جمعہ، 27 مارچ، 2015

عقیدہ ختم نبوت ،قادیانیت پر مولانا ابوالحسن علی ندوی کا موقف

بنی نوع انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی رب کریم نے انسانیت کی رہنمائی و نگہبانی کے لیے بعثت انبیاؑ کا سلسلہ شروع فرمایا،چونکہ انسان و جن ہی وہ مخلوقات ہیں جن کو رب العزت والجلال نے نیک یا بد راستہ اختیار کرنے کا اختیار دیا، البتہ انسان کی فطرت میں یہ بات ودیعت رکھ دی گئی ہے کہ وہ بدی و نقصان کی کشش کے سبب اس کی جانب سرعت سے متوجہ ہوجاتاہے ،اللہ رب العزت نے انسانیت کو درست و غلط راستے میں سے کسی کے چناؤ اور اختیار کرنے سے قبل اس کے سامنے حق و باطل ،درست وغلط راہ کو واضح اور بین کرنے کے لیے انبیاؑ مبعوث فرمائے ،انبیاء کرامؑ کی بعثت کا یہ سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہوکر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم فرمایا۔اب حضورکریمﷺ کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا اسی سبب سے اللہ رب العزت نے آپ ﷺ پر سورہ مائدہ کی آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل فرمائی ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘۔اس آیت کے نازل ہونے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اب انسانیت کوکسی دوسرے نبی و رسل کی آمد کے انتظار کی حاجت نہیں بلکہ جو کچھ شریعت محمدیﷺ میں نازل ہوچکا اب یہی حرف آخرہے اور اپنے خالق و مالک کی رضامندی کے حصول اور روز محشر میں نبی کریمﷺ کی شفاعت کی نعمت سے مستفید ہونے کی شرط ہی یہ ہے کہ شریعت محمدیﷺ کی تعلیمات پر بلاکسی تردد کے عمل کیا جائے۔
انسانی فطرت چونکہ نت نئی چیزوں کی جستجو میں محو رہتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ہرانسان شہرت و عزت کا دلدادہ رہتاہے چاہے وہ اسے درست و غلط طورپر بھی حاصل ہوجائے ۔اِلّایہ کہ ان لوگوں کے جو اپنی ذاتی خواہشوں کی تسکین اتباع شریعت میں سمجھتے ہوں اور اپنی ابدی و اخروی نجات کو نبی کریم ﷺ کی اتباع میں ہونے کا یقین رکھتے ہوں ایسے لوگ بہت کم بھٹکتے ہیں اور ان کا ایمان غیر متزلزل رہتاہے ۔شہرت و انفرادیت اور خواہشات نفس کے غٖلاموں نے مختلف راستوں کے ذریعہ دین متین کو زچ و نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر اللہ رب العزت نے چونکہ دین کی حفاظت کی ذمہ داری خود ہی لی ہے ،اس لیے سازشی عناصر کی بدلتی شکل و صورت میں ظاہر ہونے کے باوجود ان کا سخت تعاقب ہمیشہ کیا جاتارہا۔انہی سلسلوں میں ایک سلسلہ عقیدۃ ختم نبوت کا انکار بھی ہے ،اسی کے نتیجہ میں وقتا فوقتاعہد نبویﷺ میں مسیلمہ کذاب ،طلیحہ اسدی،سجاح سے شروع ہوکر بیسویں صدی تک متعدد مدعیان نبوت ظاہر ہوتے رہے اور ہر دور میں دین حق کے رہبروں نے ان کا کڑامحاسبہ کیا جس کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کی ذلت میں مبتلا ہوکر ناکام و نامراد ہوئے۔
ذیل کی تحریر میں بھی ایسے ہی مدعی نبوت کے ظہور(مرزا غلام احمد قادیانی) اور اس کے تعاقب میں مختلف علماء میں سے برصغیر کے عظیم مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی کی جدوجہد اور ان کے مؤقف کو اجمالاً کہیں کہیں مناسب ترمیم و اضافہ کے ساتھ بیان کیا جاتاہے ۔مولانا فرماتے ہیں قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے واضح فرمادیا کہ ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین‘‘لفظ خاتم بفتح التا ء اور بکسر التاء دونوں صورتوں میں معنی ایک ہی ہے یعنی آخر۔عقیدہ ختم نبوت پر ایمان و اعتقاد ازحد ضروری ہے کیوں کہ اس اسی کے سبب ملت اسلامیہ وحدت کی لڑی میں پروی ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں مسلمان دین اسلام کے عالم ارضی پر غلبہ کے لیے کائنات میں جدوجہد کرنے کا مکلف بنایاگیا ہے ،اسی کی وجہ بھی یہی ہے کہ اب اس کو نئے نبی و رسل اور نئی شریعت کے منتظر رہنے کی چنداں ضرورت نہیں،اللہ رب العزت نے نوع بشرپراپنی حجت تمام کردی ہے۔لہذااب ملت اسلامیہ کے سامنے صرف ایک ہی میدان ہے اور وہ میدان عمل ہے۔اگر عقیدہ ختم نبوت پر ایمان کو ترک کردیاجائے تو لازمی بات ہے کہ نئے نبی ورسول کا انتظار کرنا پڑے گا اور عمل کی دنیا سے کنارہ کش ہوجاناپڑے گا اور اسی کے بدیہی نتیجہ کے طور پر ملت تفرقوں اور گروہوں میں بٹ جائے گی چونکہ ہر کوئی نبوت کا دعویٰ کرکے اپنے لیے اتباع پیداکرلے گا اور اس صورت میں ملت کی وحدت و امت کا تصور پارہ پارہ ہوجائے گا۔اسی بات کو علامہ اقبال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ’’ دین و شریعت کی بقا تو کتاب و سنت سے ہے لیکن امت محمدیہ کی بقاختم نبوت کے عقیدۃ سے وابستہ ہے‘‘۔
مولانا فرماتے ہیں کہ قادیانیت نبوت محمدیﷺ اور شریعت اسلام کے خلاف ایک سازش و بغاوت ہے ،جس پر ضرب لگانے کا لازمی نتیجہ دوسری امتوں پر امت محمدیہ کو ملا ہوا مقام شرف و کرامت معدوم کرناہے۔امت محمدیہ کا مکمل عہد پراز تغیرات ہے اس میں وقتا فوقتا مسائل مختلف روپ میں ظاہر ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی پیش آتے رہیں گے اور ان سے مقابلہ کرنے کی ذمہ داری ملت کے رہبروں پر عائد کی گئی ہے۔اسی طرح اللہ رب العزت نے ملت محمدیہ پر دوایسے احسان کیے ہیں کہ جن کی مدد سے ملت مشکل سے مشکل اور سخت سے سخت مسائل کا مقابلہ سہولت کے ساتھ کرسکتے ہیں۔اول: حضرت محمدﷺ کی کامل و مکمل ذات کی بعثت کے ذریعہ زندگی کے تمام گوشوں کو واضح طور پر کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے،اب کسی نئے نبی و رسول یا مسیح موعود کی امت کو حاجت چنداں نہیں کیوں کہ نبی کریمﷺ کے ذریعہ حاصل شدہ تعلیمات تا روز ابد زندہ جاوید رہیں گی۔ثانی :دین حق کی حفاظت کا ذمہ یعنی کے اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘اسی دین کی حفاظت کے لیے اللہ رب العزت ہر دور میں اپنے مقرب لوگوں کوان سے فتنوں سے برسرپیکار ہونے کی جرأت و ہمت عطافرماتے رہیں گے اور دین پر حملہ آور بہروپیوں سے نمبرد آزمارہنے کی صلاحیت وقوت عطافرمائیں گے۔
مدعیان نبوت کی کثرت سابقہ ادیان میں بکثرت موجود رہی ۔چونکہ یہودیت و عسائیت میں کسی نئے نبی کے ظہور یا آمد کی نفی موجود نہیں اس لیے اس میں بکثرت مدعیان نبوت پیداہوتے رہے ہیں ،وہ کسی مدعی نبی کو سچا یا جھوٹا قرار دینے میں متردد رہتے تھے ،جس کے باعث ان مذاہب کے پیروکار سخت اذیت سے دوچار رہتے تھے۔مولانا فرماتے ہیں کہ مجھے اس امرکا احساس پہلی مرتبہ علامہ اقبال کی تحریر کے مطالعہ سے ہوا اور پھر میں نے خود مسیحیت و یہودیت کے مصنفین کی کتب کا براہ راست مطالعہ کیا تو اس امر پر غیرمتزلزل یقین ہوگیا۔یہاں پر ان مذاہب کے اصحاب قلم کی دوتحریریں بطور مثال پیش کی جاتی ہے جس سے یہ اندازہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ وہ مدعیان نبوت کی کثرت سے کس قدر مشکل سے دوچار تھے۔
امریکی برطانی جیوش ہسٹاریکل سوسائٹی کا ایک فاضل رکن Atlbert M Saymson))انسائیکلوپیڈیا مذاہب و اخلاق میں لکھتاہے’’یہودی حکومت کی آزادی سلب ہوجانے کے بعد پچھلی چند نسلوں تک بہت سے خود ساختہ مسیحاؤں کا ذکر یہود کی تاریخ میں ملتاہے،جلاوطنی کے تاریک زمانوں میں امید اور خوش خبری کے یہ پیغام بر،خودساختہ قائدین کی حیثیت یہود کو ان کے وطن(جہاں سے ان کے آباء و اجداد نکال باہر کیے گئے تھے)واپس لے جانے کی امیدیں دلاتے رہتے تھے،اکثر اوقات اور خصوصاًقدیم زمانہ میں ایسے’’مسیح‘‘ان مقامات پر اور ایسے زمانہ میں پیداہوتے تھے جہاں یہود پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ جاتاتھا،اور اس کے خلاف بغاوت کے آثار پیداہوجاتے تھے ،اس قسم کی تحریکیں عموما سیاسی نوعیت کی حامل ہواکرتی تھیں،خصوصاًبعد کے زمانہ میں تو تقریباً ہر تحریک کا یہی رنگ تھا۔اگرچہ یہ تحریکیں مذہبی عنصر سے کم عاری ہواکرتی تھیں،لیکن اکثر ان کے بانی بدعات کو فروغ دے کر اپنی سیادت کا دائرہ اور اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتے تھے،جس کے نتیجے میں یہودیت کی اصل تعلیمات کو بہت نقصان پہنچتاتھا،نئے نئے فرقے جنم لیتے اور بالآخر اعیسائیت یا اسلام میں ضم ہوجاتے تھے‘‘۔(Encyclopaedia of Religions and Ethics) 
مدرسہ دینیات میں یونانی ،رومی اور مشرقی کلیسا کی تاریخ کے پروفیسر ہارٹ فورڈ مسیحیت کو پیش آنے والے اس ابتلا کے بارے میں لکھتے ہیں’’ان جھونے نبیوں کے ظہور نے جوماورائی حکمت(Superior Wisdom)کے مدعی ہوتے تھے،بہت جلد بے اعتمادی پیداکردی اور کلیساؤں اور ان کے رہنماؤں کو اس خطرہ کا احساس دلایا جو ان کی فلاح و بہبود کے گرد منڈلارہاتھا ،تاہم ابھی کوئی ایساتادیبی طریقہ وجود میں نہیں آیاتھا جو جانا پہچانا بھی ہوتا،اور ان مکاروں کا زور بھی ختم کرنے کی صلاحیت رکھتاہو،جنہیں یہ دعویٰ تھا کہ خدا ان سے کلام کرتاہے اور ان پر بذریعہ وحی اپنے راز ہائے سربستہ منکشف کرتاہے،ابھی تک ایساکوئی معیار نہیں دریافت ہوپایا تھا جس کے ذریعہ ان مدعیان روحانیت کی صداقت کا امتحان لیا جاسکتا،ایسے معیار کا دریافت ہونا قطعاً ضروری تھا،اور اگر یہ دریافت نہ بھی ہوتا تو بھی کلیسا اس کی تخلیق کرکے رہتاتھا کہ اس کے ذریعہ مذہب کو بنیادی اصولوں میں انتشار اور زندگی کا الحاد کے راستہ پر جاپڑنے سے بچاسکے اور اس طرح خود اپنی حفاظت کا انتظام کرسکے‘‘۔(Encyclopaedia of Religions and Ethics. Vol. X P. 383) 
مولانا فرماتے ہیں کہ احمدی تحریک دراصل انگریز و استعمار کے خلاف برسرپیکارہونے والے محسنین اسلام سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید کی تحریک کی باقیات کو مٹانے کے لیے قائم ہوئی ۔اسی لیے جہاد کی ممانعت اور انگریز حکومت کی بغاوت کو حرام قراردیااس پر مختلف زبانوں میں کتب انگریز کے خرچ پر تحریر کیں۔مرزاغلام احمدقادیانی نے دنیا بھر میں جہاد کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے اپنے تیار کردہ شاگردوں کو بھی بھیجا جن میں سے بعض افغانستان میں سازشوں کے فروغ کے جرم میں قتل کئے گئے جن میں ملاعبدالحلیم قادیانی،عبداللطیف اورملا نورعلی قادیانی کو پھانسی دی گئی۔مرزا کے والدمرزا مرتضیٰ نے ۱۸۵۷ ء کی جنگ میں انگریز کی بھرپور مدد کی اور مرزا کے بڑے بھائی غلام قادر بھی انگریز کی معاونت و خدمت کرتے رہے انہیں خدمات کے صلہ میں مرزا نے انگریز کو اپنے وفاداری کا احساس دلاتے ہوئے اپنی سرپرستی و مدد طلب کرنے کے لیے متعدد خطوط تحریر کیے جن میں سے بطور نمونہ ایک پیش کیا جاتاہے۔لفٹنٹ گورنر پنجاب کو ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کو درخواست بھیجی جس میں لکھتے ہیں کہ’’یہ التماس ہے کہ سرکارِ دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس سال کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار ،جانثار خاندان ثابت کرچکی اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چھٹیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریز ی کی خیر خواہ اور خدمت گذار ہے،اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم و احتیاط اور تحقیق و توجہ سے کام لے ،اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائیے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں‘‘(تبلیغ رسالت جلد ہفتم ص۱۹)
مسلمانوں کی وحدت کو پارہ کرنے کے لیے انگریز براہ راست دخل اندازی نہیں کرسکتاتھا وہ اس کام کے لیے چور دروازے کی تلاش میں تھے جو انہیں مرزا غلام احمد کی شکل میں میسر آگیا ۔مرزا غلام احمد ذہنی انتشار کے مریض تھے اور بڑی شدت کے ساتھ اپنے دل میں یہ خواہش رکھتے تھے کہ وہ ایک نئے دین کے بانی بنیں ،ان کے کچھ متبعین اور موافقین ہوں اور تاریخ میں ان کا ویسا ہی نام و مقام ہو جیسا جناب رسول اللہ ﷺ کا ہے ،وہ انگریز کو اس کام کے لیے موزوں شخص نظر ائے اور گویا انہیں ان کی شخصیت میں ایک ایجنٹ مل گیا جو ان کے اغراض کے لیے مسلمانوں میں کام کرے،چناچہ انہوں نے بڑی تیزی سے کام شروع کیا ،پہلے منصب جدید کا دعویٰ کیا پھر ترقی کرکے امام مہدی بن بیٹھے،کچھ دن بعد مسیح موعود ہونے کی شہادت دی اور آخر کار نبوت کے تخت بچھادیا ،اور انگریز نے جو چاہا تھا وہ پوراہوگیا۔
مرزا غلام احمد میں تین ایسی چیزیں ایک ساتھ جمع تھیں ،جنہیں دیکھ کر ایک مؤرخ یہ فیصلہ نہیں کرپاتاکہ ان میں اہم ترین اور حقیقی سبب کسے قرار دیاجائے جس نے ان سے یہ ساری حرکات سرزد کروئیں(۱)دینی رہنمائی کے منصب پر پہنچاجائے اور نبوت کے نام سے پورے عالم اسلامی پر چھایاجائے(۲)وہ مالیخولیا کے باربار تذکرہ سے ان کی ان سے متعلق اس کے ماننے والوں کی کتابیں بھری ہوئی ہیں(۳)مبہم اور غیر واضح قسم کے سیاسی اغراض و مفادات اور سرکار انگریز ی کی خدمات گذاری اور نمک حلالی،یہ ایسی صفات ہیں کہ جن میں سے ایک کے وجود کے باعث انسان راہ راست سے بھٹک سکتاہے اور مرزا غلام احمد میں یہ تینوں صفات بیک وقت موجود تھیں۔
مرزاصاحب نے ۱۸۹۱ میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر ۱۹۰۱ میں نبوت کا دعویٰ کردیا۔مرزا صاحب نے اپنی نبوت کے دعوئے کو درست ثابت کرنے کے لیے مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب کو۱۹۰۷ء میں ایک اشتہار کے ذریعہ چیلنج کیا کہ اگر میں غلط ہواتو آپ سے پہلے مرجاؤں گا اور اگر میں غلاط ہوا تو آپ سخت مرض میں مبتلا ہوکر میری حیات ہی میں انتقال کرجائیں گے۔اس اشتہار کی اشاعت کے ایک سال بعد ۲۵مئی ۱۹۰۸ کو مرزا صاحب اسہال کے مرض میں مبتلاہوگئے اور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو دن چڑھے انتقال کرگئے۔مولانا ثناء اللہ امرتسری نے مرزاصاحب کی وفات کے ۴۰ سال بعد۱۵ مارچ ۱۹۴۸میں اسی برس کی عمر میں وفات پائی جس سے واضح ہوجاتاہے کہ مرزا صاحب کے اپنے ہی دعوئے کی روشنی میں جھوٹے مدعی نبوت تھے۔
مولانا فرماتے ہیں کہ قادیانیت ملت اسلامیہ کو اصل ذمہ داری جو اس کو تاقیات دنیا میں سربراہی و سیادت کی ملی ہے اس سے ہٹاکر ان کو لاحاصل فلسفیانہ و مناظرانہ مباحث میں الجھانا چاہتی ہے اور اس کا واحد مقصد ہے کہ انگریز و مغرب کی خدمت ہمہ وقت انجام دی جائے۔اسی مقصد کے لیے مرزا غلام احمد نے جہاد کی حرمت اور انگریز کی وفاداری کو ثابت کرنے کے لیے اردو ،عربی ،فارسی میں متعدد کتب تحریر کرکے ان کو عرب و عجم میں پھلادیا جس سے وہ ایک طرف ملت اسلامیہ کی اجتماعیت کو توڑنے اور دنیا میں سیادت کے حصول کی جدوجہد سے بازرکھنے کا پیغام تھا تو دوسری طرف بے فائدہ بحث و تمحیص کے گرداب میں پھنسانے اور انگریز کی وفاداری کا درس بھی موجود تھا۔ملت کو توڑنے کی اس حد تک کو شش کی تھی کہ جو مرزا غلام احمد کو نبی نہ مانے وہ کافر ہے اور اس کے ساتھ ہر طرح کا معاملہ دینی و دنیوی جائز نہیں اس نکتہ کی بنا پر سر ظفر اللہ خان جو کہ بدقسمتی سے پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ تھا اور قادیانی کا پیروکار تھا نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علیؒ جناح کی نماز جنازہ نہیں پڑھی کیوں کہ وہ قادیانی نہ تھے۔
قادیانیت کے خلاف بہت سی تحریکیں میدان میں آئیں جن میں مسلمانوں کے تمام طبقے کے علما ء برابر اس فتنے کے خلاف برسرپیکار رہے ،جن میں مولانا محمد حسین بٹالوی ،مولانا محمد علی مونگیری (بانی ندوۃ العلماء)مولانا ثناء اللہ امرتسری ،مولانا انور شاہ کشمیری(شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) اور تحریک ختم نبوت کے سپہ سالار و قائد سید عطاء اللہ شاہ بخاری شامل تھے۔ان علما ء کی مسلسل جدوجہد اور قادیانیت کے سخت تعاقب کے باعث امت اس فتنے سے محفوظ رہی اور بالآخر ۱۹۷۳ء میں پاکستان میں قادیانیت کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
فتنہ قادیانیت کے خلاف اسلام کے مایۂ ناز مفکر علامہ اقبال ؒ بھی برسرپیکار رہے اور انہوں نے اپنی تصانیف میں بہت صاف صاف لکھا کہ قادیانیت نبوت محمدی کے خلاف ایک بغاوت ہے ،اسلام کے خلاف ایک سازش ہے !یہ ایک مستقل دین ہے ! اس کے ماننے والے ایک الگ امت ہیں اور یہ امت عظیم اسلامی امت کا ہر گز وجود نہیں ہے! اور علامہ اقبال ؒ ہی نے سب سے پہلے قادیانیت کو خارج از اسلام قراردینے کی تجویز پیش کی تھی۔
مولانا فرماتے ہیں کہ قادیانیت حضورﷺ کی شریعت اور اسلام کے ہر ہر جزوکے مخالف نظریہ رکھتے ہیں ،یہ چند ٹھوس حقائق ہیں ،لیکن جو لوگ واقعات سے دور اور اوہام و خیالات ہی کی دنیا میں رہنا پسندکرتے ہیں،اور حقیقتوں کے بارے میں بھی اپنے آپ کو دھوکہ میں رکھنا چاہتے ہیں ،ان کے لیے اور ان لوگو ں کے لیے جن کی نظر میں دین و عقیدہ کی خودکوئی قیمت نہیں ،اور جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں ،ان کو مطمئن کرنے کے لیے میرے پاس کوئی زبان یا قلم نہیں:۔
؂ یارب نہ وہ سمجھے نہ سمجھیں گے مری بات                 دے اور دل ان کو جونہ دے مجھ کو زباں اور

تحریر: عتیق الرحمن(طالب علم:ایم فل تاریخ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد)
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں