جمعہ، 3 اپریل، 2015

اسلامی یونیورسٹی کے صدر کے نام کھلا خط

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی بنیاد اسی کی دہائی میں رکھی گئی اور اس کے قیام کی ضرورت و اہمیت اس وقت کے عالم اسلام کے دردمند اور دین اسلام کو تاقیامت تک رہنمائی و قیادت کا اصلی حقدار سمجھتے تھے اسی لیے انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمیں عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں عالمی معیار کے حامل علوم شرعیہ و علوم کونیہ کا مشترکہ حسین گلدستے کی شکل میں تعلیمی اداروں کا وجود عمل میں لایا جائے ۔اس سبب میں صرف ایک ہی پہلومدنظر تھا کہ مسلمانوں پر انگریزکے استعمار کے سبب پیداہوجانے والے جمود کو توڑ دیا جائے کیوں کہ مسلمانوں نے ایک طرف جدید علوم سے اپنے چہرے پھیر لیے اور دوسری طرف یہ فکرتھی مسلمان صرف اس قدر تعلیم حاصل کرے کہ وہ مغرب کلرک یا ان کے استعمال و منفعت کا ایک آلہ بن جائے ۔مسلم رہنماء اس امر کو ہرجہت سے اسلام و مسلمانوں کے لیے مضر و نقصان دہ سمجھتے تھے۔ان قائدین کا مطالعہ قوی تھا اور رب العزت نے ان کو ایمانی حمیت کی دولت سے نوازا تھا۔
ان دینی تعلیمی اداروں کا مقصد اصلی یہی تھا کہ عالم اسلام کی نوجون ملت میں مستقبل کی سرد جنگ کے مقابلے کی طاقت و صلاحیت پیداکی جاسکے ۔اس امر میں شک نہیں کہ اس وقت دینی تعلیمی ادارے مدارس کی شکل میں موجود تھے اور علوم کونیہ کی تعلیم دینے والے ادارے بھی موجود تھے ایسے میں ایک نئے ادارے کے قیام کی چنداں ضرورت نہ تھی مگر چونکہ وہ مسلم رہبر یہ احساس رکھتے تھے کہ مروجہ دونوں طرح کے تعلیمی ادارے افراط و تفریط کے عمل سے دوچار ہوچکے ہیں اور وہ عالم اسلام اور مسلمانوں کی کسی طور پر بھی عہد جدید کی مشکلات میں کوئی قابل فخر خدمت کرسکیں۔اسلامی یونیورسٹی کے قیام کے مقاصد میں سے اساسی مقصد یہ تھا کہ یہاں ایسے نوجوان تیار کیے جائیں جو تعلیم کے ساتھ تربیت کے مرحلے سے بھی گذریں،طلبہ جہاں علوم کونیہ و فنون میں مہارت رکھتے ہوں وہیں پر شریعت اسلامیہ سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہوں،نئی نسل ذاتی مفاد پرستی کی دنیا سے نکل کر اجتماعی و ملی مفادات کا تحفظ کریں،جوانان ملت مادیت پرستی کی دنیا سے نکل کر اسلام کے پیغام کو پوری دنیا میں سربلند کرنے کے لیے جرأت و جواں مردگی کا اظہار کریں۔ان امور سے خلوص نیت کا انداز اس امر سے کیا جاسکتاہے کہ اس ادارے میں آنے والے طلبہ سے فیسیں بٹورنے یا ان کو انتظامی ذلتوں میں الجھانے کی بجائے ان کی ہر ممکن طور پرمالی اعانت کی جاتی تھی تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنی تعلیم و تربیت کے اس مرحلہ کو مکمل کریں۔
مرورزمانہ کے ساتھ جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں میں مسلمان زوال پذیری کا شکار ہوئے وہیں پر اسلامی یونیورسٹی بھی اس آگ کا ایندھن بن گئی ۔اس یونیورسٹی میں مادیت پرست اور ہوس پرست افراد کی اکثریت قابض ہوگئے اور اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوئے اور جلتی پر تیل کا کام ستمبر ۲۰۱۱ کے واقعہ کے بعد حکومت کی مداخلت اور یونیورسٹی میں سیاسی و مذہبی تنظیموں کی سرکش سرگرمیوں نے اس عظیم ادارے کو اپنے اساسی مقاصد سے دور کردیا ۔اب یہ ادارہ علم ومعرفت کی شمع روشن کرنے کی بجائے مختلف حیلے و بہانوں سے طلبہ سے مختلف مدّات میں مال جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اس تعلیمی دانش گاہ کو مادیت کی دلدل اور اس کوحقیقی اسلامی تعلیم وتربیت فراہم کرنے والے ادارے کی بجائے ایک مروجہ دینی مدرسے یا ایک عام سیکولر یونیورسٹی کی حیثیت دلوانے میں کوششیں نمایاں نظر آتی ہیں۔اس یونیورسٹی کے نام نہاد اسلام پسند افراد بھی شریک جرم ہیں کیوں کہ وہ لوگ عہدوں اور منصبوں کی لالچ میں اس یونیورسٹی میں پیداہونے والی آئے روزکی خرابیوں سے مسلسل چشم پوشی ہی نہیں کرتے بلکہ ان مجرموں کا دفاع بھی کرتے نظر آتے بھی رہے اور ابھی تک ان ظالموں اور غاصبوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔یہ امر باعث تشویشناک ہے کہ وہ لوگ جو دین اسلام اور قرآن و سنت کا شب و روز چلتے پھرتے ورد کرتے ہیں وہی ہی اسلام کی تعلیمات کی صریح مخالفت یا ان کے مرتکبین کے ہمنوالہ و ہم پیالہ بن جائے تو دل خون کے آنسو روتاہے۔
کچھ امید ہوچلی تھی کی سحر کی نوید لیے سعودیہ عرب سے اس عظیم دانش گاہ میں بحیثیت صدر آپ جناب (ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش )کی صورت میں اسلامی علوم سے گہری واقفیت رکھنے والی مخلص قیادت ضرور بالضرور ماضی کے مظالم کی تلافی کریں گے۔جن احباب نے جانے یا انجانے میں اس یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو مجروح کیا ان سے گلو خلاصی حاصل کرکے اس یونیورسٹی کو ایک مثالی جامعہ بنانے کی کوشش کریں گے اور ماضی کی تمام خامیوں کو بتدریج دور کرنے کی سعی کریں گے ۔اصول الدین ،شریعہ اینڈلاء اور عربی فیکلٹیز کے مناھج تعلیم و نظام تربیت کو درست شکل میں تبدیل کرواکر اس یونیورسٹی میں دیگر فیکلٹیوں جن میں علوم کونیہ کی تعلیم دی جاتی ہے کو اسلامی تعلیمات سے مطابقت قول و عمل کے ذریعہ سے دلوانے کی کوشش کریں گے اور تعلیم کی بہتری کے ساتھ ہی اخلاق و تربیت کا بھی خاطر خواہ انتظام کریں گے چونکہ اسلام نے صرف تعلیم کی بات کہیں نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ ہی تربیت و تزکیہ کی جانب بھی متوجہ کیا ۔اسلام صرف خالی خولی فلسفوں یا باتوں کے ہیرپھیر کی تعلیم نہیں دیتابلکہ اسلام عمل کی دعوت و ترغیب دیتاہے۔
مگر افسوس ک ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آپ نے ماضی کی تمام ترخامیوں کو ناصرف برداشت کیا بلکہ آپ کے دور اقتدار میں نئے جرائم کو پنپنے کے مواقع بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔جن میں بنا کسی تفصیل کے صرف اجمالاً عرض کردینا کافی سمجھتاہوں۔ماضی کے کرپٹ اور بدنامِ زمانہ افراد کو اعلیٰ عہدوں پر بدستور برقرارکھا ہواہے،اساتذہ و طلبہ کی تذلیل کا سلسلہ بدستور ناصرف جاری ہے بلکہ آپ نے اس میں اضافہ کیا ہے خود کو شاہی محل میں مقید کیا اور خطیر رقم کی مالیت کی گاڑی اور سیکیورٹی رسک کے نام پر محافظین کی جماعت بھی بنا رکھی ہے اگر کوئی استاذ یا طالب علم آپ سے ملنا چاہے تو اسے مختلف مراحل سے گذارنے کے علاوہ، ہفتوں چکرلگانے پڑتے ہیں ۔ملک پاکستان بالعموم اور اسلامی یونیورسٹی بالخصوص کسی بھی عصبیت کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جبکہ آپ کے دوسال سے زائد عرصہ کے طرز عمل سے یہ ثابت ہورہاہے کہ آپ کسی خاص مسلک کو طاقتور بنانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔یونیورسٹی کے اہم ترین عہدوں پر کمزور و کٹھ پتلی افراد کواپنے نائبین یا عارضی طور پر اعزازی تعیناتیاں کی ہوئی ہیں جن میں اصول الدین ،شریعہ ،منیجمنٹ سائینسز،انجینرنگ،دعوۃ اکیڈمی ،شریعہ اکیڈمی و ادارہ تحقیقات اسلامی وغیرہ کے اہم عہدے شامل ہیں ۔ ان عہدوں پر مستقل باصلاحیت افراد کی تعیناتی سے آپ کیوں خوفزدہ ہیں اس کا جواب آپ ہی دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔!۔یونیورسٹی کی تربیتی و ثقافتی کمیٹی کی سربراہی سمیت اور اہم امور کی ذمہ داریاں ایک فرد واحد کو سپرد کررکھی ہیں اگر یوں کہا جائے کہ وہ شخصیت یونیورسٹی کے سیاہ و سفید کی مالک بن چکی ہے تو چنداں غلط نہ ہوگا۔آپ نے عمرہ جیسی عبادت پر من پسند افراد کو ناصرف بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا بلکہ طلبہ و اساتذہ اور انتظامیہ کے لوگوں کی زبانیں خریدنے کے لیے استعمال کیا جو کہ باعث ندامت امر ہے۔یونیورسٹی کے آغاز زمانے میں طلبہ کو تعلیمی معاونت رضاکارانہ طور پر دیجاتی تھی مگر اس مسئلہ کو آپ نے گداگری اور طلبہ کی تحقیر کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔عرب اساتذہ کے راستوں میں روکاوٹ ڈال کرمن پسند ایک خاص فکر کے حامل اساتذہ کو یونیورسٹی میں لایاگیا۔باصلاحیت و مخلص اور وہ اساتذہ جو کسی بھی لمحہ رب کریم کے علاوہ کسی انسان کی غلامی برداشت کرنے کو تیار نہیں ان کو یونیورسٹی سے نکالنے کے لیے مختلف حیلے بہانے کا سلسلہ جاری رکھاہواہے جو آپ کی علم دشمنی اور سرکشی کا منہ بولتاثبوت ہے۔کیا ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کا شاہی محل،آپ کا پروٹوکول موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں، آپ کی گاڑی کی قیمت،آپ کے من پسند افراد پر شاہ خرچیوں کے لیے تو پیسہ میسر ہیں مگر اساتذہ و طلبہ صرف اور صرف علم دین سیکھنے اور سکھلانے کو فریضہ جانتے ہیں ان پر پیسہ خرچ کرنے میں بخل یا قسوت قلبی کے شکار کیوں ہوجاتے ہیں؟طلبہ کے لیے ہاسٹل کی سہولت میسر نہیں پھر بھی داخلے برابر جاری ہیں جبکہ طلبہ ہاسٹل کی سیٹ کے حصول میں دربدر پھرتے نظر آتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔تعلیمی بلاک ناکافی ہونے کی وجہ سے اساتذہ وطلبہ کلاسز مسجد اور اپنے دفتروں میں لینے پر مجبور ہیں۔بڑے تعجب کی بات ہے کہ اسلام پر قائم یونیورسٹی میں مسجد کی تعمیر تاحال نہ ہوسکی جو مسلمانوں کی اجتماعیت و وحدت کا مظہر حقیقی ہے۔متعدد کانفرنسوں پر خطیر رقم صرف کرنے کے نتائج سے آگاہ کیا جاسکتاہے یا وہ صرف فوٹوسیشن اور خانہ پری کے لیے منعقد کی گئیں ان کانفرنسوں کے ذریعہ حق کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش سرے سے کی ہی نہیں گئی۔اسلامی یونیورسٹی کے ذیلی اداروں کے پروگرامات و سرگرمیوں پر دیانت دارانہ نظر ڈالی گئی ؟کیا یونیورسٹی میں اساتذہ کے طور طریقے اور طلبہ کی اخلاقی و معاملاتی و دینی تربیت کا کوئی انتظام کیا ؟کیا اساتذہ و انتظامیہ کے اخلاقی معیارکو اس قدر بلند کرنے کی تھوڑی سی بھی سعی کی کہ وہ چند ہزاروں کی خاطر کرپشن و علمی چوری اور اپنے فرائض میں کوتاہی سے احتراز کریں ؟؟ایسے واقعات کی فہرست تو بہت طویل ہے مگر میں اسی پر اکتفاکرتاہوں۔
واضح رہے کہ آپ کے زمانے میں یونیورسٹی میں بہتر امور بھی سرانجام دئے گئے ہیں ،جن میں طلبہ و اساتذہ میں علمی پیش رفت کے باب کو کھولنے کے لیے درجن بھر کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا ،یونیورسٹی کی چاردیواری کی تعمیر کی تکمیل عمل میں لائی گئی اور اسی طرح انجینرنگ بلاک تعمیر کروایاگیا ۔آپ کی علم دوستی کا کچھ اثر مجھ ناچیز پر بھی پڑا ہے کہ میں نے آپ ہی کے اسرار پر عربی زبان لڑکھڑاتے ہوئے بول چال کا آغاز کیا ۔مگر محترم میں دردمندانہ اپیل کرتاہوں کہ خدارا اپنی ذات کی تعریف وتوصیف سننے کی بجائے آپ ایسے افراد کو تیار کریں جو آپ کے ساتھ نیک و مخلص ہوں اور آپ کی خامیوں پر جرأت و بے باکی کے ساتھ اظہار خیال کرسکیں ۔آ پ ان افراد کی جماعت تیارکرنے کی کوشش سہوا بھی نہ کریں جو دنیا میں تو آپ کی تعریف میں زمین و آسمان کے مابین خلاء کو مکمل کردیں پر روز محشر میں آپ کے معاون و مددگار بننے سے معذور ہوجائیں۔
میں اپنی اس مختصر اور بکھری ہوئی تحریر کو جرأ ت و ہمت کے ساتھ پیش کرتاہوں اس میں کوئی غلط بات یاغلط مؤقف میں نے پیش کیا ہے تو میری گرفت کرنے میں آپ حق بجانب ہیں اور اگر میری باتیں درست ہیں اور الفاظ کا چناؤطرز تحریر سخت ہیاس بہانے سے مجھے ڈرانے دھمکانے یا زیرعتاب لانے کاسہارالے کر ان غلطیوں اور مظالم کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں تو ایسا کبھی نہیں ہوسکتاکیوں کہ کبھی بھی حق کے راستے میں ظلم و جور کے راستے پر چل کر دبایانہیں جاسکتا۔ ایک امر کی نشاندہی ضرور کروں گا کہ بعض عناصرکی جانب سے یہ کہا جاتاہے کہ راقم ذاتی منفعت کے حصول یا کسی دوسرے فرد یا گروہ کی ترجمانی کرتاہے تو میں اتناہی کہنا چاہتاہوں کہ یہ معاملہ دنیا میں واضح نہیں ہوسکتامگر وقت ساعت کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتاہوں کہ یہ آواز و صدا میری اپنی ہے البتہ اس میں قوت و طاقت میرے مطالعہ کے سبب ہے ۔باقی زیادہ اپنے منہ میاں مٹھوبننے کی حاجت نہیں معاملہ اللہ کے حضور میں چھوڑتاہوں وہ احکم الحاکمین ہے۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ آپ ان امور میں کوتاہی و غفلت کا اعتراف کریں گے اور روز محشر رب ذوالجلال کے حضور فخر کے ساتھ حاضر ہونے کے لیے مندرجہ بالاتمام خامیوں کا ازالہ کریں گے بلکہ ہماری محدود فکر سے بڑھ کر آپ بہتر نتائج پیش کریں گے۔میں نے یہ تحریر مختصرا پیش کی ہے ہر نکتہ پر تفصیلات کے ساتھ بات اور اٹھائے گئے مسائل سے کس طرح نجات حاصل کی جاسکتی ہے بہت جلد کسی تحریر میں درج کروں گا ان شا اللہ۔ بکھری باتیں تحریر کی ہیں مگر یہ درددل ہے اس کو قبول کریں یا نہ کریں یہ آپ کی مرضی ہم تو تادم زیست یہ صدائے حق بلند کرتے رہیں گے ۔اس شعر پر بات ختم کرتاہوں:۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلاکے سرے عام رکھ دیاہے
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com

1 تبصرہ:

  1. محترم ۔ شکوہ آپ کا درست ہے لیکن جس نام نہاد سیکولرزم کی رو کے آگے ایک آمر (ضیاء الحق) نے بند باندھا تھا اُسے ایک اور آمر (پرویز مشرف) نے توڑ دیا تھا اور ایک مادر پدر آزاد میڈیا ہمارے سر تھوپ کر چلا گیا ۔ اس الحادی فضا کو صاف کرنے کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ آپ لکھاری ہیں ۔ ہو سکے تو اپنی بات فرماروائے سعودی عرب تک یا کم از کم نواز شریف تک پہنچا دیجئے ۔ آج اگر میاں محمد شریف زندہ ہوتے تو یہ کام کافی آسان ہوتا لیکن اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے

    جواب دیںحذف کریں