اتوار، 23 ستمبر، 2018

تم اپنے اپنے بچوں کو فقط اردو سکھادینا


 ہم گزشتہ شب واٹس ایپ پہ ایک گروہ کا حصہ بنتے ہیں. اس گروہ کا نام  "تحریک نفاذ اردو " ہے ـ
اس قسم کی تحریکیں امید کی مشعل کی لو مزید روشن ہونے کا سبب بنتی ہیں ـ
خوشی ہوئی کہ ہمارے اہل علم و دانش اردو کے حوالے سے نہ صرف متفکر ہیں بلکہ حتی المقدور عملی اقدامات بھی کررہے ہیں ـ اللہ تعالی کامیاب فرمائے ـ
 میرے ذہن میں اکثر بیش تر  قومی زبان کے حوالے سے بہت سے سوال  گردش کرنے لگتے ہیں کہ : 
آخر وجہ کیا ہے  کہ تاحال  وطن عزیز میں اردو کا نفاذممکن نہیں ہوسکا؟  ہم اردو سے اپنی محبت کا اظہار کیسے کرسکتے ہیں؟
اردو زبان کا ہم پر کیا حق ہے؟ کیا ہم حق ادا کررہے ہیں یا ہنوز قضا کیے جارہے ہیں؟ 
آپ کی نظر میں ان سوالات کا جواب کیا ہوسکتا ہے؟
سوچیے اور جواب تلاش کیجیے!

نفاذ قومی زبان اردو کے لیے سب سے پہلے تو عوام الناس کو جس چیز سے ہم راغب کرسکتے ہیں وہ یہ کہ ہم روز مرہ میں جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ ہر طرح سے فرنگی زبان کی ملاوٹ سے پاک ہو ـ
جب اردو زبان میں بات چیت کریں پورے اعتماد سے بغیر کسی احساس کمتری کے اپنا موقف اپنے مخاطب تک پہنچائیں ـ اپنی ذات سے ابتداء کرکے اس پیغام  کو اپنے ارد گرد میں عام کریں اور مسلسل عزم صمیم سے محنت کو حرز جاں بنائیں ـ زیادہ سے زیادہ اپنے حلقہء احباب کو اردو میں ہر قسم کے مطالعہ کی دعوت دیں ـ 
اردو کی افادیت و انگریزی کی تباہ کاریوں کو موضوع گفتگو رکھا جائے ـ فکر اور احساس زیاں پیدا کیا جائےـ

      یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معصوم بچے جن کو اپنی مادری زبان، علاقائی زبان تک صحیح معنوں میں بولنے نہیں آتی، انہیں ابتدائی بنیادی تعلیم ہی انگریزی میں دی جارہی ہے جس سے معصوم بچوں کو سمجھنے، لکھنے،پڑھنے میں لامحالہ تنگی و دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ـ

    میں جب عصری تعلیمی اداروں میں ارض پاک کی  ان نوزائدہ کلیوں کو کم سنی سے ہی انگریز کی غلامی کی ہتھکڑیاں لگے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں ہم کب سدھریں گے؟ کیا اس قدر طویل عرصہ کافی نہیں کہ ہم اپنے دوست و دشمن اور نفع و نقصان میں فرق محسوس کرسکیں؟ کب ہم اپن  اصل کو دل کی رضا سے قبول کریں گے؟ کب ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم فرنگیوں کا حصہ نہیں ـــــ ہم پہ طاغوت کی اطاعت و محبت لازم نہیں؟ 
کب یہ گرہیں کھلیں گی کہ ہر قوم اپنی مادری زبان میں ترقی کررہی ہے؟مثال سامنے موجود ہے ایک سے ایکـ ـ ـ   ترکی و چائنا اور  دیگر اقوام عالم جو آج ترقی کی شاہ راہ پہ گامزن ہیں ـ جنہوں نے دنیا میں اپنا آپ منوایا ہے وہ اپنی شناخت کو چھپاتی نہیں بلکہ اپنی تہذیب و ثقافت کی محافظ بن کر اپنی قومی زبان کو اظہار کا ذریعہ بنانے میں عار محسوس نہیں کرتیں ـ

      سوچیے! کیا اقوام عالم میں سے کسی قوم نے اپنے ملک میں اردو نافذ کی؟ اردو زبان بول کے فخر سے گردن اکڑائی کہ ہم خیر سے اردو زبان پہ قادر ہوگئے؟
تو ہم اب تک کن احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں؟ ہم کیوں اپنے آزاد ملک میں غیر قوم کی زبان کو مسلط کیے جارہے ہیں؟
 انگریزی زبان کی ترقی و ترویج و نفاذ میں ہم نے کیا نہ کیا؟ نتیجہ کیا نکلا؟ 
ہم نے اپنے اذہان و قلوب میں فرنگیوں کی زبان و لباس و بول و چال، نشت و برخاست کو معیار سمجھ کے نقش کردیا ـ
ہم تعلیمی اداروں اور عام روز مرہ کی زندگی میں انہی کے لباس و زبان و طور طریقوں کو معیار زندگی جان کر اپنانے لگ گئے ـ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا کا مصداق بن گئے ـ

      اس قدر عظیم قربانی کے باوجود کفر ملۃ واحدہ جب جب ارض پاک کی جانب نظر کرم اٹھاتی ہے تو اس ناشکری  بیوی کی طرح  ناک سکوڑ کے ناشکری کا راگ الاپ رہی ہوتی ہے جو کسی حال میں خوش رہنے والی نہیں ہوتی ـ

     خداراـ ـ ـ ـ ـ! اپنے آپ کو پہچانیں ـ ـ!  اپنی آئندہ نسلوں پہ رحم کریں!آپ اور ہم ناحق ان کی تقلید میں اپنے مرکز سے ہٹ کر دنیا و آخرت کی خواری اپنا مقدر بنانے کی تگ و دو میں شب و روز مصروف کار ہیں ـ
جانے کب ہوش کے ناخن لیں گے؟ 
     اردو کی ترویج و ترقی اور نفاذ میں نہ صرف اردو زبان کی حفاظت یقینی ہوگی بلکہ ہمارے مذہب اسلام کی تعلیمات کا بہت بڑا حصہ اردو زبان میں موجود ہے اور تاحال منتقل ہوتا رہتا ہے ـ سب سے بڑا فائدہ یہ  ہوگا کہ ہماری نئی نسل اپنی دینی و مذہبی تعلیمات کو آسانی سے سمجھ، لکھ پڑھ بھی سکے گی ـ

     آج کا مسلم نوجوان ایک اندھی کھائی میں برضا و رغبت گرتا چلا جارہا ہے ـ ـ ـاسے احساس تک نہیں کہ وہ کس اندھیری رات کا مسافر بن چکا ہے. کسی مقصد و نصب العین کے بنا وہ اپنی زندگی جیتا ہے جس میں مادیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے ـ دین بیزار، بنیادی اسلامی  عقائد میں شکوک و شبہات کا شکار ـ یہ سب کیوں؟  اس کی اہم وجہ بھی اردو کو یتیم و یسیر بناکر نظر انداز کرنا ہے ـ

    اپنی قوم کو اردو سے دور کرنا  در حقیقت دین سے دور کرنا ہے اور جو بھی اس کار خیر میں دامے درمے سخنے حصہ ڈالتاہے وہ ارض پاک کی حال و مسقبل کی نسل کا مجرم ہے ـ آج ہمارے بچوں کے ذہنوں میں عصری تعلیمی اداروں میں  بچپن سے ہی انگریزی کی اہمیت ڈالی جارہی ہے ـ بچہ پانی پینے کے لیے اجازت طلب نہیں کرتا، بلکہ چار سال کا بچہ تین سال کا بچہ بھی اپنی معصوم آواز میں اپنی غلامی کا اقرار کرتا ہے اور استانی سے یون ہم کلام ہوتا ہے:
 "Teacher may I drink water?"
جب ہم نے ایک معصوم کلی کو یوں سسکتے دیکھا تو دل مضطرب ہوا ـ مجھے لگا کہ میں بھی مجرم ہوں ـ جی میں آیا کہ پرنسپل صاحبہ کو اس مسئلہ کی جانب متوجہ کریں اور اس کے ہاتھ پکڑ کے سراپا سوال بن جاؤں کہ: ایں چیست؟

    بچے کا پہلا اور بنیادی حق قومی زبان میں تعلیم ہے.اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض منصبی پہچانیں اور تعلیمی اداروں سے اس تحریک کا اغاز کریں کہ اردو کو عزت دو اور اس کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے ، کیونکہ اساتذہ ہی طالب علموں کی اس مشکل کو سمجھ سکتےہیں جس کا وہ شکار ہوتے ہیں ـ


      ہم فقیر نہیں ـ ـ ـ ہم بھکاری نہیں ـ ـ ـ ہمارے پاس  معتبر خوبصورت حلاوت سے بھرپور اردو زبان ہے ـ ہمارے پاس  اسلام جیسا مذہب ہے ـ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رسول ہیں ـاللہ ہمارا رب ہے ـ ہم کیوں خود کو احساس کمتری کا شکار کرکے غیر قوم کی زبان کو اظہار و بیان کا ذریعہ بنائیں؟

    ہماری قومی زبان میں کیا کمی ہے ؟ اللہ نےہمیں کن کن نعمتوں سے نہیں نوازا؟ کیوں اس کے باوجود ہم غیر کی غلامی کے لیے سرتسلیم خم کیے رہتے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ ملک بھر ہر جگہ ہم اردو سے ناروا سلوک ہوتا دیکھتے ہیں؟ ہماری روز مرہ کی زندگی میں انگریزی کا دخل کیوں رہتا ہے؟

للہ! نہ زخمِ دل چھیڑو کچھ اور خلش بڑھ جائے گی 

آئیے ـ ـ ـ عہد کرتے ہیں!
اردو ہماری قومی زبان ہے اس کی ترقی و ترویج کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہوگا ـ
اپنی گفتگو کا ننانوے سے سو فیصد تک کا استعمال ان شآءاللہ اردو زبان میں ہی کریں گے ـ
اردو کی بقا و سالمیت پہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے ـ


    یاد رکھیے!  پاکستان کی پہچان دو چیزوں سے ہے: "اول  اسلام دوم مدارس دینیہ" 
جس قدر کام مدارس دینیہ میں اردو پہ ہورہا ہے مشکل ہے کہ دیگر شعبوں میں ہوا ہو. الحمدللہ!  مدارس دینیہ میں اردو و عربی ہی میں مکمل اول سے آخر تک تعلیم کے زیور سے نوجوانان اسلام کو آرستہ کیا جاتا ہے ـ

کسے تہذیب کہتے ہیں وہ خود ہی جان جائیں گے
تم اپنے اپنے بچوں کو فقط "اردو" سکھادینا

1 تبصرہ: