پیر، 3 نومبر، 2014

نسل نو کی درست دینی راہنمائی۔۔


چند دن قبل ایک کالج طالب علم نے سوال کیا کہ میں اور مجھ جیسامعاشرے کا ایک عامی فردجب اسلام سے متعلق درست راہنمائی حاصل کرنے کی غرض سے کسی بھی عالم دین کے پاس جاتا ہے تواس سوال کے جواب پرتمام اختلافات کے باوجود باہمی اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے بجائے دینی راہنمائی دینے کے ہر ایک یہ کہتا ہے کہ میرا مسلک درست اورناجح ہے نیزاسکے ساتھ ساتھ اپنے مخالف فرقوں کی خامیوں کو بیان کرنا شروع کردیتا ہے ایسے میں مجھ سمیت معاشرے کے دیگر افراد کو کیا کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔؟؟؟اس طالب علم نے بعض علماء کرام کے نام لیتے ہوئے کہا کہ میں ان حضرات کے ساتھ ملاقات سے قبل یہ سمجھتا تھا کہ یہ گہری سوچ و فکر کے حامل علماء ہیں، مگر اس نے کہا کہ میرا یہ تصور زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا جلد ہی مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ علماء کرام بھی معاشرے میں موجود مختلف فرقوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی بو سے محفوظ نہیں ہیں،اس کے باعث میرے دل میں ان کے عزت واحترام کی جو تصوراتی عمارت موجود تھی اس کو شدیدٹھیس پہنچی۔۔۔۔۔۔!
اس طالب علم کی درددل سے بھری داستان سن کر مجھے دلی طور پر افسوس ہوامگر میں نے اس بھائی کی ناامیدی ومایوسی کو ختم کرنے اور امید کی شمع اس کے دل میں روشن کرنے کے لیے دو باتیں کہیں،جو درج ذیل ہیں:
1:میں اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عیب محسوس نہیں کرتا کہ ہمارے معاشرے کے اکثر علماء معاشرہ کے افراد کی درست سمت راہنمائی کرنے کی بجائے ان کو بین المسالک اختلافات میں الجھاتے ہیں جس کے سبب ہمارے معاشرے میں انارکی کی فضابدستور مضبوط ہو رہی ہے۔مگر اس کے باوجود ہمیں مایوس ہونے اور ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے کے بجائے خود آگے بڑھناچاہیے، الحمد للہ آج بھی اسی معاشرے میں ایسے علماء موجود ہیں کہ وہ بذات خود نہ تو کسی دوسرے مسلک پر تنقید کرتے ہیں اور نہ ہی وہ ایسے افراد کی حمایت کرتے ہیں جومعاشرے میں فروعی اختلافات کا ذکر کر کے معاشرہ میں توڑپیداکرنے کی کوشش کرتے ہیں،اس پر مستزاد یہ کہ وہ اسلام کی آفاقی وعالمی تعلیمات کو پوری انسانیت کے سامنے خلوص دل سے بیان کرتے ہیں اور اسلام کے عملی نفاذکے لیے دلی ہمدردی کے ساتھ کوشاں ہیں ۔ بین المسالک کے اختلافات کو ذکر کرنا تو در کنار یہ علماء حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ اپنا مؤقف دلائل کے ساتھ شائستہ انداز میں بیان کرتے ہوئے اپنے مؤقف کی درستگی کا فیصلہ اللہ پاک ،عوام کے باشعور وتعلیم یافتہ افراد پر چھوڑدیا جائے ۔اسلامی معاشرے کی اصلاح کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا فریضہ بھی ذمہ داری کے ساتھ اداکرنے کی روایت انہی علما کے دم قدم سے زندہ و تابندہ ہے۔میں نے اس طالب علم کو بتایا کہ ان میں سے بعض علماء جن کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حضرات فروعی ونزاعی قسم کے اختلافات کو فروغ دینے میں شامل نہیں ہیں ۔پاکستان کے علماء میں سے مولناٰمفتی تقی عثمانی ،مولناٰزاہدالراشدی ،پیرسید امین الحسناٰت شاہ ، مولناٰسید حسین الدین شاہ ،علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، انڈیا کے علماء میں سے مولناٰسید سلمان ندوی الحسینی،ڈاکٹر ذاکر نائیک اور عالمی سطح کے اسلامی سکالرز میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی شامل ہیں ،اس کے علاوہ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ جو کہ خود دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں مگر ان کے خطابات جو انہوں نے خلوص دل سے بیان کیے اور ان کی کتب جو انہوں نے دقت نظری سے لکھیں ہیں (جو مجھ عاصی سمیت ہزاروں انسانوں کی راہنمائی کا سبب بنی ہیں اور یہ بات یقین کامل کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان کی متروکہ علمی میراث حقیقت میں صدقہ جاریہ ہے) ان سے بھی استفادہ حاصل کیا جاسکتاہے۔
2:دوسری بات یہ کہ معاشرہ میں موجودعلماء کی خامیوں اور ان کی انسانہونے کے ناطے سرزد ہونے والی لغزشوں سے در گزر کرتے ہوئے ان کے مثبت افکارکولے لیں اورمنفی افکار کو ترک کردیں۔اسی طرح جب آپ دیکھیں کے کوئی عالم دین امت میں جوڑ اوراتحاد واتفاق پیداکرنے کی بجائے امت کی صفوں میں فروعی و نزاعی اختلافات کا ذکرکرکے دراڑیں ڈالنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے تو ایسے میں لازم ہے کے آپ ان کی تابعداری نہ کریں اور نہ ہی ان کے اس امر کی کسی بھی طرح حمایت کریں کیونکہ یہ امر ملت اسلامیہ کو دو لخت کرنے کا موجب ہے۔
قارئین کرام !اس بات کا فیصلہ آپ میں سے ہر فرد کرنے میں حق بجانب ہے کہ راقم اس طالب علم کی مایوسی کو ختم کرنے کے لیے کس حدتک کامیاب ہواہے،یا ناکام ہواہے ۔۔۔۔۔۔؟
آخر میں تمام مسلم مکاتب فکرکے علماء سے دست بستہ درخواست کروں گا کہ خدارا فروعی ونزاعی اختلافات کو عوام میں بیان کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کو پار ہ پارہ نہ کیجئے ۔ان اختلافات کوذکرکے آپ اپنے مسالک کی خدمت کرپاتے ہیں یانہیں لیکن یہ بات مسلم ہے کہ اسلام جو کہ ازلی وابدی دین ہے اس کو ضرور نقصان پہنچا رہے ہیں۔ملت اسلامیہ میں صحابہ کرامؓکے زمانے سے آج تک فقہی وفروعی اختلافات چلتے آرہے ہیں مگر ماضی کی اسلامی تاریخ میں کسی نے بھی ان اختلافات کی وجہ سے کبھی ملت اسلامیہ کی وحدت کو نقصان نہیں پہنچنے دیابلکہ جب بات اسلام اور کفر کی آتی تھی تو آپس میں شیر وشکر ہوکر کفر پر ٹوٹ پڑتے تھے۔اللہ عافیت میں رکھے اس امر کے واقع ہونے سے کہ اگر بد قسمتی سے آپ کے ان فروعی و نزاعی اختلافات کی وجہ سے اگر کوئی ایک فرد بھی لادین چل بسا تو سوچیں اور غوروفکر کریں کہ عنداللہ کیاجواب دیں گے۔
حضرت امیر معاویہؓ کے اس مشہورقول کو ذکر کے دیندار طبقوں سے وابستہ تمامی افراد کوبالعموم اورعلماء کرام کوبالخصوص دعوت فکر دیتاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!جب حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے مابین قصاص حضرت عثمانؓپر اختلاف ہوا تو اسلام دشمن قیصر روم نے یہ سمجھا کہ اب موقع ہے اسلامی سلطنت کو زیر کرنے کا ،اسی پس منظر میں اس نے حضرت معاویہ ؓ کو پیغام بھجوایا کہ میں حضرت علیؓ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں آپؓ میری مدد کریں ،اس پیغام کے پہنچتے ہی آپؓنے فوراًاس سازشی اسلام دشمن کو للکارااور کہا کہ ’’اورومی کتے !کیا تو اسلامی سلطنت کو نقصان پہنچانے کی تیاری کررہاہے؟ کان کھول کر سن اگر تونے اسلامی سلطنت پرحملہ کیا تومعاویہؓ ،تیرے خلاف خلیفۃ المسلمین حضرت علیؓکے لشکر میں صف اول میں نظر آئے گا‘‘۔اسی لیے اللہ پاک نے صحابہؓ کے متعلق اپنے کلام میں فرمایا ’’اشداء علی الکفار رحماء بینھم‘‘۔
دیس کی بات 
عتیق الرحمن
Email:atiqurrehman001@gmail.com
Mob:03135265617

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں