جمعہ، 12 اگست، 2016

پاکستان کی بقاء کی ضمانت


14 اگست پاکستان کی آزادی کا دن ہے اس دن اور اس ماہ کی مناسبت سے پاکستانی قوم ایک جزباتی لگاؤ رکھتی ہے ہم ا س ماہ میں آزادی کی خوشیاں مناتے ہیں گھرون پر پرچم لہرا کر ایک آزاد ملک کے شہری ہونے پر فخر کرتے ہیں لیکن حالیہ واقعات کو اگر دیکھا جائے تو یہ بات زہن میں آتی ہے کہ اگر ہم نے اس ملک کے حالات کو بدلنا ہے تو پھر خود کو بدلنا ہو گا اس ملک میں حقیقی تبدیلی لانے کے لئے ہر سیاست کو ہر نظریہ کو ہر زاویے کو صرف پاکستان کی بقاء اور ا سکی ترقی میں بدلنا ہو گا آج ملک دہشت گردی کا شکار ہے اور یہ ایک ایسی آگ ہے جو ہم نے خود ہی اپنے گھر میں لگائی ہے سانحہ کوئٹہ جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئی جس کا ہر پاکستانی کو دکھ اور افسوس ہے اس میں ضائع ہونیوالی جانیں بچائی جا سکتی تھیں اگر ہمارے سیاست دان دہشت گردوں کے خلاف بنائے جانے والے نیشنل ایکشن پلان کو اپنی مرضی کے مطابق نہ چلانے کی کوشش کرتے اسی نیشنل ایکشن پلان کو وہ اس کی روح کے مطابق جاری رہنے دیتے تو شاید یہ وباء اگر ختم نہ ہو گئی ہوتی تو آخری سانسیں ضرور لے رہی ہوتی نیشنل ایکشن پلان میں پاکستان میں عسکریت پسندی کو قطعی برداشت نہ کرنے کا جو عندیہ دیا گیا تھااگر وہ پورا ہوتا تو آج کے حالات مختلف ہوتے ۔سوائے فوجی عدالتوں کے قیام کے نیشنل ایکشن پلان کی باقی 18 دفعات محض وعدوں کی حیثیت میں باقی ہیں اور کسی ایک پر بھی صحیح طریقے سے عمل نہیں ہو سکا۔ اور اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اندرونی سلامتی کی بحث میں نیشنل ایکشن پلان نظرانداز ہونا شروع ہوگیا ہے پاکستان کی فوج نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف کامیابیاں حاصل کی ہیں اور انھیں کی بدولت پاکستان کے اندر بھی دہشت گردی کے معاون نیٹ ورک ختم کیے جا رہے ہیں ملک بھر میں میں عسکریت پسندی کے خلاف ایک منظم حکمت عملی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس حکمت عملی کا قبلہ درست نہ ہو اور اسے باہمی ادارہ جاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر نہ رکھا جائے ۔سانحہ کوئٹہ پر پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے خفیہ ایجنسیوں اور سکیورٹی ایجنسیوں کے بارے میں جو لب و لہجہ اختیار کیا اس کا کوئی جواز نہ تھا ارکان اسمبلی کو اس طرح حکومتی اداروں یا ایک دوسرے پر سطحی الزامات عائد کرنے سے گریز کرنا چاہیے محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ ہر دہشتگرد حملے کے بعد را کے ملوث ہونے کا شور نہیں مچانا چاہیے را پر الزام عائد کرنے سے کام نہیں چلے گا انہوں نے الزام لگایا کہ ملک دشمن عناصر ہماری ایجنسیوں کے پے رول پر ہیں یہ ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی ہے ہماری ایجنسیاں گدلے پانی سے سوئی ڈھونڈ سکتی ہیں تو دہشتگردوں کی تلاش میں کیوں ناکام رہیں۔ان کا یہ بیان پوری قوم کے دل آزاری ہے کیونکہ ساری قوم جانتی ہے کہ اگر آج پاکستان کی مخافظ یہ ایجنسیاں نہ ہوتی تو اس کے دشمن اسے کب کا ختم کر چکے ہوتے یہ بات محمود خان اچکزئی کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آج تک ملک کی خاطر قربانیاں صرف ہماری مسلح افواج نے دی ہیں کسی سیاست دان کو یہ اعزاز نہیں مل سکا کہ وہ ملک کی خاطر اپنی جان دیں ہاں البتہ اقتدار کی خاطر کئی سیاست دان بھانسی گھاٹ تک ضرور پہنچے ہیں اور بہے سے تو ایسے بھی نکلے ہیں جنھوں نے اس ملک کا سودا کرنے کی تیاریاں بھی کر لی تھیں انھیں ایجنسیوں کی بدولت وہ لوگ ایسکپوزبھی ہوئے اور ذلیل و خوار بھی پاکستان کی ایجنسیاں محدود وسائل میں بہترین کام کررہی ہیں محمود خان اچکزئی ان درجنوں واقعات کا علم نہیں رکھتے جنہیں ان ایجنسیوں نے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ناکام بنایا ہے ملک میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں را کے ایجنٹ پکڑے گئے ہیں اور کسی اور ملک کی ایجنسی نے نہیں بلکہ ہماری ہی ایجنسیوں نے پکڑے ہیں جس کی سب سے بڑی اور تازہ ترین مثال کل بھوشن یادیو کی گرفتاری ہے جس نے سی پیک منصوبوں کو سبوتاژکرنے اور بلوچستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے عزائم واضح کئے ہیں یہی نہیں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سمیت متعدد حکام نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں پر تشویش ظاہر کی ہے اس لئے جب ''را'' کی بات ہوتی ہے تو یونہی نہیں ہوتی ٹھوس ثبوت کے ساتھ کی جاتی ہے کوئٹہ سانحہ کو ہرگز خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی نہیں قرار دیا جا سکتا ہماری خفیہ ایجنسیوں کی پیشہ وارانہ صلاحیت عالمی طور پر تسلیم کی جاتی ہیں ان کا یہ الزام بہت سے پاکستان دشمنوں کیلئے مفید ثابت ہو سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ملک دشمن عناصر ہماری ایجنسیوں کے پے رول پر ہیں۔براہ راست دہشت گردی میں ملوث گروپوں کے خلاف پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انٹیلی جنس کی بنیاد پر مشترکہ آپریشن ضروری ہیں اور یہ آپریشن وقتاً فوقتاً ہوتے بھی رہتے ہیں۔ اگر یہ آپریشن موثر ثابت نہیں ہو رہے تو اداروں کے درمیان باہمی تعاون اور اعتماد جیسے مسائل کو پہلے حل کرنا پڑے گالیکن کوئٹہ جیسے واقعات کے بعد ملک کی نامور ایجنسیوں پر لگائے جانے والے الزمات نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ ہماری مسلح افواج کا مورال ڈاؤن کرنے کی ایک گھنونی سازش ہے جس کی پوری قوم مذمت کرتی ہے کیونکہ ساری قوم جانتی ہے کہ پاکستان کی بقاء کی ضمانت ہماری مسلح افواج اور ان کے زیر کمان یہ نامور خفیہ ایجنسیاں ہی ہیں کسی سیاست دان کو یہ ہر گز زیب نہیں دیتا کہ جس ملک نے اسے عزت ،مرتبہ اور عہدہ دیا ہو وہ اسی کی مسلح افواج یا ان کی خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں ایسی بات کرئے اگر وہ ایسا کہتا ہے تو وہ کھبی بھی مخلص نہیں ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں