جمعرات، 27 ستمبر، 2018

اصلاح معاشرہ اور رسول اللہۖ کا طریق تربیت

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں مبعوث فرمانے کے بعد بشر کی فطری کمزوری پر قابوپانے کیلئے ایک لاکھ چوالیس ہزار کم و بیش پیغمبر بھیجے ۔تمام کے تمام پیغمبر اپنے وقت اور اپنے علاقہ اور اپنی قوم کی اصلاح و تربیت کا اہتمام کرتے رہے اسی سبب رب کریم نے نبی آخر الزمان ۖ کو مبعوث فرمایا اور ان کو تاروز ابد تک کے انسانوں کی اصلاح و فلاح کی ذمہ داری تفویض فرمائی۔ خود قرآن کریم میں حضور سرور دوعالمۖ کی شان و منقبت بیان کرتے ہوئے فرمادیا کہ آپۖ کوئی بھی بات نہیں کہتے اور کوئی بھی عمل نہیں بجا لاتے الا یہ کہ ان پر وحی کی جائے۔”ان ھو الا وحی یوحیٰ”۔جب یہ امر مسلم ہے کہ آپۖ کا کوئی قول ، کوئی عمل اور کوئی تقریربغیر رضا الٰہی و اذن الٰہی سے نہیں صادر ہوا تو لازمی بات ہے کہ آپۖ کی سیرت و اخلاق رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے مرجع خلائق ہے کہ آپۖ کے اسوہ اور طرزعمل کو اپنی زندگیوں میں اختیار کرکے ہمیشہ کی کامیابی و کامرانی سمیٹی جائے۔
آپۖ کی حیات سعید بعثت سے قبل بھی باعث فخر و امتیاز ہے کہ حرب فجار میں شریک ہوئے تو کسی کو نقصان نہ پہنچایا اور حلف الفضول میں شرکت کرکے مکہ کے قبائل کو باہم شیر و شکر دکھ کر فرحاں و شاداں ہوجاتے ہیں ۔صرف پینتیس برس کی عمر میں آپۖ کعبہ مشرفہ کی تعمیر کے بعد حجر اسود کی تنصیب کے مسئلہ پر تلواریں سوتنے والوں کو خوش اسلوبی سے امن و آشتی اور الفت و محبت کا پیام عنایت کیا۔بعثت کے بعد مکی زندگی میں آپۖ کی صفات جلیلہ کا احاطہ کیسے ممکن ہے کہ آپۖمعاشرہ کی اصلاح و کامیابی و کامرانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے اور بیگانوں کے مظالم و طشنام کو سہہ جاتے ہیں کہ ابولہب کے آوازے ہوں یا طائف کی وادی میں کنکروں کی بارش،بوڑھیا کا گند پھینکنا ہویا پھر مشرکین کا حالت نماز میں اوچھڑی پھینکنا ۔آپ کی جواں سال بیٹیوں کو طلاق ہو یا شعب ابی طالب کی گھاٹی میں قید الغرض کون کون سے مظالم ہیں جو آپ ۖ صرف اس لئے برداشت کرتے رہے کہ شاید کوئی ان میں سے راہ حق کا راہی و داعی بن جائے ۔یوں ہی تو شاعر نے نہیں کہا کہ:
جو خود نہ تھے راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظرتھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

آپۖ نے ہجرت سے بیشتر اپنے پیروکاروں کی ایسی سیاسی و سماجی، دینی و ملی اعتبار سے تربیت و اصلاح مکمل کردی تھی کہ سیدنا زید سے کفار مکہ کہتے ہیں کہ تمہاری جان بخشی کرکے یہاں نعوذ باللہ آپۖ کو پھانسی دیدیں تو کیسا فیصلہ ہے جواب میں محب رسولۖ تڑپ اٹھتا ہے اور کہتاہے کہ ظالمومیں تو یہ بھی برداشت نہیں کروں گا کہ مجھے رہائی ملے اور محبوب دوجہاں کے قدم مبارک میں کوئی کانٹا بھی چھب جائے۔آپۖ نے صحابہ کرام کی ایسی مثالی اصلاح و تربیت کی کہ جہاں جس کیفیت و حال کی ضرورت محسوس کی باوجود رحمت اللعالمین پیغمبر ہونے کے زجر و توبیخ کو بھی تعمیر معاشرہ اور تربیت و اصلاح کے لئے بطور ہتھیار کے استعمال کیا ۔ آپۖ نے اپنی جماعت جن کے ایمان کے کامل و اکمل ہونے کی گواہی قرآن کریم میں خود خداوند عالم دیتا ہے۔
مگر ان کی اصلاح کے وقت آپۖ نے تند و تیز ،سخت و گرم الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے کہ سیدنا ابوذر غفاری کی جانب سے ایک صحابی کو ماں کا طعنہ ملنے پر آپۖ نے کڑی گرفت کی اور فرمایا کہ تم میں جاہلیت کے اثرات موجودہیں۔کہیں کعب ابن مالک ،ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع کے مقاطعہ کا حکم جاری کیا کہ انہوں نے غزوہ تبوک میں شرکت کرنے میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ کیا۔ترمذی میں حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل ہے کہ صحابہ مسئلہ تقدیر پر جھگڑ رہے تھے تو آپۖ نے اس قدر غصہ و جلال کا اظہار فرمایا کہ ایسا محسوس ہوتاتھا کہ انار کے دانے آپۖ کے رخ انور پر نچوڑ دئیے گئے ہوں۔آپۖ نے صحابہ کرام کی اصلاح و تربیت کے وقت مختلف اسالیب دعوت اختیار کئے کہ ان میں ناامیدی کی جگہ رجائیت کو بیدار کیاکہ صحابہ کرام مشرکین مکہ کے مظالم سے تنگ آکر ان کے حق میں بددعا کرنے کی التجا کرنے لگے تو آپۖ نے فرمایا تم سے پہلے انبیا کی جماعتوں کو اس سے زیادہ سخت ترین ابتلائوں سے گزرنا پڑااللہ کی مدد ونصرت سے ناامید مت ہونا۔کبھی آپۖ نے حکمت و دانائی کو پکڑنے کی تاکید کی کہ حضرت عبداللہ بن عمر و سے ارشاد فرمایا کہ تمہاری جان، تمہارے گھروالے اور اللہ کا حق ہے تم پر سب حق داروں کو مکمل حق دو۔
کہیں آپۖ صحابہ کرام کی تربیت کرتے ہوئے غلوپسندی اور بے جاطرف داری کو ناپسند فرماتے ہیں کہ دین میں غلو کرنے اور امیروں کو سزائیں نہ دینے سے سابقہ قومیں ہلاک ہوئیں۔آپۖ صحابہ کرام کی تربیت و اصلاح کیلئے شگفتہ مزاجی اور داد تحسین دینے کا بھی اہتمام فرماتے تھے کہ جہاں کبھی ضرورت پڑی تعریف کی تو اس سے اعراض نہیں کیا کہ حضرت عمار بن یاسر اور ان کے والدین پر مظالم کے پہاڑتوڑے جارہے تھے تو آپۖ نے فرمایا کہ ”خوشخبری دیدو یاسر کے خاندان کو کہ ان کا ٹھکانا جنت میں ہے”اسی طرح سیدنا عثمان غنی کی جانب سے غزوہ تبوک میں مال کثیر اعانت جمع کرانے پر خوش ہوکر آپۖ نے ارشاد فرمایا کہ آج کے بعد عثمان کو کسی گناہ نقصان نہیں پہنچے گا۔سورہ واقعہ کے بیان کے مطابق خواتین کو باکرہ بناکر خاوندوں کے لئے پسندیدہ بنایا جائے گا کے بارہ میں سن کر ایک بوڑھیانے استفسار کیا کہ کیا میں جنت میں جائوں گی تو آپۖ نے ازراہ مزاح فرمادیا کہ نہیں ۔اس پر وہ بوڑھیا پشیمان و نادم اور افسردہ ہوئی تو آپۖ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا کہ بوڑھی عورت جوان ہوکر جنت میں جائے گی۔ اسی طرح آپۖ نے صحابہ کرام پر سختی و شدت کی بجائے نرمی کو فروغ دینے کا اہتمام فرمایا اوراحکامات کی بجا آوری کے لئے تدریج و اعتدال کو فروغ دیتے تھے۔ آپۖ نے صحابہ کرام کی تربیت میں اس امر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا کہ جو بھی حکم ارشاد فرمایا سب سے پہلے خود اس پر عمل کرکے دیکھایا اس پر حجة الوداع کا خطبہ بین دلیل ہے۔آپۖ نے اولین جماعت مسلمین کی تربیت و اصلاح کی خاطرماضی کے وقائع اور قصص و واقعات اور اپنی بات مثالوں کے ذریعہ سمجھانے کو رواج دیا کہ فرمایا کہ یتیم کی کفالت کرنے والا میرے ساتھ جنت میں ایسے ہوگا جیسے شہادت کی انگلی اور اس کے ساتھ والی انگلی۔
اصلاح معاشرہ اور رسول اکرمۖ کا طریق تربیت کو تفصیل سے بیان کرنے کے لئے گھنٹوں کا وقت درکار ہے۔ تاہم معاشرے کے اہم ترین طبقہ جو کہ نبوت کی وراثت کے امین ہیں یعنی علماء کرام ان کی اصلاح و تربیت بھی از حد ضروری ہے کہ قبل اس کے کہ وہ بحیثیت والد یا بحیثیت استاذ بچوں کی تربیت کا اہتمام و آغاز کریں خود اپنی ذات کا محاسبہ و تربیت سے کریں اور اس کے لئے سیر ت النبی اور سیرت صحابہ پر مشتمل کتب کا مطالعہ کریں تاکہ خود اپنے اور اپنے ماتحتوں کے حق میں پشیمانی کا سامنا یوم حساب کو نہ کرنا پڑے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں