پیر، 16 فروری، 2015

انفرادی و شخصِی مفادات سے دامن چھڑانے کی ضرورت

عتیق الرحمن
اسلام کے نام پر قام دانش گاہ میں دن بدن بھلتے پھولتے سرطان سے زیادہ خطرناک امراض کو دیکھ کر دل  خون کے آنسو روتاہے ۔فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں ہورہی کہ ان خرابیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اس پر خاموشی سادہ لی جاے یا ان خرافات کے خلاف ایک سلسلہ وار تحریک چلاءی جاءے ۔ایسے میں یہ امر بھی سامنے آتاہے کہ بعض نادان دوست انجانے میں کرپٹ ،بددیانت ،مادیت پرست ،انسانیت ہی کے نہیں بلکہ اسلام کی تعلیمات کے حقیقی دشمن جنہوں نے بظاہر جبے اور قبے پہن رکھے ہیں اور معصوم طلبہ و افراد کے ساتھ معاندانہ و دشمنانہ کھیل کھیل رہے ہیں ان کے تابناک مستقبل کو اندوہناک بنانے میں شب و روز مصروف عمل ہیں مجھے سمجھ میں نہیں آتاکہ یہ لوگ کس منہ سے اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کرتے ہیں جبکہ یہی لوگ بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے کہ یہ عصر جدید کے مرتدین ہیں جو وہ سب کچھ کرتے ہیں جن کے علی اعلان ارتکاب کرنے سے  انسان حدود اسلام سے خارج ہوجاتاہے مگر یہ لوگ بہت شاطر ذہنیت کے مالک ہیں کہ اپنی نسبت تو اسلام سے قاءم رکھتے ہیں مگر ایسے اعمال کا ارتکاب بھی کررہے ہیں جو کفار ومرتدین کا پیشہ و شیوہ ہے۔باعث تعجب امر یہ ہے کہ یہ لوگ بے گناہوں اور معصول لوگوں کا سہارا تلاش کرتے ہیں ان کو نوکری سے فارغ ہونے،امتحانات میں کامیابی سے محرومی،ان کو ادارتی و تنظیمی مساءل میں الجھا کر احساس کھتری و کمتری میں مبتلاکرنا چاہتے ہیں کہ اگر تم لوگ ہمارے مدمقابل آءے یا ہماری خامیوں اور خرابیوں اور جراءم کے پردہ کو فاش کرنے کے مرتکب ہوءے یا ایسا کرنے والوں کے معاون و مددگار بنے تو تمہارا انجام مندرجہ بالاصورتوں میں سے ہی کوءی مقدر ٹہرے گا۔پرافسوس ان مادہ پرستوں اور جعلی و نام نہاد اسلام کے علمبرداروں کو یہ معلوم نہیں عزیمت و طریقت کی دانستانیں ہر دور کے جابر و قاہر کے سامنے کلمہ حق کہنے والے موجود رہے ہیں  جن کو وقت کے جبابرہ نے سعید ابن جبیر کی شکل میں شہید کرایا،امام ابوحنیفہ کا جنازہ جیل سے نکلوایا،امام احمد کی پشت پر کوڑے برسواءے امام شافعی کی گردن پر ہارون الرشید کے زمانے میں تلوار رکھی  گی مگر ان کی ثابت قدمی اور امام محمد کی شہادت دینے پر ان کو چھوڑ دیاگیا۔تاریخ کے سینے میں عزیمت و عظمت اور قربانی و کلمہ حق کو مشکل سے مشکل دور میں بیان کرنے سے باز آنے والوں کی مثالیں رقم ہیں ۔ڈر ہو تو جابر و قاہر کو ،خوف ہو تو کرپٹ و بددیانت کو،حزن و ملال تو ان لوگوں کا مقدر ہے جو حرام مال کھاتے ہیں اور اپنے عہدوں اور منصبوں کا ناجاءز استعمال کرتے ہیں۔میں یہ سمجھتاہوں کہ انفرادی و شخصی فاءدے کی عارضی و فانی مصحلت کی چادر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ملت اسلامیہ کی اجتماعی اور دین حق کی دعوت سے نوجوان نسل کو باخبر رکھنے والی فکر کے حاملین کے دلوں سے خوف و دہشت کو بہر صورت نکال باہر کرنا ہوگا جرات و ہمت کے ساتھ باطل کو باطل کہنا ہوگا اگر ایسا نہ ہوا تو تاقیامت آنے والی مسلم ملت ہمیں معاف نہیں کرے گی اور روزمحشر ہماری جبینیں مارے ندامت کے رب کریم کے حضور جھکی ہوءی ہوں گی۔اب بھی وقت ہے ہمارے پاس کے ہم اپنی خواہشات و مفادات و عارضی دنیوی فاید کی مصلحت کی دنیا سے باہر نکل آءیں اور اسلامی فلاحی  معاشرہ کی تکمیل کے لیے زبان و قلم سے جہاد جاری رکھیں اور دلوں میں جذبہ جہاد کو بیداررکھیں اور اسلام کو عالمی قیادت جو اس کا گمشدہ حق ہے دلوانے کی سعی کریں۔آیندہ کی تحریروں میں اسلام کے نام پر بننے والے بعض اداروں کی موشگاف اور زبان زد عام خامیوں اور خرابیوں کو آشکار کرنے کے لیے قلم کو جنبش دیاجاءے گا اللہ رب العزت سے دعاہے کہ وہ مجھ سمیت تمام مسلم نوجوانوں کو ذاتی و انفرادی مادی و عارضی اور وقتی مفادات سے کنارہ کش ہوکر خالص ملت کے تصور کو مدنظر رکھ کر جدوجہد کرنے کی تو فیق عطافرماءے کیوں کہ ملت کا تصور ہی اصل ہے یہی مطالبہ اسلام کا بھی ہے اور علامہ اقبال نے بھ ی یہی کہا ہے 
فرد قاءم ربط ملت سے ہے تنہاکچھ بحی نہیں
موج ہے دریامیں بیرون دریاکچھ بحی نہیں