ہفتہ، 6 فروری، 2016

شہر اقتدار کی سڑکیں موت کا منظر پیش کرنے لگیں


1 تبصرہ:

  1. عتیق الرحمٰن صاحب ۔ السلام علیکم
    میں جموں کشمیر کے اس حصے میں پیدا ہوا تھا جو 69 سال سے بھارتی تشدد اور بربریت سہہ رہا ہے ۔ میرے دادا صاحب اور پھر والد صاحب وہاں واپس جانے کی آس لئے اس دارِ فانی سے رُخصت ہو گئے اور میں بھی اس تمنا کو لئے بیٹھا ہوں ۔ کشمیر ٹائمز کا نام دیکھ کر جلدی سے کھولا کہ اپنی جائے پیدائش کا کچھ جانوں مگر وہاں وہی صبح شام رگڑی جانے والی کہانی دیکھ کر دھچکا لگا
    محترم ۔ اسلام آباد بننے سے قبل اور بننے کے بعد سے اب تک اس علاقے کا نہ صرف جائزہ بلکہ اس کی وجوہات پر بھی اللہ کے کرم سے میری نظر رہی ہے ۔ ہم سب کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ بکرے کی بلا طویلے کے سر ڈالو اور آنکھیں بند کر لو ۔ میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف 8 میں ریتا ہوں جہاں 2000 مربع گز کے پلاٹ ہیں ۔ اسلام آباد میں صفائی کا جتنا اچھا انتظام ہو سکتا ہے اتنا ہے ۔ جگہ جگہ کنٹینر رکھے ہیں اور سی ڈی اے کے ملازم ہر گھر سے گھنٹی بجا کر کوڑا کباڑ لے جاتے ہیں مگر اسلام آباد میں آ بسنے والوں کو ہائیجین بلکہ انسانیت کا سبق کون سکھا سکتا ہے ۔ یہ بڑی بڑی کوٹھیوں والے جہاں سڑک کے کنارے یا خالی پلاٹ پر اپنی گندگی پھینک دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ گھر کے اندر سے کوڑا کباڑ دیوار کے اُوپر سے باہر پھینکتے ہیں جو کبھی کبھار ہمسائے کے لان میں جا گرتا ہے ۔ بڑی بڑی کاروں مین سفر کرنے والے چلتی گاڑی سے چھلکے سگرٹ کی ڈبیہ وغیرہ پھینکتے بھی نظر آتے ہیں
    یہاں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائینسز (پِمس) میں اگر صرف شدید بیمار ہی ایمرجنسی میں جائیں تو سب کو چلدی وقت مل سکتا ہے لیکن وہاں زیادہ تعداد سیاحت پر آئے لوگوں کی ہوتی ہے جنہوں نے بیماری کا بہانہ بنایا ہوتا ہے ان کے ساتھ چار پانچ ساتھی بھی ہوتے ہین جن کی وجہ سے حقیقی مریضوں کو بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی
    یہ میں سُنی سنائی نہیں بتا رہا ۔ اپنے ساتھ بیتی بتا رہا ہوں ۔ میں شدید بیمار مریض کو پِمس لے جا کر دیکھ چکا ہوں اور اپنے پچھلے لان میں سے بدبُو دار کوڑے کے شاپِنگ بیگ بھی اُٹھا چکا ہوں
    http:www.theajmals.com

    جواب دیںحذف کریں