جمعرات، 25 اگست، 2016

تبلیغی جماعت کو فرقہ بننے سے بچائیے

( علامہ سید سلمان حسینی ندوی دامت برکاتہم کا یہ مضمون افادہ عام کے لئے پیش کیا جارہاہے چونکہ ملک پاکستان کی دینی و سیاسی اور تبلیغی تحریک بھی اسی طرح کی صورتحال سیدوچار ہیں تو لازمی ہے کہ اس بدتر صورتحال سے نکلنے کے لئے سنجیدہ اہل علم و دانشور احباب کو اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔عتیق الرحمن)


دعوت وتبلیغ تمام انبیاء و رسل کا مشترک اور سب سے اہم فریضہ رہا ہے ، ان کی دعوت توحیدخالص ، رسالت کی حقیقت اور آخرت پر ایما ن کی تھی ، یہ تین بنیادی نکات تھے ، ان کے بعد قانونی احکام حسب ضرورت الگ الگ تفصیلات کے ساتھ دیئے جاتے تھے، آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عالمی اور دائمی نبی و رسول ہیں ، پوری انسانیت ان کی امت ہے ، دعوت کو قبو ل کرنے والے اور متبعین کے حلقہ میں داخل ہونے والے’’ امت اجابت‘‘ کہلاتے ہیں ، اور جن میں کام ہورہا ہے اور ہوتا رہنا ہے وہ’’ امت دعوت ‘‘کہلاتے ہیں ۔
تیرہ سال مکہ مکرمہ میں حضورﷺ تمام حلقوں ، طبقوں ،قبیلوں اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو دعوت دیتے رہے ، جس کا طریقہ اس آیت کے مطابق تھا : (ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتی ہی أحسن)مدینہ منورہ ہجرت کے بعد جس نظام کی دعوت دی گئی تھی، اس کا قیام و نفاذ شروع کر دیا گیا ،جو ایک دستوری اور معاہداتی حکومت کی شکل میں قائم ہوا ، اس مرحلہ میں دعوت کے ساتھ فتوحات کا عمل بھی شروع ہوگیا ،جس کے نتیجہ میں دس سال میں دس لاکھ مربع میل کا علاقہ یعنی پورا جزیرۃ العرب اسلام کے زیر نگیں آگیا ، اور عالمی سطح پر اس مہم کو آگے بڑھانے کیلئے آخر میں لشکر اسامہ کو تیار کیا گیا،اور بتاکید اس کو روانہ کیا گیا،اور عہد صدیقی میں ا س کی روانگی عمل میں لائی گئی ، پھر خلفائے راشدین کے دور میں عالمی نظام بھی تبدیل کردیا گیا ، جسکی توسیع تین چار صدیوں تک ہوتی رہی۔
آخری نبوت نے سلسل�ۂ انبیاء پر مہر لگا دی ،اور اس کی پیشین گوئی بھی کردی کہ اب آئندہ صدیوں میں مجددین ، مصلحین اور داعی و مبلغین کارِ نبوت کی تجدید کرتے رہیں گے ۔
چودہ سو سا ل کے عرصہ میں جتنی تجدیدی و اصلاحی تحریکا ت اٹھیں ۔وہ سب دراصل نیابت نبوت کا کام کرتی رہیں ، لیکن جیسے سابقہ انبیاء کا ایک دور اور ایک علاقہ ہوتا تھا ،یہی صورت حال، علماء امت کی ،تاریخی ادوار اور بلاد و امصار میں رہی ، ان کے درمیان انبیاء کی طرح دعوت کی بنیادی باتیں مشترک تھیں ، لیکن تفصیلات اپنے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق تھیں ۔
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ اس حقیقت پر بڑا زور دیتے تھے، اور کسی جماعت یا تنظیم کے کام کو آخری مان لینے سے منع کرتے تھے ، اسی مقصد کے پیش نظر حضرت مولانا نے لکھنؤ کے تبلیغی مر کز میں ۴۰۔۵۰ کی دہائی میں تاریخ دعوت و عزیمت پر تقاریر کا سلسلہ شروع کیا ،جس کی پہلی جلد حضرت ابو بکر صدیقؓ سے مولانا جلا ل الدین رومی تک مجددین ومصلحین کے حالات اور کارناموں پر مشتمل ہے ، دوسر ی جلد امام ابن تیمیہ کے تجدیدی کارناموں ، تیسری ،حضرت مجدد الف ثانی کی تجدید ، چوتھی ،حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدید پر مشتمل ہے، اس کے بعد حضرت سید احمد شہیدکی مجددانہ اور مصلحانہ تحریک کا تذکرہ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔
تحریک شہیدین کے بعد ان کے خلفاء و اخلاف اور حضرت مولانا فضل رحمن گنج مرآدابادی ، حضرت مولانا سیدمحمد علی مونگیریؒ کی اصلاح وتجدید پر مشتمل کتا بیں تیار کی گئیں ، ان کے بعد چودہویں صدی کے ایک عظیم مجدد مولانا محمد الیاس صاحب ؒ اوراس صدی کے دیگرمصلحین مولانا عبد القادر رائے پوری ، مولانا محمد زکریا کاندھلوی ، مولانا محمدیوسف صاحب کاند ھلوی کے حالات وخدمات پر کتابیں لکھی یا لکھو ائی گئیں، اسی دور کے مصلحین میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، حضرت مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ حضرات کے حالات و خدمات اور اصلاحات پر کتابیں بھی شائع ہوتی رہیں ۔
یہ سارے حضرات قافلۂ مجددین اور مصلحین کے بڑے نمایاں افراد تھے ،جس کا دائرہ بر صغیر اور پوری دنیا کے مما لک میں سینکڑوں حضرات کی تجدیدی اور اصلاحی خدمات کی شکل میں پھیلا ہوا ہے ، ظاہر ہے کہ ان کے درمیان بنیادی حقائق کے اتفاق کے باوجود تجدید و اصلاح کے لائحۂ عمل اور طریقۂ کار میں امت کی ضرورتوں کے اعتبار سے بڑا فرق ہے ، اور وہ سب درحقیقت اسلام کے وسیع نظام کے مختلف شعبۂ جات کی نمائندگی کرتے ہیں ۔
حضرت مولانا محمدالیا س صاحب ؒ نے دینی غفلت ،جہالت اورا نتشار کے دور میں دینی مزاج ، عبادتوں کے اہتمام ،اوردین کی نصرت اور بنیادی ابتدائی دینی ضروریات کی عمومی نشرواشاعت کی جو تحریک شروع فر مائی ،اور جس میں گھر سے نکلنے اور امت میں بلا تفریق پھیلنے ، اورکلمہ طیبہ کی حقیقت کی دعوت دینے کے طریقہ کا ر نے اس کی توسیع اور عمومیت میں حیرت انگیز نتائج پیدا کئے،بنیادی طورپر وہ دین کی اسا سیات کی تحریک تھی، جس کو حضرت مولانا محمدالیاس ؒ ابجد ،اور الف ، باء ، تاء ، کی ابتدائی تعلیم سے تعبیر فرماتے تھے،(دیکھئے ملفوظات مولانا محمد الیاس ؒ صفحہ ۲۶)یعنی یہ دین کے مبادی اور ابتدائی مضامین کا نصاب تھا ، جس میں اصل زور مسائل پر نہیں فضائل پر تھا ، یہ تحریک ایک ترغیبی تحریک تھی ، جو پورے دینی نظام کو بتدریج برپا کرنے ، اور اس کے نفاذ کے لئے زمین تیار کرنے کی خاطر شروع کی گئی تھی ۔(دیکھئے ملفوظات مولانا الیاس ؒ ۔ص/۳۲اور۴۳)
اس بنیا دپر اس تحریک کے بانی نے طے کیا تھا کہ اس کے پلیٹ فارم سے مسا ئل نہیں چھیڑ ے جائیں گے ، ان کا فیصلہ علماء کریں گے، تحریک سے جڑنے والے پابندی سے علما ء کی خدمت میں حاضر ہوں گے ، ان کواگر وہ انبساط رکھتے ہوں ،کارگذاری سنادی جائے گی ، اور ان سے دعا لی جائے گی ، کوئی خرخشہ کسی جماعت ، تنظیم ،ادارہ ، حلقہ ،مسلک اور گروہ کا نہیں چھیڑا جائیگا ، اس حقیقت کو مولانا محمد یوسف صاحب ؒ بڑی قوت ،جوش و خروش ، اور شدید تاکید کے ساتھ’’ امت پنے ‘‘کے عنوان سے پیش کرتے تھے،ان کے نزدیک ’’ہم‘‘اور ’’وہ‘‘،’’اپنے ‘‘اور’’غیر‘‘کے الفاظ گوارا نہ تھے، وہ وحدتِ امت کے پرجوش اور پرزور داعی تھے ۔
بانی تحریک حضرت مولانا محمد الیاس ؒ نے اگرچہ اپنے بھتیجے ریحانۃ الہندمحدث جلیل حضرت مولانا محمدزکریا صاحب ؒ سے فضائل اعمال پر رسائل لکھوائے ، لیکن تحریک کے مقا صد ، اور اسلامی نظام کی تیار ی کے لئے یہ فرمایا کہ :
’’حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے بہت بڑ ا کام کیا ہے، میرا دل یہ چاہتا ہے کہ تعلیم تو ان کی ہو ،اور طریقۂ تبلیغ میرا ہو۔(۱)(ملفوظات مولانا محمد الیاس صاحب صفحہ ۴۶)
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ حضرت شاہ ولی وللہ دہلوی کے بعد چودہویں صدی کے مجدد علوم اسلامیہ ہیں ، مولانا عبد الباری ندوی ؒ نے ان کو ’’جا مع المجددین ‘‘اپنے دور کے اعتبار سے برحق کہا اور لکھا ہے ،یہ ایک تاریخی غلطی ہوئی۔جس کے پیچھے بہت سے خارجی اسباب رہے ہیں۔کہ تبلیغی تحریک نے حضرت تھانوی کی کتابوں کو اپنے نصاب کا حصہ نہیں بنایا ، حا لانکہ فضائل کی تمہیدی ضرورت کے بعد نظام اسلا می کی ہمہ گیر ی ، عبادات ،معاشرت ،اخلاق ، معیشت ، سیا ست وانتظام کی تعلیم قرآن و سنت کی روشنی میں بے انتہا ضروری تھی ۔(۲)
حضرت مولانا الیا س صاحب ؒ کی وصیت کا یہ تقاضہ تھا کہ حضرت مولانا تھانویؒ ، حضرت مولانا احتشام الحسن کاندھلوی ؒ ، حضرت مولانا منظور نعمانیؒ ، اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ اورحضرت مولانا مفتی شفیع صاحب دیو بندیؒ کی کتابیں تبلیغی جماعت کے علمی نصاب کا حصہ ہو ں۔
اگر بان�ئ جماعت کی ہدایات پر عمل ہوتا تو جماعت علمی تنگ نظری ، فکری محدودیت ، اور ابتدائی تعلیم کے چو کھٹے میں بند نہ ہو کر،امت کے تمام طبقات کے لئے ایک جامع نظام کو لے کر چلتی ، اور اس شکل میں یہ تحریک چودھویں اور اب پندرھویں صدی کی سب سے جامع تحریک ہوتی، لیکن ۔۔۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ 
(۱)مولانا الیاس صاحب ؒ کا یہ ملفوظ ہے:’’میں سچ کہتاہوں کہ ابھی تک اصلی کام شروع نہیں ہوا،جس دن کام شروع ہو جائے گا(یعنی زندگی کے تمام شعبوں میں پورا دین آجائے گا)تو مسلمان سات سوبرس پہلے کی حالت کی طر ف لوٹ جائیں گے۔
اور اگر کام شروع نہ ہوا بلکہ اسی طرح رہا جس طرح پر اب تک ہے ،اور لوگوں نے اس کو منجملہ تحریکات کے ایک تحریک سمجھ لیا،اور کام کرنے والے اس میں بچل گئے(یعنی جمود کا شکار ہوگئے اور اصل مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کی)تو جو فتنے صدیوں میں آتے ہیں ،وہ مہینوں میں آجائیں گے ،اس لئے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے‘‘۔
(ملفوظات مولانا محمد الیاس صاحب۔ص/۴۳*ملفوظ/۳۸)
(۲)اسی وسیع مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا نے مجلس شوری کے بارے میں فرمایا تھا:کہ’’ میرے نزدیک کام کے چلنے کے لیے جو اس وقت ضرورت ہے،وہ مشائخ طریقت وعلماء شریعت اورماہرین سیاست کے چند ایسے حضرات کی جماعت کے مشوروں کے ماتحت ہونے کی ضرورت ہے،جو ایک نظم کے ساتھ حسبِ ضرورت مشاورت کا انعقاد خاطر خواہ مدام کرتے رہیں، اور عملی چیز یں سب اس کے ماتحت ہوں، سو ایک تو اول ایسی مجلس کے منعقد ہوجانے کی ضرورت ہے۔(ارشادات ومکتوبات:مرتب افتخار فریدی:ص/۱۴۵)
حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ نے ۱۹۴۰ء ؁ سے تبلیغی جماعت سے تعلق قائم کیا ، اور وہ اس کے ترجمان صرف بر صغیرہی میں نہیں،عالم عربی میں بھی بن گئے ، عالم عربی میں کام کا صحیح معنی میں تعارف انہیں کے ذریعہ ہوا ، بلکہ کام کو بعض سخت بحرانوں اور حکومت کی بد گمانیوں سے نکالنے میں اللہ تعالیٰ نے ان سے خصوصی کام لیا ۔
لیکن ۱۹۴۷ ؁ء میں تقسیم ہندوستا ن کے بعد بدلے ہوئے حالات میں مولانا نے تبلیغی جماعت کو کافی نہیں سمجھا ، انہوں نے مجلس مشاورت ، پیام انسانیت ، دینی تعلیم ، قیام مکاتب ، اسلامی لٹریچر کی ضرورتوں کا نہ صرف شدت سے احساس کیا ، بلکہ ان میدانوں میں وہ پوری قوت سے قائدانہ کر دار کرتے رہے ،یہاں تک کہ ۱۹۷۰ ؁ء۔۱۹۷۱ء ؁میں مسلم مجلس کے سیاسی محاذ پر بھی انہوں نے اپنا پورا وزن ڈال دیا ۔
حضرت مولانا علی میاں ؒ کو تبلیغی جماعت سے ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ وہ ان پہلوؤں اور خاص طور پر دینی مکاتب کی طرف توجہ نہیں دیتے، یہاں تک کہ بعد کی دہائیوں میں مولانا تبلیغی جماعت کے جلسوں میں شر کت اور خطاب سے گریز کرنے لگے ، کہ وہ جن موضوعات پر زور دیتے تھے ، تبلیغی حلقہ ان کو ہضم نہیں کرپاتا تھا ، اور حضرت مولانا انعام الحسن ؒ سے شکا یت کرتے تھے ، اور مولانا انعام الحسن صاحب ؒ حضرت مولانا سے شکوہ کناں ہوتے تھے ، تفصیلات ’’کاروان زندگی‘‘اور دیگر کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔
تبلیغی جماعت کی تحریک حضرت مولانا محمد یوسف صاحب ؒ کے دور میں ایک انقلا بی تحریک تھی ،اور اسکی وسعت افراد میں بھی ہورہی تھی،اور مضامین میں بھی ، پھر حضرت مولانا انعام الحسن صاحب ؒ کا دور جغرافیائی اور افرادی وسعت کے باوجو د علمی ٹھہراؤ کا تھا ، لیکن علماء اور دانشوروں میں ایک اعتبار تھا ، نظام امارت بھی مستحکم تھا ۔
ان کے بعدیہ امر واقعہ ہے کہ کوئی شخصیت بھی جماعت کی امارت کا استحقاق نہیں رکھتی تھی ، جس کا علاج شورائی نظام سے کیاگیا ، جس میں امارت کی بنیاد غائب تھی ، یہاں اگرچہ علمی و فکری و اختلاف تو پیدا نہیں ہوا، لیکن انتظامی امور میں اتفاق کی روح کا ایک حد تک فقدان ہوگیا ۔
امارت کی جگہ’’ ثلاثی مجلس شوریٰ‘‘ کے دو ارکان جب دنیا میں نہیں رہے ،تو اضطراری امارت کا دور شروع ہوگیا، علمی و فکر ی عمق ختم ہوگیا ، جغرافیائی اور افرادی وسعت پر اعتماد بڑھتا گیا اور صرف جماعت کے نظام پر اصرار اور دوسرے کاموں ، جماعتوں ، تنظیموں اور اصلاحی و تجدیدی کوششوں کا انکار علی الاعلان ہونے لگا ، جو ش و خروش میں اسلامی نظام کی وسعت اور ’’امت پنے ‘‘کی ضرورت کا احساس مدھم ہوتا چلا گیا ،بلکہ آگے چل کر اس کے خلاف محاذ بننے لگا ۔
یہ وہ صورت حال تھی جس پر جماعت کے تمام قدماء اور علما ء کو ہنگامی طور پر اور مکمل جائزہ لیکر ،اصلاح کا جرأ ت مندانہ قدم اٹھانا چاہئے تھا ، اور ملت کے بزرگ علماء کو بھی واضح موقف اختیار کرنا چاہئے تھا جو عملاً نہیں ہوسکا ۔
علمی وفکری جمود اور تاریخ دعوت و عزیمت سے عدم واقفیت یا اس کا عدم اعتراف اور تجدید و اصلاح کے مختلف ادوار اور ان کے محرکا ت و اسباب سے غفلت اور پہلو تہی اورمتفق علیہ امارت کے فقدان ،اور نظام شوریٰ سے عدم اتفاق نے ملت کے اس عظیم کام اورامت کی ایک عظیم تحریک کو ایسے دوراہہ پر لاکر کھڑا کردیا ہے کہ اب زو ال و انحطاط کی مہیب کھائیاں نظر آ رہی ہیں، اور ڈر یہ ہے کہ حضرت مولانا الیاس ؒ نے جس بات کا اندیشہ ظاہر کردیا تھا کہ بنیادی اصول کے اہتمام میں اگر خلل آئیگا جو جماعت ایک فرقہ بن جائیگی ، ایسا لگتا ہے کہ جماعت اسی رخ پر جارہی ہے ۔
اس تلخ تاریخی، اور واقعی حقیقت کو اگر بچشم سر دیکھنا ہے تو حضرت معین الدین چشتی ،حضرت نظام الدین اولیاء ، حضرت مجددسرہندی ، حضرت شاہ عبد القدوس گنگو ہی ، حضرت شاہ صابر پیراں کلیر،حضرت عبد الحق ردولوی ، اور کتنے نام لئے جائیں اپنے اپنے وقت کے مجددین و مصلحین کے مرا کز کا انجام دیکھ لیجئے اور یہ نہ سمجھئے کہ آپ کے لئے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے کوئی پٹہ بقا ودوام کالکھ دیا گیاہے ۔
جن قدماء مبلغین نے اس کا م میں پچا س پچا س سال گزارے ہیں، ان سے دست بستہ گذارش ہے کہ مل کر بیٹھئے ، جلد اصلاح حال کی کو شش کیجئے اور اس عالمی تحریک کو ہر طرح کے نقصان سے بچائیے۔ 
والسلام:سیدسلمان حسینی ندوی
نوٹ:میری مولانا نو رالحسن راشد صاحب کاندھلوی سے درخواست ہے کہ وہ خاندان والاتبار سے سب زیادہ واقف ہیں ،اور ان کے پاس اس تحریک کے بزرگوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے کہ وہ اس سلسلہ میں رہنمائی فرمائیں ،اور مولانا عیسی منصوری صاحب سے بھی عرض گذار ہوں کہ ان کے پاس حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی ؒ کی تقاریر اور ملفوظات کا بڑا ذخیرہ ہے ، وہ اس موضوع پر قلم اٹھائیں ۔اندر کے حضرات کی طرف سے تصحیھات و اصلاحات کی جو اہمیت ہے وہ باہر والے کے لقمہ کی ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں