منگل، 14 اپریل، 2015

اسلامی یونیورسٹی میں فرقہ واریت کا فروغ

چھٹی و ساتویں صدی عیسوی میں معاشرہ ظلمت و تاریکیوں میں ڈوب چکاتھا ،اس میں ہر طرح و ہر قسم کی بد سے بدتر خرابیاں اور بیماریاں سرطان جیسے موذی و طاقتور مرض سے بھی زیادہ خطرناک حد تک سرایت کرچکی تھیں۔اس معاشرے میں باہمی محبت و مودت نام کو نہ تھی،طاقتورکمزور پر ظلم و جبر کو روا رکھنا اپنا حق سمجھتاتھا،ماتحتوں کے حقوق کو غصب کرنے کو باعث فخر و اعزاز سمجھا جاتاتھا،مادیت و ہوس پرستی کا ایسا دور دورہ تھا کہ انسان کی عزت و عظمت خاک میں مل چکی تھی ،معاشرے کا ہر فرد اپنے حق کو حاصل کرنے کا طالب اور دوسرے کے حقوق سلب کرنا اپنا طرہ امتیاز بنا چکا تھا۔اگر یوں کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت کا معاشرہ حیوانیت و سربریت کی تمام حدود سے آگے بڑھ کر وحشی و درندہ بن چکا تھا ۔ اس معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دینا کسی عام انسان یا مصلح کا کام نہ تھا بلکہ صرف اور صرف تائید الٰہی کے ذریعہ سے ہی ان گہری و راسخ امراض کو معاشرے کے جسم و جان سے نکالا جاسکتاتھا ۔اور یہ ہوکر رہاکہ دین اسلام کی دعوت کے ساتھ نبی مکرمﷺ کا ظہور ہوا اور اپنے نے اس سماج کے تمام امراض و جراثیم کو حکمت و دانائی اور حکم خداوندی کے مطابق بتدریج اساس سے مٹانے میں اہم کردار اداکیا۔آپ ﷺ کی بذریعہ وحی ایسی نصرت کی گئی کہ اس وقت معاشرے میں موجود تمام خرابیوں کو جڑسے مٹادیا گیا اس سے علمی و عملی واقفیت کے لیے کتب سیرت و تاریخ اسلامی کا مطالعہ کرکے تشنگی کو مکمل کیا جاسکتاہے اور اسلام کی روز روشن کی طرح عیاں کامیابی و کامرانی کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے ۔
اس مختصر سی تمہید کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دین اسلام تاقیامت تک انسانیت کی راہنمائی فراہم کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتاہے اور معاشرہ میں جس قدر مضبوط و طاقتور خرابیاں ہی کیوں نہ پیدا ہوجائیں ان کا مقابلہ اسلام کے درست و صحیح مطالعہ اور اس کی درست تفہیم کے ساتھ حل کیا جاسکتاہے۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ۱۱/۹کے بعد سے درجہ بدرجہ تنزلی و پستی کی جانب دن بدن گہرتی چلی جارہی ہے اور اس زوال میں کبھی تو سیکولرزم سبب بنااور کبھی فرقہ واریت ۔دس سال کے ظالمانہ و جابرانہ دور جس میں یونیورسٹی میں براہ راست سیاسی مداخلت کی گئی نے یونیورسٹی کے اساسی اہداف کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی کہ یہ محسوس ہوتاتھا کہ یہ یونیورسٹی اسلامی تعلیمات کے ماہرین تیار کرنے کی بجائے اسلام کو زیر یا کمزور کرنے والے افراد پیدا کرنے کے لیے قائم ہوئی ۔ایسے میں سعودی عرب کی مداخلت سے یہ محسوس ہوچلاتھا کہ وہ یونیورسٹی کو ایسی قیادت فراہم کرے گا کہ جو نا صرف ملک پاکستان اور اسلامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم و وابستہ افراد کی مختلف کرنوں سے واقف ہوگااور وہ اعتدال پسندی کو اپنا طرز عمل بناتے ہوئے تمام طبقوں اور نسلوں اور مکاتب فکر کو ایک ساتھ لے کر چلے گا بلکہ اس کی ترجیح صرف اور صرف دین اسلام کی نشر و اشاعت اور علوم کے میدان کے ذریعہ نوع انسانیت کو بذریعہ اسلام ایک و مخلص قیادت فراہم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیرکرنا ہوگا۔
اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ ہم سعودی عرب کی مداخلت سے خوش ہوئے کیوں کہ ہم یہ محسوس کرتے تھے کہ سعودی عرب کے حکام نے اس گلشن کو نیک تمناؤں اور بڑی جدوجہد اور محنتوں کے ذریعہ سجانے میں پاکستان و مصر و کویت سے کم کردار ادا نہیں کیا اس لیے وہ اس گلشن کو اپنی آنکھوں کے سامنے بکھرتا و ٹوٹتا و ناکام ہوتانہیں دیکھ سکتے ۔مگر جیساکہ کہاوت ہے کہ( انسان جو سوچتاہے ویسا نہیں ہوتا) کچھ اسی طرح کا معاملہ ہمارے قلب و جگر کے ساتھ بھی ہوا وہ تمام نیک امنگیں سرعت کے ساتھ خاک میں ملتی نظر آئیں ۔ ہوا یوں کہ سعودی عرب نے اسلامی یونیورسٹی میں انتظامی مداخلت کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ یہاں پر ایران کے وفود کی آمد ہورہی ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے لوگ ایران کے دورے کررہے ہیں اس سے ان کو یہ محسوس ہواکہ یہ یونیورسٹی جس پر ہم نے اپنے مخصوص مقاصدکو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مال صرف کیاتھا وہ حاصل ہونے کی بجائے اس میں ایران کی مداخلت پھیلتی نظر آتی ہے۔تو سعودیہ عرب نے مداخلت اپنی کے ذریعہ اسلامی یونیورسٹی میں ردعمل کے طور پر انتشار سلفیت و منجمد و پست سوچ کے حامل اور تنگ نظر و تنگ دل اور اسلام کو صرف داڑھی و کپڑوں اور عبادت تک محدود کرنے والے فرقہ کو نوازنے کا فیصلہ کیا ۔کھلی بات ہے کہ سعودیہ کو اسلامی تعلیم یا یونیورسٹی کے اسلامی تشخص سے چنداں کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ صرف ملک پاکستان اور اسلامی یونیورسٹی میں فرقہ واریت کی آگ کو جلانے کے لیے اس عظیم ادارہ کی صدارت شپ حاصل کی ۔جب کہ دوسری جانب ملک پاکستان کی بے حس قیادت چند ٹکوں کے عوض ملک کو ظلمتوں میں دیکھلنے کا سبب بننے والایہ سودا کربیٹھی۔
اسلامی یونیورسٹی میں عقل و فکر سے عاری گروہ اور اسلامی غیرت و حمیت سے بے بہرہ طبقے کو فروغ دینے کے لیے صدر جامعہ نے جہاں یونیورسٹی کے اختیارات کاناجائز استعمال کرتے ہوئے ادارہ تحقیقات اسلامی اور یونیورسٹی کے نشریاتی ادارہ سے اپنی درجن بھر کتب ترجمہ کرواکرشائع کروائیں۔جس کی پاکستانی معاشرہ کو ادنی سے ادنی درجہ میں بھی حاجت نہ تھی اور نہ ہے کیوں کہ پاکستان جو اسلامی ریاست ہے اور اس میں عالم اسلام کے جید علماء موجود ہیں جو معاشرہ کی ہمہ جہت رہنمائی کا فریضہ اداکرنے میں شب و روز مصروف عمل ہیں۔راقم یہ سمجھتاہے کہ صدر جامعہ نے یونیورسٹی کے وسائل کا غلط و ناجائز اور بے مقصد استعمال کیا ہے ۔ان کتب کی اشاعت کا صرف مقصد وحید یہی ہے کہ سعودیہ کا جمود فکری و عملی پاکستان کے لوگوں میں منتقل ہوجائے مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس گلشن کو سجانے والوں نے اپنے خون کا پانی دیا ہے ،ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اسی طریقہ سے اپنی تقرری سے اب تک درجن بھر کانفرنس و سمینارز منعقد کرواچکے ہیں جن کے ذریعہ اسلام یا علم کی خدمت کی بجائے وسائل کا بے دردی کے ساتھ استعمال اور فوٹو سیشن کے ذریعہ ہوس پرستی کی تکمیل اور اپنی مخصوص فکر کی تبلیغ کا کام لیا گیا اس پر بھی آئندہ تفصیلاً کبھی بات ہوگی۔اسلامی یونیورسٹی کو علمی و فکری انحطاط میں مبتلا کرنے کے لیے ایک مخصوص فرقہ کے درجن سے زائد اساتذہ کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے جس کے سبب اصول الدین فیکلٹی علمی و فکری انحطاط سے برسرپیکارہے۔جب کہ یہ وہ کلیہ ہے جو نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو اسلامی تعلیمات کی درست و مبنی بر اعتدال فکر کے حامل قیادت فراہم کرنے کا فریضہ انجام دیتی رہی ہے۔اس کلیہ کا طرہ امتیاز اور معتدل افکار کو فروغ دینے اور باہمی اسلامی روداری و ہمدوردی اور اخوت کا جذبہ پیدا کرنے میں اسی فیصد صلاحیتیں صرف کرنے والے عرب اساتذہ تھے جن کے راستے میں ایک سال سے صدر جامعہ کی نااہلی و غفلت یا پھر بغض عداوت ان کے تقرر میں روکاوٹ کا سبب بنے ہوئے ہے۔صدر جامعہ نے اس گلشن کو پارہ پارہ کرنے کے لیے یونیورسٹی کے اہم عہدوں کو اپنی شہرت و جاہ طلبی کی حرص و ہوس کے لیے درجن سے زائد عہدوں میں سے بعض پر آمرانہ و جابرانہ قبضہ کررکھا ہے اور بعض پر عارضی تقرریاں کررکھی ہیں ان ہر دوصورتوں کا مقصد وحید یہی ہے کہ اس ادارہ کو مستقل اور خودمختار اور مصلح قیادت فراہم نہ کی جائے بلکہ اللے تللوں کو نواز کر اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کو یقینی بنایاجائے۔اس سلسلہ میں آیندہ تفصیل کے ساتھ بات کروں گا۔صدر جامعہ نے اپنے ساتھ فوج ظفر موج جو متعین کی ہوئی ہے اس میں غالب اکثریت صرف ایک مخصوص فرقہ کو حاصل ہے اور صدر جامعہ انہی کے حکم کے پابند اور عامل ہیں ۔اس میں اگرچہ کچھ دیگر افراد کو شامل کیا گیا ہے مگر وہ بھی ضمیر فروش اور عملاً اسلام و علم دشمن ہیں بلکہ ان کا مقصد صرف عہدے و منصب ہیں۔
اس پھیلتی پھولتی فرقہ وارانہ آگ کوگذشتہ چند عرصہ سے مزید دہکایا جارہاہے جس کے ذریعہ بریلوی مکتب فکر کے حامل طلبہ کی نمازجمعہ علیحدہ ادا کرنے کو روکنے کے لیے مسجد علی المرتضیٰؓ کو سیل کردیا گیا اور اس کے نتیجہ میں عدالت و میڈیا تک بات پہنچنے اور طلبہ کے احتجاج کے نتیجہ میں بعض طلبہ کو یونیورسٹی سے بے دخل کیا گیا جس کے ری ایکشن میں طلبہ نے سیل شدہ مسجد کے گیٹ کو توڑ کراس میں گذشتہ جمعہ نماز اداکی تو اس پر پولیس طلب کی گئی اور اس دوران بعض طلبہ کو پولیس سے چھوڑانے کے لیے انتظامیہ کے ساتھ معمولی چھڑپ بھی ہوئی ۔اس کے نتیجہ میں طلبہ نے سخت احتجاج کیا اور انتظامیہ نے آئندہ جمعہ سے پہلے مسئلہ کو حل کرنے کا وعدہ کیا ۔یہ قضیہ اگرچہ قابل بحث و فحص ہے مگر یہاں فی الوقت اختصار کے ساتھ اتنا کہا جاتاہے کہ صدر جامعہ اگر واقعتاً اسلامی یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کوتحفظ کو یقنی بنانا چاہتے ہیں تو چاردیواری سے باہر نکل کر طلبہ و اساتذہ کے مابین حاضر ہوکر ان کے مسائل جاننے کی کوشش کریں اور من پسند اور جاہ ومنصب افراد سے گلو خلاصی حاصل کریں ۔اپنی تعریف سننے کی بجائے اپنے طرز عمل پر ہونے والی تنقید کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کریں اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا بذات خود جائزہ لیں قبل اس کے کہ طلبہ و پاکستانی معاشرہ ان کا خود محاسبہ کرے ۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com

پیر، 6 اپریل، 2015

اسلامی یونیورسٹی میں طلباکی تذلیل و تحقیر

معاشرے کی ترقی کے پیچھے نسل نو کا اہم کردار پنہاں ہوتاہے ۔نوجوان نسل کی درست نہج پر تعلیم و تربیت ضروری ہوتی ہے ۔اس فریضہ میں معمولی سی کوتاہی و کاہلی صدیوں تک تاریک و بد نتائج کا اثر چھوڑجاتی ہے۔طلبہ ایک ایسی نازک کلی کی مانند ہوتے ہیں جسے ذرا سی بے احتیاطی ہونے سے ضائع ہوجاناامر واقع ہے۔اس لیے ان کو سنبھال سنبھال کر اور احتیاط کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کرنا ازحد ضروری ہوجاتاہے اس میں نہ تو شدت و سختی کے اختیار کرنے کی حاجت ہوتی ہے کہ اگر اس کو آزادی میسر آجائے تو اس میں جرائم کو قبول کرنے کی رغبت تیزی کے ساتھ پیدا ہوجائے یا پھر وہ ڈر و خوف کے سبب اپنے اندر موجود عطیہ الٰہی کی پوشیدہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے احتراز کرے۔اسی طرح طلبہ کو شطر بے مہار کی طرح، مادر پدر کی آزادی مہیا کرنا بھی کسی صورت مناسب و درست نہیں بلکہ مضر و نقصان دہ ہے۔یہ افراط و تفریط کے معاملے کا برتاؤ ہم اپنے معاشرہ میں ملاحظہ کرتے رہتے ہیں ۔لازمی بات ہے کہ والدین ،اساتذہ اور تعلیمی ادارے نوجوان نسل کی تعلیم وتربیت میں اعتدال کے اصول پر گامزن ہوں۔
میں اپنی گذشتہ تحریر میں اسلامی یونیورسٹی میں پنپنے اور دن بدن پھیلتی خرابیوں اور بے اعتدالیوں کی نشاندہی کی تھی اور ساتھ میں یہ بھی درج کیا تھا کہ میں آئندہ ان امراض میں سے ایک ایک پر مستقل الگ مضمون میں بات کروں گا ۔اس سلسلہ میں پہلے اور سب سے اہم مسئلہ پر آج کی نشست میں بات کرنی ہے۔تعلیمی ادارہ چونکہ نوجوان نسل کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار اداکرتے ہیں اور یہ نوجوان اپنی باقیہ زندگی میں اس مرحلہ میں گذرے ہوئے لمحات و تجربات سے استفادہ کرتارہتاہے۔اگراس مرحلہ تعلیمی میں اس کو اچھے اساتذہ ،اچھے دوست ،بااخلاق و حسن معاملہ سے پیش آنے والے احباب میسر آجائیں تو اس کی بقیہ زندگی روشن و تابناک ہوتی ہے ۔اگر اس مرحلہ میں بداخلاق اساتذہ،کرپٹ و بددیانت افراد اوربرے دوست مل جائیں تو یقیناًناصرف اس نوجوان کی زندگی تاریک ہوجاتی ہے بلکہ وہ معاشرے میں خرابیوں،بیماریوں اور فساد فی الرض کوفروغ دینے کا موجب بن جاتاہے ۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ایک ایسامنفرد و مایہ ناز تعلیمی ادارہ ہے کہ جس کے نام سے ہی اس کی اہمیت و افادیت اور اس کے منہج و مقصد کی وضاحت ہو جاتی ہے۔اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ جب انسانی معاشرہ اپنی فطرتی اساس و پاکیزگی سے روگردانی اختیار کرلیاور اس میں اللہ کا ڈر و خوف جاتا رہے تو اس کی بری حرکات و جرائم کشش و اثر سے کوئی بھی معاشرے کا فرد اور ادارہ محفوظ نہیں رہ سکتا۔البتہ اس بات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتاہے کہ ان خرابیوں و بیماریوں کو دور کرنے کا فریضہ معاشرہ کے اہل علم و عمل اور اہل حل و عقد پر لازم ہوجاتاہے ۔ایسے میں وہ ادارہ جو خالص اسلامی نظریہ پر قائم ہواہو تو اس پ رپہلے مرحلہ میں ضروری ہوجاتاہے کہ وہ انسانی معاشرے میں نیکی کے فروغ اور اس کو رواج دینے میں اپنا قائدانہ کردار اداکرے۔مگر ماتم کیا جائے اس امر پر یا کیا کہا جائے کہ اگر وہی ادارہ بجائے اس کے کہ اس برے معاشرے کو درست کرنے کی بجائے بذات خود اس میں اضافہ کرنے کے جرم میں شریک ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اختصار شدید کے ساتھ یہاں وہ امراض ذکر کرتاہوں جن کا سامنا اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ کو مسلسل کرنا پڑرہاہے اور جس کے سبب اس معاشرہ سے قائد و رہبر تیار ہونے کی بجائے مادہ پرست اور ہوس پرست افراد تیار ہورہے ہیں اور وہی نوجوان معاشرہ کو مزید گندگی کا ڈھیر بنانے میں اپنا برابر حصہ لے رہے ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ کو جو مسائل درپیش ہیں اور جس طریقہ سے ان کی تذلیل و تحقیر کی جاتی ہے اس کو تفصیل کے ساتھ الگ الگ ذکر کرنا مشکل ہے مختصر اتنا کہا جاسکتاہے کہ صدر جامعہ سے لے کر نائب قاصد تک کے تمام انتظامی و تعلیمی مناصب پر فائز احباب طلبہ کی تذلیل و تحقیر کرنا اپنا فریضہ یا اپنے منصب کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔صدر جامعہ نے طلبہ اور اپنے مابین شیش محل تعمیر کرکے دوریاں ہی پیدا نہیں کی ہوئی بلکہ جس راستہ میں یا جس مقام پر صدر جامعہ نے بیٹھنا ہو یا گذرنا ہووہاں سے طلبا کو گذرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی ۔صدر جامعہ اور طلبا کے راستے جدادجدا ہیں جیسے یہ ایک دوسرے کے حریف ہوں۔صدر جامعہ سے ملاقات کرنا اور اپنے مسائل و ضروریات سے آگاہ کرنے کا وقت لینا تو محال ہے ہی۔عجب بات ہے کہ ایک ادارے میں بسنے والے افراد ایک خاندان کی مثل ہیں ان کے مابین کسی طرح کا بھی حجاب ناممکن ہوتاہے مگر یہ معاملہ اسلامی یونیورسٹی میں آپس کی محبت کی بجائے مومن کے مابین نفرت کا مظہر پیش کرتاہے۔ امتحان سیکشن و فنانس سیکشن میں موجود بڑے و چھوٹے سبھی طلبہ سے بداخلاقی و بدتہذیبی،استہزاء کا رویہ اختیار کرنا اور طلبہ کو نظر حقارت سے دیکھنااپنا فرض منصبی گردانتے ہیں جبکہ خود اپنی یہ حالت ہوتی ہے کہ دفتری اوقات میں فیس بک کا استعمال ،اخبارات کا مطالعہ ،اور میٹنگ و کھانے کے نام پر طلبہ کو گھنٹوں انتظار میں ذلیل کرتے ہیں اور جب اپنی کرسی پر پہنچ جائیں تو سب و شتم اور طلبہ پر الزامات کی بھرمار کردیتے ہیں۔جب کہ ان بندگانِ خدا کو اتنا بھی لحاظ و خیال نہیں ہوتاکہ اگر طلبہ اس ادارے میں موجود ہیں توہی ان کویہ رزق بھی مل رہاہے۔اساتذہ کی صورت حال کا تو حال ہی نہ پوچھا جائے کہ یا تو وہ مضبوط سفارش پر وزیٹنگ مقرر ہوتے ہیں اور ایسے میں من پسند طلبہ یا سفارشی طلبہ کو نوازناوہ اپنا فرض منصبی جانتے ہیں جبکہ تعلیم و تربیت فراہم کرنے کی بجائے طلبہ کے ساتھ لہو لعب قسم کا مذاق کرکے ان کا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں یا پھر ان کو خبریں پڑھاتے ہیں یا طلبہ کو رٹا سسٹم سے متعارف کرواتے ہیں کہ جو ہم نے آپ کو نوٹس و لیکچر دیا من و عن اسی میں سے اور اسی طرح امتحان آئے گا اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی چنداں حاجت نہیں اور غیر تخلیقی اسائمنٹس دیکر طلبہ کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرتے ہیں۔
دوسری جانب مستقل اساتذہ کی تو چاندنی ہے کیوں کہ ان پر تو کوئی دست سوال کرنے کی ہمت نہیں کرسکتاوہ چاہیں تو لڑکوں کو پاس کریں ،وہ چاہیں تو لڑکوں کو فیل کریں ،وہ چاہیں تو کلاسز لیں وہ چاہیں تو کلاسز نہ لیں ،وہ چاہیں تو امتحانات کے پیپر طلبہ سے چیک کروائیں ،وہ چاہیں تو یکمشت باصلاحیت طلبہ کو زیر کردیں اور چاہیں تو نکمے و نکٹھو اور وقت پاس کرنے والے کو اقبال پر پہنچائیں۔اور میٹنگ و معمولی مصروفیات کا بہانہ تو معمول ہے ہی۔واضح رہے جو خرابیاں وزیٹر اساتذہ کی درج کی گئی ہیں ان میں سے متعدد من و عن بلکہ اس سے زیادہ مستقل اساتذہ میں بھی موجود ہوتی ہیں۔یہاں ایک اہم بات کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ ہمارے یہاں اساتذہ ایسے بھی ہیں جو چند ہزار کی خاطر خیانت علمی کا ارتکاب سے گریز نہیں کرتے۔لیکن ان معزز و مکرم حضرات کو نہ تو اخلاقیات کا پاس ہے اور نہ ہی روز محشر خوف کہ وہ لوگ جو مال یونیورسٹی سے طلبہ کو تعلیم دینے کے نام پر حاصل کررہے ہیں وہ اس صورت میں سوفیصد حرام ہے اگر وہ اپنے فرض میں ذرابھر بھی کوتاہی کررہے ہیں۔ مزید کچھ خامیوں کا ذکر’’ اسلامی یونیورسٹی میں تربیتی شعبہ کی کمزوری ‘‘سے متعلق مضمون میں درج کی جائیں گی۔
مرکزی و فیکلٹی کی لائبریریز کی صورتحال بھی مخدوش ہے اس میں مامور افراد چائے پینے ،ٹیلی فون پر طویل گپ شپ سے فارغ ہی نہیں ہوتے کہ وہ لائبریری میں موجود کتب اور مقالوں کو بالترتیب رکھ سکیں۔ایک کتاب بھی تلاش کرنے کے لیے طلبہ گھنٹوں ذلیل ہوتے ہیں۔یہاں ایک اور امر کی طرف اشارہ دینا بھی ضروری سمجھتاہوں کہ یونیورسٹی میں جو کام ایک یا دوفرد باآسانی سرانجام دے سکتے ہیں اس کی جگہ ڈبل ڈبل افراد تعینات ہیں اور کام کے وقت کوئی ایک بھی یا تیار نہیں ہوتایا میرے دائرے کا کام نہیں کا بہانہ بناکرکام چوری کرتے ہیں اور ظلم پر ظلم تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کے متعدد ملازمین دفتری اوقات میں اپنا پرائیویٹ کام کرتے نظر آتے ہیں یا پھر کرکٹ میچ،فیس بک ،یا گیمز کھیلنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
تعلیمی بلاکس ،ہاسٹل کی کمی اور جامع مسجد کی عدم تعمیر کے پارے میں متعدد بار راقم بھی لکھ چکا ہے اور یونیورسٹی میں طلبہ بھی احتجاج و مظاہرے کے ذریعہ مطالبہ کرچکے ہیں مگر کیا کیا جائے کہ جب کسی انسان کو اللہ رب العزت کی قادر و قہار ذات کا خوف نہ ہو تو ایک اخبار میں چھپنے والے کالم یا طلبہ کے احتجاج سے کوئی فرق نہیں پڑتاکیوں کہ ان کے دلوں اور ضمیروں پر تالے پڑچکے ہیں وہ نہیں کھل سکتے تاوقتیکہ کوئی غیبی معجزہ ظاہر نہ ہویا رب کریم کی جانب سے عقاب الیم نازل ہوجائے تو ہی بہتری آسکتی ہے۔تعلیمی بلاکس کی مستقل ضرورت ہے کیوں کہ کلاس روم کی عدم دستیابی کے باعث اساتذہ کلاسز اپنے دفتروں یا پھر مسجدمیں لینے پر مجبور ہیں اور یونیورسٹی میں موجود ۹ فیکلٹیوں کے ۴۰ کے قریب شعبہ جات کی مستقل لائبریاں عدم دستیاب یا ناکافی ہیں جن کی اشد حاجت ہے کہ ہرشعبہ کی اپنی لائبریری ہونی چاہیے اور اس میں اس شعبہ سے متعلق بہتر تنظیم کے ساتھ کتب موجود ہوں۔ ہاسٹل کا مسئلہ تو ایک مستقل مسئلہ ہے ہی کہ داخلے دینے میں تو کوئی دیر نہیں کی جاتی چونکہ اس کے ذریعہ سے بھاری بھر کم فیسوں کی مد میں مال و دولت جمع ہوتی ہے جس سے انتظامیہ کو جائز و ناجائز تصرف کا کھولا موقع میسر آجاتاہے۔جبکہ طلبا کو ہاسٹل کی سہولت فراہم کرنے میں ہمیشہ مترددرہتے ہیں اور دوسری جانب ظلم یہ ہے کہ سیاسی و غیرسیاسی ذرائع سے سفارش،طلبہ تنظیمو ں کے اثر و رسوخ سے سیٹوں کی دستیابی و منتقلی آسان ہوجاتی ہے۔بڑے افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ یونیورسٹی کے ہاسٹلز سیٹوں کی فروخت ذریعہ معاش و تجارت بن چکا ہے اور اگر یہ اس حد تک محدود رہے کہ اس سے یونیورسٹی کے طلبہ مستفید ہوسکیں تو عجب نہیں مگر یہاں تو خارجی عناصر زیادہ مستفید ہوتے نظر آتے رہتے ہیں۔کھلی بات ہے کہ جو طالب علم اپنی سیٹ فروخت کررہاہے اس کو اس کی حاجت ہی نہیں ہے اور وہ مستحق طلبہ کے حقوق کو غصب کیے ہوئے ہے ایسے عناصر سے گلو خلاصی کے لیے عملی اقدام کی ضرورت ہے۔بس اس سلسلہ میں بعض طلبہ گروپس اور طاقتور انتظامیہ کے لوگ روکاوٹ بنے نظر آتے ہیں ۔ہاسٹل پروسٹ کا عہدہ اعزازی طور پر دیاجاتاہے ،بلکہ صرف یہ عہدہ نہیں بلکہ متعدد مناصب پر فائز اصحاب اقتدار عناصر اعزازی ہیں اس میں دو امر ہیں اول یا تو یہ کٹھ پتلی و کمزور اور کرسی کے خواہشمند ہیں اور صدر جامعہ اور دیگر کے مظالم پر ناصرف خاموش رہتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ برابر کے شریک بھی ہیںیا پھر واقعتاً مخلص مگر کام تو کرنا چاہتے ہیں مگر ان کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ وہ کچھ بہتر کرنے سے عاجز ہیں تو ایسے افراد کے نام یہی پیغام ہے کہ اقبال کے پیغام کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیں :
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
معزز و مکرم حضرات ایسے عہدے و منصب سے ہزار بار توبہ کریں اور پناہ طلب کریں جو ان کو حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کی ہمت و جرأت چھین لے۔یہ اعزازی احباب کلاسز بھی لیتے ہیں اور دوسرے عہدوں پر بھی فرائض انجام دیتے ہیں ایسے میں نہ تو وہ طلبہ کو دیانت داری کے ساتھ صحیح تعلیم دے سکتے ہیں اور نہ ہی وہ ان انتظامی عہدوں پر کماحقہ اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں ۔جبکہ طلبہ کا زیادہ تر وقت ان انتظامی عہدے دائروں کے گرد گھومنے اور ان کے دفتروں کے طواف کرنے میں گذرجاتاہے۔اسی سبب سے کوئی اچھا اور باصلاحیت قائد و رہبر یہ ادارہ پیدا نہیں کرسکا۔
مسائل تو اور بھی بہت ہیں اور قابل گرفت و ذکر بھی ہیں مگرآج کی تحریر کو اس وضاحت کے ساتھ اختتام تک پہنچاتاہوں کہ مندرجہ بالا جن خرابیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے اس میں کلام کو عام بیان کیا گیا ہے (جس سے یقیناً بعض شخصیات مخاطب ہیں،یہ حکم عام نہیں ہے)اس کی وجہ سوا اس کے نہیں ہے کہ راقم کسی شخصیت یا اشخاص کو محدد کرنے کو درست نہیں سمجھتا۔البتہ عام پیغام فکردیتاہے کہ ہمارے محترم تمام احباب جس قدر جس بھی خرابی میں مبتلا ہیں وہ اس کو ترک کردیں ،طلبہ کو اپنے بچوں کے مقام پر رکھیں ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اچھی تربیت کا نیک نیتی کے ساتھ اہتمام کریں اور اس کا اجر ان کو طلبہ نہیں دے سکتے بلکہ رب ذوالجلال یوم حساب کو عنایت فرمائیں گے ۔اور اگر انہوں نے اپنے فرائض میں پہلو تہی کا سلسلہ روا رکھا تو ان کو مختلف شکلوں میں دنیا میں بھی ذلت آمیز مناظر کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور یوم آخرت تو اللہ کریم جو عادل ذات ہے اور انسانیت کے حقوق کو غصب کرنے والوں کی ضرور گرفت کرے گا۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com

جمعہ، 3 اپریل، 2015

اسلامی یونیورسٹی کے صدر کے نام کھلا خط

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد اسی کی دہائی میں رکھی گئی اور اس کے قیام کی ضرورت و اہمیت اس وقت کے عالم اسلام کے دردمند اور دین اسلام کو تاقیامت تک رہنمائی و قیادت کا اصلی حقدار سمجھتے تھے اسی لیے انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمیں عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں عالمی معیار کے حامل علوم شرعیہ و علوم کونیہ کا مشترکہ حسین گلدستے کی شکل میں تعلیمی اداروں کا وجود عمل میں لایا جائے ۔اس سبب میں صرف ایک ہی پہلومدنظر تھا کہ مسلمانوں پر انگریزکے استعمار کے سبب پیداہوجانے والے جمود کو توڑ دیا جائے کیوں کہ مسلمانوں نے ایک طرف جدید علوم سے اپنے چہرے پھیر لیے اور دوسری طرف یہ فکرتھی مسلمان صرف اس قدر تعلیم حاصل کرے کہ وہ مغرب کلرک یا ان کے استعمال و منفعت کا ایک آلہ بن جائے ۔مسلم رہنماء اس امر کو ہرجہت سے اسلام و مسلمانوں کے لیے مضر و نقصان دہ سمجھتے تھے۔ان قائدین کا مطالعہ قوی تھا اور رب العزت نے ان کو ایمانی حمیت کی دولت سے نوازا تھا۔
ان دینی تعلیمی اداروں کا مقصد اصلی یہی تھا کہ عالم اسلام کی نوجون ملت میں مستقبل کی سرد جنگ کے مقابلے کی طاقت و صلاحیت پیداکی جاسکے ۔اس امر میں شک نہیں کہ اس وقت دینی تعلیمی ادارے مدارس کی شکل میں موجود تھے اور علوم کونیہ کی تعلیم دینے والے ادارے بھی موجود تھے ایسے میں ایک نئے ادارے کے قیام کی چنداں ضرورت نہ تھی مگر چونکہ وہ مسلم رہبر یہ احساس رکھتے تھے کہ مروجہ دونوں طرح کے تعلیمی ادارے افراط و تفریط کے عمل سے دوچار ہوچکے ہیں اور وہ عالم اسلام اور مسلمانوں کی کسی طور پر بھی عہد جدید کی مشکلات میں کوئی قابل فخر خدمت کرسکیں۔اسلامی یونیورسٹی کے قیام کے مقاصد میں سے اساسی مقصد یہ تھا کہ یہاں ایسے نوجوان تیار کیے جائیں جو تعلیم کے ساتھ تربیت کے مرحلے سے بھی گذریں،طلبہ جہاں علوم کونیہ و فنون میں مہارت رکھتے ہوں وہیں پر شریعت اسلامیہ سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہوں،نئی نسل ذاتی مفاد پرستی کی دنیا سے نکل کر اجتماعی و ملی مفادات کا تحفظ کریں،جوانان ملت مادیت پرستی کی دنیا سے نکل کر اسلام کے پیغام کو پوری دنیا میں سربلند کرنے کے لیے جرأت و جواں مردگی کا اظہار کریں۔ان امور سے خلوص نیت کا انداز اس امر سے کیا جاسکتاہے کہ اس ادارے میں آنے والے طلبہ سے فیسیں بٹورنے یا ان کو انتظامی ذلتوں میں الجھانے کی بجائے ان کی ہر ممکن طور پرمالی اعانت کی جاتی تھی تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنی تعلیم و تربیت کے اس مرحلہ کو مکمل کریں۔
مرورزمانہ کے ساتھ جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں میں مسلمان زوال پذیری کا شکار ہوئے وہیں پر اسلامی یونیورسٹی بھی اس آگ کا ایندھن بن گئی ۔اس یونیورسٹی میں مادیت پرست اور ہوس پرست افراد کی اکثریت قابض ہوگئے اور اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوئے اور جلتی پر تیل کا کام ستمبر ۲۰۱۱ کے واقعہ کے بعد حکومت کی مداخلت اور یونیورسٹی میں سیاسی و مذہبی تنظیموں کی سرکش سرگرمیوں نے اس عظیم ادارے کو اپنے اساسی مقاصد سے دور کردیا ۔اب یہ ادارہ علم ومعرفت کی شمع روشن کرنے کی بجائے مختلف حیلے و بہانوں سے طلبہ سے مختلف مدّات میں مال جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اس تعلیمی دانش گاہ کو مادیت کی دلدل اور اس کوحقیقی اسلامی تعلیم وتربیت فراہم کرنے والے ادارے کی بجائے ایک مروجہ دینی مدرسے یا ایک عام سیکولر یونیورسٹی کی حیثیت دلوانے میں کوششیں نمایاں نظر آتی ہیں۔اس یونیورسٹی کے نام نہاد اسلام پسند افراد بھی شریک جرم ہیں کیوں کہ وہ لوگ عہدوں اور منصبوں کی لالچ میں اس یونیورسٹی میں پیداہونے والی آئے روزکی خرابیوں سے مسلسل چشم پوشی ہی نہیں کرتے بلکہ ان مجرموں کا دفاع بھی کرتے نظر آتے بھی رہے اور ابھی تک ان ظالموں اور غاصبوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔یہ امر باعث تشویشناک ہے کہ وہ لوگ جو دین اسلام اور قرآن و سنت کا شب و روز چلتے پھرتے ورد کرتے ہیں وہی ہی اسلام کی تعلیمات کی صریح مخالفت یا ان کے مرتکبین کے ہمنوالہ و ہم پیالہ بن جائے تو دل خون کے آنسو روتاہے۔
کچھ امید ہوچلی تھی کی سحر کی نوید لیے سعودیہ عرب سے اس عظیم دانش گاہ میں بحیثیت صدر آپ جناب (ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش )کی صورت میں اسلامی علوم سے گہری واقفیت رکھنے والی مخلص قیادت ضرور بالضرور ماضی کے مظالم کی تلافی کریں گے۔جن احباب نے جانے یا انجانے میں اس یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو مجروح کیا ان سے گلو خلاصی حاصل کرکے اس یونیورسٹی کو ایک مثالی جامعہ بنانے کی کوشش کریں گے اور ماضی کی تمام خامیوں کو بتدریج دور کرنے کی سعی کریں گے ۔اصول الدین ،شریعہ اینڈلاء اور عربی فیکلٹیز کے مناھج تعلیم و نظام تربیت کو درست شکل میں تبدیل کرواکر اس یونیورسٹی میں دیگر فیکلٹیوں جن میں علوم کونیہ کی تعلیم دی جاتی ہے کو اسلامی تعلیمات سے مطابقت قول و عمل کے ذریعہ سے دلوانے کی کوشش کریں گے اور تعلیم کی بہتری کے ساتھ ہی اخلاق و تربیت کا بھی خاطر خواہ انتظام کریں گے چونکہ اسلام نے صرف تعلیم کی بات کہیں نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ ہی تربیت و تزکیہ کی جانب بھی متوجہ کیا ۔اسلام صرف خالی خولی فلسفوں یا باتوں کے ہیرپھیر کی تعلیم نہیں دیتابلکہ اسلام عمل کی دعوت و ترغیب دیتاہے۔
مگر افسوس ک ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آپ نے ماضی کی تمام ترخامیوں کو ناصرف برداشت کیا بلکہ آپ کے دور اقتدار میں نئے جرائم کو پنپنے کے مواقع بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔جن میں بنا کسی تفصیل کے صرف اجمالاً عرض کردینا کافی سمجھتاہوں۔ماضی کے کرپٹ اور بدنامِ زمانہ افراد کو اعلیٰ عہدوں پر بدستور برقرارکھا ہواہے،اساتذہ و طلبہ کی تذلیل کا سلسلہ بدستور ناصرف جاری ہے بلکہ آپ نے اس میں اضافہ کیا ہے خود کو شاہی محل میں مقید کیا اور خطیر رقم کی مالیت کی گاڑی اور سیکیورٹی رسک کے نام پر محافظین کی جماعت بھی بنا رکھی ہے اگر کوئی استاذ یا طالب علم آپ سے ملنا چاہے تو اسے مختلف مراحل سے گذارنے کے علاوہ، ہفتوں چکرلگانے پڑتے ہیں ۔ملک پاکستان بالعموم اور اسلامی یونیورسٹی بالخصوص کسی بھی عصبیت کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جبکہ آپ کے دوسال سے زائد عرصہ کے طرز عمل سے یہ ثابت ہورہاہے کہ آپ کسی خاص مسلک کو طاقتور بنانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔یونیورسٹی کے اہم ترین عہدوں پر کمزور و کٹھ پتلی افراد کواپنے نائبین یا عارضی طور پر اعزازی تعیناتیاں کی ہوئی ہیں جن میں اصول الدین ،شریعہ ،منیجمنٹ سائینسز،انجینرنگ،دعوۃ اکیڈمی ،شریعہ اکیڈمی و ادارہ تحقیقات اسلامی وغیرہ کے اہم عہدے شامل ہیں ۔ ان عہدوں پر مستقل باصلاحیت افراد کی تعیناتی سے آپ کیوں خوفزدہ ہیں اس کا جواب آپ ہی دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔!۔یونیورسٹی کی تربیتی و ثقافتی کمیٹی کی سربراہی سمیت اور اہم امور کی ذمہ داریاں ایک فرد واحد کو سپرد کررکھی ہیں اگر یوں کہا جائے کہ وہ شخصیت یونیورسٹی کے سیاہ و سفید کی مالک بن چکی ہے تو چنداں غلط نہ ہوگا۔آپ نے عمرہ جیسی عبادت پر من پسند افراد کو ناصرف بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا بلکہ طلبہ و اساتذہ اور انتظامیہ کے لوگوں کی زبانیں خریدنے کے لیے استعمال کیا جو کہ باعث ندامت امر ہے۔یونیورسٹی کے آغاز زمانے میں طلبہ کو تعلیمی معاونت رضاکارانہ طور پر دیجاتی تھی مگر اس مسئلہ کو آپ نے گداگری اور طلبہ کی تحقیر کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔عرب اساتذہ کے راستوں میں روکاوٹ ڈال کرمن پسند ایک خاص فکر کے حامل اساتذہ کو یونیورسٹی میں لایاگیا۔باصلاحیت و مخلص اور وہ اساتذہ جو کسی بھی لمحہ رب کریم کے علاوہ کسی انسان کی غلامی برداشت کرنے کو تیار نہیں ان کو یونیورسٹی سے نکالنے کے لیے مختلف حیلے بہانے کا سلسلہ جاری رکھاہواہے جو آپ کی علم دشمنی اور سرکشی کا منہ بولتاثبوت ہے۔کیا ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کا شاہی محل،آپ کا پروٹوکول موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں، آپ کی گاڑی کی قیمت،آپ کے من پسند افراد پر شاہ خرچیوں کے لیے تو پیسہ میسر ہیں مگر اساتذہ و طلبہ صرف اور صرف علم دین سیکھنے اور سکھلانے کو فریضہ جانتے ہیں ان پر پیسہ خرچ کرنے میں بخل یا قسوت قلبی کے شکار کیوں ہوجاتے ہیں؟طلبہ کے لیے ہاسٹل کی سہولت میسر نہیں پھر بھی داخلے برابر جاری ہیں جبکہ طلبہ ہاسٹل کی سیٹ کے حصول میں دربدر پھرتے نظر آتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔تعلیمی بلاک ناکافی ہونے کی وجہ سے اساتذہ وطلبہ کلاسز مسجد اور اپنے دفتروں میں لینے پر مجبور ہیں۔بڑے تعجب کی بات ہے کہ اسلام پر قائم یونیورسٹی میں مسجد کی تعمیر تاحال نہ ہوسکی جو مسلمانوں کی اجتماعیت و وحدت کا مظہر حقیقی ہے۔متعدد کانفرنسوں پر خطیر رقم صرف کرنے کے نتائج سے آگاہ کیا جاسکتاہے یا وہ صرف فوٹوسیشن اور خانہ پری کے لیے منعقد کی گئیں ان کانفرنسوں کے ذریعہ حق کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش سرے سے کی ہی نہیں گئی۔اسلامی یونیورسٹی کے ذیلی اداروں کے پروگرامات و سرگرمیوں پر دیانت دارانہ نظر ڈالی گئی ؟کیا یونیورسٹی میں اساتذہ کے طور طریقے اور طلبہ کی اخلاقی و معاملاتی و دینی تربیت کا کوئی انتظام کیا ؟کیا اساتذہ و انتظامیہ کے اخلاقی معیارکو اس قدر بلند کرنے کی تھوڑی سی بھی سعی کی کہ وہ چند ہزاروں کی خاطر کرپشن و علمی چوری اور اپنے فرائض میں کوتاہی سے احتراز کریں ؟؟ایسے واقعات کی فہرست تو بہت طویل ہے مگر میں اسی پر اکتفاکرتاہوں۔
واضح رہے کہ آپ کے زمانے میں یونیورسٹی میں بہتر امور بھی سرانجام دئے گئے ہیں ،جن میں طلبہ و اساتذہ میں علمی پیش رفت کے باب کو کھولنے کے لیے درجن بھر کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا ،یونیورسٹی کی چاردیواری کی تعمیر کی تکمیل عمل میں لائی گئی اور اسی طرح انجینرنگ بلاک تعمیر کروایاگیا ۔آپ کی علم دوستی کا کچھ اثر مجھ ناچیز پر بھی پڑا ہے کہ میں نے آپ ہی کے اسرار پر عربی زبان لڑکھڑاتے ہوئے بول چال کا آغاز کیا ۔مگر محترم میں دردمندانہ اپیل کرتاہوں کہ خدارا اپنی ذات کی تعریف وتوصیف سننے کی بجائے آپ ایسے افراد کو تیار کریں جو آپ کے ساتھ نیک و مخلص ہوں اور آپ کی خامیوں پر جرأت و بے باکی کے ساتھ اظہار خیال کرسکیں ۔آ پ ان افراد کی جماعت تیارکرنے کی کوشش سہوا بھی نہ کریں جو دنیا میں تو آپ کی تعریف میں زمین و آسمان کے مابین خلاء کو مکمل کردیں پر روز محشر میں آپ کے معاون و مددگار بننے سے معذور ہوجائیں۔
میں اپنی اس مختصر اور بکھری ہوئی تحریر کو جرأ ت و ہمت کے ساتھ پیش کرتاہوں اس میں کوئی غلط بات یاغلط مؤقف میں نے پیش کیا ہے تو میری گرفت کرنے میں آپ حق بجانب ہیں اور اگر میری باتیں درست ہیں اور الفاظ کا چناؤطرز تحریر سخت ہیاس بہانے سے مجھے ڈرانے دھمکانے یا زیرعتاب لانے کاسہارالے کر ان غلطیوں اور مظالم کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں تو ایسا کبھی نہیں ہوسکتاکیوں کہ کبھی بھی حق کے راستے میں ظلم و جور کے راستے پر چل کر دبایانہیں جاسکتا۔ ایک امر کی نشاندہی ضرور کروں گا کہ بعض عناصرکی جانب سے یہ کہا جاتاہے کہ راقم ذاتی منفعت کے حصول یا کسی دوسرے فرد یا گروہ کی ترجمانی کرتاہے تو میں اتناہی کہنا چاہتاہوں کہ یہ معاملہ دنیا میں واضح نہیں ہوسکتامگر وقت ساعت کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتاہوں کہ یہ آواز و صدا میری اپنی ہے البتہ اس میں قوت و طاقت میرے مطالعہ کے سبب ہے ۔باقی زیادہ اپنے منہ میاں مٹھوبننے کی حاجت نہیں معاملہ اللہ کے حضور میں چھوڑتاہوں وہ احکم الحاکمین ہے۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ آپ ان امور میں کوتاہی و غفلت کا اعتراف کریں گے اور روز محشر رب ذوالجلال کے حضور فخر کے ساتھ حاضر ہونے کے لیے مندرجہ بالاتمام خامیوں کا ازالہ کریں گے بلکہ ہماری محدود فکر سے بڑھ کر آپ بہتر نتائج پیش کریں گے۔میں نے یہ تحریر مختصرا پیش کی ہے ہر نکتہ پر تفصیلات کے ساتھ بات اور اٹھائے گئے مسائل سے کس طرح نجات حاصل کی جاسکتی ہے بہت جلد کسی تحریر میں درج کروں گا ان شا اللہ۔ بکھری باتیں تحریر کی ہیں مگر یہ درددل ہے اس کو قبول کریں یا نہ کریں یہ آپ کی مرضی ہم تو تادم زیست یہ صدائے حق بلند کرتے رہیں گے ۔اس شعر پر بات ختم کرتاہوں:۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلاکے سرے عام رکھ دیاہے
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com