منگل، 30 اگست، 2016

دہشت گردی کے ذمہ داران۔۔۔انتظامیہ اور حکمران


سول حکومت ہمہ قسم مسائل سے نمٹنے کی ذمہ دار ہے جب پاک فوج سے مل کر ایک پلان مرتب کرلیا گیاتو پھر اس میں کوتاہی تو انتظامیہ اور سویلین اداروں کی طرف سے ہی ہو تی ہے کہ وہ اس ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل در آمد نہیں کرتے ایسی کوتاہی قومی جرم قرار دی جانی چاہیے اور ذمہ دار خواہ وہ کسی بڑے سے بڑے حکومتی عہدہ پر ہی متمکن کیوں نہ ہوں سخت احتساب کے قابل ہیں تاکہ کوئٹہ جیسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔مگر ادھر سویلین حکمرانوں کو اپنے آپ کو پانامہ لیکس سے کلئیر کروانے کی دھن سوار ہے اس لیے انھیں کیا پرواہ ہے وہ تو سینکڑوں حفاظتی حصاروں میں مقید ہیں جہاں دہشت گردوں کی گرد بھی نہیں پہنچ سکتی مگر خدا تعالیٰ دیکھ رہے ہیں جو بڑے منصف اور پوری کائنات کے اصلی حکمران و بادشاہ ہیں اگر کسی دنیاوی 'بادشاہت 'کے دوران بیچارے غیر مسلح وکلاء،سول سوسائٹی کے افراد ،بچوں کے سکول و پارک ٹارگٹ ہوکر ہلاکتیں ،شہادتیں ہوتی رہیں تو ایسی سبھی دہشت گردانہ وارداتوں کے ذمہ دار حکمران ہی ہوتے ہیں کہ حضرت عمرؓنے فرمایہ تھا کہ اگر ایک کتا بھی دریا کے کنارے بھوکا مرگیا تو روز محشر میں ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاؤں گا۔خلفائے راشدین کے دور میں قحط پڑ گیا تو کھانے پینے کی اشیاء کی معمولی چوریوں پر قطع ید یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا معطل کرڈالی گئی اور حضرت علیؓ کا فرمان کہ"جو لوگ بھوکوں مرتے ہیں وہ غلہ گوداموں پرپل کیوں نہیں پڑتے"دہشت گردی کا اصل توڑ تو انتظامیہ اور پولیس کے ذمہ ہوتا ہے وہ آجکل عیدیاں بنانے کے غلیظ گھن چکروں میں مصروف ہیں اور ٹریفک پولیس نے تو ات مچائی ہوئی ہے ہر سواری خواہ وہ بار برادری کی ہو یا انسانی سفر والی روک کر عیدی مانگتے ہیں۔جو پہلے "نذرانہ"پیش کیا جاتا تھا جب وہی رقوم اب بھی دی جاتی ہیں تو ٹریفک والے لینے سے انکار کردیتے اور فرماتے ہیں کہ" اسیں بکرا نہیں لینااسی وی قربانی کرنی ایں"خدا کے بندوں سے کوئی یہ پوچھے کہ یہ حرام روزی سے خریدا گیابکرا ذبح ہوا تو یہ واقعی ثواب ہوگا ؟ یا اس طرح مزید گناہ گار قرار پائیں گے؟کہ "رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں" مگر صنعتکار حکمرانوں کے اس سیاہ دور میں رشوت ستانی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ صنعتکار حکمران اور ان کے عزیز و اقارب دوست احباب ،ان کی دیکھا دیکھی دیگروزراء و مقتدر شخصیات کروڑوں کا مال پانی بنا رہے ہیں اور بیرون ممالک پلازے فلیٹس خرید رہے ،پانامہ لیکس کی جگہ کسی اور جگہ لیکس میں مال دھڑا دھڑ جمع ہورہا ہو گا۔ اور چونکہ سبھی بڑی مقتدر سیاسی جماعتوں اور نام نہاد اپوزیشنی راہنماؤں کے ہاتھ اسی سرمایہ بناو مہم میں گرد آلود ہیں اس لیے احتساب تو کیا ہو گا ایک دوسرے کو بچانے کے لیے تگ ودو جاری ہے۔پورے ملک کا وڈیرہ انگریز کے ٹوڈی پالتوجاگیردار اور نو دولتیے سود خورسرمایہ دار طے کیے ہوئے ہیں کہ سبھی بڑی پارٹیوں کو بھاری چندہ لگا کر گھس جاناہے اوراہم عہدوں پر فائز ہو کرپارٹی کو اپنی من مرضی سے چلانا اور اس طرح مزید کروڑوں ڈالروں کا کاروبار چمکانا ہے۔اکا دکا کو چھوڑ کر سبھی بڑی پارٹیاں سیاست نہیں بلکہ امارت کے لیے کو شاں ہیں مال بناؤ اور بیرون ملک ڈمپ کردو یہی اصل پرو گرام ہے اچھا کھاؤ اچھا پہنو اچھا کماؤ یہی ماٹو بن چکا ہے غریب پس رہا ہے پچپن فیصد سے زائد کے گھروں میں دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ۔ 72فیصد افراد غربت کی لکیر کے نیچے گزر بسر کررہے ہیں ۔دنیا کے غلیظ ترین سودی نظام جس کے سبھی سویلین حکمران اور نام نہاد اپوزیشنی راہنمایان ہمیشہ ہی محافظ بنے رہتے ہیں اس نے امیرکو امیر تر اور غریب کو غریب تر کرڈالا ہے۔ اور محمدﷺ کا فرمان کہ سود سے غربت بڑھتی ہے بجا ہے ۔معاشی تفاوت کے بڑھنے سے طبقاتی کشمکش بڑھ جاتی ہے لو گ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں غریب خودکشیاں اور خود سوزیاں کرتے اور امیر خمر و شراب و کباب میں مشغول ہو کر غریبوں کی طرف توجہ ہی نہیں کر پاتے اسی سے دہشت گردی بھی فروغ پاتی ہے کہ غریبوں کو ایک "اچھا کاروبار" مل جاتا ہے کہ یہ کام کرو اور اتنا مال خواہ پہلے ہی وصول کرلو۔
اگر ہم معاشی دہشت گردوںیعنی وڈیروں جاگیرداروں سود در سود وصول کرنیوالے صنعتکاروں کو بھی مکمل احتسابی عمل سے گزارتے رہیں گے تو دہشت گردی بھی فروغ نہ پاسکے گی معاشی ناہمواریوں کا خاتمہ بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ میٹرو بس چلانا ۔کہ اگر ایسے اربوں روپے ہڑپ کر جانے والی اور کروڑوں کک بیکس وصول ہونے والی سکیمیں نہ بھی ہوں گی تو کیا پہلے لوگ سفر نہ کرتے تھے۔کیا وہ خود کو پر لگا کر آسمان میں اڑ کر دوسری جگہ پہنچتے تھے ؟ہر گز نہیں ۔مگر"ٹڈنہ پئیاں روٹیاں تے سبھے گلاں جھوٹیاں"کی طرح غربت مکاؤ سکیم چلانے کی جگہ حکمرانوں نے 69سال سے غریب مکاؤ مہم چلا رکھی ہے۔ ذراسوچئے کہ ایک نشہ آور چیزوں کا بھراٹرک کوئٹہ پشاور سے کیسے کراچی اور بیرون ملک ٹرانسفر ہو جاتاہے ۔بس ہر پولیس چوکی پر مال دیتے جاؤ اور گذرتے جاؤ۔کوئی پوچھ گچھ نہیں۔اسی طرح جن پولیس والوں کو کسی بھی جگہ کی حفاظت پر معمور کیا جاتا ہے وہ وہاں ڈیوٹیاں نہیں دیتے ،نزدیک بیٹھے گپیں ہانک رہے ہوں گے یا پھر چائے کی چسکیاں لگا رہے ہوں گے ۔جس نے بغیر چیکنگ گزرناہے مال لگائے اور گزر جائے وگرنہ وارداتیئے گذرہی نہیں سکتے۔آخر کوئٹہ ہسپتال کا حفاظتی عملہ کہاں تھا کہیں بھی نہیں تھا وہ ڈیوٹی کے بجائے کہیں سو رہے ہوں گے یا کاغذوں میں حاضر اور عملاً غیر حاضر ہوں گے۔تمام طبقات اور انتظامیہ کے کار پرداز سخت احتسابی شکنجے میں کسے جائیں معاشی نا ہمواری کا مکمل خاتمہ ہو۔معاشی دہشت گردوں کو بھی قرار واقعی سزائیں ملیں تو ہی دہشت گردانہ سرگرمیاں اور بم دھماکے ختم ہو سکیں گے۔امریکی کی یاری جس نے سب کی مت ماری سے بھی چھٹکارا حاصل کریں تاکہ اس کے کردہ گناہوں کی سزاہم بے گناہوں کو نہ ملے۔تب جا کر پھر ضرب عضب ،نیشنل ایکشن پلان اور اس کے بعد ٹاسک فورس بنانے کی انشاء اللہ ضرورت ہی نہ پڑے گی عوام سکھ کا سانس لیں گے غربت مہنگائی بیروزگاری گہرے دفن اور اللہ کا کلمہ بلند ہو گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں