاد کی حرمت اور انگریز کی وفاداری کو ثابت کرنے کے لیے اردو ،عربی ،فارسی میں متعدد کتب تحریر کرکے ان کو عرب و عجم میں پھلادیا جس سے وہ ایک طرف ملت اسلامیہ کی اجتماعیت کو توڑنے اور دنیا میں سیادت کے حصول کی جدوجہد سے بازرکھنے کا پیغام تھا تو دوسری طرف بے فائدہ بحث و تمحیص کے گرداب میں پھنسانے اور انگریز کی وفاداری کا درس بھی موجود تھا۔ملت کو توڑنے کی اس حد تک کو شش کی تھی کہ جو مرزا غلام احمد کو نبی نہ مانے وہ کافر ہے اور اس کے ساتھ ہر طرح کا معاملہ دینی و دنیوی جائز نہیں اس نکتہ کی بنا پر سر ظفر اللہ خان جو کہ بدقسمتی سے پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ تھا اور قادیانی کا پیروکار تھا نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علیؒ جناح کی نماز جنازہ نہیں پڑھی کیوں کہ وہ قادیانی نہ تھے۔
قادیانیت کے خلاف بہت سی تحریکیں میدان میں آئیں جن میں مسلمانوں کے تمام طبقے کے علما ء برابر اس فتنے کے خلاف برسرپیکار رہے ،جن میں مولانا محمد حسین بٹالوی ،مولانا محمد علی مونگیری (بانی ندوۃ العلماء)مولانا ثناء اللہ امرتسری ،مولانا انور شاہ کشمیری(شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) اور تحریک ختم نبوت کے سپہ سالار و قائد سید عطاء اللہ شاہ بخاری شامل تھے۔ان علما ء کی مسلسل جدوجہد اور قادیانیت کے سخت تعاقب کے باعث امت اس فتنے سے محفوظ رہی اور بالآخر ۱۹۷۳ء میں پاکستان میں قادیانیت کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
فتنہ قادیانیت کے خلاف اسلام کے مایۂ ناز مفکر علامہ اقبال ؒ بھی برسرپیکار رہے اور انہوں نے اپنی تصانیف میں بہت صاف صاف لکھا کہ قادیانیت نبوت محمدی کے خلاف ایک بغاوت ہے ،اسلام کے خلاف ایک سازش ہے !یہ ایک مستقل دین ہے ! اس کے ماننے والے ایک الگ امت ہیں اور یہ امت عظیم اسلامی امت کا ہر گز وجود نہیں ہے! اور علامہ اقبال ؒ ہی نے سب سے پہلے قادیانیت کو خارج از اسلام قراردینے کی تجویز پیش کی تھی۔
مولانا فرماتے ہیں کہ قادیانیت حضورﷺ کی شریعت اور اسلام کے ہر ہر جزوکے مخالف نظریہ رکھتے ہیں ،یہ چند ٹھوس حقائق ہیں ،لیکن جو لوگ واقعات سے دور اور اوہام و خیالات ہی کی دنیا میں رہنا پسندکرتے ہیں،اور حقیقتوں کے بارے میں بھی اپنے آپ کو دھوکہ میں رکھنا چاہتے ہیں ،ان کے لیے اور ان لوگو ں کے لیے جن کی نظر میں دین و عقیدہ کی خودکوئی قیمت نہیں ،اور جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں ،ان کو مطمئن کرنے کے لیے میرے پاس کوئی زبان یا قلم نہیں:۔
؂ یارب نہ وہ سمجھے نہ سمجھیں گے مری بات                 دے اور دل ان کو جونہ دے مجھ کو زباں اور

تحریر: عتیق الرحمن(طالب علم:ایم فل تاریخ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد)
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com


منگل، 24 مارچ، 2015

عقیدہ ختم نبوت کی تفہیم قرآن و سنت کی روشنی میں

مسلمان کا عقیدہ اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم ؐ کی رسالت پر ایمان و یقین سے شروع ہوتاچونکہ نبی کریم ؐ کی ذات عالی صفات پر ہی اللہ رب العزت نے انبیاء ورسل کے سلسلہ کو مکمل فرمایا۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کی جانب سے آخری پیغمبر ہیں جن کو تاقیامت تک نوع انسانیت کی رہنمائی کے لیے مبعوث کیا گیا۔نبی مکرمؐ کے متبعین نے آپ کے پیغام و دعوت کو بغیر کسی کمی بیشی کے مشرق و مغرب کے تمام نوع بشر تک امانت و دیانت کے ساتھ منتقل کیا۔اسلام کے راہ میں مخربین و دشمنوں نے مختلف ہتھیاروں سے روڑے اٹکانے کی کوشش کی انہوں گرم و سرد جنگیں بھی مسلط کیں ،انہی میں سے ایک سرد جنگ یہ بھی تھی کہ نفس دین میں تخریب نقب لگایا جائے اور وہ یہ کہ نبی آخر الزمانؐ کی نبوت کو آخری نبی ؐ تسلیم نہ کیا جائے بلکہ آپ کے بعد بھی نبوت کو سلسلہ کو جاری و ساری ماننے کا عقیدہ وضع کیا گیا۔یہ ایک ایسا پہلو ہے کہ جو دشمنان اسلام کی تمام ترکوششوں میں سب سے زیادہ خطرناک و مضر ثابت ہوا، اس کے وجود سے جہاں ملت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرنے کی کو شش کی گئی وہیں پر اس عقیدہ کے وجود سے اصل اسلام کی صورت کو مشتبہ بنانے کی ناکام کوشش بھی ہوئی۔
قرآن مجید میں مذکور لفظ ’’الرسول‘‘و ’’النبی‘‘ ہیں اور اس پر حوار و کلام کا آغاز ہوا ہر ایک اپنے تئیں معنی الرسول اور النبی کا معنی بیان کرنے کی کوشش کی۔اس کلام کے اختتام پر یہ نتیجہ حاصل ہواکہ سب رسولؑ نبیؑ ہیں جبکہ سب نبی رسول نہیں ہیں کیوں کہ رسول اللہ رب العزت کی طرف سے نئی شریعت کو لے کر آتے ہیں اور اس کی دعوت دیتے ہیں جبکہ نبی سابقہ شریعت کی دعوت و تبلیٖغ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔اسی لیے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے نبی اکرم ؐ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ’’نہیں ہیں محمدؐ تم میں سے کسی کے باپ لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والے‘‘اس آیت سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ آپ ؐ اللہ کے آخری نبی ورسول ہیں اور جب آپ آخری نبی و رسول ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہواکہ آپؐ کے بعد کوئی نبی و رسول نہیں آئے گا بلکہ آپ پر نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع فرمادیاگیاہے۔ یہ ایک عبث امر ہے اور اس کے ذریعہ دعوت اسلام کو نقصان پہنچانے اور جاہلیت کومضبوط بنانے اور اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی ایک سخت سازش یہ ہے کہ ختم نبوت کے مسلمہ عقیدہ کا انکار کیا جائے۔
مکار انگریزکی خباثت اس قدر مضبوط و طاقتور ثابت ہوئی ہے کہ جب وہ مسلمانوں سے ان کے مسلم فریضہ جہاد کی اہمیت و ثبات کے سبب جنگی میدان میں شکست سے دوچار ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کو داخلی طور پر کمزور کرنے کے لیے بعض ذاتی منفعت پسندوں اور جہلاء کے ذریعہ سے ختم نبوت کے انکار کا عقیدہ وضع کروایاتاکہ اس ذریعہ سے دین اسلام میں تحریف اور اہمیت جہاد کو مٹاسکے۔مسلمانوں کا اصل عقیدہ جو نبی اکرمؐ اللہ تعالیٰ سے لے کر آئے ہیں اور قرآن مجید میں جس کا بیان ہے وہ خالص و صحیح ہے اور عقل انسانی و اہل بصیرت کی نظر میں قابل قبول بھی ہے۔
عقیدہ ختم نبوت سے متعلق ہم نہیں دیکھتے کہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے بھی اس پر اشکال و اعتراض کیا ہو ۔صحیح احادیث میں وارد ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ آئے کہ ہم اس وقت حلقہ کی شکل میں موجود تھے،آپؐ نے فرمایا کہ ’’میں محمدؐ نبی امی ہوں ،میں محمد نبی امی ہوں، میں محمد نبی امی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘حضرت ابوھریرہؐ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ’’میری مثال اور انبیا کی مثال جو مجھ سے قبل آئے ایسے ہیں کہ ایک انسان اچھا اور خوبصورت گھر تعمیر کرے الا یہ کہ اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ باقی رہ جاتی ہے پس لوگ اس کے گرد چکر لگاتے ہیں اور حیرت و تعجب کے ساتھ کہتے ہیں کہ کیایہاں اینٹ رکھ دی گئی ؟اور پھر آپ ؐ نے فرمایاکہ میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں‘‘۔یہ اور اس طرح کی دوسری احادیث نبوی ؐسے مسلمانوں کا عقیدہ ختم نبوت مستقیم ہوتاہے۔کتاب مقدس میں نبی کریم ؐ سے متعلق خبروں سے یہود خوف زدہ تھے کہ آپ کی بعثت کے ساتھ نبوت کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا۔
اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے اور اللہ تعالیٰ ،اپنے ضمیر اور لوگوں پر جھوٹ بولنے والے بہت زیادہ ہیں ۔نبی کریم ؐ نے پہلے ہی واضح فرمادیا تھا کہ میری امت میں جھوٹے لوگ ظاہر ہوں گے اور وہ یہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ نبی ہے اور میں نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘دین کی تکمیل درحقیقت نبوت ورسالت کے سلسلہ کی تکمیل ہی ہے ،جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے کہ’’آج کے دن ہم نے تمہارے لیے دین کو مکمل کردیا ہے اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردی اور ہم نے اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کرلیا‘‘یہودیت کے منہج اور اسلوب شریعت میں روحانیات پر اکتفا کیا جاتاہے اور طبائع انسانی سے روگردانی اختیار کی جاتی ہے۔حضرت عیسیؑ جو کہ اللہ کی کتاب انجیل کے ساتھ مبعوث ہوئے اس میں بہت پہلے سے ہی نبی کریم ؐکی بعثت کی خوشخبری دی جس کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے’’میں خوشخبری دیتاہوں کے میرے بعد ایک رسول آئے گا جس کا نام احمد ہوگا‘‘۔مگر بعض کم فہم اور سازشی ذہنوں نے عربی زبان پر کم گرفت و عبور کی وجہ سے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ آپؐ کے بعد رسول کا ظہور تو ممکن نہیں لیکن نبی ظاہر ہوتے رہیں گے کیوں کہ اس آیت میں خوشخبری رسول کی دی گئی ہے نہ کہ نبی کے ظہور کی۔
ایسی بہت سی جھوٹی روایات نبی کریم ؐ پر گھڑی گئی ہیں اور یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے ساتھ مسلمانوں کو جہاد اور کائنات میں غوروفکر اور اس کی قیادت کو سنبھالنے جیسے عظیم فرائض سے دور کرنے کی سازش کے طور پر یہ تصورات و عقائد پیداکیے گئے۔
اس سازشی منصوبہ بندی سے بعض جہلاء یہ سمجھ بیٹھے کہ اسلام ناقص ہے اور اس میں تعدیل و توظیف کی ضرورت ہے ،وہ اس ذریعہ سے اسلام کے ثوابت کے ساتھ کھیلنے اور قران و احادیث کی آیات کی غلط تاویل کرنے کے راستوں کی کھوج لگانے لگے،افسوس ہے کہ یہ لوگ عربی زبان کی حقیقت کو سمجھنے سے عاری اور اس کی بلاغت و اسلوب بیان کو سمجھنے میں ناکام و عاری ہیں،اس لیے وہ کوئی درست و مبنی برحق نتیجہ حاصل کرنے سے عاجز رہے ہیں ظلم یہ کہ انہوں نے آیات کو جامد ٹھہرانے کی کو شش کی تاکہ اس ذریعہ سے یہ بددیانت و خائن لوگ انگریز و اسلام دشمنوں کی چوری و سرکشی اور ان کے ظلم و ستم کے سلسلہ میں ان کی مدد کرسکیں۔اسلام کی غلط تعبیر پیش کی جبکہ یہ مسلمہ بات ہے کے اللہ ہی کے لیے حکم و امر ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور دشمنان اسلام ہمیشہ کی طرح تاقیامت ذلیل و رسوا اور ناکام و نامراد ہوں گے۔مسلمان اس امر کے محتاج و ضرورت مند ہیں کے دین کی درست تفہیم حاصل کریں ناکہ وہ کسی نئی خودساختہ جھوٹے دھوکے باز و فراڈی مدعی نبوت کے ظہور انتظار میں ذلت و تاریک کی دلدل میں داخل ہوں۔
 تحریر:ڈاکٹر خالد فواد الازہری(چئیرمین بعثہ الازہر) 
Khalidfuaad313@gmail.com