منگل، 4 نومبر، 2014

مسلم مفکرین و مؤرخین نے دینی علوم کے ساتھ سائنسی علوم کے میدان میں بھی بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔

مسلم مفکرین و مؤرخین نے دینی علوم کے ساتھ سائنسی علوم کے میدان میں بھی بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔اسلام میں کسی بھی طرح کی تعلیمی ثنویت و تقسیم کا وجود نہیں۔مغرب کی موجودہ ترقیوں کاسبب مسلم علماء کی ایجادات ہیں جو انہوں نے محنت ومشقت اور لگن کے ساتھ علم کو پایہ عروج تک پہنچایا۔ڈاکٹر عمرالحمزاوی الازہری
تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں جامعہ ازہر کے اساتذہ نے طلبہ کو اسلاف کی علمی انجازات اور سائنسی علوم کے میدان میں پیش قدمیوں سے واقفیت دلانے اور امت مسلمہ میں موجودہ رائج علمی تقسیم کے نقصانات سے خبردار کرنے کے لیے ایک سیمینار کا اہتمام کیا ۔اس سیمینار کو سربراہ وفدازہر ڈاکٹر خالد فواد الازہری نے کیا۔انہوں نے کہا کہ اس سیمینار کے انعقاد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلم طلبہ اپنی روشن تاریخ سے ناصرفیت شناسائی حاصل کریں بلکہ وہ اپنی ان سابقہ خدمات کو مزید بھڑانے میں اپنا کردار اداکریں۔اسلام میں دین و دنیوی علم کی کوئی تفریق نہیں ہے اس کا ثبوت ہمیں قرآن و سنت کی جانب رجوع کرنے ساے ملتاہے کہ قرآن میں سائنسی و جدید اور عصری و تطبیقی علوم کا ذکر جابجا ملتاہے ۔انہوں نے کہا کہ مغرب نے ایک سازش کے ساتھ مسلمانوں پر علمی دروازے بندکرنے کے لیے ان کو داخلی و معاشی الجھنوں میں الجھا رکھا ہے تاکہ مسلمان اپنے ماضی کی علمی و عملی تاریخ کو دوبارہ زندہ نہ کرلیں کیوں کہ اس کے نتیجہ میں مغربی تہذیب مردہ ہوجائے گی۔ڈاکٹر عمرالحمزاوی الازہری نے سائنسی علوم میں مسلمانوں کی خدمات پراپنا تفصیلی مقالہ پیش کیا ۔جس میں انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کی علمی ترقی کا آغاز دوسری صدی ہجری سے شروع ہوا اور آٹھویں صدی ہجری تک بدستور چلتارہا اوراس دوران مسلمانوں نے علم فلکیات ،کمیسٹری،فزکس،ریاضی،میڈیکل سائنس اور انجینرنگ وغیرہ علوم میں بے بہاخدمات پیش کیں جن کی تفصیلات سے تاریخ کے اوراق ملون ہیں۔مسلمانوں نے یونانی ،فارسی اور ہندی تہذیبوں سے بہت کچھ حاصل کیا ان کی کتب کو عربی میں ترجمہ کروایا عباسی خلیفہ مامون ترجمہ کرنے والوں کو ترجمہ شدہ کتاب کے بدلے میں سونا وزن کرکے دیتے تھے۔جدیدو سائنسی علوم کے میدان میں مسلم مشہور علماء میں حسن ابن الحھیثم جنہوں نے انجینئرنگ کے میدان میں کام کیا،امام الرازی نے میڈیکل کے شعبہ میں چیچک اور خسرہ کے درمیان فرق،گردے کے درد اور بڑی آنت کے درد کو بیان کیا،ابو القاسم الزھراوی سرجری کے ماہر تھے،موسیٰ الخوارزمی نے ریاضی میں طاق و جفت کو بیان،اعداد کی درجہ بندی مقرر کی،دائرے کے درمیان تناسب کے تعین کو بیان کیا ۔ریاضیات میں خوارزمی کو دیکارت وغیرہ پر سبقت حاصل ہے،الاصطخری نے دنیاکا پہلا نقشہ بنایا جس سے بعد میں آنے والوں نے استفادہ و رہنمائی حاصل کی جن میں صقلیہ کے بادشاہ کے کہنے پر ادریسی نے دنیاکا نقشہ بنایا اور اس میں زمین کی لمبائی و چوڑائی کو بھی بیان کیا،یاقوت الحموی نے معجم البلدان علم جغرافیہ سے متعلق تحریر کی،خالد ابن یزید بن معاویہؓ نے کمیسٹری میں اپنی انجازات و تجربات پیش کیے جس کو بعد میں جابر بن حیان نے تفصیل کے ساتھ اس علم پر کام کیا،اسی طرح البیرونی ،ابن خلدون،ابن سیناء ،ابن رشد سمیت کثیر تعداد میں مسلم علماء نے جدید علوم کو تطور اور بام عروج تک پہنچانے کے لیے کام کیا ۔
اس سلسلہ میں یہ بات مدنظر رہنی چاہیے مسلمانوں نے ماسبق تہذیبوں کی اچھائیوں کو کھلے دل سے ناصرف تسلیم کیا ہے بلکہ ان کے علوم و فنون کو محفوظ بھی کیا ہے جیسے یونانی علوم کی اکثر کتب ضائع ہوچکی تھیں جو باقی رہ گئی تھیں ان کو مسلمانوں نے محفوظ بھی کا اور ان علوم و فنون کو زندہ بھی کیا ۔البتہ مسلمانوں نے اسلامی عقائد سے ٹکرانے والے افکار سے گلوخلاصی کے لیے سحر ،جادو،کفر و شیاطین جیسے علوم کو حذف کردیا۔انہوں نے کہا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنی ماضی کی تاریخ سن یا بڑھ کر کبر و غرور سے سینہ چڑھانے کی بجائے از سر نو اپنی ذمہ داری جو ان کو اللہ کی طرف سے انسانیت کی تاقیامت تک رہنمائی و قیادت کی دی گئی ہے اس کو مضبوطی سے تھا مے اور دوبارہ دینی و شرعی علوم کے ساتھ سائنسی و تطبیقی علوم کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتیں ترجیحی بنیادوں پر صرف کریں۔
سمینار سے جامعہ ازہر کے اساتذہ میں سے ڈاکٹر عبدالحافظ عسیلی ،ڈاکٹر عبدالحمید سیف ،ڈاکٹر حسن عبدالباقی اور ڈاکٹر محمد الناشی نے بھی خطاب کیا ۔سیمینار میں اصول الدین فیکلٹی ،عربی فیکلٹی کے طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور اس طرح علمی و تحقیقی و تاریخی سیمیناروں کے آئندہ اہتمام کرنے پر اصرار کیا اور سیمینار کو تجویز و ترتیب دینے والوں کا شکریہ اداکیا کہ انہوں نے ان کو اس دورآفتادہ دور میں ماضی کی تاریخ کی جانب غور کرنے اور اس سے سبق حاصل کرکے عزم وہمت اور لگن کے ساتھ کام کرنے کی داخلی طور پر تحریک کو بیدارکردیا۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں