منگل، 14 اپریل، 2015

اسلامی یونیورسٹی میں فرقہ واریت کا فروغ

چھٹی و ساتویں صدی عیسوی میں معاشرہ ظلمت و تاریکیوں میں ڈوب چکاتھا ،اس میں ہر طرح و ہر قسم کی بد سے بدتر خرابیاں اور بیماریاں سرطان جیسے موذی و طاقتور مرض سے بھی زیادہ خطرناک حد تک سرایت کرچکی تھیں۔اس معاشرے میں باہمی محبت و مودت نام کو نہ تھی،طاقتورکمزور پر ظلم و جبر کو روا رکھنا اپنا حق سمجھتاتھا،ماتحتوں کے حقوق کو غصب کرنے کو باعث فخر و اعزاز سمجھا جاتاتھا،مادیت و ہوس پرستی کا ایسا دور دورہ تھا کہ انسان کی عزت و عظمت خاک میں مل چکی تھی ،معاشرے کا ہر فرد اپنے حق کو حاصل کرنے کا طالب اور دوسرے کے حقوق سلب کرنا اپنا طرہ امتیاز بنا چکا تھا۔اگر یوں کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت کا معاشرہ حیوانیت و سربریت کی تمام حدود سے آگے بڑھ کر وحشی و درندہ بن چکا تھا ۔ اس معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دینا کسی عام انسان یا مصلح کا کام نہ تھا بلکہ صرف اور صرف تائید الٰہی کے ذریعہ سے ہی ان گہری و راسخ امراض کو معاشرے کے جسم و جان سے نکالا جاسکتاتھا ۔اور یہ ہوکر رہاکہ دین اسلام کی دعوت کے ساتھ نبی مکرمﷺ کا ظہور ہوا اور اپنے نے اس سماج کے تمام امراض و جراثیم کو حکمت و دانائی اور حکم خداوندی کے مطابق بتدریج اساس سے مٹانے میں اہم کردار اداکیا۔آپ ﷺ کی بذریعہ وحی ایسی نصرت کی گئی کہ اس وقت معاشرے میں موجود تمام خرابیوں کو جڑسے مٹادیا گیا اس سے علمی و عملی واقفیت کے لیے کتب سیرت و تاریخ اسلامی کا مطالعہ کرکے تشنگی کو مکمل کیا جاسکتاہے اور اسلام کی روز روشن کی طرح عیاں کامیابی و کامرانی کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے ۔
اس مختصر سی تمہید کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دین اسلام تاقیامت تک انسانیت کی راہنمائی فراہم کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتاہے اور معاشرہ میں جس قدر مضبوط و طاقتور خرابیاں ہی کیوں نہ پیدا ہوجائیں ان کا مقابلہ اسلام کے درست و صحیح مطالعہ اور اس کی درست تفہیم کے ساتھ حل کیا جاسکتاہے۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ۱۱/۹کے بعد سے درجہ بدرجہ تنزلی و پستی کی جانب دن بدن گہرتی چلی جارہی ہے اور اس زوال میں کبھی تو سیکولرزم سبب بنااور کبھی فرقہ واریت ۔دس سال کے ظالمانہ و جابرانہ دور جس میں یونیورسٹی میں براہ راست سیاسی مداخلت کی گئی نے یونیورسٹی کے اساسی اہداف کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی کہ یہ محسوس ہوتاتھا کہ یہ یونیورسٹی اسلامی تعلیمات کے ماہرین تیار کرنے کی بجائے اسلام کو زیر یا کمزور کرنے والے افراد پیدا کرنے کے لیے قائم ہوئی ۔ایسے میں سعودی عرب کی مداخلت سے یہ محسوس ہوچلاتھا کہ وہ یونیورسٹی کو ایسی قیادت فراہم کرے گا کہ جو نا صرف ملک پاکستان اور اسلامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم و وابستہ افراد کی مختلف کرنوں سے واقف ہوگااور وہ اعتدال پسندی کو اپنا طرز عمل بناتے ہوئے تمام طبقوں اور نسلوں اور مکاتب فکر کو ایک ساتھ لے کر چلے گا بلکہ اس کی ترجیح صرف اور صرف دین اسلام کی نشر و اشاعت اور علوم کے میدان کے ذریعہ نوع انسانیت کو بذریعہ اسلام ایک و مخلص قیادت فراہم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیرکرنا ہوگا۔
اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ ہم سعودی عرب کی مداخلت سے خوش ہوئے کیوں کہ ہم یہ محسوس کرتے تھے کہ سعودی عرب کے حکام نے اس گلشن کو نیک تمناؤں اور بڑی جدوجہد اور محنتوں کے ذریعہ سجانے میں پاکستان و مصر و کویت سے کم کردار ادا نہیں کیا اس لیے وہ اس گلشن کو اپنی آنکھوں کے سامنے بکھرتا و ٹوٹتا و ناکام ہوتانہیں دیکھ سکتے ۔مگر جیساکہ کہاوت ہے کہ( انسان جو سوچتاہے ویسا نہیں ہوتا) کچھ اسی طرح کا معاملہ ہمارے قلب و جگر کے ساتھ بھی ہوا وہ تمام نیک امنگیں سرعت کے ساتھ خاک میں ملتی نظر آئیں ۔ ہوا یوں کہ سعودی عرب نے اسلامی یونیورسٹی میں انتظامی مداخلت کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ یہاں پر ایران کے وفود کی آمد ہورہی ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے لوگ ایران کے دورے کررہے ہیں اس سے ان کو یہ محسوس ہواکہ یہ یونیورسٹی جس پر ہم نے اپنے مخصوص مقاصدکو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مال صرف کیاتھا وہ حاصل ہونے کی بجائے اس میں ایران کی مداخلت پھیلتی نظر آتی ہے۔تو سعودیہ عرب نے مداخلت اپنی کے ذریعہ اسلامی یونیورسٹی میں ردعمل کے طور پر انتشار سلفیت و منجمد و پست سوچ کے حامل اور تنگ نظر و تنگ دل اور اسلام کو صرف داڑھی و کپڑوں اور عبادت تک محدود کرنے والے فرقہ کو نوازنے کا فیصلہ کیا ۔کھلی بات ہے کہ سعودیہ کو اسلامی تعلیم یا یونیورسٹی کے اسلامی تشخص سے چنداں کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ صرف ملک پاکستان اور اسلامی یونیورسٹی میں فرقہ واریت کی آگ کو جلانے کے لیے اس عظیم ادارہ کی صدارت شپ حاصل کی ۔جب کہ دوسری جانب ملک پاکستان کی بے حس قیادت چند ٹکوں کے عوض ملک کو ظلمتوں میں دیکھلنے کا سبب بننے والایہ سودا کربیٹھی۔
اسلامی یونیورسٹی میں عقل و فکر سے عاری گروہ اور اسلامی غیرت و حمیت سے بے بہرہ طبقے کو فروغ دینے کے لیے صدر جامعہ نے جہاں یونیورسٹی کے اختیارات کاناجائز استعمال کرتے ہوئے ادارہ تحقیقات اسلامی اور یونیورسٹی کے نشریاتی ادارہ سے اپنی درجن بھر کتب ترجمہ کرواکرشائع کروائیں۔جس کی پاکستانی معاشرہ کو ادنی سے ادنی درجہ میں بھی حاجت نہ تھی اور نہ ہے کیوں کہ پاکستان جو اسلامی ریاست ہے اور اس میں عالم اسلام کے جید علماء موجود ہیں جو معاشرہ کی ہمہ جہت رہنمائی کا فریضہ اداکرنے میں شب و روز مصروف عمل ہیں۔راقم یہ سمجھتاہے کہ صدر جامعہ نے یونیورسٹی کے وسائل کا غلط و ناجائز اور بے مقصد استعمال کیا ہے ۔ان کتب کی اشاعت کا صرف مقصد وحید یہی ہے کہ سعودیہ کا جمود فکری و عملی پاکستان کے لوگوں میں منتقل ہوجائے مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس گلشن کو سجانے والوں نے اپنے خون کا پانی دیا ہے ،ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اسی طریقہ سے اپنی تقرری سے اب تک درجن بھر کانفرنس و سمینارز منعقد کرواچکے ہیں جن کے ذریعہ اسلام یا علم کی خدمت کی بجائے وسائل کا بے دردی کے ساتھ استعمال اور فوٹو سیشن کے ذریعہ ہوس پرستی کی تکمیل اور اپنی مخصوص فکر کی تبلیغ کا کام لیا گیا اس پر بھی آئندہ تفصیلاً کبھی بات ہوگی۔اسلامی یونیورسٹی کو علمی و فکری انحطاط میں مبتلا کرنے کے لیے ایک مخصوص فرقہ کے درجن سے زائد اساتذہ کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے جس کے سبب اصول الدین فیکلٹی علمی و فکری انحطاط سے برسرپیکارہے۔جب کہ یہ وہ کلیہ ہے جو نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو اسلامی تعلیمات کی درست و مبنی بر اعتدال فکر کے حامل قیادت فراہم کرنے کا فریضہ انجام دیتی رہی ہے۔اس کلیہ کا طرہ امتیاز اور معتدل افکار کو فروغ دینے اور باہمی اسلامی روداری و ہمدوردی اور اخوت کا جذبہ پیدا کرنے میں اسی فیصد صلاحیتیں صرف کرنے والے عرب اساتذہ تھے جن کے راستے میں ایک سال سے صدر جامعہ کی نااہلی و غفلت یا پھر بغض عداوت ان کے تقرر میں روکاوٹ کا سبب بنے ہوئے ہے۔صدر جامعہ نے اس گلشن کو پارہ پارہ کرنے کے لیے یونیورسٹی کے اہم عہدوں کو اپنی شہرت و جاہ طلبی کی حرص و ہوس کے لیے درجن سے زائد عہدوں میں سے بعض پر آمرانہ و جابرانہ قبضہ کررکھا ہے اور بعض پر عارضی تقرریاں کررکھی ہیں ان ہر دوصورتوں کا مقصد وحید یہی ہے کہ اس ادارہ کو مستقل اور خودمختار اور مصلح قیادت فراہم نہ کی جائے بلکہ اللے تللوں کو نواز کر اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کو یقینی بنایاجائے۔اس سلسلہ میں آیندہ تفصیل کے ساتھ بات کروں گا۔صدر جامعہ نے اپنے ساتھ فوج ظفر موج جو متعین کی ہوئی ہے اس میں غالب اکثریت صرف ایک مخصوص فرقہ کو حاصل ہے اور صدر جامعہ انہی کے حکم کے پابند اور عامل ہیں ۔اس میں اگرچہ کچھ دیگر افراد کو شامل کیا گیا ہے مگر وہ بھی ضمیر فروش اور عملاً اسلام و علم دشمن ہیں بلکہ ان کا مقصد صرف عہدے و منصب ہیں۔
اس پھیلتی پھولتی فرقہ وارانہ آگ کوگذشتہ چند عرصہ سے مزید دہکایا جارہاہے جس کے ذریعہ بریلوی مکتب فکر کے حامل طلبہ کی نمازجمعہ علیحدہ ادا کرنے کو روکنے کے لیے مسجد علی المرتضیٰؓ کو سیل کردیا گیا اور اس کے نتیجہ میں عدالت و میڈیا تک بات پہنچنے اور طلبہ کے احتجاج کے نتیجہ میں بعض طلبہ کو یونیورسٹی سے بے دخل کیا گیا جس کے ری ایکشن میں طلبہ نے سیل شدہ مسجد کے گیٹ کو توڑ کراس میں گذشتہ جمعہ نماز اداکی تو اس پر پولیس طلب کی گئی اور اس دوران بعض طلبہ کو پولیس سے چھوڑانے کے لیے انتظامیہ کے ساتھ معمولی چھڑپ بھی ہوئی ۔اس کے نتیجہ میں طلبہ نے سخت احتجاج کیا اور انتظامیہ نے آئندہ جمعہ سے پہلے مسئلہ کو حل کرنے کا وعدہ کیا ۔یہ قضیہ اگرچہ قابل بحث و فحص ہے مگر یہاں فی الوقت اختصار کے ساتھ اتنا کہا جاتاہے کہ صدر جامعہ اگر واقعتاً اسلامی یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کوتحفظ کو یقنی بنانا چاہتے ہیں تو چاردیواری سے باہر نکل کر طلبہ و اساتذہ کے مابین حاضر ہوکر ان کے مسائل جاننے کی کوشش کریں اور من پسند اور جاہ ومنصب افراد سے گلو خلاصی حاصل کریں ۔اپنی تعریف سننے کی بجائے اپنے طرز عمل پر ہونے والی تنقید کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کریں اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا بذات خود جائزہ لیں قبل اس کے کہ طلبہ و پاکستانی معاشرہ ان کا خود محاسبہ کرے ۔
دیس کی بات
عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں