جمعرات، 23 جولائی، 2015

بعنوان ’’والدین کے ساتھ بدسلوکی ۔۔۔۔!‘‘


مغرب کے معاشروں میں والدین کی رتی بھر بھی اہمیت اور قدر و منزلت نہیں کیوں کہ مغربی معاشرہ مادرپدر آزاد معاشرہ ہے۔وہاں ہرفرد بشر اپنی من کی زندگی میں زندگی بسر کرتا نظر آتاہے ۔سلسلہ نسب والد کی بجائے ماں کی جانب منسوب کیا جاتاہے ۔وہاں پر خاندان کا اجتماعی تصور معدوم ہوچکا ہے۔مغربی معاشرہ میں باپ بیٹا ،ماں بیٹی ہر ایک اپنے ذاتی کا م کے امور آزادانہ سرانجام دیتے ہیں اس سلسلہ میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ جب اس معاشرہ میں والدین بزرگ ہوجاتے ہیں اور اپنی ذاتی کام کرنے سے عاجز آجاتے ہیں تو ان کی اولا انہیں اولڈ ہاؤس کی نظر کر آتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ان کی اس عمر آخیر میں کوئی خدمت کرسکیں اور نہ ہی ان کو بوڑھے و بزرگ لوگوں کے ساتھ رہنے میں اپنی پرتعیش زندگی بسر کرنے میں لطف ملتا ہے۔(اگرچہ آج کل مغربی معاشرہ خاندان کے بندھن کی جانب لوٹنے کے لئے بے تاب ہی نہیں بلکہ عملاً اس کا آغاز بھی ہوچکا ہے)
ستم ظریفی ہے کہ آج کا مسلم معاشرہ بھی مغرب زدہ ہوچکا ہے ۔مسلم معاشرہ مغرب کے تہذیب و تمدن اور اس کی عیش و عشرت سے ہمہ جہت متاثر ہوچکا ہے۔اس سلسلہ کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔بہت سارے بیوروکریٹ ،اعلیٰ و اغنیا خاندان کے لوگ بھی اپنے والدین کو دھتکارتے اور گھروں سے بے گھر کرتے نظر آتے ہیں یا ان کی زندگی اجیرن کرتے ہیں گو یا کہ وہ زندہ رہ کر بھی موت کی عبرت ناک اذیت کو سہنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ذیل کی تحریر میں دوواقعات درج کرتاہوں ۔ایک واقعہ متعدد بار پیاس تحقیقاتی و سائنسی ادارہ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الرحمان کے لیکچر میں سنایا ہے اور یہ واقعہ باعث حیرت و تعجب ہونے کے ساتھ اولاد کے رویہ کی بدترین مثال پیش کرتے ہوئے مسلم معاشرہ کے ہر فرد کو خبردار کرتاہے کہ یہ وحشیانہ سلوک والدین کے ساتھ روارکھنے والے دنیا و آخرت میں بدترین و دردناک ترین عذاب سے ضروربالضرور دوچار ہوں گے۔دوسرا واقعہ خود راقم کے مشاہدہ میں آیاہے اور اس کو بعض وجوہ کے سبب فرضی تمثیل کے ساتھ ضبط تحریر کروں گا۔
ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ راول پنڈی کے مدرسہ اصحاب صفہ کے مہتمم قاری عبدالمالک صاحب بیان کرتے ہیں ان کے ہاں ایک بزرگ کا بہت آنا جانا تھا اور وہ صاحب ایک بڑے عہدہ ریٹائر تھے ۔اکثر و بیشتر اپنے بچوں کی بے پروائی کی شکایت کرتے تھے،وہ شراب و شباب کی محفلیں گھر میں سجاتے ہیں اور میں گھر سے آنے جانے میں خوف محسوس کرتاہوں گویا کہ میں گھر کے ایک کونے میں محصور ہوں۔چونکہ ان صاحب کی رہائش فیصل مسجد کے قرب و جوار میں رہائش تھی ۔قاری صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ہم کچھ دوستوں کی معیت میں ان کے گھر پر حاضر ہوئے تو دروازے پر دستک دی تو جب دروازے کھولا تو ہمیں غیر متوقع طور پر ان کے بچوں کا سامنا کرنا پڑا جن کے چہروں پر اذیت ناک شکنیں پڑچکیں تھیں ۔بے رغبتی کے ساتھ ہمیں گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی ۔جب ہم نے ان کو والڈ صاحب کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دینے کی کوشش کی تو ان کا لہجہ تلخ ہوگیا اور سب و شتم تک نوبت آگئی تو ہم نے رخصت ہونے کی اجازت طلب کرکے روانہ ہوگئے ۔قاری صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ بزرگ وقتاً فوقتاً بعد میں بھی حاضر ہوتے رہے اچانک طویل مدت ہوگئی تھی تو وہ صاحب نہیں آئے ہم پھر ان کی خیریت دریافت کرنے ان کے گھر پہنچے اور دستک دی تو دروازہ کھولا تو ہم نے محسوس کیا کہ ان صاحب کے بچوں کا رویہ مثبت و خوشگوار پایا،ایک لمحہ تو ہم سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا وجہ ہے کہ آج یہ خوشگور انداز سے استقبال کررہے ہیں یا تو یہ تبدیل ہوگئے ان کو اپنے ماضی پر ندامت ہوئی ہوگی اور انہوں نے بدمعاملگی سے توبہ کرلی ہوگی یا دوسری صورت یہی ہوسکتی ہے کہ یہ ہم خراب ہوگئے ہیں تبھی ہم سے اچھے رویہ سے پیش آرہے ہیں ۔بپرحال ہم جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے تو ہمارے اوسان خطا ہوگئے کہوہ ہمیں گھر کے ایک کونے میں لے کر گئے اور کہنے لگے یہ تمہارا دوست مرا پڑا ہے لے جاؤاسے اور اس کے جنازہ کا انتظام کرو اور پھر اسے دفن کردو کہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس قدر اولاد کی بے رغبتی و بے پروائی کی بدترین مثال کہیں نہیں ملتی اور یہ ہمارے مسلم معاشرہ کی مغرب زدگی کا ہی مظہر ہے جس کو ہمارا میڈیا اور حکمران مختلف طور و طریقوں سے فروغ دے رہے ہیں اور اس بدمعاملگی کو فروغ ملنے میں ہمارا نظام تعلیم و تربیت بھی اساسی کردار اداکررہاہے جس کے سبب اخلاقیات کا جنازہ نکل رہاہے۔اسی طرح اس قضیہ کو معاشرہ میں پنپنے کا موقع فراہم کرنے میں ہمارے مذہبی ذمہ داروں کا بھی بنیادی کردار ہے کیوں کہ وہ اس طوفانِ بدتمیزی پر سردمہری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
دوسرا واقعہ ظلم و جبر اور طاغوتیت کی مثالوں میں آخری درجہ کی مثال ہے کہ تمام مظالم اس واقعہ کے سامنے ہیچ ہیں کہ اس واقعہ کا مرکزی کردار وہ بیٹی ہے جو اپنے والدین کا مان و سامان ہوتی ہے ۔بیٹی کا رشتہ ماں باپ سے اس قدر استوار ہوتاہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی ۔بیٹی سے والدین جس قدر محبت کرتے ہیں اس کا عشرعشیر بھی بیٹوں کو میسر نہیں ہوتا۔بیٹی جب ان کے گھر سے رخصت ہوتی ہے تو والدین کا جگر ٹکڑے ہوجاتاہے شاید اسی سبب غربت و تنگ دستی کے باوجود کوئی باپ اپنی بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت کرنے میں شرم محسوس کرتا ہے اس کی یہ خواہش و آرزو ہوتی ہے کہ وہ بہتیرے جتن کرکے اور محنت کرکے اپنی بیٹی کے راحت و سکون کی خاطر کچھ اس کو ہدیہ دے(اگرچہ آج کل معاشرے میں جہیز کی لعنت اس قدر فروغ پاچکی ہے کہ جس کے باعث بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کرنے کی تمنادل میں لئے دنیا سے ہی رخصت ہوجاتے ہیں چونکہ ان کے پاس اس ناجائز خواہش کی تکمیل کی کوئی مناسب صورت نہیں ہوتی(اس رسم کے خلاف بھی مذہبی طبقہ کی غیر ذمہ داری باعث تاسف ہے)۔
ٍٍ ایک بزرگ شخصیت(ن۔ذ) جن کی ولادت ہندوستان کے ضلع جالندھر میں ۱۹۲۰ء میں ہوئی اور انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تنگ دستیوں کے باعث اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے میں عاجز تھے اور انہوں نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی ۔انگریز سے آزادی کی تحریک میں پیش پیش رہے اور مسلم لیگ کے جلسوں میں مسلم ریاست کے حصول کی جدوجہد میں برابرشریک ہوتے رہے یہاں تک کے قائد اعظمؒ کے ساتھ بھی ملاقات کا موقع میسر آیا۔اپنا سب کچھ ہندوستان میں چھوڑ کرآزادی کی پہلی ٹرین میں سوار ہوکر پاکستان ہجرت کر آئے ۔ان صاحب نے اپنی محنت و لگن کے سبب ہندستان اور پھرپاکستان میں اعلیٰ شخصیات کے ساتھ کام کیا تھا ۔ان کو مغربی و شرقی ملکوں میں اسفار کے مواقع بھی میسر بھی آئے ۔اور پاکستان کے قرب و جوار کے ملکوں میں قریباً پندرہ سال تک سفارت کاری کے بھی فرائض انجام بھی دئے تھے .۔وہ وزیر اعظم نواز شریف کء مشیر بھی رہے تھے۔ اس دوران میں ان کی زندگی کا اولین مقصد یہی تھا کہ پاکستان اور اسلام کے تحفظ کے لئے شب وروز تگ ودو کرتے تھے ان کی عقابی نظریں ہر فرد ،ہر اخبار ،ہر حکومت،ہر نشریاتی ادارے پر جمی رہتی تھی کہ کوئی پاکستان یا اسلام کے پیٹھ مین چھپکے وارکرنے کی تاک میں تو نہیں بیٹھا ہوا۔اسی امر کا مظہر انہوں نے اپنی ذاتی ڈائری لکھنے کو معمول بنا لیا تھا اور پھر درجن بھر ہزاروں صفحات پر مشتمل کتب تصنیف کیں جن کے مطالعہ سے پاکستان اور اسلام کی محبت پھوٹتی نظر آتی ہے۔ ان کے بچے تعلیم یافتہ ہوکر امریکہ و برطانیہ میں حصول روزگار اور شادی کرکے رہائش پذیر ہوگئے۔مرور وقت کے ساتھ ان کی صحت ڈھلتی گئی اور ضعف غالب آتا گیا اور کمزوری کے سبب گرئے تو ہاتھ سے معذور ہوگئے ۔مگر اس کے باوجود ان کی ایمان و سلامتی کو سلام کرنے کو خود سے دل کرتاہے کہ وہ بیماری و تکلیف کے باوجود صوم و صلاۃ کے پابند رہے اور شب زندہ دار رہے اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بے سہارا کرکے اپنے درپر سجدہ ریز ہونے کا وافر قیمتی وقت عنایت فرمایا ہے میں نے اپنا نماز تہجد سے لے کر رات سونے تک کے معمولات ترتیب دئے ہوئے ہیں ۔تلاوت ،مطالعہ تفسیر ،ذکر اذکار اور نمازوں کی ادائیگی کا وقت مقرر ہے جس کی خلاف ورزی کسی صورت نہیں کرتا۔انہوں نے اپنا گھر ایک بیٹی کے نام کردیا اور اپنی ذاتی گاڑی بھی ایک بیٹی کو گفٹ کردی تھی۔مگر افسوس وہ ہی بیٹیاں ان کی جان کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑگئیں۔یہ حسرت و تمنا کرتی نظر آئیں کہ وہ یہ چاہتی تھی کہ جلد سے جلد یہ دنیا سے رخصت ہوجائیں ۔جس کے لئے مختلف اذیتی حربے استعمال کئے گئے تھے ۔جن میں ان کو کھانے بازار سے خریدنے پر مجبور کیا گیا گھر پر تیار شدہ کھانے میں سے ایک لقمہ بھی نہ ملتاتھا،انہیں معذور و کمزوری و نقاہت کے باوجود اپنے کپڑے خود دھونے ہوتے تھے،انہیں گھر کے ایک کمرہ میں محصور کردیا گیاتھا ،ان کے ساتھ کسی بھی فردبشر کی ملاقات پر پابندی عائد کردی گئی تھی،ان کے ساتھ کلام و سلام تک کی کوئی ممکنہ صورت بھی نہ ملتی تھی وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک گھر میں رہ کر بھی ان کی محبت بھری آواز اور ہمدردی سے محروم تھے،ان سے ملاقات کرنے والوں پر رکیک الزامات عائد کئے گئے اور کچھ کو دھمکا کران سے دور کردیا گیا ،مردوں اور عورتوں کے مابین اپنے والد کی ذات پر ذلیل قسم کے الزامات عائد کئے جاتے تھے۔ان سب حرکتوں اور حیلوں کا سبب یا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ ان کو زچ کیا جائے اور ان کو جیتے جی قبر جیسی تنہائی و تاریکی دنیا ہی میں چکھائی جائے ۔رب کریم ہی جانتا ہے کہ اس بیٹی کے دل میں کیا راز و مقصدتھا کہ جس کے سبب وہ اس قدر گھٹیا اور امتیازی سلوک اپنے مجبور و مقہور اور ضعیف والد کے ساتھ کرتی تھی۔بلآخر گذشتہ برس وہ نیک صفت بزرگ تقریباً۹۴ سال کی عمرپاکراپنی جان جان آفریں کے حوالے کرگئے (انا للہ و انا الیہ راجعون۔اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کا بقعہ نور بنائے ۔آمین)یہ خبر مجھے ٹھیک ایک سال بعد معلوم ہوئی(کیوں کہ میں نے ان سے اپنا رابطہ صرف اس سبب سے منقطع کیا ہواتھا کہ ان کی بیٹی نے مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں تھیں اور میرا چونکہ ان کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہ تھا تب یہ قطع تعلقی لازمی ہوگئی تھی)۔
امر جو بھی ہو اسلام کا نام لینے والے کے لئے کسی طور پر بھی جائز و درست نہیں کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اس قدر ہتک آمیز سلوک کا رویہ اختیار کرے۔قرآن کریم میں بار بار والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دئی گئی ۔نبی کریم ؐ نے بھی والدین کے ساتھ اچھے برتاؤکا حکم دیا یہاں تک کے کافر و شقی والدین کے ساتھ بھی ادب کے ساتھ گفتگو کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے۔مگر افسوس کہ آج یہ دونوں بزرگ دنیا سے تو پردہ فرماچکے ہیں اور وہ قبر کے پر تال میں اتار دئیے گئے ہیں ۔لیکن یہ یاد رہے کہ جنہوں نے اپنے والدین کے ساتھ اس طرح کا بہیمانہ سلوک کا معاملہ روا رکھا تھا وہ دنیا کی زندگی میں اس کا نقصان و ازالہ ضرور بالضرور بھگتیں گے ۔آخرت میں دردناک انجام ان کا مقدر ہے ،جہنم کی آگ ان کی منتظر ہے ۔اور جو لوگ اب بھی اپنے والدین کی نافرمانی کررہے ہیں یا ان کو اولڈ ہاؤس (جو اب پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں قائم ہوچکے ہیں ) میں والدین کو چھوڑ آتے ہیں یا والدین کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں اسباب جو بھی ہوں وہ یاد رکھیں کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ۔ بزرگ والدین کسی طرح اپنی زندگی دکھ سکھ کے ساتھ بسر کرجائیں گے مگر ایسے بیٹے اور بیٹیوں کی دنیا میں زندگی اجیرن و تنگ ہونے کے ساتھ ساتھ قیامت میں اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔یاد رہنا چاہیے دنیا کی زندگی ،مال و دولت کی فراوانی،عیش و عشرت کے لمحات ،حسن و جمال یہ سب کچھ فانی ہے جن کے سبب والدین کو ٹھکرادیا جاتاہے۔
قران و سنت میں متعدد مقامات پر والدین کے ساتھ حسن معاملہ کا حکم دیا گیا ہے۔معاشرے کی اکثریت یا تو واقف ہی نہیں یا پھر غفلت کی نیند سورہے ہیں اور خود کو جہنم کا ایندھن بنانے پر مصر نظر آتے ہیں۔یہاں چند آیات و احادیث کے ترجمے پیش کیے جارہے ہیں۔سورہ بنی اسرائیل میں اللہ نے فرمایا کہ اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو۔اگر ان میں سے ایک یا دونو بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک بھی نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا اور عجزونیاز سے۔سورہ نساء میں اللہ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آؤ۔سورہ لقمان میں فرمایا کہ تو میرا شکراداکرو اور اپنے والدین کا بھی۔احادیث میں وارد ہوا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعدؓ روایت کی حدیث ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے نبی کریمؐ سے پوچھا اے اللہ کے رسول ؐ اللہ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندہے؟آپؐ نے فرمایا کہ نماز کی ادائیگی اپنے وقت پر من نے پوچھا پھر کون سا؟ آپؐ نے فرمایا کہ والدین سے اچھا سلوککرنا،من نے پوچھا پھر کون سا؟آپؐنے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہادکرنا۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا :اس کی ناک غبار الود ہو ،اس کی ناک خاک آلود ہو ،اس کی ناک خاک آلود ہو(یعنی ذلیل و رسوا ہو)کسی نے عرض کیا یا رسول اللہؐ کون ہے؟حضورؐ نے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوکو یا ایک کو پڑھاپے کے وقت پایا پھر (پھر ان کی خدمت کرکے )جنت میں داخل نہ ہوا۔حضور ؐ کا فرمان ہے کہ والدین اولاد کے لئے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی اگر اولاد نے ان کی خدمت کی اور حسن نے سلوک کا معاملہ کیا تو جنت میں داخل ہوں گے اور اگر ان کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آیا یا پھر ان کی نافرمانی کی تو یہ کافی ہے اس کے جہنم جانے کے لئے۔ایک حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالی کی رضا والد کی رضامندی میں ہے اور رب کی ناراضگی بھی والد کی ناراضگی میں ہے۔رب ذوالجلال سے عاجزانہ دعاہے کہ ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار بنائے اور ان کے توسط سے ہمارا ٹھکانا جنت مقرر ہوجائے۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
atiqurrehman001@gmail.com
03135265617

منگل، 21 جولائی، 2015

برائی سے نفرت لیکن۔۔۔۔۔


کسی بھی مذہب و معاشرے میں برائی و بدکاری کو بہتر نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس سے نفرت کی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ لوگ جو خود اس قبیح عمل کی تہہ میں زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں وہ بھی اس کو برا و غلط سمجھنے کے ساتھ ہی ساتھ اس سے نفرتکرتے ہیں اور یہ خواہش بھی ان کے سینوں میں جگہ لیے ہوئے ہوتی ہے کہ وہ اس غلیظ و مغلظ دنیا سے نکلنے کی کوئی سبیل تلاش کرلیں۔کوئی بھی ذی شعور انسان مرد ہو یا عورت ،جوان ہو یا بوڑھا ،اگر اس میں ایمان کی ریت کے ذرہ کے برابر بھی ایمان ہو تو وہ ضرور بالضرور برائی و بدکاری سے نفرت کرے گا اور خود کے اس میں لت پت ہونے پر ندامت تاسف کے آنسو بہائے گا ۔حال ہی میں عبدالکریم آغاشورش کاشمیری (ؒ جو ایک بے باک و بہادر صحافی تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کے ہر گوشہ کو ممکنہ حدتک کھول کر جگ بیتی ضبط تحریر کردی )کی کتاب ’’اُس بازار میں‘‘کے مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا ۔اس کتاب میں آغا شورش مرحوم نے کوئی چھ سو کے قریب خواتین(جو اپنے جسم کو لاہور کے مشہور بازاروں میں فروخت کرتی تھیں) سے ملاقاتوں کے بعد جو ماحاصل مناسب جانا وہ نقش قلم کردیا�آ آغا شورش نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس لعنت میں گرفتار ہونے کے اسباب پر روشنی ڈالی اور مختلف طوائفوں کے انٹرویوقلم بند کیے ۔شورشؒ نے ایک جملہ پر بڑا زور دیا کہ معاشرے کے سبھی مولوی ہوں یا سیاستدان ،عام ہوں یا خاص سبھی کے سبھی طوائفیت کی زندگی بسر کرنے والوں کو حقارت و ذلت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ عورتیں اس حرام پیشہ میں ملوث ہوکر اپنی عاقبت کو خراب کررہی ہیں اور وہ مرتکبین گناہ ہونے کے سبب اپنا ٹھکانہ نار کو بنا چکی ہیں ۔مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ سبھی لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ جو ہورہاہے ،جو کررہاہے وہ معصیت کی لعنت میں گرفتار ہے اور اس کو کوستے نظرآتے ہیں مگر آج تک کسی نے بھی اس کسبی کاروبار میں داخل ہونے کے اسباب کے بارے میں کسی سے استفسار کرنا مناسب نہ سمجھا یا پھر فتوی لگانے سے قبل یہ ضروری نہ جانا کہ کن وجوہات اور کون سے اسباب ان عورتوں یا مردوں یا خنثوں کو اس بدترین حالت میں زندگیبسر کرنے پر مجبور کیا ہے ۔آغا صاحب نے اجمالاً فہرست دی ہے کہ کون کس سبب سے اس دنیا میں آدھمکا ،کسی نے غربت کو سبب بتایا تو کسی نے والدین کی بے رخی ،کسی نے یاروں کی بے ووفائی کو وجہ بیان کیا تو کسی نے خاندانی پیشہ قرار دیا،کوئی بک بکا کر اس بازار میں پہنچی تو کسی کو بے سہاراہونے نے اس بازار تک پہنچا دیا ۔
اس کتاب کو پڑھنے سے یہ واضح طور پر درس ملتا ہے کہ جو لوگ بھی اس جنسی بدکاری و فحاشی کے عمل میں شب و روز بتاتے ہیں وہ لازمی نہیں کہ اپنی خوشی یا رضامندی سے اس عمل کو اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ یہ امر بعید نہیں کہ اگر اس فعل و عمل میں شریک افراد کو ٹٹولا جائے اور ان کے ساتھ نشست و برخاست کی جائے ،اور ان سے اسباب و وجوہات معلوم کرلی جائیں اور پھر ان کا تدارک کردییا جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ لوگ اس لعنت کی دنیا سے ہمیشہ کے لئے باہر نکل آئیں گے بلکہ ہمارے معاشرہ مکمل طور پر فحاشیت و عریانیت اور جنسی فروخت کی دنیا سے پاک ہوجائے گا۔
راقم کے مشاہدہ میں متعددواقعات ایسے ہیں کہ جو معاشرہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں مگر افسوس کہ معاشرے کے سبھی طبقے دم بخوداور بے حس ہیں۔(دوسری قسط میں بعض مشاہداتی واقعات ذکر کروں گا ) اگر میں یوں کہوں کہ معاشرے میں بدکاری و فحاشی کے فروغ میں محرکات بننے والے سبھی طبقے ذمہ دار ہیں تو ہر گز غلط نہیں ہوگا کیوں کہ سیاستدان ،صحافی ،پولیس ،مولوی و صوفی ان کی نگاہوں کے سامنے سب کچھ بین و ظاہر ہے مگر تغافل برتتے ہیں اس عمل کی روک تھام کے انتظام کرنے کے سلسلہ میں۔مثلاً سیاستدان و حکمران ملک میں عادلانہ قانون نافذ کرسکتے ہیں کہ جس سے معاشرے میں موجود تفاوت مٹ سکتی ہے اور ہر فرد بشر کو باعزت روزگار ،گھر،لباس میسر آسکتاہے ۔صحافی ذرائع نشرواشاعت میں فحاشیت و عریانیت کو فروغ دینے کی بجائے ان کے مضمرات و نقائص کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں حیا پاک دامنی کی اہمیت و فوائد کو بیان کرسکتاہے ۔پولیس جو کہ اس عمل کی سرپرستی کرتی ہے اور اپنا حصہ وصول کرکے اس کلنگ کے ناسور کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔مولوی و صوفی صرف گناہ کے بیان اور اس کی سزا کے ذکر کرنے اور اس عمل میں لت پت افراد کو حقیر ذلیل سمجھنے ہی پر اکتفا کرنے کی بجائے وہ ان اسباب و عوام پر غورفکر کریں کہ جس کے باعث معاشرہ میں یہ برائیاں اور بدکاریاں فروغ پاتی ہیں اور پھر اپنا قائدانہ کردار اداکرتے ہوئے مسجد کے منبر و محراب سے ان کے تدارک کو تفصیل کے ساتھ بیان کریں ۔واضح رہے کہ دین اسلام کسی فرد کی ذات تک صرف محدود ہونے والا دین نہیں ہے بلکہ اس کا مقتضی اجتماعی ہے اور اس نے نوع بشر کو ماں کی گود سے قبر کے آغوش تک سبھی امور کی رہنمائی کردے رکھی ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے کہ مولوی فرقہ واریت و مسلکیت اور گداگری و بادشاہوں ،سرداروں اور طاقتور طبقوں کی کاسہ لیسی میں دھت ہے اس کو فرصت ہی نہیں کہ وہ معاشرہ کو جہیز کی لعنت سے آگاہ کرسکے ،اس کو معلوم ہی نہیں کہ گھر میں بیٹھی جوان بیٹی کے مسائل سے آگہی حاصل کرکے اس کے تدارک کی جستجو کو بیان کرسکے ،انہیں وقت نہیں ملتا کہ وہ شادی بیاہ میں سادگی کو بیان کریں کہ نبی کریم ؐ نے اپنی صاحبزادی کا رشتہ کس قدر سادگی سے فرمایا تھا اور پھر حضورؐ کا ہر عمل صرف کہنے کی حدتک نہیں عمل میں لانے کی حدتک بھی اسوہ حسنہ ہے،ان کو پتہ ہی نہیں کہ والدین پر بچوں کی تربیت اور ان کے شادی بیاہ میں عجلت کی اہمیت و ضرورت کیا ہے؟کہ وہ بیان کرکے والدین کو خبردار کرسکیں کہ بچوں کی تربیت میں ذراسی غفلت اور ان کی شادی بیاہ میں غفلت و تعطل کس قدر ان کے لئے عنداللہ وبال جان ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی زندگی میں بھی سوہانِ روح بھی بن سکتاہے۔
راقم شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتاہے کہ معاشرے میں جس قدر بھی خرابیاں اور برائیاں موجود ہیں ان سے صرف مسلمان ہی نہیں (جس کو اسلامی تعلیمات کے سبب معصیت سے روکنے کی تعلیم دی گئی ہے)تمام انسان نفرت کرتے ہیں اور اس ظلمت و تاریک دنیا سے باہر نکلنے کی خواہش دل میں لئے ہوئے ہیں مگر ان تک کوئی سبیل راہ کی راہنمائی کرنے والا نہیں ہے ،ان سیے سبھی لوگ نفرت تو کرتے ہیں مگر یہ لمحہ بھر کے لئے بھی نہیں سوچتے کہ انہوں نے اس زندگی کو کیوں اور کس وجہ اور کن اسباب کے باعث اختیار کرکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس اس لئے کہتا ہوں کہ برائی سے نفرت لیکن۔۔۔۔۔۔۔!یہ پیرایہ ہرفرد بشر کے لئے خالی چھوڑرہاہوں کہ وہ اپنی حسب استطاعت اس کو مکمل کرے۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
atiqurrehman001@gmail.com
03135265617