جمعرات، 27 ستمبر، 2018

اصلاح معاشرہ اور رسول اللہۖ کا طریق تربیت

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں مبعوث فرمانے کے بعد بشر کی فطری کمزوری پر قابوپانے کیلئے ایک لاکھ چوالیس ہزار کم و بیش پیغمبر بھیجے ۔تمام کے تمام پیغمبر اپنے وقت اور اپنے علاقہ اور اپنی قوم کی اصلاح و تربیت کا اہتمام کرتے رہے اسی سبب رب کریم نے نبی آخر الزمان ۖ کو مبعوث فرمایا اور ان کو تاروز ابد تک کے انسانوں کی اصلاح و فلاح کی ذمہ داری تفویض فرمائی۔ خود قرآن کریم میں حضور سرور دوعالمۖ کی شان و منقبت بیان کرتے ہوئے فرمادیا کہ آپۖ کوئی بھی بات نہیں کہتے اور کوئی بھی عمل نہیں بجا لاتے الا یہ کہ ان پر وحی کی جائے۔”ان ھو الا وحی یوحیٰ”۔جب یہ امر مسلم ہے کہ آپۖ کا کوئی قول ، کوئی عمل اور کوئی تقریربغیر رضا الٰہی و اذن الٰہی سے نہیں صادر ہوا تو لازمی بات ہے کہ آپۖ کی سیرت و اخلاق رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے مرجع خلائق ہے کہ آپۖ کے اسوہ اور طرزعمل کو اپنی زندگیوں میں اختیار کرکے ہمیشہ کی کامیابی و کامرانی سمیٹی جائے۔
آپۖ کی حیات سعید بعثت سے قبل بھی باعث فخر و امتیاز ہے کہ حرب فجار میں شریک ہوئے تو کسی کو نقصان نہ پہنچایا اور حلف الفضول میں شرکت کرکے مکہ کے قبائل کو باہم شیر و شکر دکھ کر فرحاں و شاداں ہوجاتے ہیں ۔صرف پینتیس برس کی عمر میں آپۖ کعبہ مشرفہ کی تعمیر کے بعد حجر اسود کی تنصیب کے مسئلہ پر تلواریں سوتنے والوں کو خوش اسلوبی سے امن و آشتی اور الفت و محبت کا پیام عنایت کیا۔بعثت کے بعد مکی زندگی میں آپۖ کی صفات جلیلہ کا احاطہ کیسے ممکن ہے کہ آپۖمعاشرہ کی اصلاح و کامیابی و کامرانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے اور بیگانوں کے مظالم و طشنام کو سہہ جاتے ہیں کہ ابولہب کے آوازے ہوں یا طائف کی وادی میں کنکروں کی بارش،بوڑھیا کا گند پھینکنا ہویا پھر مشرکین کا حالت نماز میں اوچھڑی پھینکنا ۔آپ کی جواں سال بیٹیوں کو طلاق ہو یا شعب ابی طالب کی گھاٹی میں قید الغرض کون کون سے مظالم ہیں جو آپ ۖ صرف اس لئے برداشت کرتے رہے کہ شاید کوئی ان میں سے راہ حق کا راہی و داعی بن جائے ۔یوں ہی تو شاعر نے نہیں کہا کہ:
جو خود نہ تھے راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظرتھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

آپۖ نے ہجرت سے بیشتر اپنے پیروکاروں کی ایسی سیاسی و سماجی، دینی و ملی اعتبار سے تربیت و اصلاح مکمل کردی تھی کہ سیدنا زید سے کفار مکہ کہتے ہیں کہ تمہاری جان بخشی کرکے یہاں نعوذ باللہ آپۖ کو پھانسی دیدیں تو کیسا فیصلہ ہے جواب میں محب رسولۖ تڑپ اٹھتا ہے اور کہتاہے کہ ظالمومیں تو یہ بھی برداشت نہیں کروں گا کہ مجھے رہائی ملے اور محبوب دوجہاں کے قدم مبارک میں کوئی کانٹا بھی چھب جائے۔آپۖ نے صحابہ کرام کی ایسی مثالی اصلاح و تربیت کی کہ جہاں جس کیفیت و حال کی ضرورت محسوس کی باوجود رحمت اللعالمین پیغمبر ہونے کے زجر و توبیخ کو بھی تعمیر معاشرہ اور تربیت و اصلاح کے لئے بطور ہتھیار کے استعمال کیا ۔ آپۖ نے اپنی جماعت جن کے ایمان کے کامل و اکمل ہونے کی گواہی قرآن کریم میں خود خداوند عالم دیتا ہے۔
مگر ان کی اصلاح کے وقت آپۖ نے تند و تیز ،سخت و گرم الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے کہ سیدنا ابوذر غفاری کی جانب سے ایک صحابی کو ماں کا طعنہ ملنے پر آپۖ نے کڑی گرفت کی اور فرمایا کہ تم میں جاہلیت کے اثرات موجودہیں۔کہیں کعب ابن مالک ،ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع کے مقاطعہ کا حکم جاری کیا کہ انہوں نے غزوہ تبوک میں شرکت کرنے میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ کیا۔ترمذی میں حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل ہے کہ صحابہ مسئلہ تقدیر پر جھگڑ رہے تھے تو آپۖ نے اس قدر غصہ و جلال کا اظہار فرمایا کہ ایسا محسوس ہوتاتھا کہ انار کے دانے آپۖ کے رخ انور پر نچوڑ دئیے گئے ہوں۔آپۖ نے صحابہ کرام کی اصلاح و تربیت کے وقت مختلف اسالیب دعوت اختیار کئے کہ ان میں ناامیدی کی جگہ رجائیت کو بیدار کیاکہ صحابہ کرام مشرکین مکہ کے مظالم سے تنگ آکر ان کے حق میں بددعا کرنے کی التجا کرنے لگے تو آپۖ نے فرمایا تم سے پہلے انبیا کی جماعتوں کو اس سے زیادہ سخت ترین ابتلائوں سے گزرنا پڑااللہ کی مدد ونصرت سے ناامید مت ہونا۔کبھی آپۖ نے حکمت و دانائی کو پکڑنے کی تاکید کی کہ حضرت عبداللہ بن عمر و سے ارشاد فرمایا کہ تمہاری جان، تمہارے گھروالے اور اللہ کا حق ہے تم پر سب حق داروں کو مکمل حق دو۔
کہیں آپۖ صحابہ کرام کی تربیت کرتے ہوئے غلوپسندی اور بے جاطرف داری کو ناپسند فرماتے ہیں کہ دین میں غلو کرنے اور امیروں کو سزائیں نہ دینے سے سابقہ قومیں ہلاک ہوئیں۔آپۖ صحابہ کرام کی تربیت و اصلاح کیلئے شگفتہ مزاجی اور داد تحسین دینے کا بھی اہتمام فرماتے تھے کہ جہاں کبھی ضرورت پڑی تعریف کی تو اس سے اعراض نہیں کیا کہ حضرت عمار بن یاسر اور ان کے والدین پر مظالم کے پہاڑتوڑے جارہے تھے تو آپۖ نے فرمایا کہ ”خوشخبری دیدو یاسر کے خاندان کو کہ ان کا ٹھکانا جنت میں ہے”اسی طرح سیدنا عثمان غنی کی جانب سے غزوہ تبوک میں مال کثیر اعانت جمع کرانے پر خوش ہوکر آپۖ نے ارشاد فرمایا کہ آج کے بعد عثمان کو کسی گناہ نقصان نہیں پہنچے گا۔سورہ واقعہ کے بیان کے مطابق خواتین کو باکرہ بناکر خاوندوں کے لئے پسندیدہ بنایا جائے گا کے بارہ میں سن کر ایک بوڑھیانے استفسار کیا کہ کیا میں جنت میں جائوں گی تو آپۖ نے ازراہ مزاح فرمادیا کہ نہیں ۔اس پر وہ بوڑھیا پشیمان و نادم اور افسردہ ہوئی تو آپۖ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا کہ بوڑھی عورت جوان ہوکر جنت میں جائے گی۔ اسی طرح آپۖ نے صحابہ کرام پر سختی و شدت کی بجائے نرمی کو فروغ دینے کا اہتمام فرمایا اوراحکامات کی بجا آوری کے لئے تدریج و اعتدال کو فروغ دیتے تھے۔ آپۖ نے صحابہ کرام کی تربیت میں اس امر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا کہ جو بھی حکم ارشاد فرمایا سب سے پہلے خود اس پر عمل کرکے دیکھایا اس پر حجة الوداع کا خطبہ بین دلیل ہے۔آپۖ نے اولین جماعت مسلمین کی تربیت و اصلاح کی خاطرماضی کے وقائع اور قصص و واقعات اور اپنی بات مثالوں کے ذریعہ سمجھانے کو رواج دیا کہ فرمایا کہ یتیم کی کفالت کرنے والا میرے ساتھ جنت میں ایسے ہوگا جیسے شہادت کی انگلی اور اس کے ساتھ والی انگلی۔
اصلاح معاشرہ اور رسول اکرمۖ کا طریق تربیت کو تفصیل سے بیان کرنے کے لئے گھنٹوں کا وقت درکار ہے۔ تاہم معاشرے کے اہم ترین طبقہ جو کہ نبوت کی وراثت کے امین ہیں یعنی علماء کرام ان کی اصلاح و تربیت بھی از حد ضروری ہے کہ قبل اس کے کہ وہ بحیثیت والد یا بحیثیت استاذ بچوں کی تربیت کا اہتمام و آغاز کریں خود اپنی ذات کا محاسبہ و تربیت سے کریں اور اس کے لئے سیر ت النبی اور سیرت صحابہ پر مشتمل کتب کا مطالعہ کریں تاکہ خود اپنے اور اپنے ماتحتوں کے حق میں پشیمانی کا سامنا یوم حساب کو نہ کرنا پڑے۔

اتوار، 23 ستمبر، 2018

تم اپنے اپنے بچوں کو فقط اردو سکھادینا


 ہم گزشتہ شب واٹس ایپ پہ ایک گروہ کا حصہ بنتے ہیں. اس گروہ کا نام  "تحریک نفاذ اردو " ہے ـ
اس قسم کی تحریکیں امید کی مشعل کی لو مزید روشن ہونے کا سبب بنتی ہیں ـ
خوشی ہوئی کہ ہمارے اہل علم و دانش اردو کے حوالے سے نہ صرف متفکر ہیں بلکہ حتی المقدور عملی اقدامات بھی کررہے ہیں ـ اللہ تعالی کامیاب فرمائے ـ
 میرے ذہن میں اکثر بیش تر  قومی زبان کے حوالے سے بہت سے سوال  گردش کرنے لگتے ہیں کہ : 
آخر وجہ کیا ہے  کہ تاحال  وطن عزیز میں اردو کا نفاذممکن نہیں ہوسکا؟  ہم اردو سے اپنی محبت کا اظہار کیسے کرسکتے ہیں؟
اردو زبان کا ہم پر کیا حق ہے؟ کیا ہم حق ادا کررہے ہیں یا ہنوز قضا کیے جارہے ہیں؟ 
آپ کی نظر میں ان سوالات کا جواب کیا ہوسکتا ہے؟
سوچیے اور جواب تلاش کیجیے!

نفاذ قومی زبان اردو کے لیے سب سے پہلے تو عوام الناس کو جس چیز سے ہم راغب کرسکتے ہیں وہ یہ کہ ہم روز مرہ میں جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ ہر طرح سے فرنگی زبان کی ملاوٹ سے پاک ہو ـ
جب اردو زبان میں بات چیت کریں پورے اعتماد سے بغیر کسی احساس کمتری کے اپنا موقف اپنے مخاطب تک پہنچائیں ـ اپنی ذات سے ابتداء کرکے اس پیغام  کو اپنے ارد گرد میں عام کریں اور مسلسل عزم صمیم سے محنت کو حرز جاں بنائیں ـ زیادہ سے زیادہ اپنے حلقہء احباب کو اردو میں ہر قسم کے مطالعہ کی دعوت دیں ـ 
اردو کی افادیت و انگریزی کی تباہ کاریوں کو موضوع گفتگو رکھا جائے ـ فکر اور احساس زیاں پیدا کیا جائےـ

      یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معصوم بچے جن کو اپنی مادری زبان، علاقائی زبان تک صحیح معنوں میں بولنے نہیں آتی، انہیں ابتدائی بنیادی تعلیم ہی انگریزی میں دی جارہی ہے جس سے معصوم بچوں کو سمجھنے، لکھنے،پڑھنے میں لامحالہ تنگی و دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ـ

    میں جب عصری تعلیمی اداروں میں ارض پاک کی  ان نوزائدہ کلیوں کو کم سنی سے ہی انگریز کی غلامی کی ہتھکڑیاں لگے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں ہم کب سدھریں گے؟ کیا اس قدر طویل عرصہ کافی نہیں کہ ہم اپنے دوست و دشمن اور نفع و نقصان میں فرق محسوس کرسکیں؟ کب ہم اپن  اصل کو دل کی رضا سے قبول کریں گے؟ کب ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم فرنگیوں کا حصہ نہیں ـــــ ہم پہ طاغوت کی اطاعت و محبت لازم نہیں؟ 
کب یہ گرہیں کھلیں گی کہ ہر قوم اپنی مادری زبان میں ترقی کررہی ہے؟مثال سامنے موجود ہے ایک سے ایکـ ـ ـ   ترکی و چائنا اور  دیگر اقوام عالم جو آج ترقی کی شاہ راہ پہ گامزن ہیں ـ جنہوں نے دنیا میں اپنا آپ منوایا ہے وہ اپنی شناخت کو چھپاتی نہیں بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت کی محافظ بن کر اپنی قومی زبان کو اظہار کا ذریعہ بنانے میں عار محسوس نہیں کرتیں ـ

      سوچیے! کیا اقوام عالم میں سے کسی قوم نے اپنے ملک میں اردو نافذ کی؟ اردو زبان بول کے فخر سے گردن اکڑائی کہ ہم خیر سے اردو زبان پہ قادر ہوگئے؟
تو ہم اب تک کن احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں؟ ہم کیوں اپنے آزاد ملک میں غیر قوم کی زبان کو مسلط کیے جارہے ہیں؟
 انگریزی زبان کی ترقی و ترویج و نفاذ میں ہم نے کیا نہ کیا؟ نتیجہ کیا نکلا؟ 
ہم نے اپنے اذہان و قلوب میں فرنگیوں کی زبان و لباس و بول و چال، نشت و برخاست کو معیار سمجھ کے نقش کردیا ـ
ہم تعلیمی اداروں اور عام روز مرہ کی زندگی میں انہی کے لباس و زبان و طور طریقوں کو معیار زندگی جان کر اپنانے لگ گئے ـ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا کا مصداق بن گئے ـ

      اس قدر عظیم قربانی کے باوجود کفر ملۃ واحدہ جب جب ارض پاک کی جانب نظر کرم اٹھاتی ہے تو اس ناشکری  بیوی کی طرح  ناک سکوڑ کے ناشکری کا راگ الاپ رہی ہوتی ہے جو کسی حال میں خوش رہنے والی نہیں ہوتی ـ

     خداراـ ـ ـ ـ ـ! اپنے آپ کو پہچانیں ـ ـ!  اپنی آئندہ نسلوں پہ رحم کریں!آپ اور ہم ناحق ان کی تقلید میں اپنے مرکز سے ہٹ کر دنیا و آخرت کی خواری اپنا مقدر بنانے کی تگ و دو میں شب و روز مصروف کار ہیں ـ
جانے کب ہوش کے ناخن لیں گے؟ 
     اردو کی ترویج و ترقی اور نفاذ میں نہ صرف اردو زبان کی حفاظت یقینی ہوگی بلکہ ہمارے مذہب اسلام کی تعلیمات کا بہت بڑا حصہ اردو زبان میں موجود ہے اور تاحال منتقل ہوتا رہتا ہے ـ سب سے بڑا فائدہ یہ  ہوگا کہ ہماری نئی نسل اپنی دینی و مذہبی تعلیمات کو آسانی سے سمجھ، لکھ پڑھ بھی سکے گی ـ

     آج کا مسلم نوجوان ایک اندھی کھائی میں برضا و رغبت گرتا چلا جارہا ہے ـ ـ ـاسے احساس تک نہیں کہ وہ کس اندھیری رات کا مسافر بن چکا ہے. کسی مقصد و نصب العین کے بنا وہ اپنی زندگی جیتا ہے جس میں مادیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے ـ دین بیزار، بنیادی اسلامی  عقائد میں شکوک و شبہات کا شکار ـ یہ سب کیوں؟  اس کی اہم وجہ بھی اردو کو یتیم و یسیر بناکر نظر انداز کرنا ہے ـ

    اپنی قوم کو اردو سے دور کرنا  در حقیقت دین سے دور کرنا ہے اور جو بھی اس کار خیر میں دامے درمے سخنے حصہ ڈالتاہے وہ ارض پاک کی حال و مسقبل کی نسل کا مجرم ہے ـ آج ہمارے بچوں کے ذہنوں میں عصری تعلیمی اداروں میں  بچپن سے ہی انگریزی کی اہمیت ڈالی جارہی ہے ـ بچہ پانی پینے کے لیے اجازت طلب نہیں کرتا، بلکہ چار سال کا بچہ تین سال کا بچہ بھی اپنی معصوم آواز میں اپنی غلامی کا اقرار کرتا ہے اور استانی سے یون ہم کلام ہوتا ہے:
 "Teacher may I drink water?"
جب ہم نے ایک معصوم کلی کو یوں سسکتے دیکھا تو دل مضطرب ہوا ـ مجھے لگا کہ میں بھی مجرم ہوں ـ جی میں آیا کہ پرنسپل صاحبہ کو اس مسئلہ کی جانب متوجہ کریں اور اس کے ہاتھ پکڑ کے سراپا سوال بن جاؤں کہ: ایں چیست؟

    بچے کا پہلا اور بنیادی حق قومی زبان میں تعلیم ہے.اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض منصبی پہچانیں اور تعلیمی اداروں سے اس تحریک کا اغاز کریں کہ اردو کو عزت دو اور اس کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے ، کیونکہ اساتذہ ہی طالب علموں کی اس مشکل کو سمجھ سکتےہیں جس کا وہ شکار ہوتے ہیں ـ


      ہم فقیر نہیں ـ ـ ـ ہم بھکاری نہیں ـ ـ ـ ہمارے پاس  معتبر خوبصورت حلاوت سے بھرپور اردو زبان ہے ـ ہمارے پاس  اسلام جیسا مذہب ہے ـ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رسول ہیں ـاللہ ہمارا رب ہے ـ ہم کیوں خود کو احساس کمتری کا شکار کرکے غیر قوم کی زبان کو اظہار و بیان کا ذریعہ بنائیں؟

    ہماری قومی زبان میں کیا کمی ہے ؟ اللہ نےہمیں کن کن نعمتوں سے نہیں نوازا؟ کیوں اس کے باوجود ہم غیر کی غلامی کے لیے سرتسلیم خم کیے رہتے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ ملک بھر ہر جگہ ہم اردو سے ناروا سلوک ہوتا دیکھتے ہیں؟ ہماری روز مرہ کی زندگی میں انگریزی کا دخل کیوں رہتا ہے؟

للہ! نہ زخمِ دل چھیڑو کچھ اور خلش بڑھ جائے گی 

آئیے ـ ـ ـ عہد کرتے ہیں!
اردو ہماری قومی زبان ہے اس کی ترقی و ترویج کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہوگا ـ
اپنی گفتگو کا ننانوے سے سو فیصد تک کا استعمال ان شآءاللہ اردو زبان میں ہی کریں گے ـ
اردو کی بقا و سالمیت پہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے ـ


    یاد رکھیے!  پاکستان کی پہچان دو چیزوں سے ہے: "اول  اسلام دوم مدارس دینیہ" 
جس قدر کام مدارس دینیہ میں اردو پہ ہورہا ہے مشکل ہے کہ دیگر شعبوں میں ہوا ہو. الحمدللہ!  مدارس دینیہ میں اردو و عربی ہی میں مکمل اول سے آخر تک تعلیم کے زیور سے نوجوانان اسلام کو آرستہ کیا جاتا ہے ـ

کسے تہذیب کہتے ہیں وہ خود ہی جان جائیں گے
تم اپنے اپنے بچوں کو فقط "اردو" سکھادینا

اتوار، 16 ستمبر، 2018

اردو کو عزت دو

ملک پاکستان کو آزاد ہوئے ستر برس بیت چکے ہیں ۔آغاز سے آج تک ارض پاک مسائل و مشکلات کے گرداب میں پھنسا ہواہے۔ آنے والی ہر حکومت نے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی ان تھک کوشش کی ۔باوجود بشری تقاضوں کے ان سے غلطیوں کی توقع کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ تاہم بنیادی پریشانی اور دقت اتنی تکلیف دہ ثابت یہ ہوئی کہ ملک پاک کو قائم کرنے سے متعلق دوبنیادی تصور و مقاصد کی عدم تکمیل ٹھہرا وہ یہ کہ مسلمانوں کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین نے اپنی جان قربان کی کہ وہ کلمہ طیبہ کا استعلاء ملک پاکستان میں دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ سرسید احمد خان کے زمانہ میں برصغیر میں ہندی اور اردوزبان کا مسئلہ عروج پر پہنچاکہ باہم صف آراء ہوگئے جبھی سرسید نے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا مطالبہ پیش کیا۔اردو زبان جو کہ برصغیر میں مسلمانوں کی جان اور پہچان کا اساسی ذریعہ اور وجہ امتیاز بن چکی تھی کو تحریک آزادی کی کامیابی کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے واضح خطبات میں اعلان کیا کہ ملک کی قومی زبان اردو ہوگی۔ستر برس بیت چکے ہیں وہ ملک جو اسلام اور کلمہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا یہاں پر اسلامی تعلیمات کا احیاء و نفاذ نہیں کیا گیا اور ایسا ہوتا بھی کیونکر ملک میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے والے طبقات کی عددی اکثریت لبرل و سیکولر ہونے کے ساتھ انگریزی تہذیب کے دلدادہ اور اس سے متاثر تھے۔ان کی تعلیم و تربیت سیاسی و معاشرتی سب یورپ میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور اس کے ساتھ انہوں نے اپنے ملک اور اسلام کی تاریخ کبیر جو کہ اردو زبان میں موجود ہے سے ضروری واقفیت کے حامل بھی نہیں ہوسکے ۔المیہ ہے کہ ملک پاکستان کے تمام تر مسائل و مصاعب کا حل صرف اور صرف تعلیم و تربیت کے منہج پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی تمام مقتدر قوتیں بشمول چین، ایران، جاپان،فرانس، ملیشیاء،عرب ممالک اور ترکی سمیت کی معاشی و سیاسی اور معاشرتی ترقی کی بنیاد یہی زبان ہی تھی کہ انہوں نے اپنے ملک میں تعلیم و تعلم اور دفتری زبان کے لئے اپنی قومی زبان کو اختیار کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے چاروں صوبوں میں مغرب اور اقوام مغرب کی اندھی تقلید میں گم سم ہوکر انگریزی زبان کو ناصرف تعلیم اداروں میں رائج کیا گیا اور اسی طرح دفتری زبان کے لئے بھی اسی انگریزی زبان کو اختیار کیا گیا جو کہ بانی پاکستان کی تعلیمات اور خود آئین پاکستان کی دفعہ کی خلاف ورزی اور توہین ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو زبان کو ملک کے تمام تعلیمی اور انتظامی اداروں میں فی الفور رائج کرنے کا حکم جاری کیا کہ اب کے بعد دفتری زبان اور ویب سائیٹس اورتعلیمی اداروں میں اردو کی تعلیم کو بنیادی اہتمام کے ساتھ لازماً نافذکیا جائے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک پاکستان کو حقیقی معنوں میں ہم اگر ملک کو تعمیر و ترقی کی منازل پر لے جانا چاہتے ہیں تو اردو زبان جو کہ قومی زبان ہے کو عزت دی جائے اور صوبوں کی سطح پر مقامی زبانوں پنجابی، بشتو،سندھی اور بلوچی زبان کو تعلیم دینے کے ساتھ اردو کو قومی زبان ہونے کی وجہ سے غیر معمولی اہمیت دینا ہوگی اور مقتدرہ قومی زبان، اکادمی ادبیات اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کی خدمات قومی زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے حاصل کی جائیں۔جبھی ہم مقتدر قوتوں اور عالمی دشمنوں کا مقابلہ بآسانی کرسکیں گے۔اردو زبان کو عزت دینے کا نعر ہ تحریک نفاذ اردو پاکستان نے بلند کیا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے تمام سیاسی و سماجی اور تعلیمی و تربیتی ہمہ جہتی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس تحریک کے قوت بازو بن کر اردو زبان کو عزت دینے کی جدوجہد کرنی چاہئے۔

جمعہ، 20 اپریل، 2018

ترنول پریس کلب کے صحافیوں نے ہمیشہ عوام کے مسائل کو اجاگر کیا،اسد عمر

ترنول پریس کلب کے صحافیوں نے ہمیشہ عوام کے مسائل کو اجاگر کیا،اسد عمر
دیہی علاقوں کے صحافیوں کی پاس وسائل نہ ہونے کے باوجودبھی مثبت صحافت کرنا لائق صد تحسین ہے،ایم این اے
صحافی عوامی مفاد کی خاطر اپنا سکھ چین قربان کردیتے ہیں،ضیاء اللہ شاہ، صحافی حق و سچ کے علمبردار ہوتے ہیں،سید امداد علی شاہ
ترنول(نمائندہ خصوصی)ترنول پریس کلب نے ہمیشہ عوام کے مسائل کو اجاگر کیا،دیہی علاقوں کے صحافیوں کی پاس وسائل نہ ہونے کے باوجود مثبت صحافت لائق صد تحسین ہے۔ایوارڈ حاصل کرنے والوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوئی ہے کہ وہ علاقہ کے مسائل کو بہتر انداز سے اجاگرکریں۔ان خیالات کا اظہار تحریک انصاف کے رہنما اور ایم این اے اسلام آباداسد عمر نے ترنول پریس کلب رجسٹرڈ اور آئیڈیاز مارکیٹنگ کے تعاون سے دیہی علاقوں کے صحافیوں کوحسن کارکردگی ایوار ڈدینے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیئرمین واسا راولپنڈی ضیاء اللہ شاہ نے کہا کہ صحافی معاشرے میں آنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ سماجی طبقوں کے حالت ترقی و تنزلی پر باریک بین نظر رکھتے ہیں اور وہ عوامی مفاد کی خاطر اپنا سکھ چین قربان کردیتے ہیں۔ آئیڈیاز مارکیٹنگ کے چیف ایگزیکٹو سید امداد علی شاہ نے کہا کہ صحافی حق و صداقت کے علمبردار ہوتے ہیں اورترنول پریس کلب کی گذشتہ تین سالہ خدمات اس کی عملی تعبیر ہیں۔ترنول پریس کلب کے سینئر صحافیوں محمد اسحاق عباسی،اظہر حسین قاضی، وسیم الرحمن بھٹی، عتیق الرحمن،سرفراز گجر ،سید اشتیاق کاظمی،راجہ عبدالحمید،نور الامین،اختر شہزاد،حاجی سلیم،آصف مقصود ،عدنان بری،رفعت علی قیصر،حسن علی شاہ، میر عاصم،شوکت محمود،راجہ شبیر،واصف یار علی،ذوالفقار علی، عمران شہزاد شیخ، ابدال عباسی،یاسین بلوچ کو مثالی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ دئیے گئے۔تقریب میں امیر جمعیت اہلسنت والجماعت قاری عمر فاروق شاہ، چیئرمین جھنگی سیداں حاجی گلفرازخان،سیاسی و سماجی رہنما راجہ جان عباسی،ایریاایجوکیشن آفیسر ڈاکٹر احسان ،جنرل کونسلر ابرار عباسی، لیبر کونسلر محمد اعجاز عباسی،قاضی سجاول ،ظہیر اعوان ،میر زمان،مشتاق نقوی،رانااکرام،عاصم میرودیگر نے شرکت کی۔


منگل، 26 دسمبر، 2017

سید ابو الحسن علی ند وی کا تصو ر پا کستا ن

سید ابو الحسن علی ند وی کا تصو ر پا کستا ن   
خصوصی تحریر: بسلسلہ یوم وفات 31دسمبر1999ء  
 تحر یر عتیق الر حمن  (اسلام آ با د )
(مضمون نگار وفاقی اردویونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل اسلامیات کا طالب علم ہے،شعبہ صحافت سے گذشتہ 10سال سے وابستہ ہے ملک کے بڑے چھوٹے جرائد میں ''دیس کی بات'' کے نام سے مضامین اشاعت پذیرہوچکے ہیں۔علمی و مطالعاتی شعبہ میں سید ابوالحسن علی ندوی کی کتب سے استفادہ کرتے ہیں۔اسی کی روشنی میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے فکری پیام کے انتقال کیلئے علی میاں کی یوم وفات کے سلسلہ میں یہ مضمون تحریر کیا ہے ۔جس کو شائع کرکے ممنون فرمائیں۔)
بر صغیر میں مسلما نو ں کے آ ٹھ سو سا لہ دور کے خا تمے کے بعد انگر یز نے اپناتسلط قا ئم کر لیا تو اسلا می حمیت و غیر ت رکھنے والے اہل فکر و دا نش نے جد و جہد آ زا دی کی طر ح ڈالی جس کا آ غا ز اما م شا ہ ولی اللہ محد ث دہلو ی کے زما نہ میں ہو ا کہ انہوں نے مسلمان خلفاء کی کمزوری و پستی پر قابوپانے کیلئے اور دشمنوں کو مغلوب کرنے کیلئے احمد شاہ ابدالی سے مدد طلب کی۔ پھر ان کے فر زند ار جمند شاہ عبد العزیز نے بر صغیر کو دارالحر ب قر ار دیکر مسلما نو ں کو ہجر ت کی تر غیب و دعو ت دی جس کے سبب بہت سے مسلما ن افغا نستا ن ہجر ت کر جا نے میں کا میا ب ہو گئے تو افغا نستا ن کے حکمر انو ں نے اسلا می اور انسا نی ہمد ردی و حمیت سے عا ری ہو کر مسلما نو ں کو اپنے ملک میں دا خلے سے رو ک دیا ۔اس کے بعد شا ہ عبد العزیز کے شا گر د رشید سید احمد شہید  اور عا لم جلیل شا ہ اسما عیل شہید نے بر صغیر کے مسلما نو ں کو ظا لم و جا بر غیر مسلم حکمرا نو ں سے نجا ت دلانے کیلئے تحر یک آ غا ز کیا جو بنیا دی طو ر پر کا میا ب ہو ئی کہ ان کی جدوجہد سے پشاور و نواح کے علاقوں میں اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں آیاچو نکہ اسکی رگو ں میں سید زا دوں کا اخلا ص اور صا لح عمل اور نیک ارادہ شا مل تھا مگر پھر اغیا ر کے کا سہ لیس چند مفا د پر ست مسلما نو ں نے غدا ری و دھو کہ دہی کا مظا ہر ہ کیا جس کے سبب دو نو ں مجا ہد ین حر یت و آ زا دی سید احمد شہید اور سید اسما عیل شہید  با لا کو ٹ کے پہا ڑو ں میں جا نثا ر وں کے ہمر اہ جا م شہا دت نو ش کر گئے ۔ اس جانی و مالی قر با نی کا نتیجہ تھا کہ مسلما نان ہند انگر یز کے تسلط سے آ زا دی کے حصول میں کمر بستہ ہو گئے اور بلآ خر تحر یک آ زا دی میں ہز اروںنہیں لا کھو ں انسانو ں کی قر با نیو ں کے نتیجے میں ایک الگ خا لص اسلا م کے نظر یہ پر ریا ست کا قیا م پا کستا ن کے نا م پر عمل میں آ یا ۔
ملک پا ک کے قیا م کے بعد بہت سے مسلما ن ہند وستا ن میں رہنے پر مصر رہے کیو نکہ ان کا مد عا یہ تھا کہ الگ ریا ست کے قیا م سے مسلما نو ں کی وحر یت تقسیم ہو جا ئیگی اور متحد ہ ہند وستا ن کے نتیجے میں ممکن ہے کہ تاریخ گم گشتہ کی بہا ریں مسلمان دو با رہ حا صل کر نے میں کا میا ب ہو جا ئیں مگر عوامی مقبو لیت مستقل ریا ست کا نعر ہ لگا نے والے قا ئد ین کو ملی ۔اس کے با وجو د بر صغیر کی چو ٹی کے علما ء جن کا اپنے زما نہ میں طو طی بو لتا تھا نے بھی پا کستا ن کے قیا م کے بعد اس کو احتر ام وعزت کی نگا ہ سے دیکھا ۔ یہا ں تک کہا کہ مسجد کی تا سیں کے وقت اختلا ف ہو تا ہے کہ کو ن سی جگہ پر قا ئم ہو مگر اسی کے قیا م کے بعد اس کی حفا ظت اور احتر ام میں کو ئی دقیقہ فر و گز اشت نہیں کیا جا سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ مجلس احر ار اسلا م کے قا ئد سید عطا ء اللہ شا ہ بخاری،علامہ سید سلیمان ندوی ،مولانا ابولااعلیٰ مودودیسمیت متعدد مقتدر شخصیا ت نے با و جو د متحد ہند و ستا ن کے نعرہ کے حا می ہو نے کے پا کستا ن میں حیا ت با قی ماندہ گزارنے کا فیصلہ کیا ۔بھا رت میں سکو نت اختیا ر کر نے والے علما ء و مشائخ کے دلو ں کی دھڑ کنیں اور آ رزو ئیں ملک پا کستا ن کی حفا ظت و بقا کیلئے ہمیشہ ساتھ رہیں ۔یہی نہیں کہ وہ ملک پا کستا ن کی تعمیر و تر قی کے خو اہا ں تھے بلکہ وہ اس مملکت خدا د کو مسلما نا ن عالم کا بعد از خدا سہا را و مدد گا ر تصو ر کر تے تھے اوروہ یہ خو اہش رکھتے تھے کہ پا کستا ن عا لم اسلا م کی عملی زند گی میں قیا دت کر تے ہو ئے دنیا بھر کے مظلومو ں کی دادرسی کر ے اور بطو ر آ ئیڈ یل ومثا ل اسلا م کے نظا م کا نفا ذکر کے ظا لم وسرکش عالم کفر کے سا منے ما دی و نظر ی دنیا میں نما 
یا ں مقا م حا صل کر ے ۔
ہند وستا ن کے عظیم مفکر و دانشو ر اور دا عی جن کا احترا م عر ب و عجم کے علما ء و مفکر ین بر ابر کر تے تھے میر ی مرا د سید ابو الحسن علی ند وی (علی میا ں ) ہیں ۔وہ دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم مما لک کا با ریک بینی سے جا ئز ہ لینے کا بعد یہ کہتے نظر آ ئے کہ پا کستا ن اسلا می دنیا کی رو ح ہے ۔عا لم عر ب اور اسلا می مما لک میں زند گی کی نئی رو ح پید ا کر نے کیلئے پا کستا ن کو اپنا کر دار ادا کر نا ہو گا ۔اسلا م کے عقا ئد پر ایک نیا یقین ایک نیا اعتما د ایک نیا ولو لہ عمل اور ذمہ دا ری جسے ادا کر نے سے او نگھتی ہو ئی آ ما دہ زوال اور ڈ گمگا تی قو مو ں کو نئی زند گی اور نیا جو ش و خر و ش ملے پا کستا ن پر عا ئد ہو تی ہے (مو لانا ابو الحسن علی ند وی حیا ت و افکا ر کے چند نمو نے۔ترتیب :سفیر اختر )وہ یہ بھی فر ما تے تھے کہ پا کستا ن عا لم اسلا م کی فکر ی راہنما ئی کا ذمہ دا ر ہے پا کستا ن جس نظر یے کا دا عی و علم بر دار ہے اس کا تقا ضا یہی ہے کہ یہ ملک دنیا بھر میں اس نظر یہ حیا ت کے ما ننے وا لوں کیلئے ایک فصیل اور مثا ل کا کا م دے ۔دنیا کے جس گو شے میں بھی اسلا م اور مسلما نو ں کو کو ئی صد مہ پہنچے ان کی نگا ہیں پا کستا ن کی طر ف اٹھیں تو کبھی نا مراد نہ لو ٹیں۔ ما ضی میں جو مقا م سلطنت عثما نیہ کو حا صل تھا وہ اس مملکت خداد کے حصہ میں آ ئے ۔علی میا ں  پا کستا ن کو تین اہم بیما ریو ں سے پا ک دیکھنے کے خو اہشمند تھے جس کا اظہا ر انہو ں نے دورہ پا کستا ن کہ مو قعوں پر اجتما عا ت سے خطا ب کر تے ہو ئے کیا ۔انہوں نے فرمایا کہ یہ ملک اس وقت تک صحیح معنو ں میں مستحکم نہیں ہو سکتا تا و قتیکہ اس میں لسا نی و علا قا ئی عصبیت کے سر طا ن کو قر یب نہ بھٹکنے نہ دیا جا ئے کیو نکہ اس کے سبب نظر یہ پا کستا ن جو در اصل نظر یہ اسلا م ہی ہے پا رہ پا رہ ہو جا ئے گا اور ہر ایک اپنی زبا ن و علاقے کو فو قیت دینے کی بجا ئے اپنے وطن سے محبت کر تے ہو ئے اعتما د واتفا ق کا مظا ہرہ کر یں اور دو سر ی جس خر ابی سے پا کستا ن کو محفو ظ دیکھنا چا ہتے تھے وہ یہ تھی کہ فر وعی اختلا فا ت کی مباحث کو خا لص علمی اور علما ء کے حلقو ں میں محدود کر کے عا مة المسلمین کو علمی وکلامی محنتوں سے الگ کر دینا چا ہتے تھے کیو نکہ کم علم افراد فقہی و کلا می مبا حث کے اختلا ف کے نا م پر فتنو ں کو اٹھا نے کے مو جب بن سکتے ہیں جس سے ملک کی سلا متی کو نقصا ن پہنچنے کا قو ی امکا ن ہے ۔ اسی طر ح تیسر ی با ت جس سے وہ پا کستا ن کے مسلما نو ں کو پا ک دیکھنا چا ہتے تھے ۔وہ یہ کہ فر قہ بند یو ں اور گر وہ پسندی میں غلو کہ ہر ایک انسا ن اپنی جما عت کو حق بجانب سمجھ کر دو سر وں کو غلط و با طل خیا ل کر کے ان کے مقا بل صف آ راء ہو جائے ، یہ امر بھی زوال ملت کا سبب ہے ۔
(گز شتہ 70بر س کی تا ریخ کو دیکھاجائے تو واضح معلو م ہو تا ہے کہ ان مذکو ر ہ با لا خر ابیو ں نے ملک پا کستا ن کو نا قا بل تلا فی نقصا ن پہنچا یا ہے یہا ں تک کہ ملک مغربی و مشرقی حصوں میں دولخت ہو ا (پاکستان اوربنگلہ دیش) ۔ملک میں سیا سی و مذ ہبی، لسا نی و علا قا ئی بنیا دوں پر قتل و غا رت کا نا ختم ہو نے والا سلسلہ دیکھنے کو ملا جس کا نتیجہ ہے کہ ہما رے بعد آ زاد ہو نے والے مما لک کئی ہزا ر درجہ تر قی کی منا زل طے کر چکے ہیں اور ہما رے یہاں اب بھی یہ بحث الیکٹر انک و پر نٹ میڈ یا پر قصد اًرواج دی جا تی ہے کہ با نی پا کستا ن قا ئد اعظم محمد علی جنا ح  اسلا می ریا ست بنا نا چا ہتے تھے یا سیکو لر یہ امرمقا م عبر ت و شر مند گی ہے کہ ہم نے لا کھو ں مسلما نو ں کی روحو ں کا خو ن کر دیا۔راقم) یہی وجہ ہے کہ مو لا نا ابو الحسن علی ند وی  نے پا کستا ن کے دو لخت ہو نے کے سا نحے پر غم وا لم اور حز ن وملا ل کے آ نسو بہا تے ہو ئے اس کی وجہ اور نقصا ن کو بیا ن کر تے ہو ئے فر ما یا کہ'' میر ے نز دیک اسی کی سب سے بڑ ی وجہ اسی قو م میں صحیح دینی شعورکی کمی تھی قلب کے ساتھ دما غ کا مو من ہو نا بھی ضر وری ہے ۔تنہا اسلا م کی محبت کا فی نہیں اس کے ساتھ خلا ف اسلا م فلسفوں اور دعو تو ں کی نفر ت بھی لا زمی ہے بلکہ قر آ ن مجید میں متعدد مقا ما ت پر طا غو ت اور شیطا ن اور جا ہلیت کے داعیوں سے بغا وت اور بیز اری کا ایما ن با للہ سے پہلے ذکر کیا گیا ۔''اورپس جو کو ئی سر کشی کاانکا ر کر کے اللہ پر ایما ن لے آ یا اس نے ایک ایسا مضبو ط سہا را راتھا م لیا جو کبھی ٹو ٹنے والا نہیں (سورہ بقر ہ 256)''سقوط ڈھا کہ کا نقصان بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعا ت کا شر منا ک پہلو یہ ہے کہ اس سے مخا لفین کو اسلا م کی نا کا می کے ثبو ت کیلئے ایک دلیل ہا تھ آ ئی اور انہو ں نے اس سے یہ نتیجہ نکا لا کہ اسلا م میں را بطہ بننے اور مختلف قو مو ں اور نسلو ں کو (جن کی زبا نیں اور رنگ نسل مختلف ہیں )متحد کر نے کی صلا حیت نہیں ہے نیز یہ کہ اسلا می عقیدہ کی بنیادپرکسی معا شر ہ اور کسی ریا ست کے قا ئم ہو نے ،اور اگر قا ئم ہو جا ئے تو با قی رہنے کا امکا ن نہیں یہ وہ معنو ی خسا رہ ہے جس کا کو ئی خسا رہ مقا بلہ نہیں کر سکتا ۔اس سے اسلا م کی سا کھ کو بہت بڑ ا نقصا ن پہنچا ہے اور آ پ جا نتے ہیں کہ تجا رت میں اصل چیز سا کھ اور اعتبا ر ہے (کا رو ان زند گی  جلد دوم 133-136)۔''
مند رجہ بالا کلا م سے قا ری یہ اند ازہ ہر گز نہ لگا ئے کہ علی میا ں قیا م پا کستا ن کے بعد کے حا لا ت کا مشا ہد ہ کر کے ہمیشہ کیلئے نا امید و ما یو س ہو گئے بلکہ انہو ں نے ہمیشہ بحیثیت مؤرخ تا ریخ کے اسا سی اصو لوں کوپیش نظر رکھتے ہو ئے ما فا ت کے برے حالات و واقعات سے درس و عبرحا صل کر تے ہو ئے زوال کے اسبا ب کا بغو ر جا ئز ہ لے کر نو جو انو ں کو وہ راہنما اصو ل بتلائے کہ ان کو اختیا ر کر کے ارض پا کستا ن کو گل گلز ار بنا یا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ بحیثیت مسلم قر آ ن و سنت سے اکتسا ب فیض کے بعد لا زمی ہے امت کے ان محسنوں کی تعلیما ت کا بھی بنظر عمیق اور علم کے بیکر اں کے وسیع سمند ر سے بھی خو شہ چینی کر کے دنیا و آ خر ت کی کا میا بی و کا مر انی اور اقبا ل مند ی کیلئے سعی و کو شش کی جائے۔چو نکہ علم و تحقیق کسی رسم و روایت کا نا م نہیں بلکہ یہ رویہ بے لو ثی اور اقبا ل مند ی کا متقاضی ہے کہ ریت کے ذرا ت پر قد م جما نے سے کچھ حا صل نہیں ہو سکتا اس کیلئے قر آ ن حکیم کی سو رہ کہف میں مذ کو ر نو جو ا نو ں کے جذ بے و لو لے اور جر أت کو بطو ر مثا ل اختیا ر کر نا ہو گا اسی لیے مو لا نا علی میا ں  نے نو جو انو ں کو اپنے اندرتین او صا ف پیدا کر نے کی دعو ت دی ۔اول:نو جو انو ں کا وجو د صر ف اپنے ہی نہیں بلکہ دو سرو ں کیلئے بھی نفع مند ہو کہ انکے ذریعے ملت کے طبقات و افراد کو رہنما ئی وہدایت ملنے کے ذرا ئع میسر آ ئیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ بد ھ ازم یاغا لی صو فیا کی طر ح گیان و معرفت کے حصو ل کیلئے گو شہ نشینی اختیا ر کر لی جا ئے اور دنیا کو اپنے افکا ر حق سے محر وم کر دیا جا ئے ۔فر ما ن نبو ی ۖبھی ہے کہ لا رہبا نیہ فی الا اسلا م ''اسلام میں گوشہ نشینی نہیں''کہ دنیا سے قطع تعلق ہوجایا جائے بلکہ کمال تو یہ ہے کہ دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی کیلئے سعی و کوشش کی جائے۔دو سر ی صفت جو نو جو انو ں کو اپنے اندر پیدا کر نے کی ضرو رت ہے وہ یہ ہے کہ نو جو ان نسل اپنے اندر استغنا کی صفت پیدا کر یں ۔یعنی کہ حا جا ت و ضر وریا ت دنیو ی کی تکمیل کیلئے اسرا ف و تبذیرکو شعا ر بنا نے کی بجا ئے کفا یت شعا ری اور قنا عت پسند ی کو اختیا رکریں کہ بقدر ضر ورت ما ل ودو لت حا صل کر نے کی سعی کی جا ئے نہ کہ ھل من مز ید کو اختیا ر کیا جا ئے کہ عیش و عشر ت کیلئے جا ئز و نا جا ئز اور دست سو ال در از کر کے ما ل و متا ع جمع کی جا ئے ۔بد یہی امر ہے کہ حر ام ما ل اور لو گو ں سے مدد و استعا نت طلب کر نے والاشخص دین حنیف کیلئے آزادانہ طورپر صا لح و نا فع کا م کر نے سے عا جز ہو تا ہے کہ اس کی زبا ن گنگ اور قلم خشک ہو جا تا ہے حا کم و معا ون کے ڈرو خو ف سے۔ اس لیے اس عجز و کمز وری سے اجتنا ب کر تے ہو ئے استغناء کو اختیا ر کر لیا جا ئے ۔تیسر ی با ت جس کی مو لا نا ابو الحسن علی ند وی  نے ملت اسلا میہ کے نو جو انو ں کو تر غیب دی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے شعبہ علم وفن میں کما ل مہا رت حا صل کی جا ئے کہ دنیا بھر کے لو گ ان سے اخذ کر نے کی خو اہش رکھنے لگیں اور با صلا حیت قو م کو دنیا کی کو ئی قو م تسخیر نہیں کر سکتی جیسا کہ تا ریخ شا ہد ہے کہ اوائل کی پا نچ صدیو ں تک ریسر چ و تحقیق اور فحص و تمحیص کے میدا ن کے شا ہسوار رہے تو ان کا طو طی چہا ر دانگ عا لم بو لتا نظر آ تا تھا۔ یو رپ و مغر ب با و جو د حقد اور تعصب کے بھی ان کی خدادصلا حیتوں کا اعتراف کر نے پر مجبو ر ہواہے۔ مسلما نو ں نے یو نا نی ورو می اور فا رسی تہذ یبو ں کے علوم و افکار کے ورثہ سے دل کھو ل کر استفا د ہ کر نے کے ساتھ اس میں یہا ں اضا فہ کر تے ہو ئے علم کیمیا ء ،علم جر احت ،علم ریا ضی ،علم فلکیا ت و نجو م ،علم طب اور فن تعمیر سمیت تا ریخ و جغر افیہ و غیر ہ جیسے علو م و فنون میں اپنا یگانہ نا م پیدا کیا کہ مغر ب کی اقو ام اسلا می مملکت کے طو ل و عر ض میں مفت تعلیم حا صل کر تی رہیں ۔
مولاناعلی میاں  نے ملت اسلا میہ کے شبا ب کو جہا ں اسلا می غیر ت و حمیت اختیا ر کر نے کی دعو ت دی ہے کہ ان کی نظر میں اسلا م محکو م نہیں بلکہ حا کم بننے اور قیا دت و سیا دت کی با گ ڈور سنبھالنے کیلئے آ یا ہے ۔ نبی اکر م ۖ کی بعثت کے ساتھ خیر امت کی بعثت کا مقصد یہی ہے کہ دنیا کیلئے ظلمتو ں اور گمر اہیوں سے نجا ت حا صل کر نے کا واحد تر یاق اسلا م ہی ہے جو خا لق ارض و سما ء کی جا نب سے محبوب تر ین بندہ و پیغمبر پر اتا را گیا ۔و ہیں پر مو لا نا نے نو جوا نو ںکیلئے انداز تحر یر و تقر یر کوبہتر بنا نے کیلئے بھی ہدا یا ت بیا ن کر دیںہیں کہ قر آ ن و سنت کے بعد کتب سیر اور تا ریخ جن میں صحا بہ و تا بعین اور آئمہ کے حا لا ت و معمو لا ت مد ون ہیں سے رہنما ئی حا صل کر نے کے ساتھ ما ضی قریب کے مشہو ر مفکر ین اور ادبا ء اور علماء کبار کی کتب سے مستفید ہو نے کی تر غیب بھی دی کہ مطا لعہ اور تحر یرو ں کی مشق کیلئے اس وقت نو جو انو ں کو مو لا نا شبلی نعمانی  ،مو لا ناالطاف حسین حا لی ،علا مہ اقبا ل ، اکبر الٰہ آ با دی ،مو لا نا سید سلیما ن ند وی ، مو لا ناابولکلام آ زاد،مو لا نا ابو الاعلی مو دودی ،مو لا نا عبدالما جددریاآبادی ،ڈاکٹر سید عا بد حسین ،چو ہد ری غلا م رسول مہر،مو لا نا شا ہ معین الد ین ند وی کی کتا بو ں اور تحر یر وں کامطا لعہ کر نا چا ہیے۔ علی میاں  نے یہ بھی بیا ن کیا ہے کہ جہاں پران کی شخصیت کو نکھارنے میں بہت سی کتب و شخصیات کا کردار ہے وہیںپر مذکو رہ بالاشخصیا ت کا حصہ بھی نما یا ں ہے ۔
بیسو یں صدی کا آ خر ی سو رج غر وب ہو نے سے چند گھنٹے قبل مسلما نان عالم ایک عظیم صد مے سے دو چا ر ہو 
ئے ۔رمضا ن المبا رک اور 31دسمبر 1999 ء نما ز جمعہ سے قبل بحا لت تلا وت کلا م اللہ مفکر اسلا م ، امت مسلمہ کے عظیم داعی مو لا نا ابو الحسن علی ند وی  مشر ق و مغر ب، عر ب و عجم کے کر وڑوں مسلما نو ں کو سوگو ار چھو ڑ کر جو ار رحمت میںمنتقل ہو گئے ۔آ ج ان کو ہم سے جد ا ہو ئے 17بر س بیت چکے ہیں مگر ان کی کتب اور شا گر د وں کی بد ولت علم وعمل کا فیضا ن تا حا ل جا ری و سا ری ہے چو نکہ جس علم و عمل میں اخلا ص شا مل ہو تو خدا ئے لم یز ل اس پیغا م اور دعوت کو زند ہ و جا وید رکھنے کا سا ما ن خود پید ا کر تا ہے ۔اللہ تعا لیٰ سے دعا ہے کہ مو لا نا علی میا ں  پر کر و ڑہا کر وڑ رحمتیں اور را حتیں نازل کرے اور ان کے مر قد کو جنت کے با غ کا حصہ بنا ئیں اور ملت اسلا میہ کے بہی خو اہو ں کو قرا  ن و حدیث کے ساتھ ان کی تعلیما ت و کتب سے استفادہ کی تو فیق عنا یت کر ئے ۔آ مین 
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے