منگل، 30 اگست، 2016

’’ نالا‘‘ (انشائی تحریر)


’’نالا‘‘کاایک مطلب گریہ و زاری ہے۔اس مطلب میں علامہ اقبال کے ہاں ’’نالا‘‘کابہت استعمال ہے۔اس نے مسلمانوں کی عظمت گزشتہ پر بہت نالا و فریاد کیاہے۔خاص طورپردورغلامی میں علامہ کاجنم اس کی خاص وجہ بنی۔اپنے کلام میں نالا کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ جب تک تو دورجام مجھ تک پہنچاہے تب تک تو وہ محفل ہی برخواست ہو چکی ہے۔بانگ دراکی متعدد نظمیں انہوں نے مسلمانوں کی بدحالی پر نالا و فریاد کرتے ہوئے گریہ و زاری میں لکھی ہیں۔وہ امت مسلمہ کوایک گلستان سے تعبیر کرتے ہیں اور دورغلامی کواس گلستان میں خزاں کامصداق سمجھتے ہوئے خود کوایک بلبل قراردیتے ہیں جوہمہ وقت اس گلستان کی بربادی پر نالہ کناں ہے۔ اقبال نے اپنے نالے میں زوال کے بہت سارے تجزیے پیش کیے ہیں،دورغلامی کی بہت ساری وجوہات بیان کی ہیں اوراسی نالے کی آڑمیں وہ مسلمانوں کو درس عبرت بھی دے گئے۔بلبل کو ایک نغمہ اور خوشی کے گیت گانے والا پرندہ سمجھاجاتاہے لیکن اقبال کے ہاں یہ خوشی کے راگ الاپنے والا پنکھی اب ’’نالا ‘‘پر مجبور ہے اور ہمہ وقت امت کی حالت زار پرنوحہ کناں ہے ۔علامہ نے اس نالا کنائی پر فرزندان توحیدکو نیند سے بیدارکرنا چاہا ہے اور اس کے بعد امید کی کرن بھی دکھائی ہے کہ اگر اس نالا کی روشنی میں تجدیدسفرکیاجائے اور رکے اور تھمے ہوئے کاروان کو باردیگرجادہ پیماکیاجائے توکچھ بعید نہیں کہ عظمت گزشتہ ایک بارپھر امید بہارنومیں تبدیل ہوجائے اور بلبل کایہ نالا گلشن میں بادبہاری کا باب امید واکردے۔
’’نالا‘‘ کے بعد نون غنہ کے اضافہ سے لفظ’’ نالاں‘‘ بھی بنایاجاسکتاہے۔’’نالاں‘‘کامطلب ناراض اور خفاہونا ہے۔شاعرہمیشہ اپنے محبوب سے ’’نالاں‘‘رہتاہے اور جب بھی محبوب سے ملاقات ہوتی ہے تو شکایات کے انبار لگادیتاہے۔عاشق کو کبھی کبھی محسوس ہوتاہے کہ اس کا محبوب بھی اس سے ’’نالاں‘‘ہے،تب وہ اپنے محبوب سے مزید نالاں ہوجاتاہے اور اسے کہتاہے کہ ہم نے تمہارے کتنے ناز نخرے اٹھائے اور تم پھر بھی نالاں ہو کہ ہم نے تمہاراحق ادانہیں کیا۔گویا’’نالا‘‘کے ساتھ نون غنہ کااضافہ شاعر اوراس کے محبوب کے لیے کوئی اچھاشگون ثابت نہیں ہوئے اور ’’نالاں‘‘کاہروقت’’نالا‘‘ان کے لیے روا ہوگیا۔محبت میں ’’نالاں ‘‘ہوجانا اس لیے بھی ضروری ہے محبت کے قابل صرف خدا کی ذات ہی ہے ،جب انسان کسی غیرخدا سے محبت کرے گاتو اس سے خداجیسی توقعات ہی لگابیٹھے گااورجب وہ توقعات پوری نہیں ہوں گی تو’’نالاں‘‘کاعمل شروع ہوجائے گا جس سے کل زمانے کا شعری ادب بھرا پڑاہے۔اگرچہ بعض لوگ تو خداسے بھی ’’نالاں‘‘نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ خداکومحبوب کی بجائے اپنا عاشق سمجھ بیٹھتے ہیں اور عاشق کا کل تاریخی کردار’’نالاں‘‘سے ہی عبارت ہے۔
’’نالا‘‘کاایک اور مطلب پانی کی گزرگاہ بھی ہے۔اس کے ساتھ سابقوں اور لاحقوں کے اضافے سے پانی کی گزرگاہ کی ہیئت اور کمیت میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔مثلاََ ’’نالا‘‘سے پہلے ’’پر‘‘لگادینے سے نالا اڑنے تو نہیں لگ لیکن یہ ’’پرنالا‘‘بن جاتاہے جس کا مطلب چھتوں پر لگاہواپانی کے اخراج کا راستہ ہے۔جب بھی چھت بنائی جاتی ہے تواس کابہاؤ پرنالے کی طرف رکھاجاتاہے تاکہ پانی دوڑتاہوا ڈھلوان کی طرف چلاجائے اور چھت سے خارج ہوجائے ۔اس فارمولے کے تحت پانی اسی طرح نیچے کی طرف چلاجاتاہے جس طرح بڑوں کاغصہ چھوٹوں کی طرف منتقل ہوجاتاہے۔اگر’’نالا‘‘پہاڑوں کے درمیان ہو تو اسے ’’پہاڑی نالا‘‘کہتے ہیں یا’’رودکوہی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ پہاڑی نالا دراصل پہاڑوں کی گریہ و زاری ہے ،اس لیے کہ ’’نالا‘‘کااصل مطلب تویہی ہے۔پہاڑ پر برف جمے یابارش ہو،دونوں صورتوں میں اس سے آنسوجیسے قطرے ٹپکتے ہیں جو گریہ کرتے ہوئے پہاڑی نالے میں بدل جاتے ہیں۔گویایہ بے جان مخلوق بھی اپنے خلاق کے سامنے گریہ شکراداکرتی ہے۔اگر پانی کی گزرگاہ کسی خوبصورت وادی سے ہو شاعر اورادیب لوگ اسے’’ندی نالے‘‘کانام دیتے ہیں اور مصورحضرات اپنی تصویروں میں جب کسی خوبصورت مقام کا نقشہ کھینچتے ہیں تواس میں بہتے پانی کا ’’ندی نالا‘‘ضرور دکھاتے ہیں۔ندی نالے کابہناخوشحالی اور تونگری کی نشاندہی کرتاہے جب کہ اگرندی نالے خشک ہوجائیں تویہ بری دنوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔اگر یہی پانی کی گزرگاہ کسی شہر کے اندر ہو اس پانی سے بدبو کے جھونکے برآمد ہو رہے ہوں تو اسے ’’گندانالا‘‘ کہتے ہیں جس میں سارے شہر کا استعمال شدہ پانی شہر سے باہر نکال دیاجاتاہے۔جب کبھی بارش ہوتی ہے تو اس ’’گندے نالے‘‘کا ظرف کم پڑ جاتاہے اور گنداپانی اسی طرح گھروں کے گٹروں سے ابلنے لگتاہے جس طرح دنیابھر کی غلاظت سے بھری تہذیبی یلغارگھروں میں گھس کر ہماری ثقافت کو بھی بدبوداربنانے میں لگی ہے،لیکن جس طرح بارش تھمتے ہی یہ مغلظ پانی اپنی اوقات میں لوٹ جاتاہے اسی طرح بہت جلد یہ آلودہ وبدیسی تہذیبی یلغاربھی اپنے نشیب کوسدھارچکے گی۔
’’نالا‘‘کاایک اور مطلب ازاربندیاکمر بندبھی ہے۔یہ رسی کی طرح کی ایک پرتکلف ڈوری ہوتی ہے جسے پاجامہ یاسلوار کے نیفے میں پرو کر کمر سے باندھ دیاجاتا ہے اور اس طرح لباس کایہ حصہ جسم سے الگ نہیں ہوپاتا۔جب کبھی یہ کپڑااتارنامقصود ہوتو اس نالے کو ڈھیلا کر دیاجاتا ہے ۔جس صنم کی کمر بہت پتلی ہوتی ہے یاہوتی ہی نہیں توہمیں کیامعلوم کہ وہ نالا کہاں باندھتے ہوں گے۔ایک زمانے میں خواتین کے پراندے اور نالے بہت قسم کے سستے ،مہنگے،ریشمی،سوتی ،چم چم کرتے لش پشی اور ٹیپ ٹاپ والے دیدہ زیب اور نہ معلوم کیسے کیسے ہوا کرتے تھے۔اب پراندے تو دیہاتوں تک ہی محدود ہوگئے اور نالوں کے بارے میں ہماری معلومات محدودہیں۔نالا کو سلوار میں ڈالنے کے لیے ایک ’’نالہ پانی‘‘بنائی جاتی ہے جس کی دم سے نالا باندھ کر سلوار کے نیفے سے گزاراجاتاہے۔اس نالہ پانی کو ’’نالہ بندی‘‘یا’’کمربندی‘‘یا’’ازاربندی‘‘بھی کہتے ہیں بعض علاقوں کی مقامی زبان میں اس کو مختصراََ’’کلی‘‘بھی کہاجاتاہے۔بعض یارلوگ یہ کام اپنے قلم یا دانتوں کی صفائی والے برش سے بھی لے لیتے ہیں،جبکہ بازاروں میں رنگ برنگی ،مختلف دھاتوں اورخوشبودارلکڑی یا جانور یاپرندے کے کسی خوبصورت حصے سے بنی ’’نالہ پانیاں‘‘بھی دستیاب ہوتی ہیں،اس طرح کی نالہ پانیاں جہیز میں بھی دی جاتی ہیںیا پھر مہمان خانے کی دیوارپر آویزاں ہوتی ہیں۔بعض لوگ نالے کی جگہ الاسٹک بھی استعمال کرتے ہیں۔اس صورت میں نالاکھولنے یا باندھنے کے تکلف سے نجات مل جاتی ہے ۔عموماََ بچوں کے زیرجامہ میں الاسٹک ہی ڈال دیاجاتاہے ۔ہمارے ایک دوست کی شادی ہوئی اور جب وہ اپنے سسرال رہنے گئے تو انہیں شب باشی کے لیے سلوار تھما دی گئی۔وہ ان کے سسر حضورکی سلوار تھی۔واپس آکر انہوں نے ہمارے کان میں سرگوشی کی کہ اس سلوارمیں الاسٹک ڈلا ہواتھا،اس پر ہمارے صحبت کشت زعفران بن گئی۔اب یہ نہیں معلوم کہ وہ بزرگوارصرف رات کے زیرجامہ میں الاسٹک استعمال کرتے تھے یادن میں بھی ان کی یہی عادت تھی۔زیرجامہ کے نالے کو ڈیڑھ گرہ لگائی جاتی ہے تاکہ ایک پہلوکھینچ کر آسانی سے کھولا جاسکے۔لیکن اگر دو گرہیں لگ جائیں یا نالا کھولتے ہوئے اس کا ایک پہلو نیفے میں ہی داخل ہو جائے تو کوفت کاایک کوہ گراں آن گرتاہےْ پہلی صورت میں نالے کاکھلنا محال اور دوسری صورت میں نالے کی تلاش محال۔انگریزنے اس کا حل بیلٹ کی صورت میں نکال لیاہے۔ہم نے سنا ہے کہ دورجدیدمیں دلہن کی سہیلیاں اس کے نالے کو بہت ساری گرہیں لگادیتی ہیں،اس کا پس منظرتوسمجھ میں آجاتاہے لیکن اس بات میں کتنی صداقت ہے ؟؟اس پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریک حقوق نسواں سے خوف آتاہے۔دھوتی،چادریالنگی پہننے والے غم نالا گیری سے آزاد ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی چادر کے ہی دو پلووں کو آپس میں جوڑ کر نالے کاکام نکال لیتے ہیں۔
نالے کے ان تمام معانی کو سامنے رکھتے ہوئے ایک حکایت جنم لیتی ہے ،جس میں گریہ و زاری،پانی کی گزرگاہ،نالاں ہونااورزیرجامے کاازاربند سبھی شامل ہوجاتے ہیں۔قدیم زمانے کی بات ہے جب بسیں چلنا شروع ہوئی تھیں توایک خاتون خانہ نے شوہر کے کپڑے دھوئے لیکن سہواََنالا دھلنے سے رہ گیااور گندانالا ہی اس کی سلوار کے نیفے میں پرودیاگیا۔اس آدمی کو شہر کسی کام سے جانا تھا ،شام کوپلٹاتو وہ اپنی زوجہ سے نالاں تھا اور اس نے اپنانالا ان الفاظ میں بیان کیا کہ تمہاری وجہ سے مجھے دومیل پیدل چلنا پڑا ہے۔بیوی نے وجہ دریافت کی تو شوہر نے بتایا کہ ہمارے اڈے سے دومیل پہلے ہی بس کے لڑکے نے آواز لگا دی تھی کہ گندے نالے والے اتر جائیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں